نیاز نامہ
نیاز نامہء حیف السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ حضور قلب و جاں، عزیز من! امید کامل ہے طبیعت و مزاج گرامی بخیریت و عافیت ہونگے۔ اور علم و تحقیق کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہوکر شعور و آگہی کے گہرہائے شب چراغ اور فہم و ادراک کے لعل و جواہر سمیٹ رہے ہونگے۔ سب سے پہلے آپ کو ایک عظیم الشان منصب پر فائز ہونے اور قافلۂ ورثاء انبیاءؑ میں شمولیت پر، اور ختم بخاری جیسے عظیم المرتبت سعادت پر قلب صافی سے مخلصانہ مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ اور آپ کے والدین کریمین و سعیدین اور اقبال مند اور خوش بخت اقرباء کو مبارکباد دیتا ہوں کہ مولائے لایزال نے انکے گوشۂ جگر، نور نظر اور ہونہار فرزند ارجمند کو علم و شعور کے نور نبویﷺ سے نوازا، اور انکے کےلیے آخرت میں ذریعۂ شفاعت بنایا، اور اس قافلہ کا فرد بنایا جس کے مطابق خداوند کریمﷻ کا فرمان ہے "انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء"٭۔ آپ کے ذات گرامی کا اس جماعت سے ارتباط جس کے خضر راہ کائنات کے سب سے بڑی ہستی یعنی پیغمبراسلامﷺ کی ذات ہے، ہمارے لیے بھی سعادت ہے کہ آپ کے قافلۂ محبین میں ہمارا نام نامی بھی تو ہے۔ ”ایں سعادت بزور بازو نیست“ آپ نے جس نے خلوص سے مجھے اپنے تقریب سعید میں شرکت کےلیے دعوت دی گو کہ اس میں گنجائش انکار کی جگہ باقی نہ تھی، اور میں نے شرکت کےلیے عہد و پیمان کی، لیکن ستم ہائے مصروفیات کی بنا پر میں یہ وعدہ نبھا نہیں سکا۔ مرشد آزاد جی ؒ یاد آگئے فرماتے ہیں: گرچہ ہے وعدہ خلافی مری ثابت تم پر اور وعدہ مرا پورا کبھی ہوتا ہی نہیں پھر تو پیمان وفا میں نے سو مرتبہ کیا! میرے پشیمان اور ملامت زدہ دل کی کہانی یہ تھی کہ دل میں بار بار ملامت و حسرت کی چنگاریاں بھڑک اٹھتی تھیں اور میں عدم شرکت پر خود کو ملامت کرتا رہا۔ اور میرا ارادہ یہ تھا کہ میں آپ کو مبارکباد کےلیے ایک تفصیلی مکتو