shabd-logo

2.

28 November 2023

16 ڏسيل 16

43
ٹھنڈا گوشت
ایشر سنگھ جو نہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا کلونت کور پلنگ پر سے اٹھی۔ اپنی تیز تیز آنکھوں سے اس کی طرف گھور کے دیکھا اور
دروازے کی چیخنی بند کر دی ۔ رات کے بارہ بج چکے تھے شہر کا مضافات ایک عجیب پر اسرار خاموشی میں غرق تھا۔
کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی مار کر بیٹھ گئی۔ ایشر سنگھ جو غالباً اپنے پراگندہ خیالات کے الجھے ہوئے دھاگے کھول رہا تھا ہاتھ میں کر پان
لیے ایک کونے میں کھڑا تھا۔ چند لمحات اسی طرح خاموشی سے گزر گئے۔ کلونت کور کو تھوڑی دیر کے بعد اپنا آسن پسند نہ آیا اور دونوں ٹانگیں
پلنگ سے نیچے لٹکا کر ہلانے لگی ۔ ایشر سنگھ پھر بھی کچھ نہ بولا ۔
کلونت کور بھرے بھرے ہاتھ پیروں والی عورت تھی۔ چوڑے چکلے کو لئے تھل تھل کرنے والے گوشت سے بھر پور کچھ زیادہ ہی اوپر کو اٹھا ہوا سینہ تیز آنکھیں بالائی ہونٹ پر بالوں کا سرمئی غبار ٹھوڑی کی ساخت سے پتہ چلتا تھا کہ بڑے دھڑلے کی عورت ہے۔ ایشر سنگھ گوسر میہوڑائے ایک کونے میں چپ چاپ کھڑا تھا سر پر اس کے کس کر باندھی ہوئی پگڑی ڈھیلی ہوئی تھی، اس کے ہاتھ جو کر پان تھامے ہوئے تھے تھوڑے تھوڑے لرزاں تھے مگر اس کے قد و قامت اور خدو خال سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کلونت کو رجیسی عورت کے لیے موزوں ترین مرد ہے۔
سیاں !
چند اور لمحات جب اسی طرح خاموشی سے گزر گئے تو کلونت کور چھلک پڑی۔ لیکن تیز تیز آنکھوں کو نچا کر وہ صرف اس قدر کہہ سکی ۔ ایشر
ایشر سنگھ نے گردن اٹھا کر کلونت کی طرف دیکھا مگر اس کی نگاہوں کی گولیوں کی تاب نہ لا کر منہ دوسری طرف موڑ لیا۔ کلونت کور چلائی۔ ایشر سیاں ! لیکن فوراً ہی آواز بھینچ لی اور پلنگ پر سے اٹھ کر اس کی جانب جاتے ہوئے بولی۔ کہاں رہے تم
اتنے دن؟
ایٹر سنگھ نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری ۔ مجھے معلوم نہیں ۔“
کلونت کو ر بھنا گئی۔ یہ بھی کوئی ماں یا جواب ہے۔“ ایشر سنگھ نے کر پان ایک طرف پھینک دی اور پلنگ پر لیٹ گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ کئی دنوں کا بیمار ہے۔ کلونت کور نے پلنگ کی


44
طرف دیکھا جواب ایشر سنگھ سے لبالب بھرا تھا۔ اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ پیدا ہو گیا۔ چنانچہ اس کے ماتھے ہاتھ رکھ کر اس نے
بڑے پیار سے پوچھا۔ جانی! کیا ہوا تم ہیں؟“ ایشر سنگھ چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس سے نگاہیں ہٹا کر اس نے کلونت کور کے مانوس چہرے کوٹٹولنا شروع کیا۔ کلونت ! آواز میں درد تھا۔ کلونت کور ساری کی ساری سمٹ کر اپنے بالائی ہونٹ میں آگئی ۔ ہاں جانی ! کہ وہ اس کو دانتوں سے کاٹنے لگی۔ ایشر سنگھ نے پگڑی اتار دی۔ کلونت کور کو سہارا لینے والی نگاہوں سے دیکھا اس کے گوشت بھرے کو لہے پر زور سے دھپا مارا اور سر کو جھٹکا دے کر اپنے آپ سے کہا۔ ” یہ کڑی یا دماغ ہی خراب ہے۔“ جھٹکا دینے سے اس کے کیس کھل گئے ۔ کلونت کور انگلیوں سے ان میں کنگھی کرنے لگی۔ ایسا کرتے ہوئے اس نے بڑے پیار سے پوچھا۔ " ایشر سیاں کہاں رہے تم اتنے دن ؟ کلونت کور نے ایک ادا کے ساتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ ایک طرف جھٹک دیئے اور پوچھا۔ "تمہیں میری قسم بتاؤ کہاں رہے ۔۔۔۔۔۔۔ شہر گئے تھے؟“
برے کی ماں کے گھر ایشر سنگھ نے کلونت کور کو گھور کے دیکھا اور دفعتا دونوں ہاتھوں سے اس کے ابھرے ہوئے سینے کو مسلنے لگا۔ دو قسم واہگورو کی بڑی جاندار عورت ہو۔“
ایشر سنگھ نے ایک ہی لپیٹ میں اپنے بالوں کا جوڑا بناتے ہوئے جواب دیا۔ ”نہیں“ کلونت کور چڑ گئی۔ نہیں، تم ضرور شہر گئے تھے۔ اور تم نے بہت سارو پیہ لوٹا ہے جو مجھ سے چھپا رہے ہو ۔“ وہ اپنے باپ کا تخم نہ ہو جو تم سے جھوٹ بولے ۔“
کلونت کور تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگئی، لیکن فورا ہی بھڑک اٹھی۔ لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا اس رات تمہیں ہوا کیا۔ اچھے بھلے میرے ساتھ لیٹے تھے مجھے تم نے وہ تمام کہنے پہنا رکھے تھے جو تم شہر سے لوٹ کر لائے تھے۔ میری پھیاں لے رہے تھے پر جانے
ایک دم تمہیں کیا ہوا اٹھے کپڑے پہن کر باہر نکل گئے ۔“ ایشر سنگھ کا رنگ زرد ہو گیا ۔ کلونت کور نے یہ تبدیلی دیکھتے ہی کہا ۔ دیکھا کیسے رنگ نیلا پڑ گیا ۔ ایشر سیاں قسم واہگورو کی ضرور کچھ دال
میں کالا ہے۔“
تیری جان کی قسم کچھ بھی نہیں ۔“ ایشر سنگھ کی آواز بے جان تھی۔ کلونت کور کا شبہ اور زیادہ مضبوط ہو گیا۔ بالائی ہونٹ بھینچ کر اس نے ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے



45
2
کہا۔ ایشر سیاں ! کیا بات ہے تم وہ نہیں ہو جو آج سے آٹھ روز پہلے تھے؟“ ایشر سنگھ ایک دم اٹھ بیٹھا جیسے کسی نے اس پر حملہ کیا تھا۔ کلونت کور کو اپنے تنومند بازوؤں میں سمیٹ کر اس نے پوری قوت کے ساتھ بھنجوڑ نا شروع کر دیا ۔ جانی میں وہی ہوں۔ گھٹ گھٹ پاچھپیاں تیری نکلے ہڈاں دی گرمی ۔۔۔۔۔۔ کلونت کور نے کوئی مزاحمت نہ کی لیکن وہ شکایت کرتی رہی ۔ تمہیں اس رات ہو کیا گیا تھا ؟“ برے کی ماں کا وہ ہو گیا تھا۔“ بتاؤ گے نہیں؟“
کوئی بات ہو تو بتاؤں ۔
مجھے اپنے ہاتھوں سے جلاؤ اگر جھوٹ بولوں ۔“
ایشر سنگھ نے اپنے بازو اس کی گردن میں ڈال دیئے اور ہونٹ اس کے ہونٹوں میں گاڑ دیئے ۔ مونچوں کے بال کلونت کور کے نتھنوں میں گھے تو اسے چھینک آگئی ۔ دونوں بننے لگے۔
ایشر سنگھ نے اپنی صدری اتار دی اور کلونت کور کو شہوانی نظروں سے دیکھ کر کہا۔” آجاؤ ایک بازی تاش کی ہو جائے ۔“ کلونت کور کے بالائی ہونٹ پر پسینے کی تھی تھی بوندیں پھوٹ آئیں۔ ایک ادا کے ساتھ اس نے اپنی آنکھوں کی پتلیاں گھمائیں اور کہا۔ " چل دفان ہو ۔
ایشر سنگھ نے اس کے بھرے ہوئے کو لہے پر زور سے چٹکی بھری۔ کلونت کور تڑپ کر ایک طرف ہٹ گئی۔ ” نہ کر ایشر سیاں میرے درد ہوتا ہے۔
ایشر سنگھ نے آگے بڑھ کر کلونت کور کا بالائی ہونٹ اپنے دانتوں تلے دبا لیا اور کچکچانے لگا۔ کلونت کور بالکل پگھل گئی۔ ایشر سنگھ نے اپنا کرتہ اتار کر پھینک دیا اور کہا۔ " لو پھر ہو جائے ترپ چال ۔
کلونت کور کا بالائی ہونٹ کپکپانے لگا۔ ایشر سنگھ نے دونوں ہاتھوں سے کلونت کور کی قمیض کا گھیرا پکڑا اور جس طرح بکرے کی کھال اتارتے ہیں اسی طرح اس کو اتار کر ایک طرف رکھ دیا۔ پھر اس نے گھور کے اس کے ننگے بدن کو دیکھا اور زور سے بازو پر چٹکی لیتے ہوئے
کہا۔ کلونت اقسم واہگورو کی بڑائی کراری عورت ہے تو ۔
کلونت کو راپنے بازو پر ابھرتے ہوئے لال دھبے دیکھنے لگی ۔ بڑا ظالم ہے تو ایشر سیاں ! ایشر سنگھ اپنی گھنی کالی مونچھوں میں مسکرایا ۔ ہونے دے آج ظالم ! اور یہ کہہ کر اس نے مزید ظلم ڈھانے شروع کر دیئے ۔ کلونت کور


46
کا بالائی ہونٹ دانتوں تلے کچکچایا۔ کان کی لوؤں کو کاٹا۔ ابھرے ہوئے سینے کو بھنجھوڑا۔ بھرے ہوئے کولہوں پر آواز پیدا کرنے والے چانٹے مارے ۔ گالوں کے منہ بھر بھر کے بوسے لیے۔ چوس چوس کر اس کا سارا سینہ تھوکوں سے لتھیڑ دیا۔ کلونت کور تیز آنچ پر چڑھی ہوئی بانڈی کی طرح اہلنے لگی۔ لیکن ایشر سنگھ ان تمام حیلوں کے باوجود خود میں حرارت پیدا نہ کر سکا۔ جتنے گر اور جتنے دادا سے یاد تھے سب کے سب اس نے پٹ جانے والے پہلوان کی طرح استعمال کر دیئے پر کوئی کارگر نہ ہوا ۔ کلونت کور نے جس کے بدن کے سارے تارتن کر خود بخود بج رہے تھے، غیر ضروری چھیڑ چھاڑ سے تنگ آکر کہا۔ ایشر سیاں کافی پھینٹ چکا ہے اب پتا پھینک ۔ یہ سنتے ہی ایشر سنگھ کے ہاتھ سے جیسے تاش کی ساری گڈی نیچے پھسل گئی۔ ہانپتا ہوا وہ کلونت کور کے پہلو میں لیٹ گیا اور اس کے ماتھے پر سر د پینے کے لیپ ہونے لگے۔ کلونت کو رن سے اسے گرمانے کی بہت کوشش کی مگر ناکام رہی ۔ اب تک سب کچھ منہ سے کہے بغیر ہی ہوتا رہا تھا۔ لیکن جب کلونت کور کے منتظر ہے عمل اعضاء کو سخت نا امیدی ہوئی تو وہ جھلا کر پلنگ سے نیچے اتر گئی۔ سامنے کھونٹی پر چادر پڑی تھی اس کو اتار کر اس نے جلدی جلدی اوڑھ کر نتھنے پھلا کر بھرے ہوئے لہجے میں کہا۔ ایشر سیاں ! وہ کون حرامزادی ہے جس کے پا پاس تو اتنے دن رہ کر آیا ہے اور جس نے تجھ کو نچوڑ ڈالا ہے؟“ ایشر سنگھ پلنگ پر لیٹ ہانپتا رہا اور اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ کلونت کور غصے سے اہلنے لگی ۔ میں پوچھتی ہوں کون ہے وہ چڑو۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے وہ الفتی ۔۔۔۔۔۔۔ کون ہے وہ چور پتا؟“ ایشر سنگھ نے تھکے ہوئے لہجے میں جواب دیا۔ کوئی بھی نہیں کلونت کوئی بھی نہیں ۔“ کلونت کور نے اپنے بھرے ہوئے کولہوں پر ہاتھ رکھ کر ایک عزم کے ساتھ کہا۔ ایشر سیاں ! میں آج جھوٹ سچ جان کے رہوں گی۔ واہگورو کی قسم ! کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں ؟“ ایشر سنگھ نے کچھ کہنا چاہا مگر کلونت کور نے اس کی اجازت نہ دی۔ قسم کھانے سے پہلے سوچ لے کہ میں بھر سردار نہال سنگھ کی بیٹی ہوں، تکا بوٹی کر دوں گی اگر تو نے جھوٹ بولا ۔ لے اب کھاوا ہگورو کی قسم ۔ کیا اس کی تہہ میں کوئی عورت نہیں ؟“ ایشر سنگھ نے بڑے دکھ کے ساتھ اثبات میں سر ہلایا ۔ کلونت کور بالکل دیوانی ہوگئی ۔ لپک کر کونے میں سے کر پان اٹھائی۔ میان کو کیلے کے چھلکے کی طرح اتار کر ایک طرف پھینکا اور ایشر سنگھ کو وار کر دیا۔ آن کی آن میں لہو کے فوارے چھوٹ پڑے۔ کلونت کور کی اس سے بھی تسلی نہ ہوئی اس تو اس نے وحشی بلیوں کی طرح ایشر سنگھ کے کیس نوچنے شروع کر دیئے ساتھ ہی ساتھ وہ اپنی نامعلوم سوت کی کوموٹی موٹی گالیاں دیتی رہی ۔ ایشر سنگھ نے تھوڑی دیر کے بعد نقاہت بھری التجا کی۔ جانے دے اب کلونت ! جانے دے۔“



2 آواز میں بلا کا درد تھا۔ کلونت کور پیچھے ہٹ گئی۔ خون ایشر سنگھ کے گلے سے اڑ اڑ کر اس کی مونچھوں پر گر رہا تھا۔ اس نے اپنے لرزاں ہونٹ کھولے اور کلونت کور کی طرف شکریے اور گلے کی ملی جلی نگاہوں سے دیکھا۔ میری جان اتم نے بہت جلدی کی لیکن جو ہوا ٹھیک ہے۔“ کو کلونت کور کا حسد پھر بھڑ کا ۔ مگر وہ کون ہے؟ تمہاری ماں!“ لہوایشر سنگھ کی زبان تک پہنچ گیا۔ جب اس نے اس کا ذائقہ چکھا تو اس کے بدن میں جھر جھری سی دوڑ گئی۔ اور میں ۔۔۔۔۔۔۔ اور میں۔ بھینی یا چھ آدمیوں کو قتل کر چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ اس کر پان سے ۔“ کلونت کور کے دماغ میں صرف دوسری عورت تھی ۔ " میں پوچھتی ہوں کون ہے وہ حرامزادی ؟“ ایشر سنگھ کی آنکھیں دھندلا رہی تھیں۔ ایک ہلکی سی چمک ان میں پیدا ہوئی اور اس نے کلونت کور سے کہا۔ ” گالی نہ دے اس بھڑوی
47
کلونت چلائی ۔ میں پوچھتی ہوں وہ کون ہے؟“ ایشر سنگھ کے گلے میں آواز رندھ گئی۔ بتاتا ہوں یہ کہہ کر اس نے اپنی گردن پر ہاتھ پھیرا اور اسپر اپنا جیتا جیتا خون دیکھ کر مسکرایا۔ انسان ماں یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔“ کلونت کور اس کے جواب کی منتظر تھی ۔ ایشر سیاں ! تو مطلب کی بات کر ایشر سنگھ کی مسکراہٹ اس کی لہو بھری مونچھوں میں اور زیادہ پھیل گئی۔ ”مطلب ہی کی بات کر رہا ہوں ۔ گلا چرا ہے ماں یا میرا ۔۔ اب دھیرے دھیرے ہی ساری بات بتاؤں گا۔ اور جب وہ بتانے لگا تو اس کے ماتھے پر ٹھنڈے پسینے کے لیپ ہونے لگے ۔ کلونت ! میری جان ! میں تمہیں نہیں بتا سکتا میرے ساتھ کیا ہوا ۔ انسان کڑی یا بھی ایک عجیب چیز ہے۔ شہر میں لوٹ مچی تو سب کی طرح میں نے بھی اس میں حصہ لیا۔ گہنے پاتے
اور روپے پیسے جو بھی ہاتھ لگے وہ میں نے تمہیں دے دیئے۔ لیکن ایک بات تمہیں نہ بتائی ۔“ ایشر سنگھ نے گھاؤ میں درد محسوس کیا اور کراہنے لگا۔ کلونت کور نے اس کی طرف توجہ نہ دی اور بڑی بے رحمی سے پوچھا۔ ”کون سی
بات ؟ ایشر سنگھ نے مونچھوں پر جمتے ہوئے لہو کو پھونک کے ذریعے سے اڑاتے ہوئے کہا۔ ” جس مکان پر میں نے دھاوا بولا تھا ----۔۔۔ اس میں سات ۔۔۔۔۔۔۔ اس میں سات آدمی تھے ۔۔۔۔۔۔۔ چھ میں نے قتل کر دیئے ۔۔۔۔۔۔۔ اسی کر پان سے



48
جس سے تو نے مجھے ۔ ساتھ لے آیا۔ چھوڑا ہے۔۔۔۔۔۔۔ سن۔ -- ایک لڑکی تھی بہت سندر ------- کو اٹھا کر میں اپنے
کلونت کور خاموش سنتی رہی۔ ایشر سنگھ نے ایک بار پھر پھونک مار کے مونچھوں پر سے لہواڑایا۔ کلونت جانی ! میں تم سے کیا کہوں، کتنی سندر تھی۔ میں اسے بھی مار ڈالتا، پر میں نے کہا نہیں ایشر سیاں، کلونت کور کے تو ہر
روز مزے لیتا ہے یہ میوہ بھی چکھ دیکھے۔“
کلونت کور نے صرف اس قدر کہا۔ ہوں ۔۔۔۔۔!
اور میں اسے کندھے پر ڈال کر چل دیا۔ راستے میں ۔ کیا کہہ رہا تھا میں ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں راستے میں ۔۔۔۔۔۔۔ نہر کی یہ کہتے کہتے ایشر پڑی کے پاس تھوہڑ کی جھاڑیوں تلے میں نے اسے لٹا دیا۔ پہلے سوچا کہ پھینٹوں، لیکن پھر خیال آیا کہ نہیں۔ سنگھ کی زبان سوکھ گئی۔
کلونت کور نے تھوک نگل کر اپنا حلق تر کیا اور پوچھا ۔ پھر کیا ہوا ؟ ایشر سنگھ کے حلق سے بمشکل یہ الفاظ نکلے ” میں نے ۔۔۔ اس کی آواز ڈوب گئی۔ پتا پھینکا۔ لیکن۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔
کلونت کور نے اسے جھنجھوڑا ۔ پھر کیا ہوا ؟“ ایشر سنگھ نے اپنی بند ہوتی ہوئی آنکھیں کھولیں اور کلونت کور کے جسم کی طرف دیکھا جس کی ہوئی ہوئی تھرک رہی تھی۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ مری ہوئی تھی۔ لاش تھی . بالکل ٹھنڈا گوشت. جانی مجھے اپنا ہاتھ
دے۔
کلونت کور نے اپنا ہاتھ ایشر سنگھ کے ہاتھ پر رکھا جو برف سے بھی زیادہ ٹھنڈا تھا۔



2
49
گولی
شفقت دو پہر کو دفتر سے آیا تو گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے۔ عورتیں تھیں، جو بڑے کمرے میں بیٹھی تھیں ۔ شفقت کی بیوی عائشہ ان ہوا تو اس کی بیوی باہر نکلی اور کہنے لگی ۔ عزیز صاحب کی بیوی اور ان کی کی مہمان نوازی میں مصروف تھی۔ جب شفقت صحن میں لڑکیاں آئی ہیں۔“ صحن میں داخل
شفقت نے ہیٹ اتار کر ماتھے کا پسینہ پونچھا۔ کون عزیز صاحب؟“ عائشہ نے آواز دبا کر کہا۔ ہائے آپ کے اباجی کے دوست ! اوہ ۔۔۔۔۔۔۔ عزیز چچا
ہاں ہاں وہی ۔ اندر سے عزیز کی بیوی کی آواز آئی ۔ عائشہ تم نے روک کیوں لیا شفقت کو ؟ آنے دو ۔۔۔۔۔۔۔ آؤ شفقت بیٹا آؤ تمہیں دیکھے
شفقت نے ذرا حیرت سے کہا۔ مگر وہ تو افریقہ میں تھے۔“ عائشہ نے منہ پر انگلی رکھی ۔ ذرا آہستہ بات کیجئے ۔ آپ تو چلانا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ افریقہ ہی میں تھے لیکن جو افریقہ میں ہو کیا واپس نہیں آسکتا۔
نواب تم لگیں مین میخ کرنے۔" آپ تو لڑنے لگے ۔ عائشہ نے ایک نظر اندر کمرے میں ڈالی ۔ عزیز صاحب افریقہ ہی میں ہیں، لیکن ان کی بیوی اپنی لڑکی کی شادی کرنے آئی ہیں۔ کوئی اچھا بر ڈھونڈ رہی ہیں۔
اتنی مدت ہو گئی ہے۔“ آیا چچی جان ! شفقت نے ہیٹ اسٹینڈ کی کھونٹی پر رکھا اور کمرے میں داخل ہوا ۔ آداب عرض چچی جان ! عزیز کی بیوی نے اٹھ کر اس کو دعائیں دیں۔ سر پر ہاتھ پھیرا اور بیٹھ گئی۔ شفقت بیٹھنے لگا تو اس نے دیکھا کہ سامنے صوفے پر دو گوری گوری لڑکیاں بیٹھی ہیں۔ ایک چھوٹی تھی دوسری بڑی۔ دونوں کی شکل آپس میں ملتی تھی۔ عزیز صاحب بڑے وجیہہ آدمی تھے۔ ان کی وہ


50 وجاہت ان لڑکیوں میں بڑے دلکش طور پر تقسیم ہوئی تھی۔ آنکھیں ماں کی تھیں، نیلی بال بھورے اور کافی لمبے۔ دونوں کے دو دو چوٹیاں تھیں ۔ چھوٹی کا چہرہ بڑی کے مقابلے میں زیادہ نکھرا ہوا تھا۔ بڑی کا چہرہ ضرورت سے زیادہ سنجیدہ تھا۔ ان کی ماں ان سے مخاطب ہوئی ۔ بیٹا سلام کرو بھائی کو ۔“ چوٹی نے اٹھ کر شفقت کو آداب عرض کیا۔ بڑی نے بیٹھے بیٹھے ذرا جھک کر کہا۔ ” تسلیمات!“ شفقت نے مناسب دموزوں جواب دیا۔ اس کے بعد عزیز صاحب اور افریقہ کے متعلق باتوں کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ نیروبی تانگانیکا دار السلام کراتینا یوگنڈا ان سب کی باتیں ہوئیں۔ کہاں کا موسم اچھا ہے کہاں کا خراب ہے پھل کہاں اچھے ہوتے ہیں۔ پھلوں کا ذکر چھڑا تو چھوٹی نے کہا ۔ یہاں ہندوستان میں تو نہایت ذلیل پھل ملتے ہیں ۔“
جی نہیں بڑے اچھے پھل ملتے ہیں بشرطیکہ موسم ہو ۔ “ شفقت نے اپنے ہندوستان کی آبرو بچانا چاہی۔ غلط ہے۔ چھوٹی نے ناک چڑھائی ۔ امی جان یہ جو کل آپ نے مارکیٹ سے مالٹے لیے تھے کیا وہاں کیے چنگوں کا مقابلہ کر
سکتے ہیں ؟“
لڑکیوں کی ماں بولی ۔ شفقت بیٹا یہ صیح کہتی ہیں۔ یہاں کے مالٹے وہاں کے چنگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے ۔“ عائشہ نے چھوٹی سے پوچھا۔ "طلعت' یہ چنگا کیا ہوتا ہے۔ نام تو بڑا عجیب و غریب ہے۔ طلعت مسکرائی ۔ " آپا ایک پھل ہے مالٹے اور میٹھے کی طرح ۔۔۔۔۔۔۔ اتنا لذیذ ہوتا ہے کہ میں ہے اتنا لذیذ ہوتا ہے کہ میں بیان نہیں کر سکتی ۔۔۔۔۔۔۔ اور ریں ۔۔۔۔۔۔۔ ایک چھوڑیئے۔ یہ گلاس جو تپائی پر پڑا ہے لبالب بھر جائے۔“ شفقت نے گلاس کی طرف دیکھا اور اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ وہ پھل کتنا بڑا ہو گا ۔" رازہ لگانے کی کوشش کی کہ وہ پھل کتنا بڑا ہو گا۔ ایک چنگے سے اتنا بڑا گلاس بھر جاتا ہے؟“ طلعت نے بڑے فخریہ انداز سے جواب دیا۔ جی ہاں ! شفقت نے یہ سن کر کہا۔ تو پھل یقینا بہت بڑا ہو گا ۔“ طلعت نے سر ہلایا۔ جی نہیں، بڑا ہوتا ہے نہ چھوٹا ۔۔۔۔۔۔۔ بس آپ کے یہاں کے مالٹے کے برابر ہوتا ہے۔ یہی تو اس کی خوبی ہے کہ رس ہی رس ہوتا ہے اس میں ۔ اور امی جان وہاں کا انناس ۔۔۔۔۔۔۔ بڑی روٹی کے برابر اس کی ایک کاش ہوتی ہے۔ دیر تک انناس کی باتیں ہوتی رہیں۔ طلعت بہت باتونی تھی ۔ افریقہ سے اس کو عشق تھا۔ وہاں کی ہر چیز اس کو پسند تھی ۔ بڑی جس کا نام نگہت تھا، بالکل خاموش بیٹھی رہی۔ اس نے گفتگو میں کوئی حصہ نہ لیا۔ شفقت کو جب محسوس ہوا کہ وہ خاموش بیٹھی رہی ہے تو وہ اس سے مخاطب ہوا۔ آپ کو غالباً ان باتوں سے کوئی دلچسپی نہیں ۔“


51
نگہت نے اپنے ہونٹ کھولے جی نہیں۔۔۔۔۔۔ سنتی رہی ہوں بڑی دلچسپی سے۔“ شفقت نے کہا۔ لیکن آپ بولیں نہیں ۔“ عزیز کی بیوی نے جواب دیا۔ شفقت بیٹا اس کی طبیعت ہی ایسی ہے۔“ شفقت نے ذرا بے تکلفی سے کہا۔ ”چی جان! اس عمر کی لڑکیوں کو خاموشی پسند نہیں ہونا چاہیے۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ میں میں گھنگنیاں ڈالے بیٹھے رہو ۔ پھر وہ نگہت سے مخاطب ہوا۔ جناب آپ کو بولنا پڑے گا ۔ نگہت کے ہونٹوں پر ایک شرمیلی مسکراہٹ پیدا ہوئی ۔ ”بول تو رہی ہوں بھائی جان“ شفقت مسکرایا۔ تصویروں سے دلچسپی ہے آپ کو ؟“ نگہت نے نگاہیں نیچے کر کے جواب دیا۔ جی ہے۔ تو اٹھئے میں آپ کو اپنا البم دکھاؤں۔ دوسرے کمرے میں ہے ۔ یہ کہہ کر شفقت اٹھا۔ چلئے !“
2
عائشہ نے شفقت کا ہاتھ دبایا۔ پلٹ کر اس نے اپنی بیوی کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی
اشارہ دیا جے شفقت نہ سمجھ سکا۔ وہ متحیر تھا کہ خدا معلوم کیا بات تھی کہ اس کی بیوی نے اس کا ہاتھ دبایا اور اشارہ بھی کیا۔ وہ سوچ ہی رہا تھا کہ
مجھے دوسروں کے البم دیکھنے کا بہت شوق ہے ۔
طلعت کھٹ سے اٹھی ۔ ” چلئے بھائی جان ۔
۔ میرے پاس بھی ایک
کولیکشن ہے۔“
شفقت طلعت کو تصویر میں دکھاتا رہا۔ حسب عادت طلعت بولتی رہی۔ شفقت کا دماغ کسی اور طرف تھا۔ وہ نگہت کے متعلق سوچ رہا تھا کہ وہ اس قدر خاموش کیوں ہے۔ تصویریں دیکھنے اس کے ساتھ کیوں نہ آئی۔ جب اس نے اس کو چلنے کے لیے کہا تو عائشہ نے اس کا ہاتھ کیوں دبایا۔ اس اشارے کا کیا مطلب تھا جو اس نے آنکھوں کے ذریعے کیا تھا۔ تصویر میں ختم ہو گئیں۔ طلعت نے البم اٹھایا اور شفقت سے کہا۔ ”باجی کو دکھاتی ہوں ان کو بہت شوق ہے تصویر میں جمع کرنے کا ۔ شفقت پوچھنے ہی والا تھا کہ اگر ان کو شوق ہے تو وہ اس کے ساتھ کیوں نہ آئیں مگر طلعت البم اٹھا کر کمرے سے نکل گئی۔ شفقت بڑے کمرے میں داخل ہوا تو نگہت بڑی دلچسپی سے البم کی تصویر میں دیکھ رہی تھی ۔ ہر تصویر اس کو مسرت پہنچاتی تھی۔ عائشہ لڑکیوں کی ماں سے باتیں کرنے میں مشغول تھی۔ شفقت کنکھیوں سے دیکھتا رہا۔ اس کا چہرہ جو پہلے ضرورت سے زیادہ سنجیدگی کی دھند میں لپٹا تھا اب بشاش تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ تصویریں جو آرٹ کا بہترین نمونہ تھیں اس کو راحت بخش رہی ہیں۔ اس کی آنکھوں میں اب چمک تھی۔ لیکن جب ایک گھوڑے اور صحت مند عورت کی تصویر آئی تو یہ چمک ماند پڑ گئی۔ ایک ہلکی سی آہ اس کے سینے میں لرزی اور



52
وہیں دب گئی۔ تصویر میں ختم ہو ئیں تو محبت نے شفقت کی طرف دیکھا اور بڑے پیارے انداز میں کہا۔ ” بھائی جان، شکریہ! میں 2 شفقت نے البم نگہت کے ہاتھ سے لیا اور مینٹل ہیں پر تھ سے لیا اور مینٹل ہیں پر رکھ دیا۔ اس کے دماغ میں کھد بد ہو رہی تھی ۔ اس کو ایسا لگتا تھا کہ کوئی بہت بڑا اسرار اس لڑکی کی زندگی کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس نے سوچا شاید کوئی نامکمل رومان ہو یا کوئی نفسیاتی حادثہ۔ چائے آئی تو نگہت سے مخاطب ہوا ۔ اٹھئے چائے بنائیے ۔ یہ پرونج لیڈیز کا ہے۔“ نگہت خاموش رہی، لیکن طلعت پھدک کر اٹھی ۔ ” بھائی جان میں بناتی ہوں ۔“ نگہت کا چہرہ پھر دھند میں ملفوف ہو گیا۔ شفقت کا تجسس بڑھتا گیا۔ ایک بار جب اس نے غیر ارادی طور پر نگہت کو گھور کر دیکھا تو وہ سٹپٹا کی گئی۔ شفقت کو دل ہی دل میں اس بات کا افسوس ہوا کہ اس نے کیوں ایسی نازیبا حرکت کی۔ چائے پر ادھر ادھر کی بے شمار باتیں ہوئیں ۔ طلعت نے ان میں۔ سے زیادہ حصہ لیا۔ ٹینس کا ذکر آیا تو اس نے شفقت کو بڑے فخریہ انداز میں جو شیخی کی حد تک جا پہنچا تھا، بتایا کہ وہ نیروبی میں نمبرون ٹینس پلیئر تھی اور پندرہ میں کپ جیت چکی تھی۔ نگہت بالکل خاموش رہی۔ اس کی خاموشی بڑی اداس تھی۔ صاف عیاں تھا کہ اس کو اس بات کا احساس ہے کہ وہ خاموش ہے۔ ایک بات جو شفقت نے خاص طور پر نوٹ کی پیتھی کی عزیز کی بیوی کی ممتا کا رخ زیادہ تر نگہت کی طرف تھا۔ اس نے خود اٹھ کر بڑے پیار محبت سے اس کو کریم رول دیئے ۔ منہ پونچھنے کے لیے اپنا رو مال دیا۔ اس سے کوئی بات کرتی تھی تو اس میں پیار بھی ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ باتوں کے ذریعے سے بھی اس کے سر پر محبت بھرا ہاتھ پھیر رہی ہے۔ یا اس کو چمکا رہی ہے۔ رخصت کا وقت آیا تو عزیز کی بیوی اٹھی برقعہ اٹھایا عائشہ سے گلے ملی ۔ شفقت کو دعائیں دیں اور نگہت کے پاس جا کر آنکھوں میں آنسو لا دینے والے پیار سے کہا۔ ”چلو بیٹا چلیں ۔“
طلعت پھدک کر اٹھی۔ عزیز کی بیوی نے نگہت کا ایک بازو تھاما دوسرا باز و طلعت نے پکڑا۔ اس کو اٹھایا گیا۔ شفقت نے دیکھا کہ اس کا نچلا دھڑ بالکل بے جان ہے۔ ایک لحظے کے لیے شفقت کا دل و دماغ ساکت ہو گیا۔ جب وہ سنبھلا تو اسے اپنے اندر ایک ٹیس سی اٹھتی محسوس ہوئی۔
لڑکھڑاتی ہوئی ٹانگوں پر ماں اور بہن کا سہارا لیے نگہت غیر یقینی قدم اٹھا رہی تھی۔ اس نے ماتھے کے قریب ہاتھ لے جا کر شفقت اور عائشہ کو آداب عرض کیا۔ کتنا پیارا انداز تھا۔ مگر اس کے ہاتھ نے شفقت کے دل پر جیسے گھونسہ مارا۔ سارا اسرار اس پر واضح ہو گیا تھا۔ سب سے پہلا خیال اس کے دماغ میں یہ آیا ۔ قدرت کیوں اتنی بے رحم ہے۔ ایسی پیاری لڑکی اور اس کے ساتھ اس قدر ظالمانہ اور بہیمانہ سلوک


53 ۔۔۔۔۔۔۔ اس معصوم کا آخر گناہ کیا تھا جس کی سزا اتنی کڑی دی گئی ؟“ 2 سب چلے گئے ۔ عائشہ ان کو باہر تک چھوڑنے گئی۔ شفقت ایک فلسفی بن کر سوچتا رہ گیا۔ اتنے میں شفقت کے دوست آگئے اور وہ بھی اپنی بیوی سے نگہت کے بارے میں کوئی بات نہ کر سکا۔ اپنے دوستوں کے ساتھ تاش کھیلنے میں ایسا مشغول ہوا کہ نگہت اور اس کے روگ کو بھول گیا۔ جب رات ہو گئی اور عائشہ نے اسے نوکر کے ذریعے کھانے پر بلوایا تو اسے افسوس ہوا کہ اس نے محض ایک کھیل کی خاطر نگہت کو فراموش کر دیا چنانچہ اس کا ذکر اس نے عائشہ سے بھی کیا، لیکن اس نے کہا۔ آپ کھانا کھائیے، مفصل باتیں پھر ہو جائیں گی ۔“ میاں بیوی دونوں اکٹھے ہوتے تھے۔ جب سے ان کی شادی ہوئی تھی، وہ کبھی رات کو ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوئے تھے۔ اور ان کی شادی کو قریب قریب چھ برس ہو گئے تھے مگر اس دوران میں کوئی بچہ نہ ہوا تھا۔ ڈاکٹروں کا یہ کہنا تھا کہ عائشہ میں کچھ قصور ہے جو صرف آپریشن سے دور ہو سکتا ہے مگر وہ اس سے بہت خائف تھی۔ میاں بیوی بہت پیار محبت کی زندگی گزار رہے تھے۔ ان کے درمیان کوئی رنجش نہیں تھی۔
رات کو وہ اکٹھے لیٹتے۔ حسب معمول جب ایک دوسرے کے ساتھ لیے تو شفقت کو نگہت یاد آئی۔ اس نے ایک آہ بھر کر اپنی بیوی سے
پوچھا۔ عائشہ انگہت بے چاری کو کیا روگ ہے؟“ عائشہ نے بھی آہ بھری اور بڑے افسوسناک لہجے میں کہا۔ تین برس کی تھی منی بچی تھی کہ تپ محرقہ ہوا نچلا دھڑ مفلوج ہو گیا۔“ شفقت کے دل میں نگہت کے لیے ہمدردی کا بے پناہ جذبہ پیدا ہوا۔ اس نے اپنی بیوی کی پیٹھ کو اپنے سینے کے ساتھ لگالیا اور کہا۔ عائشہ خدا کیوں اتنا ظالم ہے؟“ عائشہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ شفقت کو دن کے واقعات یاد آنے لگے۔ ” جب میں نے اس سے کہا تھا کہ چلو میں تمہیں اہم دکھاتا ہوں تو تم نے میرا ہا تھ اس لیے دبایا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔ ہاں ہاں اور کیا۔۔۔۔۔۔ آپ تو بار بار ۔۔۔۔۔۔۔ خدا قسم ! مجھے معلوم نہیں تھا۔“ اس کو اس بات کا بہت احساس ہے کہ وہ ا پانچ ہے ۔“ " تم نے یہ کہا ہے تو مجھے ایسا معلوم ہوا ہے کہ میرے سینے میں کسی نے تیر مارا ہے۔“ جب وہ آئی تو خدا کی قسم مجھے بہت دکھ ہوا ۔۔۔۔۔۔۔ بے چاری کو پیشاب کرنا تھا۔ ماں اور چھوٹی بہن ساتھ گئیں ۔۔۔۔۔۔۔ ازار بند کھولا . پھر بند کیا ۔۔۔۔۔۔۔ کتنی خوبصورت ہے ۔ بیٹھی ہو تو خدا کی قسم بالکل پتہ نہیں چلتا کہ فالج زدہ



ہے۔“
بڑی ذہین لڑکی ہے۔
اچھا؟“
54
2
ماں کہتی تھی کہ اس نے کہا تھا کہ امی جان میں شادی نہیں کروں گئی کنواری رہوں گی۔
شفقت تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد اس نے انتہائی دکھ محسوس کرتے ہوئے کہا۔ تو اس کی اس بات کا احساس ہے
کہ اس سے شادی کرنے کے لیے کوئی رضا مند نہیں ہو گا ۔“
عائشہ نے شفقت کی چھاتی کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرتے ہوئے کہا۔ ” شفقت صاحب ! کون شادی کرے گا ایک اپانچ
"ے؟
نہیں نہیں ایسا نہ کہو عا ئشہ ! اتنی بڑی قربانی کون کر سکتا ہے شفقت صاحب ؟ تم ٹھیک کہتی ہو۔“
خوبصورت ہے۔ اچھے کھاتے پیتے ماں باپ کی لڑکی ہے۔ سب ٹھیک ہے مگر ۔۔۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں۔ لیکن ۔۔۔۔
مردوں کے دل میں رحم کہاں!“
شفقت نے کروٹ بدلی ۔ ایسا نہ کہو عا ئشہ !
عائشہ نے بھی کروٹ بدلی ۔ دونوں روبرو ہو گئے ۔ میں سب جانتی ہوں کوئی ایسا مرد ڈھونڈ لیئے جو اس بے چاری سے شادی کرنے
پر آمادہ ہو۔
مجھے معلوم نہیں، لیکن۔۔۔۔۔۔۔
بڑی بہن ہے، غریب کو کتنا دکھ ہے کہ اس کی چھوٹی بہن کی شادی کی بات چیت ہو رہی ہے ۔ عائشہ نے ایک لمبی آہ بھری۔ کیا بے چاری اس طرح ساری عمر کڑھتی رہے گی ؟“ نہیں ! یہ کہہ کر شفقت اٹھ کر بیٹھ گیا۔
در صحیح کہتی ہو تم ۔



عائشہ نے پوچھا۔ ”کیا مطلب؟“ و تمہیں اس سے ہمدردی ہے؟“
کیوں نہیں !
خدا کی قسم کھا کر کہو۔“


ہائے یہ بھی کوئی قسم کھلوانے کی بات ہے ہر انسان کو اس سے ہمدردی ہونی چاہیے۔“ شفقت نے چند لحات خاموش رہنے کے بعد کہا ۔ تو میں نے ایک بات سوچی ہے۔“ عائشہ نے خوش ہو کر کہا۔ کیا ؟"
مجھے ہمیشہ اس بات کا احساس رہا ہے کہ تم بہت بلند خیال عورت ہو۔ آج تم نے میرے اس خیال کو ثابت کر دیا ہے۔ میں نے --- خدا میرے اس ارادے کو استقامت بخشے۔ ۔ میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ میں نگہت سے شادی کروں گا۔ سارا ثواب
تمہیں ملے گا۔
تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ پھر ایک دم جیسے گولہ سا پھٹا ۔ شفقت صاحب میں گولی مار دوں گی اسے اگر آپ نے اس سے شادی کی ۔ شفقت نے ایسا محسوس کیا کہ اسے زبردست گولی لگی ہے اور وہ مرکز اپنی بیوی کی آغوش میں دفن ہو گیا ہے۔



56

رحمت خداوندی کے پھول

زمیندار اخبار میں جب ڈاکٹر راتھر پر رحمت خداوندی کے پھول برستے تھے تو یار دوستوں نے غلام رسول کا نام ڈاکٹر راتھر رکھ دیا تھا۔ معلوم نہیں کیوں اس لیے غلام رسول کو ڈاکٹر راتھر سے کوئی نسبت نہیں تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایم بی بی ایس میں تین بار فیل ہو چکا

تھا مگر کہاں ڈاکٹر راتھر کہاں غلام رسول ۔ ڈاکٹر راتھر ایک اشتہاری ڈاکٹر تھا جو اشتہاروں کے ذریعے قوت مردمی کی دوائیں بیچتا تھا۔ خدا اور اس کے رسول کی قسمیں کھا کھا کر اپنی دواؤں کو مجرب بتاتا تھا اور یوں سینکڑوں روپے کماتا تھا۔ غلام رسول کو ایسی دواؤں سے کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ وہ شادی شدہ تھا اور اس کو قوت مردمی بڑھانے والی چیزوں کی کوئی حاجت نہیں تھی لیکن پھر بھی اس کے یار دوست اس کو ڈاکٹر راتھر کہتے تھے۔ اس کا یا کلپ کو اس نے تسلیم کر لیا تھا۔ اس لیے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہ تھا۔ اس کے بعض دوستوں کو یہ نام پسند آ گیا تھا اور یہ ظاہر ہے کہ غلام رسول کے مقابلے میں ڈاکٹر راتھر کہیں زیادہ ماڈرن ہے۔

اب غلام رسول کو ڈاکٹر راتھر کے نام سے یاد کیا جائے گا اس لیے کہ زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھنا چاہیے۔

ڈاکٹر راتھر میں بے شمار خوبیاں تھیں ۔ سب سے بڑی خوبی اس میں ہی تھی کہ وہ ڈاکٹر نہیں تھا اور نہ بنا چاہتا تھا۔ وہ ایک اطاعت مند بیٹے

کی طرح اپنے ماں باپ کی خواہش کے مطابق میڈیکل کالج میں پڑا ہوا تھا۔ اتنے عرصے سے کہ اب کالج کی عمارت اس کی زندگی کا ایک

جزو بن گئی تھی۔ وہ یہ سمجنے لگا تھا کہ کالج اس کے کسی بزرگ کا گھر ہے جہاں اس کو ہر روز سلام عرض کرنے کے لیے جانا پڑتا ہے۔

اس کے والدین مصر تھے کہ ڈاکٹری پاس کرلے۔ اس کے والدین کو یقین تھا کہ وہ ایک کامیاب ڈاکٹر کی صلاحیتیں رکھتا ہے۔ اپنے

بڑے لڑکے کے متعلق مولوی صباح الدین نے اپنی بیوی سے پیش گوئی کی تھی کہ وہ بیرسٹر ہوگا۔ چنانچہ جب اس کو ایل ایل بی پاس کرا کے

لندن بھیجا گیا تو وہ بیرسٹر بن کر ہی آیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اس کی پریکٹس دوسرے بیرسٹروں کے مقابلے میں بہت ہی کم تھی۔

گو ڈاکٹر را تھر تین مرتبہ ایم بی بی ایس کے امتحان میں فیل ہو چکا تھا، مگر اس کے باپ کو یقین تھا کہ وہ انجام کار بہت بڑا ڈاکٹر بنے گا

اور ڈاکٹر بنے گا اور ڈاکٹر راتھر اپنے باپ کا اس قدر فرمانبردار تھا کہ اس کو بھی یقین تھا کہ وہ ایک روز وہ لندن کے بارے اسٹریٹ میں بیٹھا

ہوگا اور اس کی ساری دنیا میں دھوم مچی ہوگی ۔


57

ڈاکٹر راتھر میں بے شمار خوبیاں تھیں۔ ایک خوبی یہ بھی تھی کہ سادہ لوح تھا۔ لیکن سب سے بڑی برائی اس میں یہ تھی کہ پیتا تھا اور اکیلا پیتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس نے بہت کوشش کی کہ اپنے ساتھ کسی اور کو نہ پلائے لیکن یار دوستوں نے اس کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔ ان کو اس کا ٹھکانہ معلوم ہو گیا۔ سیوائے بار میں شام کو سات بجے پہنچ جاتے۔ مجبور ڈ ڈاکٹر راتھر کو انہیں اپنے ساتھ پلانا پڑتی۔ یہ لوگ اس کا گن گاتے اس کے مستقبل کے متعلق بڑی حوصلہ افزا باتیں کرتے ۔ راتھر نشے کی ترنگ میں بہت خوش ہوتا اور اپنی جیب خالی کر دیتا۔ پانچ چھ مہینے اسی طرح گزر گئے ۔ اس کو اپنے باپ سے دو سو روپے ماہوار ملتے تھے۔ رہتا الگ تھا۔ مکان کا کرایہ میں روپے ماہانہ تھا۔ دن اچھے تھے دور نہ راتھر کی بیوی کو فاقے کھینچنے پڑتے۔ لیکن پھر بھی اس کا ہاتھ تنگ ہو گیا اس لیے کہ راتھر کو دوسروں کو پلانا پڑتی تھی۔ ان دنوں شراب بہت سستی تھی۔ آٹھ روپے کی ایک بوتل ادھا چار روپے آٹھ آنے میں ملتا تھا۔ مگر ہر روز ایک ادھا لینا یہ ڈاکٹر کی بساط سے باہر تھا۔ اس نے سوچا کہ گھر میں پیا کرئے مگر یہ کیسے ممکن تھا۔ اس کی بیوی فورا طلاق لے لیتی ۔ اس کو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کا خاوند شراب کا عادی ہے۔ اس کے علاوہ اس کو شرابیوں سے سخت نفرت تھی۔ ان سے بہت خوف آتا تھا۔ کسی کی سرخ آنکھیں دیکھتی تو ڈر جاتی۔ ہائے! ڈاکٹر صاحب کتنی ڈراؤنی آنکھیں تھیں اس آدمی کی ۔ ایسا لگتا تھا کہ شرابی ہے۔ اور ڈاکٹر را تھر دل ہی دل میں سوچتا تھا کہ اس کی آنکھیں کیسی ہیں، کیا پی کر آنکھوں میں سرخ ڈورے آتے ہیں ۔ کیا اس کی بیوی کو اس کی آنکھیں ابھی تک سرخ نظر نہیں آئیں ۔ کب تک اس کا راز راز رہے گا۔ منہ سے بو تو ضرور آتی ہوگی ۔ کیا وجہ ہے کہ اس کی بیوی نے کبھی نہیں سونگھی۔ پھر وہ سوچتا۔ ”نہیں“ میں بہت احتیاط برتا ہوں۔ میں نے ہمیشہ منہ پرے کر کے اس سے بات کی ہے۔ ایک دفعہ اس نے پوچھا تھا کہ آپ کی آنکھیں آج سرخ کیوں ہیں تو میں نے اس سے کہا تھا دھول پڑگئی ہے۔ اسی طرح ایک بار اس نے دریافت کیا تھا یہ بو وہ

کیسی ہے تو میں نے یہ کہہ کر ٹال دیا تھا آج سگار پیار تھا۔ ۔ بہت ہو ہوتی ہے کم بخت میں ۔ ڈاکٹر راتھر اکیلا پینے کا عادی تھا۔ اس کو ساتھی نہیں چاہئیں تھے۔ وہ کنجوس تھا۔ اس کے علاوہ اس کی جیب بھی اجازت نہیں دیتی تھی کہ دوستوں کو پلائے ۔ اس نے بہت سوچا کہ ایسی ترکیب کیا ہو سکتی ہے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ یعنی یہ مسئلہ کچھ اس طرح حل ہو کہ وہ گھر میں پیا کرے جہاں اس کے دوستوں کو شرکت کرنے کی جرات نہیں ہو سکتی تھی۔

ڈاکٹر راتھر پورا ڈاکٹر تو نہیں تھا، لیکن اس کو ڈاکٹری کی چند چیزوں کا علم ضرور تھا۔ وہ اتنا جانتا تھا کہ دوائیں بوتلوں میں ڈال کر دی جاتی ہیں۔ اور ان میں اکثر یہ لکھا ہوتا ہے کہ شیک دی بوئل بی فور یوز اس نے اتنے علم پر اپنی ترکیب کی دیوار میں استوار کیں ۔ آخر میں بہت سوچ بچار کے بعد اس نے یہ سوچا کہ وہ گھر میں ہی پیا کرے گا۔ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹے گی ۔ وہ دوا کی بوتل میں شراب ڈلوا کر گھر رکھ دے گا۔ بیوی سے کہے گا کہ اس کے سر میں درد ہے اور اس کے استاد ڈاکٹر سید رمضان علی شاہ نے اپنے ہاتھ سے یہ نسخہ دیا ہے


58

2 اور کہا ہے کہ شام کو ہر پندرہ منٹ کے بعد ایک خوراک پانی کے ساتھ پیا کرے انشاء اللہ شفا ہو جائے گی۔ یہ ترکیب تلاش کر لینے پر ڈاکٹر راتھر بے حد خوش ہوا۔ اپنی زندگی میں پہلی بار اس نے یوں محسوس کیا جیسے اس نے ایک نیا امریکہ دریافت کر لیا ہے چنانچہ صبح سویرے اٹھ کر اس نے اپنی بیوی سے کہا۔ نسیمہ! آج میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔ ایسا لگتا ہے پھٹ جائے گا۔

نسیمہ نے بڑے تردد سے کہا۔ ” کا لج نہ جائیے آج ڈاکٹر را تھر مسکرایا ۔ پکی ! آج مجھے ضرور جاتا ہے۔ ڈاکٹر سید رمضان علی شاہ صاحب سے پوچھوں گا ان کے ہاتھ میں بڑی شفا ہے۔“ ہاں ہاں ضرور جائیے۔ --- میرے متعلق بھی ان سے بات کیجئے گا۔“ نسیمہ کو سیلان الرحم کی شکایت تھی جس سے ڈاکٹر راتھر کو کوئی دلچسپی نہیں تھی، مگر اس نے کہا۔ ” ہاں ہاں بات کروں گا۔ مگر مجھے یقین ہے کہ وہ میرے لیے کوئی نہایت ہی کڑوی اور بد بودار دوا تجویز کر دیں گے۔“ آپ خود ڈاکٹر ہیں دوائیاں مٹھائیاں تو نہیں ہوتیں ۔

ٹھیک ہے لیکن بد بودار دواؤں سے مجھے نفرت ہے۔“ آپ دیکھئے تو سہی کیسی دوا دیتے ہیں۔ ابھی سے کیوں رائے قائم کر رہے ہیں آپ؟؟ اچھا کہہ کر ڈاکٹر راتھر اپنے سرکود با تا کالج چلا گیا ۔ شام کو وہ دوا کی بوتل میں وہسکی ڈلوا کر لے آیا اور اپنی بیوی سے کہا۔ میں نے تم سے کہا تھا نا کہ ڈاکٹر سید رمضان علی شاہ ضرور کوئی ایسی دو الکھ کر دیں گے جو بے حد کڑوی اور بد بودار ہوگی ۔ لؤ ذرا اسے سونگھو ۔ بوتل کا کارک اتار کر اس نے بوتل کا منہ اپنی بیوی کی ناک کے ساتھ لگا دیا۔ اس نے سونگھا اور ایک دم ناک ہٹا کر کہا۔ ” بہت واہیات کی بو ہے۔

" اب ایسی دوا کون پیئے ! نہیں نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ ضرور پئیں گے۔ ہو جائے گا اپنے آپ۔“ سر کا درد کیسے دور ہو گا ؟ اپنے آپ کیسے دور ہو گا ۔ یہی تو آپ کی بری عادت ہے۔ دوالاتے ہیں مگر استعمال نہیں کرتے ۔ ما یہ بھی کوئی دوا ہے۔ ایسا لگتا ہے شراب ہے۔“ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ انگریزی دواؤں میں شراب ہوا کرتی ہے۔ لعنت ہے ایسی دواؤں پر ۔“


59

ڈاکٹر راتھر کی بیوی نے خوراک کے نشان دیکھے اور حیرت سے کہا۔ اتنی بڑی خوراک ! ڈاکٹر راتھر نے برا سامنہ بنایا۔ یہی تو مصیبت ہے۔ آپ مصیبت مصیبت نہ کہیں اللہ کا نام لے کر پہلی خوراک پئیں ۔۔۔۔۔۔۔ پانی کناڈالنا ہے؟“ ڈاکٹر راتھر نے بوتل اپنی بیوی کے ہاتھ سے لی اور مصنوعی طور پر بادل نخواستہ کہا۔ سوڈا منگوانا پڑے گا۔ دوا ہے۔ پانی نہیں سوڈا یہ سن کر نسیمہ نے کہا۔ سوڈا اس لیے کہا ہوگا کہ آپ کا معدہ خراب ہے۔“ خدا معلوم کیا خراب ہے۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر راتھر نے ایک خوراک گلاس میں ڈالی۔ بھئی خدا کی قسم میں نہیں پیوں گا۔“ بیوی نے بڑے پیار سے اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا۔ نہیں نہیں ۔ پی جائے ۔ میں اسی طرح فیور مکسچر پیا کرتی ہوں۔“ عجیب و غریب ناک بند کر لیجئے ڈاکٹر راتھر رنے بڑے نخروں کے ساتھ شام کا پہلا پیگ پیا۔ بیوی نے اس کو شاباش دی اور کہا ۔ پندرہ منٹ کے بعد دوسری خوراک۔ خدا کے فضل و کرم سے در دیوں چٹکیوں میں دور ہو جائے گا۔“ ڈاکٹر راتھر نے سارا ڈھونگ کچھ ایسے خلوص سے رچایا تھا کہ اس کو محسوس ہی نہ ہوا کہ اس نے دوا کی بجائے شراب پی ہے لیکن جب ہلکا سا سر درد اس کے دماگ میں نمودار ہوا تو وہ دل ہی دل میں خوب ہنسا۔ ترکیب خوب تھی۔ اس کی بیوی نے عین پندرہ منٹ کے بعد دوسری خوراک گلی میں انڈیلٹی اس میں سوڈا ڈالا اور ڈاکٹر راتھر کے پاس لے آئی۔ یہ لیجئے دوسری خوراک ۔ کوئی ایسی بری بوتو

2

نہیں ہے۔ ڈاکٹر را تھر نے گلاس پکر کر بڑی بددلی سے کہا۔ تمہیں پینا پڑے تو معلوم ہو۔ خدا کی قسم شراب کی سی بو ہے۔ ذرا سونگھ کر تو دیکھو ۔“ آپ تو بالکل میری طرح ضد کرتے ہیں۔“ نسیمہ اخدا کی قسم ضد نہیں کرتا ۔ ضد کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا ہے لیکن ۔ خیر ٹھیک ہے۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر راتھر نے گلاس منہ سے لگایا اور شام کا دوسرا پیگ غٹاغٹ چڑھا گیا۔ تین خوراکیں ختم ہوگئیں ۔ ڈاکٹر راتھر نے کسی قدر افاقہ محسوس کیا، لیکن دوسرے روز پھر سر میں درد عود کر آیا۔ ڈاکٹر را تھر نے اپنی بیوی سے کہا۔ ڈاکٹر سید رمضان علی شاہ نے کہا کہ یہ مرض آہستہ آہستہ دور ہوگا، لیکن دوا کا استعمال برابر جاری رہنا چاہیے۔ خدا معلوم کیا نام لیا تھا؟ انہوں نے بیماری کا۔ کہا تھا کہ معمولی سر کا درد ہوتا تو دو خوراکوں ہی سے دور ہو جاتا مگر تمہارا کیس ذرا سیریس ہے۔“

60

یہ سن کر نسیمہ نے تردد سے کہا۔ " تو آپ کو دوا اب با قاعدہ پینی پڑے گی ؟ میں نہیں جانتا۔ تم وقت پر دے دیا کرو گی تو قبر درویش بر جان درویش پی لیا کروں گا ۔“ نسیمہ نے ایک خوراک سوڈے میں حل کر کے اس کو دی۔ اس کی بوتاک میں گھسی تو متلی آنے لگی مگر اس نے اپنے خاوند پر کچھ ظاہر نہ ہونے دیا کیوں کہ اس کو ڈر تھا کہ وہ پینے سے انکار کر دے گا۔ ڈاکٹر راتھر نے تین خوراکیں اپنی بیوی کے بڑے اصرار پر لیں۔ وہ بہت خوش تھی کہ اس کا خاوند اس کا کہا مان رہا ہے کیوں کہ بیوی کی بات ماننے کے معاملے میں ڈاکٹر بہت بدنام تھا۔ دن گزر جانے پر اس کے اور اس کی بیوی کے لیے یہ دوا کا سلسلہ ایک معمول ہو گیا تھا۔

2

کئی دن گزر گئے۔ خوراکیں پینے اور پلانے کا سلسلہ چلتا رہا۔ ڈاکٹر را تھر بڑا مسرور تھا کہ اس کی ترکیب سود مند ثابت ہوئی ۔ اب اسے دوستوں کا کوئی خدشہ نہیں تھا۔ ہر شام گھر میں بسر ہوتی۔ ایک خوراک پیتا اور لیٹ کر کوئی افسانہ پڑھنا شروع کر دیتا۔ دوسری خوراک عین پندرہ منٹ کے بعد اس کی بیوی تیار کر کے لے آتی ۔ اسی طرح تیسری خوراک اس کو بن مانگے مل جاتی ۔ ڈاکٹر راتھر بے حد مطمئن تھا۔ اتنے

ڈاکٹر راتھراب ایک پوری بوتل لے آیا تھا۔ اس کا لیبل وغیرہ اتار کر اس نے اپنی بیوی سے کہا تھا۔ کیمسٹ میرا دوست ہے اس نے مجھ سے کہا آپ ہر روز تین خوراکیں لیتے ہیں دوا آپ کو مہنگی پڑتی ہے پوری بوتل لے جائے ۔ اس میں سے چھوٹی نشانوں والی بوتل میں ہر روز تین خوراکیں ڈال لیا کیجئے ۔۔۔۔۔۔۔ بہت سستی پڑے گی اس طرح آپ کو یہ دوا

یہ سن کر نسیمہ کو خوشی ہوئی کہ چلو بچت ہوگئی۔ ڈاکٹر راتھر بھی خوش تھا کہ اس کے کچھ پیسے بچ گئے کیونکہ روزانہ تین پیگ لینے میں اسے زیادہ دام دینے پڑتے تھے اور بوتل آٹھ روپوں میں مل جاتی تھی۔

کالج سے فارغ ہو کر ڈاکٹر راتھر ایک دن گھر آیا تو اس کی بیوی لیٹی ہوئی تھی۔ ڈاکٹر راتھر نے اس سے کہا۔ نسیمہ کھانا نکالو بہت بھوگ لگی ہے۔“

نسیمہ نے کچھ عجیب سے لہجے میں کہا۔ کھانا۔۔۔۔۔۔۔ کیا آپ کھانا کھا نہیں چکے؟“ نہیں تو

نسیمہ نے ایک لمبی نہیں کہی ۔ ” آپ۔۔۔۔۔۔۔ کھانا کھا چکے ہیں۔۔۔۔۔۔۔ میں نے آپ کو دیا تھا ۔ ڈاکٹر راتھر نے حیرت سے کہا۔ "کب دیا تھا ؟ میں ابھی ابھی کالج سے آرہا ہوں ۔ نسیمہ نے ایک جمائی لی ۔ جھوٹ ہے۔۔۔۔۔۔۔ آپ تو کالج گئے ہی نہیں ۔


61

ڈاکٹر راتھر سمجھا نسیمہ مذاق کر رہی ہے چنانچہ مسکرایا۔ چلو اٹھو کھانا نکالو سخت بھوک لگی ہے۔“ نسیمہ نے ایک اور لمبی نہیں کہی۔ ” آپ جھوٹ بولتے ہیں۔ میں نے آپ کے ساتھ کھانا کھایا تھا۔“ 2 کب ۔۔۔۔۔۔۔ حد ہو گئی ہے۔ چلو اٹھو مذاق نہ کرو۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر راتھر نے اپنی بیوی کا بازو پکڑا ۔ خدا کی قسم ! میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں ۔ نسیم کھلکھلا کر نہیں ۔ " چو ہے۔۔۔۔۔۔۔ آپ یہ چو ہے کیوں نہیں کھاتے ؟ ڈاکٹر راتھر سے بڑے تعجب سے پوچھا۔ ” کیا ہو گیا ہے تمہیں؟“ نسیمہ نے سنجیدگی اختیار کر کے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور اپنے خاوند سے کہا۔ ” میں ۔ میں ۔۔۔۔۔۔۔ سر میں درد تھا آپ کی دوا کی دو خو۔۔۔۔ خو۔۔۔۔۔ خوراکیں پی ہیں ۔ چو۔۔۔۔۔ چوہے بہت ستاتے ہیں میرے. ان کو مارنے والی گولیاں لے آئے ۔ کھانا۔۔۔۔۔۔۔ اتا ۔۔۔۔۔۔۔ نکالتی ہوں کھانا ! ڈاکٹر راتھر نے اپنی بیوی سے صرف اتنا کہا۔ ” تم سو جاؤ میں کھانا کھا چکا ہوں ۔ نسیمہ زور سے نہیں۔ میں نے جھوٹ تو نہیں کہا تھا ! ڈاکٹر راتھر نے جب دوسرے کمرے میں جا کر مضطرب حالت میں زمیندار کا تازہ پر چہ کھولا تو اس کو ایک خبر کی سرخی نظر آئی۔

ڈاکٹر راتھر پر رحمت خداوندی کے پھول اس کے نیچے درج تھا کہ پولیس نے اس کو دھوکہ دہی کے سلسلے میں گرفتار کر لیا ہے۔ غلام رسول عرف ڈاکٹر راتھر نے یہ خبر پڑھ کر یوں محسوس کیا کہ اس پر رحمت خداوندی کے پھول برس رہے ہیں۔


2

62

ساڑھے تین آنے

میں نے قتل کیوں کیا ایک انسان کے خون میں اپنے ہاتھ کیوں رنگے ۔ یہ ایک لمبی داستان ہے۔ جب تک میں اس کے تمام عواقب و عواطف سے آپ کو آگاہ نہیں کروں گا آپ کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔ مگر اس وقت آپ لوگوں کی گفتگو کا موضوع جرم اور سزا ہے انسان اور جیل ہے۔۔ چونکہ میں جیل میں رہ چکا ہوں اس لیے میری رائے نا درست نہیں ہوسکتی۔ مجھے منٹو صاحب سے پورا اتفاق ہے کہ جیل مجرم کی اصلاح نہیں کر سکتی ۔ مگر یہ حقیقت اتنی بار دہرائی جا چکی ہے کہ اس پر زور دینے سے آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی محفل میں ہزار بار کا سنا یا ہوا لطیفہ بیان کر رہا ہے۔ اور یہ لطیفہ نہیں کہ اس حقیقت کو جانتے پہچانتے ہوئے بھی ہزار ہا جیل خانے موجود ہیں۔ ہتھکڑیاں اور وہ ننگ انسانیت بیڑیاں ۔ میں قانون کا یہ زیور پہن چکا ہوں ۔

یہ کہہ کر رضوی نے میری طرف دیکھا اور مسکرایا۔ اس کے موٹے موٹے حبشیوں کے ہونٹ عجیب انداز میں پھڑ کے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی مخمور آنکھیں، جو قاتل کی آنکھیں لگتی تھیں، چمکیں ۔ ہم سب چونک پڑے تھے۔ جب اس نے ایکا ایک ہماری گفتگو میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ وہ ہمارے قریب کرسی پر بیٹھا کریم ملی ہوئی کافی پی رہا تھا۔ جب اس نے خود کو متعارف کرایا تو ہمیں وہ تمام واقعات یاد آ گئے جو اس کی قتل کی واردات سے وابستہ تھے۔ وعدہ معاف گواہ بن کر اس نے بڑی صفائی سے اپنی اور اپنے دوستوں کی گردن پھانسی کے پھندے سے بچائی تھی۔

وہ اسی دن رہا ہو کر آیا تھا۔ بڑے شائستہ انداز میں وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔ معاف کیجئے گا منٹو صاحب ۔۔۔۔۔۔۔ آپ لوگوں کی گفتگو سے مجھے دلچسپی ہے۔ میں ادیب تو نہیں، لیکن آپ کی گفتگو کا جو موضوع ہے اس پر اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں کچھ نہ کچھ ضرور کہہ سکتا ہوں ۔ پھر اس نے کہا۔ " میرا نام صدیق رضوی ہے۔ لنڈا بازار میں جو قتل ہوا تھا، میں اس سے متعلق تھا ۔ میں نے اس قتل کے متعلق صرف سرسری طور پر پڑھا تھا لیکن جب رضوی نے اپنا تعارف کرایا تو میرے ذہن میں خبروں کی تمام سرخیاں ابھر آئیں۔

ہماری گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ آیا جیل مجرم کی اصلاح کر سکتی ہے۔ میں خود محسوس کر رہا تھا، ہم ایک باسی روٹی کھا رہے ہیں۔ رضوی نے کی خودم جب یہ کہا ۔ " یہ حقیقت اتنی بار دہرائی جا چکی ہے کہ اس پر زور دینے سے آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی محفل میں ہزار بار سنایا ہوا


63

لطیفہ بیان کر رہا ہے۔ تو مجھے بڑی تسکین ہوئی۔ میں نے یہ سمجھا جیسے رضوی نے میرے خیالات کی ترجمانی کر دی ہے کریم ملی ہوئی کافی کی۔ پیالی ختم کر کے رضوی نے اپنی چھوٹی چھوٹی مخمور آنکھوں سے مجھے دیکھا اور بڑی سنجیدگی سے کہا۔” منٹو صاحب! آدمی جرم کیوں کرتا ہے۔ جرم کیا ہے سزا کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کے متعلق بہت غور کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر جرم کے پیچھے ایک ہسٹری ہوتی ہے۔ زندگی کے واقعات کا ایک بہت بڑا ٹکڑا ہوتا ہے بہت الجھا ہوا ٹیڑھا میڑھا۔۔۔۔۔۔۔ میں نفسیات کا ماہر نہیں۔ لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ انسان سے خود جرم سرزد نہیں ہوتا۔ حالات سے ہوتا ہے ۔ نصیر نے کہا ۔ آپ نے بالکل درست کہا ہے ۔“

رضوی نے ایک اور کافی کا آروڈ دیا اور نصیر سے کہا۔ ” مجھے معلوم نہیں جناب، لیکن میں نے جو کچھ عرض کیا ہے اپنے مشاہدات کی بنا پر عرض کیا ہے ورنہ یہ موضوع بہت پرانا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وکٹر ہیوگو ۔ فرانس کا ایک مشہور ناولسٹ تھا ۔۔۔۔۔۔۔ شاید کسی اور ملک کا ہو۔۔۔۔۔۔۔ آپ تو خیر جانتے ہی ہوں گئے جرم اور سزا پر اس نے کافی لکھا ہے۔ مجھے اس کی ایک تصنیف کے چند فقرے یاد ہیں۔ یہ کہہ کر وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔ منٹو صاحب غالباً آپ ہی کا ترجمہ تھا۔۔۔۔۔۔۔ کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ سیڑھی اتار دو جو انسان کو جرائم اور مصائب کی طرف لے جاتی ہے۔ لیکن میں سوچتا ہوں کہ وہ سیڑھی کون سی ہے۔ اس کے کتنے زینے ہیں ۔ کچھ بھی ہو یہ سیڑھی ضرور ہے۔ اس کے زینے بھی ہیں۔ لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں بے شمار ہیں۔ ان کو گننا ان کا شمار کرنا ہی سب سے بڑی بات ہے۔ منٹو صاحب حکومتیں رائے شماری کرتی ہیں، حکومتیں اعداد و شمار کرتی ہیں، حکومتیں رائے شماری کرتی ہیں، حکومتیں اعداد شماری کرتی ہیں، حکومتیں ہر قسم کی شماری کرتی ہیں۔ اس سیڑھی کے زمینوں کی شماری کیوں نہیں کرتیں۔ کیا یہ ان کا فرض نہیں۔ میں نے قتل کیا ۔ لیکن اس سیڑھی کے کتنے زینے طے کر کے کیا۔ حکومت نے مجھے وعدہ معاف گواہ بنالیا اس لیے کہ قتل کا ثبوت اس کے پاس نہیں تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ میں اپنے گناہ کی معافی کس سے مانگوں۔ وہ حالات جنہوں نے مجھے قتل کرنے پر مجبور کیا تھا اب میرے نزدیک نہیں ہیں۔ ان میں اور مجھ میں ایک برس کا فاصلہ ہے۔ میں اس فاصلے سے معافی مانگوں یا ان حالات سے جو بہت دور کھڑے میرا

منہ چڑا رہے ہیں؟“ ہم سب رضوی کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے۔ وہ بظاہر تعلیم یافتہ معلوم نہیں ہوتا تھا، لیکن اس کی گفتگو سے ثابت ہوا کہ وہ پڑھا لکھا ہے اور بات کرنے کا سلیقہ جانتا ہے۔ میں نے اس سے کچھ کہتا ہوتا، لیکن میں چاہتا تھا کہ وہ باتیں کرتا جائے اور میں سنتا جاؤں۔ اسی لیے میں اس کی گفتگو میں حائل نہ ہوا۔ اس کے لیے نئی کافی آگئی تھی۔ اسے بنا کر اس نے چند گھونٹ پیئے اور کہنا شروع کیا۔ خدا معلوم میں کیا بکواس کرتا رہا ہوں، لیکن میرے ذہن میں ہر وقت ایک آدمی کا خیال رہا ہے۔ اس آدمی کا اس بھنگی کا جو ہمارے ساتھ جیل میں تھا۔ اس

64

کو ساڑھے تین آنے چوری کرنے پر ایک برس سزا ہوئی تھی ۔“ نصیر نے حیرت سے پوچھا۔ صرف ساڑھے تین آنے چوری کرنے پر ! صرف ساڑھے تین آنے کی چوری پر ۔ اور جو اس کو نصیب نہ رضوی نے یخ آلود جواب دیا ۔ جی ہاں . یہ رقم خزانے میں محفوظ ہے اور پھگو جنگی غیر محفوظ ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ پھر پکڑا جائے ۔ کیوں کہ ہو ہوئے کیونکہ وہ پکڑا گیا۔ سکتا ہے اس کا پیٹ پھر اسے مجبور کرے۔ کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ اس سے گوموت صاف کرانے والے اس کی تنخواہ نہ دے سکیں۔ کیوں کہ ہو سکتا ہے اس کو تنخواہ دینے والوں کو اپنی تنخواہ نہ ملے ۔ یہ ہو سکتا ہے کا سلسلہ منٹو صاحب عجیب و غریب ہے۔ سچ پوچھئے تو دنیا میں سب کچھ ہو

2

سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ رضوی سے قتل بھی ہو سکتا ہے۔ یہ کہہ کر وہ تھوڑے عرصے کے لیے خاموش ہو گیا۔ نصیر نے اس سے کہا ۔ آپ پھگو کی بات کر رہے تھے ۔“ رضوی نے اپنی چھدری مونچھوں پر سے کافی رومال کے ساتھ پوچھی ۔ جی ہاں ۔. پھلو بھنگی چور ہونے کے باوجود یعنی وہ قانون کی نظروں میں چور تھا، لیکن ہماری نظروں میں پورا ایماندار ۔۔۔۔۔۔۔ خدا کی قسم ! میں نے آج تک اس جیسا ایماندار آدمی نہیں دیکھا۔ ساڑھے تین آنے اس نے ضرور چرائے تھے۔ اس نے صاف صاف عدالت میں کہہ دیا تھا کہ یہ چوری میں نے ضرور کی ہے میں اپنے حق میں کوئی گواہی پیش نہیں کرنا چاہتا۔ میں دو دن کا بھوکا تھا، مجبوراً مجھے کریم درزی کی جیب میں ہاتھ ڈالنا پڑا۔ اس سے مجھے پانچ روپے لینے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ دو مہینوں کی تنخواہ ۔۔ حضور اس کا بھی کچھ قصور نہیں تھا اس لیے کہ اس کے کئی گاہکوں نے اس کی حضور میں پسے بھی چوریاں کر چکا ہوں۔ ایک دفعہ میں نے دس روپے ایک میم صاحب کے سلائی کے پیسے مارے ہوئے تھے۔ بٹوے سے نکال لیے تھے۔ مجھے ایک مہینے کی سزا ہوئی تھی۔ پھر میں نے ڈپٹی صاحب کے گھر سے چاندی کا ایک کھلونا چرایا تھا اس لیے کہ میرے بچے کو نمونیا تھا اور ڈاکٹر بہت فیس مانگتا تھا۔ حضور میں آپ سے جھوٹ نہیں کہتا۔ میں چور نہیں ہوں ۔ کچھ حالات ہی ایسے تھے کہ مجھے چوریاں کرنی پڑیں ۔ اور حالات ہی ایسے تھے کہ میں پکڑا گیا۔ مجھ سے بڑے بڑے چور موجود ہیں لیکن وہ ابھی تک پکڑے نہیں گئے۔ حضور اب میرا بچہ بھی نہیں ہے بیوی بھی نہیں ہے۔ لیکن افسوس ہے کہ میرا پیٹ ہے یہ مر جائے تو سارا جھنجھٹ ہی ختم ہو جائے، حضور مجھے معاف کر دو۔ لیکن حضور نے اس کو معاف نہ کیا اور عادی چور سمجھ کر اس کو ایک برس قید با مشقت کی سزا دے دی ۔ رضوی بڑے بے تکلف انداز میں بول رہا تھا۔ اس میں کوئی تصنع کوئی بناوٹ نہیں تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ الفاظ خود بخود اس کی زبان پر آتے اور بہتے چلے جا رہے تھے۔ میں بالکل خاموش تھا۔ سگریٹ پر سگریٹ پی رہا تھا اور اس کی باتیں سن رہا تھا۔ نصیر پھر اس سے مخاطب ہوا۔ آپ پھگو کی ایمانداری کی بات کر رہے تھے۔“


65

جی ہاں ! " رضوی نے جیب سے بیڑی نکال کر سلگائی ۔" میں نہیں جانتا، قانون کی نگاہوں میں ایمانداری کیا چھے ہے۔ لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ میں نے بڑی ایمانداری سے قتل کیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اور میرا خیال ہے کہ پھلو بھنگی نے بھی بڑی ایمانداری سے ساڑھے تین آنے چرائے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ ایمانداری کو صرف اچھی باتوں سے کیوں منسوب کرتے ہیں۔ اور سچ پوچھئے تو میں اب یہ سوچنے لگا ہوں کہ اچھائی اور برائی ہے کیا۔ ایک چیز آپ کے لیے اچھی ہو سکتی ہے میرے لیے بری۔ ایک سوسائٹی میں ایک چیز اچھی کبھی جاتی ہے دوسری میں بری۔ ہمارے مسلمانوں میں بغلوں کے گناہ بڑھانا گناہ سمجھا جاتا ہے لیکن سکھ اس سے بے نیاز ہیں۔ اگر یہ بال بڑھانا واقعی گناہ ہے تو خدا ان کو سزا کیوں نہیں دیتا۔ اگر کوئی خدا ہے تو میری اس سے درخواست ہے کہ خدا کے لیے تم یہ انسانوں کے قوانین توڑ دو ان کی بنائی ہوئی جیلیں ڈھا دو۔ اور آسمانوں پر اپنی جیلیں خود بناؤ۔ خود اپنی عدالت میں ان کو سزا دو کیوں کہ اور کچھ نہیں تو کم از کم خدا تو ہو۔

رضوی کی اس تقریر نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس کی خام کاری ہی اصل میں تاثر کا باعث تھی۔ وہ باتیں کرتا تھا تو یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ میں سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے دل ہی دل میں گفتگو کر رہا ہے۔

ہم اس کی بیڑی بجھ گئی تھی۔ غالباً اس میں تمبا کو کی گانٹھ اٹکی ہوئی تھی۔ اس لیے کہ اس نے پانچ مرتبہ اس کو سلگانے کی کوشش کی۔ جب نہ سلگی تو پھینک دی اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا ۔ منٹو صاحب ! پھگو مجھے اپنی تمام زندگی یا در ہے گا۔ آپ کو بتاؤں گا تو آپ ضرور کہیں گے کہ جذباتیت ہے لیکن خدا کی قسم! جذباتیت کو اس میں کوئی دخل نہیں۔ وہ میرا دوست نہیں تھا۔ نہیں وہ میرا دوست تھا کیونکہ اس

نے ہر بار خود کو ایسا ہی ثابت کیا۔

رضوی نے جیب میں سے دوسری بیڑی نکالی مگر وہ ٹوٹی ہوئی تھی۔ میں نے اسے سگریٹ پیش کیا تو اس نے قبول کر لیا۔ شکریہ منٹو صاحب معاف کیجئے گا میں نے اتنی بکواس کی ہے حالانکہ مجھے نہیں کرنی چاہیے تھی، اس لیے کہ ماشاء اللہ

میں نے اس کی بات کائی ۔ رضوی صاحب ! میں اس وقت منو نہیں ہوں، صرف سعادت حسن ہوں۔ آپ اپنی گفتگو جاری رکھئے میں بڑی دلچسپی سے سن رہا ہوں ۔

رضوی مسکرایا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی مخمور آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی ۔ " آپ کی بڑی نوازش ہے۔ پھر وہ نصیر سے مخاطب ہوا۔ میں کیا کہہ رہا تھا ۔ آ

میں نے اس سے کہا ۔ پھگو کی ایمانداری کے متعلق کچھ کہنا چاہتے تھے ۔“


66

جی ہاں ! یہ کہ کر اس نے میرا پیش کیا ہوا سگریٹ سلگایا۔ منٹو صاحب ! قانون کی نظروں میں وہ عادی چور تھا۔ بیڑیوں کے لیے اس نے ایک دفعہ آٹھ آنے چرائے تھے بڑی مشکلوں سے دیوار پھاند کر جب اس نے بھاگنے کی کوشش کی تھی تو اس کے ٹخنے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ قریب قریب ایک برس تک وہ اس کا علاج کراتا رہا تھا مگر جب میرا ہم الزام دوست جرجی ہیں بیڑیاں اس کی معرفت بھیجتا تو وہ سب کی سب پولیس کی نظریں بچا کر میرے حوالے کر دیتا۔ وعدہ معاف گواہوں پر بہت کڑی نگرانی ہوتی ہے لیکن جرجی نے پھگو کو اپنا دوست اور ہمراز بنالیا تھا۔ وہ بھنگی تھا لیکن اس کی فطرت بہت خوشبودار تھی۔ شروع شروع میں جب وہ جرجی کی بیڑیاں لے کر میرے پاس آیا تو میں نے سوچا اس حرامزادے چور نے ضرور ان میں سے کچھ غائب کر لی ہوں گی۔ مگر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ قطعی طور پر ایماندار تھا۔ بیڑی کے لیے اس نے آٹھ آنے چراتے ہوئے اپنے ٹخنے کی ہڈی تڑوالی تھی، مگر یہاں جیل میں جہاں اس تمبا کو کو کہیں سے بھی نہیں مل سکتا تھا وہ جرجی کی دی ہوئی بیڑیاں تمام و کمال میرے حوالے کر دیتا تھا۔ جیسے وہ امانت ہوں ۔ پھر وہ کچھ ہچکچانے کے بعد مجھ

سے کہتا با بوجی ایک بیڑی تو دیجئے اور میں اس کو صرف ایک بیڑی دیتا ۔۔۔۔۔۔۔ انسان بھی کتنا کمینہ ہے!“ رضوی نے کچھ اس انداز سے اپنا سر جھٹکا جیسے وہ اپنے آپ سے متنفر ہے۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں مجھ پر بہت کڑی پابندی عائد تھیں ۔ وعدہ معاف گواہوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جرجی البتہ میرے مقابلے میں بہت آزاد تھا۔ اس کو رشوت دے دلا کر بہت آسانیاں مہیا تھیں۔ کپڑے مل جاتے تھے۔ صابن مل جاتا تھا۔ بیڑیاں مل جاتی تھیں۔ جیل کے اندر رشوت دینے کے لیے روپے بھی مل جاتے تھے۔ پھگو جھنگی کی سزا ختم ہونے میں صرف چند دن باقی رہ گئے تھے۔ جب اس نے آخری بار جرجی کی دی ہوئی ہیں بیڑیاں مجھے لاکر دیں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ جیل سے نکلنے پر خوش نہیں تھا۔ میں نے جب اس کو مبارکباد دی تو اس نے کہا۔ ” بابو جی! میں پھر یہاں آجاؤں گا۔ بھو کے انسان کو چوری کرنی پڑتی ہے۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک بھو کے انسان کو کھانا کھانا ہی پڑتا ہے۔ بابو جی آپ بڑے اچھے ہیں مجھے اتنی بیڑیاں دیتے رہے۔ خدا کرے آپ کے سارے دوست بری ہو جائیں ۔ جرجی با بو آپ کو بہت چاہتے ہیں ۔

نصیر نے یہ سن کر غالباً اپنے آپ سے کہا۔ " اور اس کو صرف ساڑھے تین آنے چرانے کے جرم میں سزا ملی تھی ۔“ رضوی نے گرم کافی کا ایک گھونٹ پی کر ٹھنڈے انداز میں کہا۔ ”جی ہاں صرف ساڑھے تین آنے چرانے کے جرم میں ۔ اور وہ بھی خزانے میں جمع ہیں۔ خدا معلوم ان سے کسی پیٹ کی آگ بجھے گی ۔ رضوی نے کافی کا ایک اور گھونٹ پیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔ ” ہاں منٹو صاحب ! اس کی رہائی میں صرف ایک دن رہ گیا تھا۔ مجھے دس روپوں کی اشد ضرورت تھی۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ مجھے یہ روپے ایک سلسلے میں سنتری کو رشوت کے طور پر دینے تھے۔ میں نے بڑی مشکلوں سے کاغذ پنسل مہیا کر کے جرجی کو ایک خط لکھا تھا اور پھگو کے ذریعے اس تک بھجوایا تھا کہ وہ مجھے کسی نہ کسی طرح دس روپے بھیجے۔ بھگوان پڑھ تھا۔ شام وہ مجھ سے ملا۔ جرجی کا رقعہ اس نے مجھے دیا۔ اس میں دس روپے کا سرخ پاکستانی نوٹ قید تھا۔ میں نے رقعہ پڑھا۔ یہ لکھا تھا۔ رضوی ! پیارے دس روپے بھیج تو رہا


67

ہوں، مگر ایک عادی چور کے ہاتھ ۔ خدا کرے تمہیں مل جائیں کیونکہ یہ کل ہی جیل سے رہا ہو کر جارہا ہے۔ 2 میں نے یہ تحریر پڑھی تو پھگو بھنگی کی طرف دیکھ کر مسکرایا ۔ اس کو ساڑھے تین آنے چرانے کے جرم میں ایک برس کی سزا ہوئی۔ میں سوچنے لگا کہ اگر اس نے دس روپے چرائے ہوتے تو ساڑھے تین آنے فی برس کے حساب سے اس کو کیا سز اہلتی ! یہ کہہ کر رضوی نے کافی کا آخری گھونٹ پیا اور رخصت مانگے بغیر کافی ہاؤس سے باہر چلا گیا۔



2

68

پیرن

سی اس زمانے کی بات ہے جب میں بے حد مفلس تھا۔ بمبئی میں نو روپے ماہوار کی ایک کھولی میں رہتا تھا جس میں پانی کامل تھا نہ بھلی۔ ایک نہایت ہی غلیظ کو ٹھٹڑی تھی جس کی چھت پر سے ہزار ہا کھٹمل میرے اوپر گرا کرتے تھے۔ چوہوں کی بھی کافی بہتات تھی ۔ اتنے بڑے چوہے میں نے پھر کبھی نہیں دیکھے۔ بلیاں ان سے ڈرتی تھیں۔ چالی یعنی بلڈنگ میں صرف ایک غسل خانہ تھا۔ جس کے دروازے کی کنڈی ٹوٹی ہوئی تھی۔ صبح سویرے چالی کی عورتیں پانی بھر نے کے لیے اس غسل خانے میں جمع ہو جاتی تھیں۔ یہودی ، مرہٹی، گجراتی، کر چین ۔ ۔۔ بھانت بھانت کی عورتیں ۔ میرا یہ معمول تھا کہ ان عورتوں کے اجتماع سے بہت پہلے غسل خانے میں جاتا دروازہ بھیڑتا اور نہانا شروع کر دیتا۔ ایک روز میں دیر سے اٹھا نسل خانے میں پہنچ کر نہانا شروع کیا تو تھوڑی دیر کے بعد کھٹ سے دروازہ کھلا۔ میری پڑوسن تھی۔ بغل میں گا گر دبائے اس نے معلوم نہیں کیوں ایک لحظے کے لیے مجھے غور سے دیکھا۔ پھر ایک دم پلٹی گا گر اس کی بغل سے پھسل اور فرش پر اڑھکنے لگی۔ ایسی بھاگی جیسے کوئی شیر اس کا تعاقب کر رہا ہے۔ میں بہت ہنسا اٹھ کر دروازہ بند کیا اور نہا نا شروع کر دیا۔

تھوڑی دیر کے بعد دروازہ کھلا بر جموہن تھا۔ میں نہا کے فارغ ہو چکا تھا اور کپڑے پہن رہا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا۔ بھئی منٹو آج

اتوار ہے۔

مجھے یاد آ گیا کہ برج موہن کو باندرہ جانا تھا اپنی دوست پیرن سے ملنے کے لیے۔ وہ ہر اتوار کو اس سے ملنے جاتا تھا۔ وہ ایک معمولی شکل وصورت کی پاری لڑکی تھی جس سے ہر جموہن کا معاشقہ قریباً تین برس سے چل رہا تھا۔ ہر اتوار کو برج موہن مجھ سے آٹھ آنے ٹرین کے کرائے کے لیے لیتا۔ پیرن کے گھر پہنچتا۔ دونوں آدھے گھنٹے تک آپس میں باتیں کرتے۔ بر جموہن السٹریٹڈ ویکلی کے کراس ورڈ پزل کے حل اس کو دیتا اور چلا آتا ۔ وہ بیکار تھا۔ سارا دن سر نیوڑھائے یہ پزل اپنی دوست پیرن کے لیے حل کرتا رہتا تھا۔ اس کو چھوٹے چھوٹے کئی انعام مل چکے تھے۔ مگر وہ سب پیرن نے وصول کئے تھے۔ برج موہن نے ان میں سے ایک دمڑی بھی اس سے نہ مانگی تھی۔

برج موہن کے پاس پیرن کی بے شمار تصور میں تھیں ۔ شلوار قمیض میں چست پاجامے میں ساڑھی میں، فراک میں بیڈ نگ کاسٹیوم میں

69

فینسی ڈریس میں ۔ غالباً سو سے اوپر ہوں گی۔ پیرن قطعا خوبصورت نہیں تھی، بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ بہت ہی ادنی شکل وصورت کی تھی لیکن میں نے اپنی اس رائے کا اظہار برج موہن سے کبھی نہیں کیا تھا۔ میں نے پیرن کے متعلق کبھی کچھ پوچھا ہی نہیں تھا کہ وہ کون ہے کیا کرتی ہے برج موہن سے اس کی ملاقات کیسے ہوئی، عشق کی ابتدا کیوں کر ہوئی ۔ کیا وہ اس سے شادی کرنے کا ارادہ رکھتا ہے؟ برج موہن نے بھی اس کے بارے میں مجھ سے کبھی بات چیت نہ کی تھی۔ بس ہر اتوار کو وہ ناشتے کے بعد مجھ سے آٹھ آنے کرائے کے لیتا اور اور اس سے

ملنے کے لیے باندرہ روانہ ہو جاتا اور دو پہر تک لوٹ آتا۔ میں نے کھولی میں جا کر اس کو آٹھ آنے دیئے ۔ وہ چلا گیا۔ دو پہر کو لوٹا تو اس نے خلاف معمول مجھ سے کہا۔ ” آج معاملہ ختم ہو گیا ۔“ میں نے اس سے پوچھا۔ کو نسا معاملہ؟ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کس معاملے کی بات کر رہا ہے۔ برج موہن نے جیسے اس کے سینے کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے۔ مجھ سے کہا۔ ” پیرن سے آج دو ٹوک فیصلہ ہو گیا ہے۔ میں نے اس سے کہا۔ جب بھی تم سے ملنا شروع کرتا ہوں مجھے کوئی کام نہیں ملتا۔ تم بہت منحوس ہو۔ اس نے کہا بہتر ہے ملنا چھوڑ دو۔ دیکھوں گی تمہیں کیسے کام ملتا ہے۔ میں منحوس ہوں مگر تم اول درجے کے نکھٹو اور کام چور ہو۔ سواب یہ قصہ ختم ہو گیا ہے اور میرا خیال ہے انشاء اللہ کل ہی مجھے کام مل جائے گا۔ صبح تم مجھے چار آنے دینا۔ میں سیٹھ نانو بھائی سے ملوں گا وہ مجھے ضرور اپنا اسٹنٹ رکھ لے گا۔“

یہ سیٹھ نانو بھائی جو فلم ڈائریکٹر تھا۔ متعدد مرتبہ بر جموہن کو ملازمت دینے سے انکار کر چکا تھا۔ کیونکہ اس کا بھی پیرن کی طرح یہی خیال

تھا کہ وہ کام چور اور نکھا ہے لیکن دوسرے روز جب بر جموہن مجھ سے چار آنے لے کر گیا تو دو پہر کو اس نے مجھے یہ خوشخبری سنائی کہ سیٹھ نانو

بھائی نے بہت خوش ہو کر اسے ڈھائی سو روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا ہے۔ کنٹریکٹ ایک برس کا ہے۔ جس پر دستخط ہو چکے ہیں ۔ پھر اس

نے جیب میں ہاتھ ال کر سو روپے نکالے اور مجھے دکھائے ۔ یہ ایڈوانس ہے۔ جی تو چاہتا ہے کہ کنٹریکٹ اور سو روپے لے کر باندرہ جاؤں

اور پیرن سے کہوں کہ لو دیکھو مجھے کام مل گیا ہے ۔ لیکن ڈر ہے کہ نانو بھائی مجھے فوراً جواب دیدے گا۔ میرے ساتھ ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ

ایسا ہو چکا ہے۔ ادھر ملازمت ملی ادھر پیران سے ملاقات ہوئی۔ معاملہ صاف کسی نہ کسی بہانے مجھے نکال باہر کیا گیا۔ خدا معلوم اس لڑکی

میں یہ نحوست کہاں سے آگئی۔ اب میں کم از کم ایک برس تک اس کا منہ نہیں دیکھوں گا۔ میرے پاس کپڑے بہت کم رہ گئے ہیں ایک برس

لگا کر کچھ بنوا لوں تو پھر دیکھا جائے گا۔“ چھ مہینے گزر گئے۔ برج موہن برابر کام پر جا رہا تھا اس نے کئی نئے کپڑے بنوائے تھے۔ ایک درجن رو مال بھی خرید لیے تھے۔ اب وہ تمام چیزیں اس کے پاس تھیں جو ایک کنوارے آدمی کے آرام و آسائش کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ ایک روز وہ اسٹڈیو گیا ہوا تھا کہ اس کے نام ایک خط آیا ۔ شام کو جب وہ لوٹا تو میں اسے یہ خط دینا بھول گیا۔ صبح ناشتے پر مجھے یاد آیا تو میں نے یہ خط اس کے حوالے کر دیا۔ لفافہ



2

70

پکڑتے ہی وہ زور سے چیتا ۔۔۔۔۔۔۔۔ لعنت !

میں نے پوچھا۔ ” کیا ہوا ؟

وہی پیرن ۔ اچھی بھلی زندگی گزر رہی تھی ۔ یہ کہ کر اس نے چھیچ سے لفافہ کھولا ۔ خط کا کاغذ نکالا اور مجھ سے کہا۔ ” وہی کمبخت ہے میں

کبھی اس کا ہینڈ رائٹنگ بھول سکتا ہوں ۔“ میں نے پوچھا کیا لکھتی ہے؟“

میر اسر کہتی ہے مجھ سے اس اتوار کو ضرور ملو تم سے کچھ کہنا ہے ۔ یہ کہ کر بر جموہن نے مخط لفافے میں ڈالا اور جیب میں رکھ لیا۔ لو بھئی منٹو نوکری سے انشاء اللہ کل ہی جواب مل جائے گا۔“

کیا بکواس کرتے ہو؟“

بر جموہن نے بڑے وثوق سے کہا۔ نہیں منٹو تم دیکھ لینا۔ کل اتوار ہے پرسوں نانو بھائی کو ضرور مجھ سے کوئی شکایت پیدا ہوگی اور وہ

مجھے فور انکال باہر کرے گا ۔

میں نے اس سے کہا۔ "اگر تمہیں اتنا وثوق ہے تو مت جاؤ اس سے ملنے

نہیں ہو سکتا۔ وہ بلائے تو مجھے جانا ہی پڑتا ہے۔

کیوں؟

ملازمت کرتے کرتے کچھ میں بھی اکتا چکا ہوں ۔ چھ مہینے سے اوپر ہو گئے ہیں ۔ یہ کہ کر وہ مسکرایا اور چلا گیا۔ دوسرے روز ناشتہ کر کے وہ باندرہ چلا گیا۔ پیران سے ملاقات کر کے لوٹا۔ تو اس نے اس ملاقات کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔ میں

نے اس سے پوچھا۔

مل آئے اپنے منحوس ستارے سے؟

ہاں بھئی۔ اس سے کہہ دیا کہ ملازمت سے بہت جلد جواب مل جائے گا۔ یہ کہہ کر وہ کھاٹ پر سے اٹھا۔ چلو آؤ کھانا کھا آئیں۔

ہم دونوں نے حاجی کے ہوٹل میں کھانا کھایا۔ اس دوران میں پیرن کی کوئی بات نہ ہوئی ۔ رات کو سونے سے پہلے اس نے صرف اتنا

کہا۔ اب دیکھئے کل کیا گل کھلتا ہے۔

میرا خیال تھا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا۔ مگر دوسرے روز برج موہن خلاف معمول اسٹڈیو سے جلدی لوٹ آیا۔ مجھ سے ملا تو خوب زور سے

تا۔

2

71

جواب مل گیا بھائی ۔“ میں نے سمجھا مذاق کر رہا ہے ” ہٹاؤ جی" جو ہلٹنا تھا وہ تو ہٹ گیا۔ اب کے ہٹاؤں ۔ سیٹھ نانو بھائی پر نائچ آگئی ہے۔ اسٹڈی سیل ہو گیا ہے۔ میری وجہ سے خواہ مخواہ بیچارے نانو بھائی پر بھی آفت آئی ۔ یہ کہ کر بر جموہن پھر ہنے لگا۔ میں نے صرف اتنا کہا۔ یہ عجیب سلسلہ ہے دیکھ لو اسے کہتے ہیں ہاتھ کنگن کو آرسی کیا بر جموہن نے سگریٹ سلگا یا اور کیمرہ اٹھا کر باہر گھومنے چلا گیا۔ برج موہن اب بیکار تھا۔ جب اس کی جمع پونجی ختم ہوگئی تو اس نے ہر اتوار کو پھر مجھ سے باندرہ جانے کے لیے آٹھ آنے مانگنے شروع کر دیئے۔ مجھے ابھی تک معلوم نہیں آدھ پون گھنٹے میں وہ پیرن سے کیا باتیں کرتا تھا۔ ویسے وہ بہت اچھی گفتگو کرنے والا تھا۔ مگر اس لڑکی سے جس کی نحوست کا اس کو مکمل طور پر یقین تھا۔ وہ کسی قسم کی باتیں کرتا تھا۔ میں نے ایک روز اس سے پوچھا۔ برج کیا پیرن کو بھی تم سے محبت ہے۔؟“ نہیں وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے۔“

تم سے کیوں ملتی ہے ۔؟“ اس لیے کہ میں ذہین ہوں اس کے بھدے چہرے کو خوبصورت بنا کر پیش کر سکتا ہوں۔ اس کے لیے کراس ورڈ پزل حل کرتا ہوں۔ کبھی کبھی اس کو انعام بھی دلوادیتا ہوں۔ منٹو تم نہیں جانتے ان لڑکیوں کو۔ میں خوب پہچانتا ہوں انہیں ۔ جس سے وہ محبت کرتی ہے اس میں جو کی ہے، مجھ سے مل کر پوری کر لیتی ہے۔ یہ کہ کر وہ مسکرایا۔ بڑی چار سو میں ہے ! میں نے قدرے حیرت سے پوچھا۔ مگر تم کیوں اس سے ملتے ہو؟ برج موہن ہنسا، چشمے کے پیچھے اپنی آنکھیں سکوڑ کر اس نے کہا مجھے مزا آتا ہے

کس بات کا ؟

اس کی نحوست کا میں اس کا امتحان لے رہا ہوں۔ اس کی نحوست کا امتحان۔ یہ نحوست اپنے امتحان میں پوری اتری ہے۔ میں نے جب بھی اس سے ملنا شروع کیا مجھے اپنے کام سے جواب ملا۔ اب میری ایک منحوس خواہش ہے کہ اس کے منحوس اثر کو چکمہ دے جاؤں ۔“ میں نے اس سے پوچھا۔ ”کیا مطلب؟“

برج موہن نے بڑی سنجیدگی سے کہا میرا یہ جی چاہتا ہے کہ ملازمت سے جواب ملنے سے پہلے ملازمت سے علیحدہ ہو جاؤں یعنی خود


72

اپنے آقا کو جواب دیدوں ۔ اس سے بعد میں کہوں جناب مجھے معلوم تھا کہ آپ مجھے برطرف کرنے والے ہیں۔ اس لیے میں نے آپ کو زحمت نہ دی اور خود علیحدہ ہو گیا اور آپ مجھے بر طرف نہیں کر رہے تھے یہ میری دوست پیرن تھی جس کی ناک کیمرے میں اس طرح گھستی

ہے جیسے تیر۔ برج موہن مسکرایا۔ یہ میری ایک چھوٹی سی خواہش ہے دیکھو پوری ہوتی ہے یا نہیں۔“ میں نے کہا۔ عجیب و غریب خواہش ہے۔“

میری ہر چیز عجیب و غریب ہوتی ہے۔ پچھلی اتوار میں نے پیرن کے اس دوست کے لیے جس سے وہ محبت کرتی ہے ایک فوٹو تیار کر کے دیا۔ الو کی دم اسے کمپی ٹیشن میں بھیجے گا۔ یقینی طور پر انعام ملے گا اسے ۔“ یہ کہہ کر وہ مسکرایا۔ برج موهن واقعی عجیب و غریب آدمی تھا۔ وہ پیرن کے دوست کو کئی بار فوٹو تیار کر کے دے چکا ہے۔ السٹر ٹیڈ ویکلی میں یہ فوٹو اس کے نام سے چھتے تھے اور پیرن بہت خوش ہوتی تھی۔ بر جموہن ان کو دیکھتا تھا تو مسکرا دیتا تھا۔ وہ پیرن کے دوست کی شکل وصورت سے نا آشنا تھا پیرن نے برج موہن سے اس کی ملاقات تک نہ کرائی تھی۔ صرف اتنا بتایا تھا کہ وہ کسی مل میں کام کرتا ہے اور بہت خوبصورت ہے۔ ایک اتوار برج باندرہ سے واپس آیا تو اس نے مجھ سے کہا۔ ”لو بھئی منٹو آج معاملہ ختم ہو گیا۔

میں نے اس سے پوچھا۔ پیرن والا

”ہاں بھئی کپڑے ختم ہو رہے تھے میں نے سوچا کہ یہ سلسلہ ختم کر دوں اب انشاء اللہ کچھ دنوں ہی میں کوئی نہ کوئی ملازمت مل جائے

گی۔ میرا خیال ہے سیٹھ نیاز علی سے ملوں ۔ اس نے اک فلم بنانے کا اعلان کیا ہے ۔ کل ہی جاؤں گا۔ تم یار ذرا اس کے دفتر کا پتہ لگا لینا ۔

میں نے اس کے دفتر کا پتہ ایک دوست سے پوچھ کر بر جموہن کو بتادیا۔ وہ دوسرے روز وہاں گیا۔ شام کو لوتا اس کے مطمئن چہرے پر

مسکراہٹ تھی۔ بھئی منٹو یہ کہ کر اس نے جیب سے ٹائپ شدہ کاغذ نکالا اور میری طرف پھینک دیا۔ ایک پیکچر کا کنٹریکٹ تنخواہ دوسور و پے

ماہوار کم ہے، لیکن سیٹھ نیاز علی نے کہا ہے بڑھادوں گا۔ ٹھیک ہے!“

میں بہنا اب پیرن سے کب ملو گے۔؟“ برج موهن مسکرایا۔ کب ملوں گا؟ میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ مجھے اس سے کب ملنا چاہئے۔ منٹو یار میں نے تم سے کہا تھا کہ ایک میری چھوٹی سی خواہش ہے بس وہ پوری ہو جائے ۔ میرا خیال ہے مجھے اتنی جلدی نہیں کرنی چاہئے ۔ ذرا میرے تین چار جوڑے بن جائیں۔ پچاس روپے ایڈوانس لے آیا ہوں ۔ پچیس تم رکھ لو ۔“

پچھیں میں نے لے لیے۔ ہوٹل والے کا قرض تھا جو فوراً چکا دیا گیا۔ ہمارے دن بڑی خوشحالی میں گزرنے لگے۔ سو روپیہ ماہوار میں کما


73

لیتا تھا۔ دو سو روپے ماہانہ بر جموہن لے آتا تھا۔ بڑے پیش تھے۔ پانچ مہینے گزر گئے کہ اچانک ایک روز پیرن کا خط برج موہن کو وصول

ہوا۔

لو بھئی منٹو عزرائیل صاحب تشریف لے آئے ۔ صحیح بات ہے کہ میں نے اس وقت خط دیکھ کر خوف سا محسوس کیا۔ مگر بر جموہن نے

مسکراتے ہوئے لفافہ چاک کیا۔ خط کا کاغذ نکال کر پڑھا۔ بالکل مختصر تحریر تھی۔ میں نے برج سے پوچھا۔ کیا فرماتی ہیں ۔؟“ فرماتی ہیں اتوار کو مجھ سے ضرور ملو۔ ایک اشد ضروری کام ہے۔ برجموہن نے خط لفافے میں واپس ڈال کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ میں نے اس سے پوچھا۔ جاؤ گے؟ جانا ہی پڑے گا۔ پھر اس نے یہ فلمی گیت گانا شروع کر دیا۔ مت بھول مسافر تجھے جانا ہی پڑے گا میں نے اس سے کہا۔ برج مت جاؤ اس سے ملنے۔ بڑے اچھے دن گزر رہے ہیں ہمارے تم نہیں جانتے میں خدا معلوم کسی طرح تمہیں آٹھ آنے دیا کرتا تھا۔ برج موہن مسکرایا ۔ مجھے سب معلوم ہے لیکن افسوس ہے کہ اب وہ دن پھر آنے والے ہیں۔ جب تم خدا معلوم کس طرح مجھے ہر اتوار آٹھ آنے دیا کرو گے۔ اتوار کو برج پیرن سے ملنے باندرہ گیا۔ واپس آیا تو اس نے مجھ سے صرف اتنا کہا۔ یہ بارہویں مرتبہ ہے کہ مجھے تمہاری نحوست کی وجہ سے برطرف ہونا پڑے گا۔ تم پر رحم ہوزرتشت کی! میں نے پوچھا۔ اس نے یہ سن کر کچھ کہا ؟ برج نے جواب دیا۔ فقط یہ تم سلی ایڈیٹ ہو۔ تم ہو ؟

سونی صدی ! یہ کہہ کر برج ہنسا۔ اب میں کل صبح دفتر جاتے ہی استعفے پیش کر دینے والا ہوں۔ میں نے وہیں پیرن کے ہاں لکھ لیا ہے۔ برج موہن نے مجھے استعفے کا کاغذ دکھایا۔ دوسرے روز خلاف معمول اس نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور دفتر روانہ ہو گیا۔ شام کو لوٹا تو اس کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی ۔ مجھے ہی بال آخر اس سے پوچھنا پڑا۔ کیو برج کیا ہوا ؟


74

اس اس نے بڑی نے بڑی نا امید امیدی سے سے سر رہا ہلایا۔ کچھ نہیں یار۔ سارا قصہ ہی ختم ہو گیا۔ کیا مطلب؟ میں نے سیٹھ نیاز علی کو اپنا استعفے پیش کیا تو اس نے مسکرا کر مجھے ایک آفیشل خط دیا۔ اس میں یہ لکھا تھا۔ کہ میری تنخواہ پہلے مہینے سے دو سو کے بجائے تین سو روپے ماہوار کر دی گئی ہے پیرن سے برج موہن کی دلچسپی ختم ہو گئی اس نے مجھ سے ایک روز کہا۔ پیران کی نحوست ختم ہونے کے ساتھ ہی وہ بھی ختم ہو گئی۔ اور میرا ایک نہایت دلچسپ مشغلہ بھی ختم ہو گیا ۔ اب کون جو مجھے بیکار رکھنے کا

2

موجب ہوگا !


2

75

خورشٹ

ہم دلی میں تھے۔ میرا بچہ بیمار تھا۔ میں نے پڑوس کے ڈاکٹر کا پڑیا کو بلایا۔ وہ ایک کبڑا آدمی تھا۔ بہت پست قد لیکن بے حد شریف۔ اس نے میرے بچے کا بڑے اچھے طریقے پر علاج کیا۔ اس کو فیس دی تو اس نے قبول نہ کی۔ یوں تو وہ پاری تھا لیکن بڑی شسته و رفته اردو بولتا تھا اس لیے کہ وہ دلی ہی میں پیدا ہوا تھا اور تعلیم اس نے وہیں حاصل کی تھی۔

ہمارے سامنے کے فلیٹ میں مسٹر کھیں والا رہتا تھا۔ یہ بھی پاری تھا۔ اس کے ذریعے سے ہم نے ڈاکٹر کا پڑیا کو بلایا تھا۔ تین چار مرتبہ ہمارے یہاں آیا تو اس سے ہمارے تعلقات بڑھ گئے۔ ڈاکٹر کے ہاں میرا اور میری بیوی کا آنا جانا شروع ہو گیا تھا۔ اس کے بعد ڈاکٹر نے ہماری ملاقات اپنے لڑکے سے کرائی۔ اس کا نام ساوک کا پڑیا تھا۔ وہ بہت ہی ملنسار آدمی تھا۔ رنگ بے حد زرد ایسا لگتا تھا کہ اس میں خون ہے ہی نہیں۔ سنگر مشین کمپنی میں ملازم تھا۔ غالباً پانچ چھ سو روپے ماہوار پاتا تھا۔ بہت صاف ستھرارہتا تھا۔ اس کا گھر جو ہمارے

گھر سے کچھ فاصلے پر تھا بہت نفاست سے سجا ہوا تھا۔ مجال ہے کہ گردو غبار کا ایک ذرہ بھی کہیں نظر آ جائے۔ جب میں اور میری بیوی شام کو ان کے ہاں جاتے تو وہ اور اس کی بیوی خورشید جس کو پارسیوں کی زبان میں خورشٹ کہا جاتا تھا بڑے تپاک سے پیش آتے اور ہماری خوب خاطر تواضع کرتے۔ خورشید یعنی خورشت لمبے قد کی عورت تھی ۔ عام پارسیوں کی طرح اس کی ناک بدنما نہیں تھی، لیکن خوبصورت بھی نہیں تھی۔ موٹی پکوڑا ایسی ناک تھی لیکن رنگ سفید تھا اس لیے گوارا ہو گئی تھی۔ بال کئے ہوئے تھے۔ چہرہ گول تھا۔ خوش پوش تھی اس لیے اچھی لگتی تھی۔ میری بیوی سے چند ملاقاتوں میں ہی دوستی ہوگئی۔ چنا چنہ ہم اکثر اس کے ہاں جانے لگے۔ وہ دونوں میاں بیوی بھی ہر دوسرے تیسرے روز ہمارے ہاں آجاتے تھے اور دیر تک بیٹھے رہتے تھے۔

ہم جب بھی ساوک کے ہاں گئے ایک سکھ کو ان کے ہاں دیکھا۔ یہ سکھ ایک تنومند آدمی تھا۔ بہت خوش خلق ۔ سارک نے مجھے بتایا کہ سردار زور آور سنگھ اس کا بچپن کا دوست ہے۔ دونوں اکٹھے پڑھتے تھے۔ ایک ساتھ انہوں نے بی اے پاس کیا لیکن شکل وصورت کے اعتبار سے سردار زور آور سنگھ ساوک کے مقابلے میں زیادہ معمر نظر آتا تھا۔ ساوک شاید خون کی کمی کے باعث بہت ہی چھوٹا معلوم ہوتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی عمر اٹھارہ برس سے زیادہ نہیں، لیکن سردار زور آور سنگھ چالیس کے اوپر معلوم ہوتا تھا۔ سردار زور آور سنگھ کنوارا تھا۔ جنگ کا زمانہ تھا۔ اس نے گورنمنٹ سے کئی ٹھیکے لے رکھے تھے۔ اس کا باپ بہت پرانا گورنمنٹ


76

کنٹریکٹر تھا۔ لیکن باپ بیٹے میں بنتی نہیں تھی۔ سردارزور آور سنگھ آزاد خیال تھا لیکن وہ اپنے باپ ہی کے ساتھ رہتا تھا اے پر وہ ایک دوسرے سے بات نہیں کرتے تھے۔ البتہ اس کی ماں اس سے بہت پیار کرتی تھی جیسے وہ چھوٹا سا بچہ ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ ماں کا اکلوتا لڑکا تھا۔ تین لڑکیاں تھیں وہ اپنے گھروں میں آباد ہو چکی تھیں۔ اب اس کی خواہش تھی کہ شادی کرلے اور اس کے کلیجے کو ٹھنڈک پہنچائے مگر وہ اس کے متعلق بات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں تھا۔ میں نے پوچھا۔ آپ کی عمر کیا ہے؟“ اس نے کہا۔ ” آپ کا کیا خیال ہے؟“ میرے خیال کے مطابق آپ کی عمر غالباً چالیس برس ہوگی ۔ سردار زور آور سنگھ مسکرایا ۔ ” آپ کا اندازہ غلط ہے۔“

میں نے ایک دفعہ سردار سے دریافت کیا۔ سردار صاحب ! آپ شادی کیوں نہیں کرتے ؟“ اس نے مونچھوں کے اندر ہنس کر جواب دیا۔ ” کروں گا اتنی جلدی کیا ہے ۔“

آپ فرمائیے آپ کی عمر کیا ہے؟“ سردار زور آور سنگھ پھر مسکرایا۔ میں آپ سے بہت چھوٹا ہوں، عمر کے لحاظ سے بھی۔ میں ابھی پرسوں انتیس اگست کو پچیس برس کا ہوا

ہوں۔

میں نے اپنے غلط اندازے کی معافی چاہی۔ لیکن آپ کی شکل وصورت سے جہاں تک میں سمجھتا ہوں کوئی بھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آپ کی عمر پچیس برس ہے۔“

سردار زور آور سنگھ ہنسا۔ "میں سکھ ہوں ۔ اور بڑا غیر معمولی سکھ یہ کہہ کر اس نے غور سے مجھے دیکھا۔ منٹو صاحب آپ حجامت کیوں نہیں کراتے اتنے بڑے بالوں سے آپ کو وحشت نہیں ہوتی ؟“ میں نے گردن پر ہاتھ پھیرا۔ بال واقعی بہت بڑھے ہوئے تھے۔ غالباً تین مہینے ہو گئے تھے جب میں نے بال کٹوائے تھے۔ سردار زور آور سنگھ نے بات کی تو مجھے سر پر ایک بوجھ سا محسوس ہوا۔ یاد ہی نہیں رہا۔ اب آپ نے کہا ہے تو مجھے وحشت محسوس ہوتی ہے۔ خدا معلوم مجھے کیوں بال کٹوانے یاد نہیں رہتے ۔ یہ سلسلہ ہے ہی کچھ واہیات ۔ ایک گھنٹہ نائی کے سامنے سر نیوڑھائے بیٹھے رہو۔ وہ اپنی خرافات بکتا ر ہے اور آپ مجبوراً کان سمیٹے سنتے رہیں۔ فلاں ایکٹرس ویسی ہے۔ امریکہ نے ایٹم بم ایجاد کر لیا ہے۔ روس کے پاس اس کا بہت ہی تکڑ ا جواب ہے۔ یہ ایملی کون ہے۔ اور وہ مسولینی کہاں گیا۔۔۔۔۔۔۔ اب اگر میں اس سے کہوں کہ جہنم میں گیا تو وہ ضرور پوچھتا


77

ہے کہ صاحب کیسے گیا کس راستے سے گیا کون سے جہنم میں گیا۔“ 2 میری اتنی لمبی چوڑی بات سن کر سردار زور آور سنگھ نے اپنی سفید پگڑی اتاری۔ مجھے سخت حیرت ہوئی اس لیے کہ اس کے کیس ندارد تھے۔ ان کے بجائے ہلکے ششی بال تھے۔ لیکن وہ پگڑی کچھ اس انداز سے باندھتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا کہ اس کے کیسی ہیں اور ثابت و سالم

ہیں۔

بڑی صفائی سے پگڑی اتار کر اس نے میری تپائی پر رکھی اور مسکرا کر کہا۔ میں تو اس سے بڑے بال کبھی برداشت نہیں کر سکتا ۔“ میں نے اس کے بالوں کے متعلق کوئی بات نہ کی اس لیے کہ میں نے مناسب خیال نہ کیا۔ اس نے بھی ان کے متعلق صرف اتنا کہا تھا۔ میں تو اس سے بڑے بال کبھی برداشت نہیں کر سکتا ۔ اس کے بعد اس نے گفتگو کا موضوع بدل دیا اور کہا ۔ منٹو صاحب ! خورشید کے

لیے آپ کچھ کیجئے ۔“ میں کچھ نہ سمجھا۔ کون خورشید؟ سردار زور آور سنگھ نے پگڑی اٹھا کر اپنے سر پر رکھ لی۔ خورشید کا پڑیا کے لیے؟" میں ان کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟“ اس کو گانے کا بہت شوق ہے۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ خورشت گاتی ہے۔ کیسا گاتی ہے ؟“ سردار زور آور سنگھ نے خورشٹ کی گائیکی کے بارے میں اتنی تعریف کی کہ مجھے یہ سب مبالغہ معلوم ہوا ۔ منٹو صاحب بہت اچھی آواز پائی ہے۔ خصوصاً ٹھمری ایسی اچھی گاتی ہے کہ آپ وجد میں آجائیں گے۔ آپ کو ایسا معلوم ہوگا کہ خان صاحب عبد الکریم کو سن رہے ہیں۔ اور لطف یہ کہ خورشید نے کسی کی شاگردی نہیں کی۔ بس جو ملا ہے قدرت سے ملا ہے۔ آپ آج شام کو آئے ۔ مسز منٹو بھی ضرور تشریف لائیں۔ میں خورشید کو بلاؤں گا۔ آپ ذرا اسے سنئے گا۔

میں نے کہا۔ ضرور ضرور ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ گاتی ہیں ۔“ سردار زور آور سنگھ نے سفارش کے طور پر کہا۔ ” آپ ریڈیو اسٹیشن میں ہیں، میں چاہتا ہوں کہ خورشید کو ہر مہینے کچھ پروگرام مل جایا کریں۔ روپے کی اس کو خواہش نہیں ہے۔“

لیکن اگر پروگرام ملے گا تو معاوضہ بھی ضرور ملے گا۔ گورنمنٹ ان کا معاوضہ کس کھاتے میں ڈالے گی؟“

یہ سن کر سردارزور آور سنگھ مسکرایا ۔ تو ٹھیک ہے۔ لیکن اسے پروگرام ضرور دلوائے گا ۔۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ سننے والے اسے


2

78

بہت پسند کریں گے۔“ اس گفتگو کے بعد ہم تیسرے روز ساوک کے ہاں گئے۔ وہ موجود نہیں تھا، لیکن ڈرائنگ روم میں سردارز در آور سنگھ بیٹھا سگریٹ پی رہا تھا۔ پارسیوں میں سگریٹ پینا منع ہے، سکھ بھی سگریٹ نہیں پیتے، لیکن وہ بڑے اطمینان اور ٹھاٹ سے کش پر کش لے رہا تھا۔ میں اور میری بیوی کمرے میں داخل ہوئے تو اس نے سگریٹ پینا بند کر دیا ۔ ایش ٹرے میں اس کی گردن مروڑ کر اس نے ہمیں خالص اسلامی انداز میں سلام کیا اور کہا۔ ” خورشید کی طبیعت آج کچھ نا ساز ہے۔“ خورشید کچھ دیر کے بعد آئی تو میں نے محسوس کیا کہ اس کی طبیعت قطعاً نا ساز نہیں ہے۔ میں نے اس سے پوچھا تو اس نے اپنے موٹے ہونٹوں پر مسکراہٹ پیدا کر کے کہا۔ ذراز کام تھا۔ مگر اس کو زکام نہیں تھا۔ سردار زور آور سنگھ نے بڑے زوردارانہ انداز میں خورشید سے اس کا حال پوچھا زکام کے لیے کم از کم دس دوائیں تجویز کیں پانچ ڈاکٹروں کے حوالے دیئے مگر وہ خاموش رہی جیسے وہ اس قسم کی بکو اس سننے کی عادی ہے۔ اتنے میں خورشید کا خاوند ساوک کا پڑیا آگیا۔ دفتر میں کام کی زیادتی کی وجہ سے اسے دیر ہوگئی تھی۔ مجھ سے اور میری بیوی سے اس نے معذرت چاہی سردار زور آور سنگھ سے کچھ دیر مذاق کیا اور ہم سے چند منٹ کی رخصت لے کر اندر چلا گیا۔ اس لیے کہ اسے اپنی بچی کو دیکھنا تھا۔ اس کی پلونی کی بچی بہت پیاری تھی میاں بیوی کی بس یہی ایک اولاد تھی۔ تقریباً ڈیڑھ برس کی تھی۔ رنگ باپ کی طرح زرد کچھ نقش ماں پر تھے باقی معلوم نہیں کس کے تھے۔ بہت ہنس مکھ تھی۔ سارک اس کو گود میں اٹھا کر لایا اور ہمارے پاس بیٹھ گیا۔ اس کو اپنی بچی سے بے حد پیار تھا۔ دفتر سے واپس آکر وہ سارا وقت اس کے ساتھ کھیلتا رہتا۔ میرا خیال ہے قریب قریب ہر ہفتے وہ اس کے لیے کھلونے لاتا تھا۔ شیشوں والی بڑی الماری تھی جو ان کھلونوں سے بھری ہوئی تھی۔ سردارزور آور سنگھ کے متعلق بات چھڑی تو سارک نے اس کی بہت تعریف کی۔ اس نے مجھ سے اور میری بیوی سے کہا۔ سردار زور آور سنگھ میرا بہت پرانا دوست ہے۔ ہم دونوں لنگوٹے ہیں۔ دونوں اکٹھے پڑھا کرتے تھے۔ پہلی جماعت سے لے کر اب تک ہم دونوں ہر روز ایک دوسرے سے ملتے رہے ہیں۔ بعض اوقات تو مجھے ایسا محسوس ہوتا کہ ہم اسکول ہی میں پڑھ رہے ہیں ۔“ سردارز در آور سنگھ مسکراتا رہا۔ اس کے سر پر سکھوں کی بہت بڑی پگڑی تھی، مگر مجھے اس کے ہوتے ہوئے اس کے شخصی بال نظر آرہے

تھے اور مجھے اپنے سر پر اپنے بالوں کا بوجھ محسوس ہو رہا تھا۔ سردار زور آور سنگھ کے پیہم اصرار پر خورشید نے باجا منگا کر ہمیں گانا سنا یا۔ وہ کن سری تھی، لیکن خورشید اس کے خاوند اور سردارز در آور سنگھ کی خاطر مجھے اس کے گانے کی مجبوراً تعریف کرنا پڑی۔ میں نے صرف اتنا کہا۔ ماشاء اللہ آپ خوب گاتی ہیں ۔



79

سردار زور آور سنگھ نے بڑے زور سے تالی بجائی اور کہا۔ خورشید ! آج تو تم نے کمال کر دیا ہے ۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوا۔ ” اس کو

آفتاب موسیقی کا خطاب مل چکا ہے منٹو صاحب ! میں نے تو کچھ نہ کہا لیکن میری بیوی نے پوچھا ۔ کب؟“ سردار زور آور سنگھ نے کہا۔ " اخبار کا وہ کٹنگ لانا ۔ خورشید اخبار کی کٹنگ لائی۔ کوئی خوشامدی قسم کا رپورٹر تھا جس نے چھ مہینے پہلے ایک پرائیویٹ محفل میں خورشید کا گانا سن کر اسے آفتاب موسیقی کا خطاب عطاء فرمایا تھا۔ میں یہ کٹنگ پڑھ کر مسکرایا اور شرار تا خورشید سے کہا۔ ” آپ کا یہ خطاب غلط ہے ۔“ سردار زور آور سنگھ نے مجھ سے پوچھا۔ ” کیوں؟“ ہیں۔“ میں نے پھر شرارتا کہا۔ "عورت کے لیے آفتاب نہیں ۔ آفتا بہ ہونا چاہیے خورشید صاحبه آفتاب موسیقی نہیں آفتا به موسیقی

میرا مذاق سب کے سر پر سے گزر گیا۔ میں نے خدا کا شکر کیا کیوں کہ یہ مذاق کرنے کے بعد میں نے فورا ہی سوچا تھا کہ اور کوئی نہیں سردار زور آور سنگھ ضرور اس کو سمجھ جائے گا۔ مگر وہ مسکرایا ۔ یہ اخبار والے ہمیشہ غلط زبان لکھتے ہیں۔ آفتاب کی جگہ آفتا بہ ہونا چاہیے تھا۔ آپ بلکہ صحیح فرماتے ہیں ۔

میں نے اور کچھ نہ کہا اس لیے کہ مجھے احساس تھا کہ کہیں میرا مذاق فاش نہ ہو جائے ۔ سارک کچھ اور ہی خیالات میں غرق تھا۔ اس کو سردار زور آور سنگھ کی دوستی کے واقعات یاد آ رہے تھے۔ ”مسٹ منٹو! ایسا دوست مجھے کبھی نہیں ملے گا۔ اس نے ہمیشہ میری مدد کی ہے۔ ہمیشہ میرے ساتھ انتہائی خلوص برتا ہے۔ پچھلے دنوں میں ہسپتال میں بیمار تھا۔ اس نے نرسوں سے بڑھ کر میری خدمت کی ۔ میرے گھر بار کا خیال رکھا۔ خورشیدا کیلی گھبرا جاتی، مگر اس نے ہر طرح دلجوئی کی۔ میری بچی کو گھنٹوں کھلاتا رہا۔ اس کے علاوہ میرے پاس بیٹھ کر کئی اخبار پڑھ کر سناتا رہا۔ میں اس کا شکریہ ادا نہیں کر سکتا ۔“

یہ سن کر سر دارز در آور سنگھ مسکرایا اور خورشید سے مخاطب ہوا۔ آج تمہارا خاوند بہت سنٹی میٹل ہو رہا ہے۔ ۔۔ میں نے کیا کیا تھا

جو میری تعریف کر رہا ہے ۔“ ساوک نے کہا۔ ” بکواس نہ کرو۔ تمہاری تعریف میں کر ہی نہیں سکتا۔ میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ تمہاری دوستی پر مجھے ناز ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ بچپن سے لے کر اب تک تم ایک سے رہے ہو۔ میرے ساتھ تمہارے سلوک میں کبھی فرق نہیں آیا ۔ میں نے سردار زور آور سنگھ کی طرف دیکھا۔ وہ یہ تعریفی کلمات یوں سن رہا تھا جیسے ریڈیو سے خبریں۔ جب ساوک بول چکا تو اس نے


2

80

مجھ سے پوچھا۔ " تو خورشید کو پروگرام مل جائیں گے نا ؟“ میں نے چونک کر جواب دیا ۔ جی۔۔۔۔۔۔۔ میں کوشش کروں گا۔“ سردار زور آور سنگھ نے ذرا حیرت سے کہا۔ کوشش ۔۔۔۔۔۔۔ یعنی ان کے لیے پروگرام حاصل کرنے کے لیے آپ کی کوشش کرنی کل صبح ان کو اپنے ساتھ لے جائیے ۔ میرا خیال ہے کہ ان کا گانا سنتے ہی میوزک ڈائریکٹر پڑے گی۔ آپ بھی کمال کرتے ہیں۔ اس مہینے میں ان کو کم از کم دو پروگرام دے دے گا۔ ہوں۔ اسٹیشن لے آؤں گا۔ ہمیں بڑی خوشی ہوگی ۔ مسز منٹو کو ضرور ساتھ لائے گا۔ کمرے کا نمبر وغیرہ درج تھا۔ میں اور میری بیوی اسی شام ٹیکسی میں تاج ہوٹل گئے ۔ کمرہ تلاش کرنے میں کوئی دقت نہ ہوئی ۔ سردار زور آور سنگھ وہاں موجود تھا ۔ ہم جب اندر کمرے میں داخل ہوئے تو وہ اپنے چھوٹے چھوٹے خشخشی بالوں میں کنگھی کر رہا تھا۔ بڑے تپاک سے ملا۔ میری بیوی اس کی بیوی کو دیکھنے کے لیے بے قرار تھی۔ چنانچہ اس نے پوچھا۔ سردار صاحب ! آپ کی مسز کہاں ہیں؟“

میں نے اس کی دل شکنی مناسب نہ سمجھی اور کہا ۔ یقینا ! لیکن خورشید نے سردار زور آور سنگھ سے کہا۔ میں صبح نہیں جا سکتی۔ بے بی صبح کو میرے بغیر گھر میں نہیں رہ سکتی۔ دو پہر کو البتہ جا سکتی

سردار زور آور سنگھ مجھ سے مخاطب ہوا ۔ منٹو صاحب ! واقعی بچی اس کو صبح بہت تنگ کرتی ہے میں کسی روز خورشید کو دو پہر کے وقت ریڈیو

خورشید کو دو پہر کے وقت ریڈیو اسٹیشن لانے کی نوبت نہ آئی کیونکہ میں نے دوسرے روز ہی ایک دم ارادہ کر لیا کہ میں دلی چھوڑ کر بمبئی چلا جاؤں گا چنانچہ میں اس سے اگلے دن استعفیٰ دے کر بمبئی روانہ ہو گیا۔ میری بیوی مجھ سے کچھ دن بعد چلی آئی۔ ہم مسز خورشٹ کا پڑیا اور سردار زور آور سنگھ کو بھول گئے۔

میں ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا۔ بیماری کے باعث اتفاق سے ایک روز میں وہاں نہ گیا۔ دوسرے روز وہاں پہنچا تو گیٹ کیپر نے مجھے ایک کاغذ دیا کہ کل ایک صاحب آپ سے ملنے آئے تھے۔ وہ یہ دے گئے ہیں۔ میں نے رقعہ پڑھا۔ سردار زور آور سنگھ کا تھا۔ مختصری تحریر تھی۔ میں اور میری بیوی آپ سے ملنے یہاں آئے مگر آپ موجود نہیں تھے ۔ ہم تاج ہوٹل میں ٹھہرے ہیں۔ اگر آپ تشریف لائیں تو

سردارزور آور سنگھ مسکرایا۔ باتھ روم میں ۔“ اس نے یہ کہا اور دوسرے کمرے سے خورشٹ نمودار ہوئی۔ میری بیوی اٹھ کر اس سے گلے ملی اور سب سے پہلا سوال اس سے یہ کیا۔

بچی کیسی ہے خورشید ؟

81

2

خورشٹ نے جواب دیا۔ اچھی ہے۔“

پھر میری بیوی نے اس سے پوچھا۔ ” ساوک کہاں ہیں ؟“

خورشٹ نے کوئی جواب نہ دیا۔ جب وہ اور میری بیوی پاس بیٹھ گئیں تو میں نے سردار زور آور سنگھ سے پوچھا۔ سردار صاحب! آپ

اپنی بیوی کو تو باہر نکالیے ۔“

ہیں۔“

سردار زور آور سنگھ مسکرایا ۔ خورشٹ کی طرف دیکھ کر اس نے کہا۔ خورشید میری بیوی کو باہر نکالو۔“ خورشٹ میری بیوی سے مخاطب ہو کر مسکرائی۔ ”میں نے سردار زور آور سنگھ سے شادی کر لی ہے۔ ہم یہاں ہنی مون منانے آئے

میری بیوی نے یہ سنا تو اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ کیا کہے۔ اٹھی اور میری ہاتھ پکڑ کر کہا۔ چلئے سعادت صاحب !“ اور ہم کمرے سے باہر تھے۔ خدا معلوم سردار زور آور سنگھ اور خورشٹ نے ہماری اس بد تمیزی کے متعلق کیا کہا ہوگا !


2

82

باسط

باسط بالکل رضا مند نہیں تھا، لیکن ماں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی۔ اول تو اس کو اتنی جلدی شادی کرنے کی خواہش نہیں تھی اس کے علاوہ لڑکی بھی اسے پسند نہیں تھی، جس سے اس کی ماں اس کی شادی کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ وہ بہت دیر تک ٹالتا رہا۔ جتنے بہانے بنا سکتا تھا اس نے بنائے لیکن آخر ایک روز اس کو ماں کی اٹل خواہش کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی پڑا۔ دراصل انکار کرتے کرتے وہ بھی تنگ آگیا تھا۔ چنانچہ اس نے دل میں سوچا۔ یہ بک بک ختم ہی ہو جائے تو اچھا ہے ہونے دو شادی کوئی قیامت تو نہیں ٹوٹ پڑے گی ۔۔ میں نبھالوں گا۔

اس کی ماں بہت خوش ہوئی۔ لڑکی والی اس کے عزیز تھے اور وہ عرصہ ہوا ان کو زبان دے چکی تھی۔ جب باسط نے ہاں کی تو وہ تاریخ یکی کرنے کے لیے لڑکی والوں کے ہاں گئی۔ انہوں نے ٹال مٹول کی تو باسط کی ماں کو بہت غصہ آیا۔ سعیدہ کی ماں میں نے اتنی مشکلوں سے باسط کو رضامند کیا ہے اب تم تاریخ کی نہیں کر رہی ہو شادی ہوئی تو اس مہینے کی ہیں کی ہوگی نہیں تو نہیں ہوگی۔ اور یہ بات سولہ آنے چکی ہے۔ سمجھ لیا ! دھمکی نے کام کیا۔ لڑکی کی ماں بال آخر راضی ہو گئی ۔ سب تیاریاں مکمل ہو ئیں۔ ہمیں کو دلہن گھر میں تھی ۔ باسط کو وہ پسند نہیں تھی، لیکن وہ اس کے ساتھ نبھانے کا فیصلہ کر چکا تھا چنانچہ وہ اس سے بڑی محبت سے پیش آیا۔ اس پر بالکل ظاہر نہ ہونے دیا کہ وہ اس سے شادی کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اور یہ کہ وہ زبردستی اس کے سر منڈھ دی گئی ہے۔ نئی دلہنیں عام طور پر بہت شرمیلی ہوتی ہیں۔ لیکن باسط نے محسوس کیا کہ سعیدہ ضرورت سے زیادہ شرمیلی ہے۔ اس کے اس شرمیلے پن میں کچھ خوف بھی تھا لیکن جیسے وہ باسط سے ڈرتی ہے۔ شروع شروع میں باسط نے سوچا کہ یہ چیز دور ہو جائے گی، مگر وہ بڑھتی ہی گئی۔ باسط نے اس کو چند روز کے لیے میکے بھیج دیا۔ واپس آئی تو اس کا خوف آلود شرمیلا پن ایک حد تک دور ہو چکا تھا۔ باسط نے سوچا ایک دو مرتبہ اور میکے جائے گی تو ٹھیک ہو جائے گی، مگر اس کا یہ قیاس غلط نکلا۔ سعیدہ پھر خوفزدہ رہنے لگی۔ باسط نے ایک روز اس سے پوچھا۔ سعیدہ تم ڈری ڈری کیوں رہتی ہو؟“ سعیدہ یہ سن کر چونگی ۔ نہیں تو ۔۔۔۔۔۔ نہیں تو


83 باسط نے اس سے بڑے پیار بھرے لہجے میں کہا ۔ " آخر بات کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ خدا کی قسم مجھے بڑی الجھن ہو تی ہے۔ کس بات کا ڈر ہے تمہیں؟ میری ماں اتنی اچھی ہے۔ وہ تم سے ساسوں کا سا سلوک نہیں کرتی۔ میں تم سے اتنی محبت کرتا ہوں ۔ پھر تم ایسی صورت کیوں بنائے رکھتی ہو کہ معلوم ہوتا ہے تمہیں یہ خوف ہے کہ کوئی تمہیں کچھ کہے گا ۔ یہ کہہ کر اس نے سعیدہ کا منہ چوما۔ سعیدہ خاموش رہی ۔ اس کی آنکھیں البتہ اور زیادہ خوفزدہ ہوگئیں۔ باسط نے اس کو اور پیار کیا اور کہا۔ ” تمہیں ہر وقت ہنستی رہنا چاہیے نواب ذرا ہو۔۔۔۔۔۔ ہنسو میری جان! سعیدہ نے ہننے کی کوشش کی۔ باسط نے پیار سے اس کو چھیکی دی۔ شاباش ۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح مسکراتا ہوا چہرہ ہونا چاہیے ہر

وقت !

باسط کی یہ محبت ظاہر ہے کہ بالکل مصنوعی تھی کیونکہ سعیدہ کے لیے اس کے دل میں کوئی جگہ نہیں تھی۔ لیکن وہ صرف اپنی ماں کی خاطر چاہتا تھا کہ سعیدہ سے اس کا رشتہ نا کام محبت نہ ہو۔ اس کی ماں اپنی شکست کبھی برداشت نہ کر سکتی۔ اس نے اپنی زندگی میں شکست کا منہ دیکھا ہی نہیں تھا۔ اس لیے باسط کی انتہائی کوشش یہی تھی کہ سعیدہ سے اس کی نبجھ جائے۔ چنانچہ اپنے دل میں سعیدہ کے لیے اس نے بڑے خلوص کے ساتھ مصنوعی محبت پیدا کر لی تھی۔ اس کی ہر آسائش کا خیال رکھتا تھا۔ اپنی ماں سے سعیدہ کی چھوٹی سی بات کی بھی تعریف کرتا تھا۔ جب وہ یہ محسوس کرتا کہ اس کی ماں بہت مطمئن ہے اس بات سے مطمئن ہے کہ اس نے باسط کا رشتہ ٹھیک جگہ کیا ہے تو اس کو دلی خوش ہوتی۔ شادی کو ایک مہینہ ہو گیا۔ اس دوران میں سعیدہ کئی مرتبہ میکے گئی۔ باسط کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ یہاں اس کا خوف آلود شرمیلا پن دور ہو جائے گا ۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ یہ دن بہ دن بڑھتا چلا جارہا تھا۔ اب تو سعید و وحشت زدہ دکھائی دیتی تھی۔ باسط حیران تھا کہ بات کیا ہے۔ اس کے بارے میں اس نے ماں سے کوئی بات نہ کی اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ وہ اس کو ڈانٹ پلاتیں۔ بکواس نہ کرو مجھے معلوم تھا تم ضرور ایک روز اس میں کیڑے ڈالو گے۔“

باسط نے سعیدہ ہی سے کہا۔ میری جان ! تم مجھے بتاتی کیوں نہیں ہو؟“

سعیدہ چونک اٹھی ۔ جی؟ اس کے چونکنے پر باسط نے یوں محسوس کیا جیسے اس نے سعیدہ کی کسی دکھتی رگ پر زور سے ہاتھ رکھ دیا تھا۔ لہجے میں اور زیادہ پیار بھر کے اس نے کہا۔ میں نے پوچھا تھا کہ اب تم اور زیادہ خوفزدہ رہنے لگی ہو آخر بات کیا ہے؟“ سعیدہ نے تھوڑے توقف کے بعد جواب دیا۔ بات تو کچھ بھی نہیں۔ میں ذرا بیمار ہوں ۔ مجھ نے مجھ سے کبھی ذکر ہی نہیں کیا ۔ کیا بیماری ہے؟۔


84

نگل پر سعیدہ نے دوپٹے کے کنارے کو انگلی پر لیٹتے ہوئے جواب دیا۔ امی جان علاج کرارہی ہیں میرا جلدی ٹھیک ہو جاؤں گی ۔“ باسط نے سعیدہ سے اور زیادہ دلچسپی لینا شروع کی تو اس نے دیکھا کہ وہ ہر روز چھپ کر کوئی دوا کھاتی ہے۔ ایک دن جب وہ اپنے قفل لگے ٹرنک سے دوا نکال کر کھانے والی تھی وہ اس کے پاس پہنچ گیا۔ وہ زور سے چونکی۔ سفوف کی کھلی ہوئی پڑیا اس کے ہاتھ سے گر پڑی۔

باسط نے اس سے پوچھا۔ ” یہ دوا کھاتی ہو؟“ سعیدہ نے تھوک نگل کر جواب دیا۔ ”جی ہاں ۔۔۔۔۔۔۔ امی جان نے حکیم صاحب سے منگوائی تھی ۔“ کچھ افاقہ ہے اس سے؟“

"جی ہاں ! تو کھاؤ۔۔۔۔۔۔۔ اگر آرام نہ آئے تو مجھ سے کہنا۔ میں ڈاکٹر کے پاس لے چلوں گا۔“ باسط چلا گیا۔

اس نے سوچا۔ اچھا ہے کوئی علاج تو ہو رہا ہے۔ خدا کرے اچھی ہو جائے۔ میرا خیال ہے یہ ڈرور کچھ نہیں بیماری ہے۔ دور ہو جائے گی انشاء اللہ !

اس نے سعیدہ کی اس بیماری کا اپنی ماں سے پہلی بار ذکر کیا تو وہ کہنے لگی ۔ " بکواس ہے۔ خدا کے فضل و کرم سے اچھی بھلی ہے۔ کیا

بیماری ہے اسے ؟“ باسط نے کہا۔ مجھے کیا معلوم امی جان ! یہ تو سعیدہ ہی بتا سکتی ہے آپ کو ۔ باسط کی ماں نے بڑی بے پروائی سے کہا۔ میں پوچھوں گی اس سے۔“ جب سعیدہ سے دریافت کیا تو اس نے جواب دیا ۔ کچھ نہیں خالہ جان ! سر میں درد رہتا تھا۔ امی جان نے حکیم صاحب سے دو امنگا دی تھی۔ اصل میں باسط صاحب بڑے وہی ہیں۔ ہر وقت کہتے رہتے ہیں کہ تم ڈری ڈری سی دکھائی دیتی ہو۔ ڈرکس بات کا ہوگا بھلا ؟ باسط کی ماں نے کہا ۔ بکواس کرتا ہے تم اس کی فضول باتوں کا خیال نہ کیا کرو۔“ چند روز کے بعد باسط نے محسوس کیا کہ سعیدہ بہت ہی زیادہ گھبرائی ہوئی ہے۔ اس کا اضطراب اب اس کے روئیں روئیں سے ظاہر ہوتا تھا۔ شام کے قریب اس نے باسط سے کہا۔ امی جان سے ملنے کو جی چاہتا ہے۔ مجھے وہاں چھوڑ آئے ۔ باسط نے جواب دیا۔ انہیں سعیدہ آج تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔“ سعیدہ نے اصرار کیا۔ " آپ مجھے وہاں چھوڑ آئیے ٹھیک ہو جاؤں گی ۔"


85

باسط نے انکار کر دیا ۔ وہاں طبیعت ٹھیک ہو سکتی ہے تو یہاں بھی ٹھیک ہو سکتی ہے۔ جاؤ آرام سے لیٹ جاؤ ۔ 2 باسط کی ماں آگئی۔ باسط نے اس سے کہا۔ امی جان! دیکھئے سعیدہ ضد کر رہی ہے طبیعت اس کی ٹھیک نہیں، کہتی ہے مجھے امی جان کے پاس لے چلو

باسط کی ماں نے بڑی بے پروائی سے کہا۔ ”کل چلی جانا سعیدہ ! سعیدہ نے اور کچھ نہ کہا۔ خاموش ہو کر باہر صحن میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد باسط باہر نکلا۔ سعیدہ صحن میں نہیں تھی۔ اس نے ادھر ادھر تلاش کیا مگر وہ نہ ملی۔ باسط نے سوچا اوپر کوٹھے پر ہوگی ۔ اوپر گیا تو غسل خانے کا دروازہ بند تھا کھٹکھٹا کر اس نے آواز دی ۔ سعیدہ! کوئی جواب نہ ملا تو پھر پکارا ۔ سعیدہ! اندر سے بڑی نحیف آواز آئی ۔ جی ! باسط نے پوچھا۔ کیا کر رہی ہو؟“ اور زیادہ نحیف آواز آئی ۔ نہار ہی ہوں ۔ باسط نیچے آگیا۔ سعیدہ کے بارے میں سوچتا با ہر گلی میں نکلا۔ موری کی طرف نظر پڑی تو اس میں خون ہی خون تھا اور یہ خون غسل خانے سے آرہا تھا جس میں سعیدہ نہا رہی تھی۔ باسط کے ذہن میں اوپر تلے کئی خیالات اوندھے سیدھے گرے پھر یہ گردان شروع ہو گئی۔ دوا ۔۔۔۔۔۔۔ خون . خون. خون. دوا ڈر دوا

خون ۔۔۔۔۔۔۔ ڈر!" پھر اس نے آہستہ آہستہ سوچنا شروع کیا۔ سعیدہ کی ماں شادی کی تاریخ کی نہیں کرتی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ ایک دو مہینے ٹھہر جاؤ۔ سعیدہ کا بار بار اپنی ماں سے ملنے جانا ۔ اس کا ہر وقت خوفزدہ رہنا دوا کھانا ۔ اور خاص طور پر آج بہت ہی زیادہ وحشت زدہ

رہنا۔

باسط سارا معاملہ سمجھ گیا۔ سعیدہ پیٹ سے تھی۔ جب وہ دلہن بن کر اس کے پاس آئی تھی، تو اس کی ماں کی یہ کوشش تھی کہ حمل گر جائے۔ چنانچہ آج وہ چیز ہوئی ۔ باسط نے سوچھا۔ ”کیا میں اوپر جاؤں ۔ جا کر سعیدہ کو دیکھوں ۔۔۔۔۔۔۔ اپنی ماں سے بات کروں؟

ماں کا سوچا تو اس کو خیال آیا کہ وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کر سکے گی۔ وہ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں ذلیل ہونا بھی گوارا نہیں کرے گی۔ ضرور کچھ کھا کر مر جائے گی۔ وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکا۔ اپنے کمرے میں گیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔


86 سعیدہ نے بہت ہمت سے کام لیا۔ باسط کے ساتھ چل کر باہر سڑک تک گئی۔ باسط نے تانگہ لیا اور اس کو اس کی ماں کے پاس چھوڑ آیا۔ ماں نے اس سے پوچھا۔ سعیدہ کہاں ہے؟“ کہ میں نے غلط جگہ تمہارا رشتہ کیا تھا۔ باسط نے کہا نہیں امی جان سعیدہ بہت اچھی لڑکی ہے۔“ اس کی ماں مسکرائی۔ میں نے تم سے نہیں کہا تھا کہ وہ بہت نیک لڑکی ہے تم اسے ضرور پسند کرو گے۔ پھر تھوڑی دیر چھالیا کاٹنے کے بعد ایک دم باسط سے مخاطب ہوئی ۔ اور ہاں باسط یہ اوپر غسل خانے میں خون کیسا ہے؟“ باسط سٹپٹا سا گیا۔ وہ۔ کچھ نہیں امی جان میری نکسیر پھوٹی تھی ۔“

کئی بار اس کو سعیدہ کا خیال آیا کہ وہ خدا معلوم کس حالت میں ہوگی۔ اس کے جسم پر اس کے دل و دماغ پر کیا کچھ بیتا ہوگا اور کیا بیت رہا ہو گا۔ کیسے اتنا بڑا راز چھپائے گی۔ کیا لوگ پہچان نہیں جائیں گے۔ جوں جوں وہ سعیدہ کے بارے میں سوچتا اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ بڑھتا جاتا۔ اس کو سعیدہ پر ترس آنے لگا۔ بے چاری معلوم نہیں بے ہوش پڑی ہے یا ہوش میں ہے۔ ہوش میں بھی اس پر جانے کیا گزر رہی ہو گی ۔ کیا وہ نیچے آسکے گی ؟

تھوڑی دیر کے بعد وہ اٹھ کر صحن میں گیا تو سعیدہ نیچے آگئی۔ اس کا رنگ بے حد زرد تھا اتنا زرد کہ وہ بالکل مردہ معلوم ہوتی تھی۔ اس سے بمشکل چلا جاتا تھا۔ ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔ کمر میں جیسے جان نہیں تھی۔ باسط نے اس کو دیکھا تو اس پر بہت ترس آیا۔ اندر سے برقع اٹھایا اور اس سے کہا۔ چلو میں تمہیں چھوڑ آؤں۔“

باسط نے جواب دیا ۔ "ضد کرتی تھی میں اسے چھوڑ آیا ہوں ۔“ باسط کی ماں نے اس کو ڈانٹا۔ " بکواس کرتے ہو ضد کرنے دی ہوتی۔ تم اس طرح اس کی عادتیں خراب کرو گے اور پھر مجھ سے کہو گے

ماں نے بڑے غصے سے کہا۔ ” کم بخت اگرم چیزیں نہ کھایا کرو۔ جب دیکھو جیبیں مونگ پھلی سے بھری ہیں ۔“ باسط کچھ دیر اپنی ماں کے ساتھ باتیں کرتا رہا۔ وہ اٹھ کر کہیں گئی تو باسط او پر غسل خانے میں گیا، پانی ڈال کر اچھی طرح صاف کیا۔ اس کے دل کو اس بات کا بڑا اطمینان تھا کہ اس نے اپنی ماں سے سعیدہ کے متعلق کوئی بات نہیں کی اور نہ اس نے سعیدہ پر یہ ظاہر ہونے دیا کہ وہ

اس کا راز جانتا ہے۔ وہ دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ سعیدہ کا راز ہمیشہ اس کے سینے میں دفن رہے گا۔ وہ کافی تکلیف اٹھا چکی تھی۔ باسط کے خیال کے مطابق اس کو اپنے کئے کی سزا مل چکی تھی۔ مزید سزا دینے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ خدا کرے وہ جلد تندرست ہو جائے ۔ اب اس کے چہرے پر وہ


87

الجھن پیدا کرنے والا خوف نہیں رہے گا۔ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ نیچے سے اس کی ماں کی چیخ کی آواز سنائی دی۔ باے لوٹا رکھ کر دوڑا نیچے گیا۔ سب کمرے دیکھے۔ ڈیوڑھی میں گیا تو اس کی ماں فرش پر اوندھی پڑی تھی مردہ۔ اس کے سامنے کوڑے والے لکڑی کے بکس میں ایک چھوٹا سا نامکمل بچہ کپڑے میں لپٹا پڑا تھا۔

باسط کو بے حد صدمہ ہوا۔ اس نے پہلے اس بچے کو اٹھایا۔ کپڑے میں اچھی طرح لپیٹا اور اندر جا کر بوٹ کے خلاف ڈبے میں بند کر

دیا۔ پھر ماں کو اندر چار پائی پر لٹایا اور اس کے سرہانے بیٹھ کر دیر تک روتا رہا۔ سعیدہ کو اطلاع پہنچی تو اس کو ماں کے ساتھ آنا پڑا۔ وہ اسی طرح زرد تھی۔ پہلے سے زیادہ نڈھال ۔ باسط کو بہت ترس آیا۔ اس سے کہا۔ سعیدہ جو اللہ کو منظور تھا ہو گیا۔ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں۔ رونا بند کرو اور اندر جا کر لیٹ جاؤ۔“ اندر جانے کی بجائے سعیدہ ڈیوڑھی میں گئی۔ جب واپس آئی تو اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ باسط خاموش رہا۔ سعیدہ نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ یہ آنسو صاف بتا رہے تھے کہ وہ باسط کا شکر یہ ادا کر رہی ہے۔ باسط نے اس سے بڑے پیار سے کہا۔ زیادہ رونا اچھا نہیں سعیدہ جو خدا کو منظور تھا ہو گیا۔

دوسرے روز اس نے بچے کو نہر کے کنارے گڑھا کھود کر دفنا دیا۔


2

88

شاردا

نذیر بلیک مارکیٹ سے وہسکی کی بوتل لانے گیا۔ بڑے ڈاک خانے سے کچھ آگے بندرگاہ کے پھاٹک سے کچھ ادھر سگریٹ والے کی دکان سے اس کو اسکاچ مناسب داموں پر مل جاتی تھی جب اس نے پینتیس روپے ادا کر کے کاغذ میں لیٹی ہوئی بوتل لی تو اس وقت گیارہ بجے تھے دن کے۔ یوں تو وہ رات کو پینے کا عادی تھا مگر اس روز موسم خوشگوار ہونے کے باعث وہ چاہتا تھا کہ صبح ہی سے شروع کر دے اور

رات تک پیار ہے۔ بوتل ہاتھ میں پکڑے وہ خوش خوش گھر کی طرف روانہ ہوا۔ اس کا ارادہ تھا کہ بوری بندر کے اسٹینڈ سے ٹیکسی لے گا۔ ایک پیگ اس میں بیٹھ کر پیئے گا اور ہلکے ہلکے سرور میں گھر پہنچ جائے گا۔ بیوی منع کرے گی تو وہ اس سے کہے گا ۔ موسم دیکھ کتنا اچھا ہے ۔ پھر وہ اسے وہ بھونڈا سا شعر سنائے گا۔

کی فرشتوں کی راه ابر نے بند جو کیجئے ثواب ہے آج وہ کچھ دیر ضرور چیخ کرے گی، لیکن بال آخر خاموش ہو جائے گی اور اس کے کہنے پر قیمے کے پراٹھے بنانا شروع کر دے گی۔ دکان سے وہ ہیں پچیس گز ر دور گیا ہو گا کہ ایک آدمی نے اس کو سلام کیا۔ نذیر کا حافظہ کمزور تھا۔ اس نے سلام کرنے والے آدمی کو نہ پہچانا، لیکن اس پر ظاہر نہ کیا کہ وہ اس کو نہیں جانتا، چنانچہ بڑے اخلاق سے کہا۔ کیوں بھئی کہاں ہوتے ہو؟ کبھی نظر ہی نہیں آئے؟“ اس آدمی نے مسکرا کر کہا۔ ” حضور! میں تو یہیں رہتا ہوں۔ آپ ہی کبھی تشریف نہیں لائے ۔ نذیر نے اس کو پھر بھی نہ پہچانا ۔ میں اب جو تشریف لے آیا ہوں ۔ تو چلئے میرے ساتھ!

نذیر اس وقت بڑے اچھے موڈ میں تھا۔ چلو"

اس آدمی نے نذیر کے ہاتھ میں بوتل دیکھی اور معنی خیز طریقے پر مسکرایا ۔ باقی سامان تو آپ کے پاس موجود ہے۔“ یہ فقرہ سن کر نذیر نے فورا ہی سوچا کہ وہ دلال ہے۔ تمہارا نام کیا ہے؟


کریم ۔۔۔۔۔۔۔ آپ بھول گئے تھے؟“ 2 نذیر کو یاد آ گیا کہ شادی سے پہلے ایک کریم اس کے لیے اچھی اچھی لڑکیاں لایا کرتا تھا۔ بڑا ایماندار دلال تھا۔ اس کو غور سے دیکھا تو صورت جانی پہچانی معلوم ہوئی۔ پھر پچھلے تمام واقعات اس کے ذہن میں ابھر آئے ۔ کریم نے اس سے معذرت چاہی ۔ ” یار میں نے تمہیں پہچانا نہیں تھا۔ میرا خیال ہے کہ غالباً چھ برس ہو گئے ہیں تم سے ملے ہوئے ۔“

89

جی ہاں !

تمہارا اڈہ تو پہلے گرانٹ روڈ کا نا کا ہوا کرتا تھا۔“ کریم نے بیڑی سلگائی اور ذرا فخر سے کہا۔ ” وہ میں نے چھوڑ دیا۔ آپ کی دعا سے اب یہاں ایک ہوٹل میں دھندا شروع کر رکھا

نذیر نے اس کو داد دی۔ یہ بہت اچھا کیا ہے تم نے ۔“ کریم نے اور زیادہ فخریہ لہجے میں کہا۔ دس چھو کریاں ہیں۔ نذیر نے اس کو چھیڑنے کے انداز میں کہا۔ ”تم لوگ یہی کہا کرتے ہو۔“ ۔ ایک بالکل نئی ہے۔ کریم کو بر الگا۔ قسم قرآن کی میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔ سور کھاؤں اگر وہ چھوکری بالکل نئی نہ ہو۔“ پھر اس نے اپنی آواز دھیمی کی اور نذیر کے کان کے ساتھ منہ لگا کر کہا۔ آٹھ دن ہوتے ہیں جب پہلا پسنجر آیا تھا، جھوٹ بولوں تو میرا منہ کالا ہو۔

نذیر نے پوچھا۔ کنواری تھی ؟“ جی ہاں ۔۔۔۔۔۔۔ دو سو روپے لیے تھے اس پنجر سے۔“ نذیر نے کریم کی پسلیوں میں ایک ٹھونکا دیا۔ تو یہیں بھاؤ پکا کرنے لگے ۔“ کریم کو نذیر کی یہ بات پھر بری لگی ۔ قسم قرآن کی سور ہو جو آپ سے بھاؤ کرئے آپ تشریف لے چلئے۔ آپ جو بھی دیں گئے مجھے قبول ہو گا۔ کریم نے آپ کا بہت نمک کھایا ہے ۔“ نذیر کی جیب میں اس وقت ساڑھے چار سو روپے تھے۔ موسم اچھا تھا موڈ بھی اچھا تھا۔ وہ چھ برس پیچھے کے زمانے میں چلا گیا۔ بن پیئے مسرور تھا۔ چلو یار آج تمام عیاشیاں رہیں۔۔۔۔۔۔۔ ایک بوتل کا اور بندوبست ہو جانا چاہیے۔“ کریم نے پوچھا۔ آپ کتنے میں لائے ہیں یہ بوتل ؟

پینتیس روپے میں ۔ کون سا برانڈ ہے؟“ جونی واکر

90

2

کریم نے چھاتی پر ہاتھ مار کر کہا۔ ” میں آپ کو تیس میں لا دوں گا ۔“

نذیر نے دس دس کے تین نوٹ نکالے اور کریم کے ہاتھ میں دے دیئے۔ ” نیکی اور پوچھ پوچھ ۔۔۔۔۔۔۔ یہ لو۔ مجھے وہاں بٹھا کر تم

پہلا کام یہی کرنا۔ تم جانتے ہو میں ایسے معاملوں میں اکیلا نہیں پیا کرتا ۔

کریم مسکرایا ۔ اور آپ کو یاد ہو گا میں ڈیڑھ پیگ سے زیادہ نہیں پیا کرتا ۔" نذیر کو یاد آ گیا کہ کریم واقعی آج سے چھ برس پہلے صرف ڈیڑھ پیگ لیا کرتا تھا۔ یہ یاد کر کے نذیر بھی مسکرایا ۔ آج دور ہیں ۔“ جی نہیں ڈیڑھ سے زیادہ ایک قطرہ بھی نہیں ۔“

کریم ایک تھرڈ کلاس بلڈنگ کے پاس ٹھہر گیا۔ جس کے ایک کونے میں چھوٹے سے میلے بورڈ پر میرینا ہوٹل“ لکھا تھا۔ نام تو خوبصورت تھا مگر عمارت نہایت ہی غلیظ تھی ۔ سیڑھیاں شکستہ۔ نیچے سود خور پٹھان بڑی بڑی شلواریں پہنے کھاٹوں پر لیٹے ہوئے تھے۔ پہلی منزل پر کر چین آباد تھے۔ دوسری منزل پر جہاز کے بے شمار خلاصی ۔ تیسری منزل ہوٹل کے مالک کے پاس تھے۔ چوتھی منزل پر کونے کا ایک کمرہ کریم کے پاس تھا، جس میں کئی لڑکیاں مرغیوں کی طرح ایک ڈربے میں بیٹھی تھیں ۔ کریم نے ہوٹل کے مالک سے چابی منگوائی۔ ایک بڑا لیکن بے ہنگم سا کمرہ کھولا جس میں لوہے کی ایک چار پائی ایک کرسی اور تپائی پڑی تھی۔ تین اطراف سے یہ کمرہ کھلا تھا، یعنی بے شمار کھڑکیاں تھیں۔ جن کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے۔ اور کچھ نہیں لیکن ہوا کی بہت افراط تھی۔

کریم نے آرام کرسی جو بے حد میلی تھی ایک اس سے زیادہ میلے کپڑے سے صاف کی اور نذیر سے کہا۔ " تشریف رکھئے۔ لیکن میں یہ عرض کردوں اس کمرے کا کرایہ دس روپے ہو گا ۔“

نذیر نے کمرے کو اب ذرا غور سے دیکھا ۔ دس روپے زیادہ ہیں یار کریم نے کہا۔ بہت زیادہ ہیں، لیکن کیا کیا جائے۔ سالا ہوٹل کا مالک ہی بنیا ہے۔ ایک پیسہ کم نہیں کرتا۔ اور نذیر صاحب موج شوق

کرنے والے آدمی بھی زیادہ کی پرواہ نہیں کرتے ۔“

نذیر نے کچھ سوچ کر کہا۔ ” تم ٹھیک کہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔ کرایہ ڈینگی دے دوں ؟“ جی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ آپ پہلے چھوکری تو دیکھئے ۔ یہ کہہ کر وہ اپنے ڈربے میں چلا گیا۔


91

تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک نہایت ہی شرمیلی لڑکی تھی۔ گھر یلو قسم کی ہندولڑ کی سفید دھوتی ہے اندھے تھی۔ عمر چودہ برس کے لگ بھگ ہو گی ۔ خوش شکل تو نہیں تھی، لیکن بھولی بھالی تھی۔ کریم نے اس سے کہا۔ ” بیٹھ جاؤ۔ یہ صاحب میرے دوست ہیں۔ بالکل اپنے آدمی ہیں ۔ لڑکی نظریں نیچی کئے لوہے کی چار پائی پر بیٹھ گئی۔ کریم یہ کہ کر چلا گیا۔ اپنا اطمینان کر لیجئے نذیر صاحب میں گلاس اور سوڈا لاتا

ہوں۔ نذیر آرام کرسی پر سے اٹھ کر لڑکی کے پاس بیٹھ گیا۔ وہ سمٹ کر ایک طرف ہٹ گئی۔ نذیر نے اس سے چھ برس پہلے کے انداز میں

پوچھا۔ ” آپ کا نام؟ لڑکی نے کوئی جواب نہ دیا۔ نذیر نے آگے سرک کر اس کے ہاتھ پکڑے اور پھر پوچھا۔ ” آپ کا نام کیا ہے جناب؟ لڑکی نے ہاتھ چھڑا کر کہا۔ شکنتا

اور نذیر کو شکنتلا یاد آ گئی جس پر راجہ دشنیت عاشق ہوا تھا ۔ میرا نام دشنیت ہے۔“ نذیر مکمل عیاشی پر تلا ہوا تھا۔ لڑکی نے اس کی بات سنی اور مسکرا دی۔ اتنے میں کریم آگیا۔ اس نے نذیر کو سوڈے کی چار بوتلیں دکھا ئیں جو ٹھنڈی ہونے کے باعث پسینہ چھوڑ رہی تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ آپ کو روجر کا سوڈا پسند ہے۔ برف میں لگا ہوا لے کر آیا ہوں ۔ نذیر بہت خوش ہوا ۔ تم کمال کرتے ہو۔ پھر وہ لڑکی سے مخاطب ہوا ۔ جناب آپ بھی شوق فرما ئیں گی ؟“ لڑکی نے کچھ نہ کہا کریم نے جواب دیا۔ نذیر صاحب ! یہ نہیں پیتی۔ آٹھ دن تو ہوئے ہیں اس کو یہاں آئے ہوئے ۔“ یہ سن کر نذیر کو افسوس سا ہوا ۔ یہ تو بہت بری بات ہے۔“

کریم نے وہسکی کی بوتل کھول کر نذیر کے لیے ایک پیگ بنایا اور اس کو آنکھ مار کر کہا۔ ” آپ راضی کر لیجئے اسے ۔“ نذیر نے ایک ہی جرمے میں گلاس ختم کیا۔ کریم نے آدھا پیگ لیا۔ فورا ہی اس کی آواز نشہ آلود ہو گئی ۔ ذرا جھوم کر اس نے نذیر سے

پوچھا ۔ چھوکری پسند ہے تا آپ کو؟“ نذیر نے سوچا کہ لڑکی اسے پسند ہے کہ نہیں، لیکن وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکا۔ اس نے شکنتلا کی طرف غور سے دیکھا۔ اگر اس کا نام شکنتلا نہ ہوتا تو بہت ممکن ہے وہ اسے پسند کر لیتا ۔ وہ شکنتلا جس پر راجہ دشمنیت شکار کھیلتے کھیلتے عاشق ہوا تھا، بہت ہی خوبصورت تھی ۔ کم از کم کتابوں میں تو یہی درج تھا کہ وہ چندے آفتاب چندے ماہتاب تھی، آہو چشم تھی۔ نذیر نے ایک بار پھر اپنی شکنتلا کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں بری نہیں تھیں ۔ آہو چشم تو نہیں تھیں، لیکن اس کی آنکھیں اس کی اپنی آنکھیں تھیں۔ کالی کالی اور بڑی بڑی۔ اس نے اور کچھ نہ سوچا اور کریم


92

سے پوچھا۔ ٹھیک ہے یار۔۔۔۔۔۔ بولو معاملہ کہاں طے ہوتا ہے؟“ کریم نے آدھ پیگ اپنے لیے انڈیلا اور کہا۔ ” سوروپے!“ نذیر نے سوچنا بند کر دیا تھا۔ ٹھیک ہے؟“ کریم اپنا دوسرا آدھا پیک پی کر چلا گیا۔ نذیر نے اٹھ کر دروازہ بند کر دائی ۔ شکنتلا کے پاس بیٹھا تو وہ گھر اسی گئی۔ نذیر نے اس کا پیار لینا چاہا تو وہ اٹھ کر کھڑی ہو گئی ۔ نذیر کو اس کو یہ حرکت نا گوار محسوس ہوئی لیکن اس نے پھر کوشش کی۔ بازو سے پکڑ کر اس کو اپنے پاس بٹھایا۔ زبردستی اس کو چوما۔ بہت ہی بے کیف سلسلہ تھا البتہ وہسکی کا نشہ اچھا تھا۔ وہ اب تک چھ پیگ پی چکا تھا اور اس کو افسوس تھا کہ اتنی مہنگی چیز بالکل بے کار گئی ہے اس لیے کہ شکنتلا بالکل الہڑ تھی۔ اس کو ایسے معاملوں کے آداب کی کوئی واقفیت ہی نہیں تھی۔ نذیر ایک اناڑی تیراک کے ساتھ ادھر ادھر بے کا رہاتھ پاؤں مارتا رہا۔ آخرا کتا گیا۔ دروازہ کھول کر اس نے کریم کو آواز دی جو اپنے ڈربے میں مرغیوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ آواز سن کر دوڑا آیا ۔ کیا بات ہے نذیر صاحب؟ نذیر نے بڑی نا امیدی سے کہا۔ کچھ نہیں یا زیہ اپنے کام کی نہیں ہے۔"

2

کیوں؟

کچھ بجھتی ہی نہیں ۔ کریم نے شکنتلا کو الگ لے جا کر بہت سمجھایا۔ مگر وہ نہ سمجھ سکی۔ شرمائی بجائی دھوتی سنبھالتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ کریم نے اس پر

کہا۔ ” میں ابھی حاضر ہوتا ہوں ۔ نذیر نے اس کو روکا۔ جانے دو۔ ۔ کوئی اور لے آؤ۔ لیکن اس نے فورا ہی ارادہ بدل دیا۔ وہ جو تمہیں روپے دیئے تھے اس کی بوتل لے آؤ ور شکنتلا کے سو جتنی لڑکیاں اس وقت موجود ہیں انہیں یہاں بھیج دو۔ میرا مطلب ہے جو پیتی ہیں۔ آج اور کوئی سلسلہ

نہیں ہوگا۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کروں گا اور بس!

کریم نذیر کو اچھی طرح سمجھتا تھا۔ اس نے چار لڑکیاں کمرے میں بھیج دیں نذیر نے ان سب کو سرسری نظر سے دیکھا کیونکہ وہ اپنے

دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ پروگرام صرف پینے کا ہو گا۔ چنانچہ اس نے ان لڑکیوں کے لیے گلاس منگوائے اور ان کے ساتھ پینا شروع کر

دی۔ دو پہر کا کھانا ہوٹل سے منگوا کر کھایا اور شام کے چھ بجے تک ان لڑکیوں سے باتیں کرتا رہا۔ بڑی فضول قسم کی باتیں، لیکن نذیر خوش

تھا۔ جو کوفت شکنتلا نے پیدا کی تھی دور ہو گئی تھی۔ آدھی بوتل باقی تھی وہ ساتھ لے کر گھر چلا گیا۔ پندرہ روز کے بعد پھر موسم کی وجہ سے اس کا جی چاہا کہ سارا دن پی جائے۔ سگریٹ

93

والے کی دکان سے خریدنے کی بجائے اس نے سوچا کیوں نہ کریم سے ملوں وہ تیس میں لے دے گا۔ چنانچہ وہ اس ہوٹل میں پہنچا۔ اتفاق سے کریم مل گیا۔ اس نے ملتے ہی بہت ہولے سے کہا۔ نذیر صاحب اشکنتلا کی بڑی بہن آئی ہوئی ہے۔ آج صبح کی گاڑی سے پہنچی ہے۔ بہت ٹیلی ہے ۔ مگر آپ اس کو ضرور راضی کر لیں گے۔“ نذیر کچھ سوچ نہ سکا۔ اس نے اپنے دل میں اتنا کہا۔ ” چلو دیکھ لیتے ہیں۔ لے آؤ۔ یہ کہہ کر اس نے تیس روپے جیب سے نکال کر کریم کو دیئے۔ لیکن اس نے کریم سے کہا۔ ” تم پہلے یا روسکی کریم نے نوٹ لے کر نذیر سے کہا۔ میں لے آتا ہوں آپ اندر کمرے میں بیٹھئے ۔“ نذیر کے پاس صرف دس روپے تھے۔ لیکن وہ کمرے کا دروازہ کھلوا کر بیٹھ گیا۔ اس نے سوچا کہ وہسکی کی بوتل لے کر ایک نظر شکنتا! کی بہن کو دیکھ کر چل دے گا۔ جاتے وقت دور و پے کریم کو دے دے گا۔ کریم داخل ہوا۔ اس نے نذیر کے کان کے ساتھ منہ لگا کر ہولے سے کہا۔ " نذیر صاحب! آ رہی ہے لیکن آپ ہی رام کیجئے گا

تین طرف سے کھلے ہوئے ہوادار کمرے میں نہایت ہی میلی کرسی پر بیٹھ کر اس نے سگریٹ سلگایا اور اپنی ٹانگیں پلنگ پر رکھ دیں۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد آہٹ ہوئی۔

اے۔"

یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ پانچ منٹ کے بعد ایک لڑکی جس کی شکل وصورت قریب قریب شکنتلا سے ملتی تھی، تیوری چڑھائے، شکنتلا کے سے انداز میں سفید دھوتی پہنے کمرے میں داخل ہوئی۔ بڑی بے پروائی سے اس نے ماتھے کے قریب ہاتھ لے جا کر ” آداب“ کہا اور لو ہے کے پلنگ پر بیٹھ گئی۔ نذیر نے یوں محسوس کیا کہ وہ اس سے لڑنے آئی ہے۔ چھ برس پیچھے کے زمانے میں میں ڈبکی لگا کر وہ اس سے مخاطب ہوا۔ آپ شکنتلا کی بہن ہیں ؟ اس نے بڑے تیکھے اور خفگی آمیز لہجے میں کہا۔ جی ہاں ! نذیر تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گیا۔ اس کے بعد اس لڑکی کو جس کی عمر شکنتلا سے غالباً تین برس بڑی تھی بڑے غور سے دیکھا۔ نذیر کیا یہ حرکت اس کو بہت ناگوار محسوس ہوئی ۔ وہ بڑے زور سے ٹانگ ہلا کر اس سے مخاطب ہوئی ۔ ” آپ مجھ سے کیا کہنا چاہتے ہیں؟“ نذیر کے ہونٹوں پر چھ برس پیچھے کی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔ " جناب! آپ اس قدر ناراض کیوں ہیں؟“ وہ برس پڑی۔ میں ناراض کیوں نہ ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ آپ کا کریم میری بہن کو جے پور سے اڑا لایا ہے۔ بتائیے آپ میرا خون نہیں کھولے گا۔ مجھے معلوم ہوا کہ آپ کو بھی وہ پیش کی گئی تھی ۔“


94

نذیر کی زندگی میں ایسا معاملہ کبھی نہیں آیا تھا۔ کچھ دیر سوچ کر اس نے لڑکی سے بڑے خلوص کے ساتھ کہا۔ شکنتلا کو دیکھتے ہی میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ یہ لڑکی میرے کام کی نہیں بہت الہڑ ہے۔ مجھے ایسی لڑکیاں بالکل پسند نہیں ۔ آپ شاید بر اما نہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ میں ان عورتوں کو بہت زیادہ پسند کرتا ہوں جو مرد کی ضروریات کو بجھتی ہوں۔“

اس نے کچھ نہ کہا۔ نذیر نے اس سے دریافت کیا۔ ” آپ کا نام؟ شکنتلا کی بڑی بہن نے مختصراً کہا۔ " شاردا نذیر نے پھر اس سے پوچھا ۔ آپ کا وطن؟“ جے پور اس کا لہجہ بہت تیکھا اور خفگی آلود تھا۔ یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اس کو اچانک اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔ وہ کچھ کہنے بھی نہ پائی تھی کہ نذیر اس سے مخاطب ہوا۔ یہ قصور میرا ہے اس کی سزا میں بھگتنے کے لیے تیار ہوں ۔“ وہ ایک دم ماں بن گئی ۔ منی رو رہی ہے دودھ کے لیے ۔“ یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔

نذیر نے مسکرا کر اس سے کہا۔ دیکھئے آپ کو مجھ سے ناراض ہونے کا کوئی حق نہیں۔ کریم نے اگر کوئی زیادتی کی ہے تو آپ اسے سزا دے سکتی ہیں، لیکن میرا کوئی قصور نہیں ۔

لڑکی کے ماتھے پر بے شمار تبدیلیاں نمودار ہوئیں۔ اس نے تین چار مرتبہ زمین پر تھوکا ۔ غالباً گالیاں دینے والی تھی، لیکن چپ ہوگئی۔

اٹھ کھڑی ہوئی لیکن فورا ہی بیٹھ گئی۔ نذیر نے چاہا کہ وہ کچھ کہے ۔ بتائیے آپ مجھے کیا سزا دینا چاہتی ہیں؟“ وہ کچھ کہنے والی تھی کہ ڈربے سے کسی بچے کے رونے کی آواز آئی۔ لڑکی اٹھی۔ نذیر نے اسے روکا۔ کہاں جارہی ہیں آپ؟“

نذیر نے اس کے بارے میں سوچنے کی کوشش کی مگر کچھ نہ سوچ سکا۔ اتنے میں کریم وہسکی کی بوتل اور سوڈے لے کر آگیا۔ اس نے نذیر کے لیے سوڈا ڈالا۔ اپنا گلاس ختم کیا اور نذیر سے راز دارانہ لہجے میں پوچھا۔ کچھ باتیں ہوئیں شاردا سے؟ میں نے تو سمجھا تھا کہ آپ نے پٹا لیا ہوگا۔

نذیر نے مسکرا کر جواب دیا۔ بڑی فصیلی عورت ہے۔“ جی ہاں ۔۔۔۔۔۔۔ صبح آئی ہے میری جان کھا گئی ہے۔ آپ ذرا اس کو رام کریں ۔ شکنتلا کو د یہاں آئی تھی اس لیے کہ اس کا باپ


95

اس کی ماں کو چھوڑ چکا ہے۔ اور اس شاردا کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ اس کا پتی شادی کے فورا بعد ہی اس کو چھوڑ کر خدا معلوم کہاں چلا گیا ہے۔ اب اکیلی اپنی بچی کے ساتھ ماں کے پاس رہتی ہے۔ آپ منا لیجئے نا اس کو ۔“ نذیر نے اس سے کہا۔ منانے کی کیا بات ہے؟“ کریم نے اس کو آنکھ ماری ۔ سالی مجھ سے تو مانتی نہیں جب سے آئی ہے ڈانٹ رہی ہے۔“ اتنے میں شمار دا اپنی ایک سال کی بچی کو گود میں اٹھائے اندر کمرے میں آئی ۔ کریم کو غصے سے دیکھا۔ اس نے آدھا پیگ پیا اور باہر چلا گیا۔

منی کو بہت زکام تھا۔ ناک بہت بری طرح بہہ رہی تھی۔ نذیر نے کریم کو بلایا اور اس کو پانچ کا نوٹ دے کر کہا۔ ” جاؤ ایک وکس کی

بوتل لے آؤ۔“

کریم نے پوچھا۔ وہ کیا ہوتی ہے؟“

نذیر نے اس سے کہا۔ زکام والی دوا ہے ۔ یہ کہ کر اس نے ایک پرزے پر اس دوا کا نام لکھ دیا۔ کسی بھی سٹور سے مل جائے گی ۔“

جی اچھا کہہ کر کریم چلا گیا۔ نذیر منی کی طرف متوجہ ہوا۔ اس کو بچے بہت اچھے لگتے تھے۔ منی خوش شکل نہیں تھی لیک کم سنی کے

باعث نذیر کے لیے دلکش تھی۔ اس نے اس کو گود میں لے لیا۔ ماں سے سو نہیں رہی تھی۔ سر میں ہولے ہولے انگلیاں پھیر کر اس کو سلا دیا اور شاردا سے کہا۔ اس کی ماں تو میں ہوں۔" شاردا مسکرائی ۔ لائیے میں اس کو اندر چھوڑ آؤں۔“ شاردا اس کو اندر لے گئی اور چند منٹ کے بعد واپس آگئی ۔ اب اس کے چہرے پر غصے کے آثار نہیں تھے۔ نذیر اس کے پاس بیٹھ گیا۔ تھوڑی دیر وہ خاموش رہا۔ اس کے بعد اس نے شاردا سے پوچھا۔ ”کیا آپ مجھے اپنا پتی بننے کی اجازت دے سکتی ہیں؟ اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر اس کو اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا۔ شار دانے غصے کا اظہار نہ کیا ۔ جواب دیجئے جناب ! شاردا خاموش رہی۔ نذیر نے اٹھ کر پیگ پیا تو شاردانے ناک سکوڑ کر اس سے کہا۔ مجھے اس چیز سے نفرت ہے ۔“ نذیر نے ایک پیگ گلاس ڈالا۔ اس میں سوڈا مل کر کے اٹھایا اور شاردا کے پاس بیٹھ گیا۔" آپ کو اس سے نفرت ہے کیوں؟“ شمار دانے مختصر سا جواب دیا۔ بس ہے۔ تو آج سے نہیں رہے گی۔ یہ لیجئے ۔ یہ کہہ کر اس نے گلاس شاردا کی طرف بڑھا دیا۔ میں ہر گز نہیں پیوں گی۔

2

96

میں کہتا ہوں ، تم ہرگز انکار نہیں کرو گی ۔“ شار دانے گلاس پکڑ لیا۔ تھوڑی دیر تک عجیب نگاہوں سے دیکھتی رہی، پھر نذیر کی طرف مظلومانہ نگاہوں سے دیکھا اور ناک انگلیوں سے بند کر کے سارا گلاس غٹاغٹ پی گئی۔ قے آنے کو تھی مگر اس نے روک لی۔ دھوتی کے پلو سے اپنے آنسو پونچھ کر اس نے نذیر سے کہا۔ یہ پہلی اور آخری بار ہے۔ لیکن میں نے کیوں پی؟ نذیر نے اس کے گیلے ہونٹ چوسے اور کہا۔ ” یہ مت پوچھو۔ یہ کہہ کر اس نے دروازہ بند کر دیا۔ شام کو سات بجے اس نے دروازہ کھولا ۔ کریم آیا تو شاردا نظریں جھکائے باہر چلی گئی۔ کریم بہت خوش تھا۔ اس نے نذیر سے کہا۔ آپ نے کمال کر دیا۔ آپ سے سو تو نہیں مانگتا پچاس دے دیجئے ۔“ نذیر شمار دا سے بے حد مطمئن تھا۔ اس قدر مطمئن کہ وہ گزشتہ تمام عورتوں کو بھول چکا تھا۔ وہ اس کے جنسی سوالات کا سو فیصد صحیح جواب تھی۔ اس نے کریم سے کہا۔ ” میں کل ادا کروں گا۔ ہوٹل کا کرایہ بھی کل چکاؤں گا۔ آج میرے پاس وہسکی منگانے کے بعد صرف دس

روپے باقی تھے۔“ کریم نے کہا۔ "کوئی وائدہ نہیں ۔ میں تو اس بات سے بہت خوش ہوں کہ آپ نے شاردا سے معاملہ طے کر لیا۔ حضور!

میری جان کھا گئی تھی ۔ اب شکنتلا سے وہ کچھ نہیں کہہ سکتی۔“ کریم چلا گیا شاردا آئی۔ اس کی گود میں منی تھی۔ نذیر نے اس کو پانچ روپے دیئے لیکن شاردا نے انکار کر دیا۔ اس پر نذیر نے اس سے مسکرا کر کہا۔ میں اس کا باپ ہوں ، تم یہ کیا کر رہی ہو۔

شمار دانے روپے لے لیے بڑی خاموشی کے ساتھ ۔ شروع شروع میں وہ بہت باتونی معلوم ہوتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ باتوں کے دریا بہا

دے گی۔ مگر اب وہ بات کرنے سے گریز کرتی تھی۔ نذیر نے اس کی بچی کو گود میں لے کر پیار کیا اور جاتے وقت شاردا سے کہا۔ ”لو بھئی

شاردا میں چلا ۔ کل نہیں تو پرسوں ضرور آؤں گا۔ لیکن نذیر دوسرے روز ہی آگیا۔ شاردا کے جسمانی خلوص نے اس پر جادو سا کر دیا تھا۔ اس نے کریم کو پچھلے روپے ادا کئے۔ ایک بوتل منگوائی اور شاردا کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اس کو پینے کے لیے کہا تو وہ بولی۔ " میں نے کہہ دیا تھا کہ وہ پہلا اور آخری گلاس تھا۔“ نذیرا کیلا پیتا رہا۔ صبح گیارہ بجے سے وہ شام سات بجے تک ہوٹل کے اس کمرے میں شاردا کے ساتھ رہا۔ جب گھر لوٹا وہ بے حد مطمئن تھا، پہلے روز سے بھی زیادہ مطمئن ۔ شاردا اپنی واجبی شکل وصورت اور کم گوئی کے باوجود اس کے شہوانی حواس پر چھا گئی تھی۔ نذیر بار بار سوچتا تھا ۔ یہ کیسی عورت ہے۔ میں نے اپنی زندگی میں ایسی خاموش، مگر جسمانی طور پر ایسی پر گو عورت نہیں دیکھی ۔“


97

نذیر نے ہر دوسرے دن شاردا کے پاس جانا شروع کر دیا۔ اس کو روپے پیسے سے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ نذیر چلے چھ روپے کریم کو دیتا تھا۔ دس روپے ہوٹل والا لے جاتا تھا۔ باقی پچاس میں سے تقریباً تیرہ روپے کریم اپنی کمیشن وضع کر لیتا تھا۔ مگر شار دانے اس کے متعلق نذیر سے کبھی ذکر نہیں کیا تھا۔

دو مہینے گزر گئے۔ نذیر کے بجٹ نے جواب دے دیا۔ اس کے علاوہ اس نے بڑی شدت سے محسوس کیا کہ شاردا اس کی ازدواجی زندگی میں بہت بری طرح حائل ہو رہی ہے۔ وہ بیوی کے ساتھ سوتا ہے تو اس کو ایک کمی محسوس ہوتی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے بجائے شار دا ہو۔ یہ بہت بری بات ہے۔ نذیر کو چونکہ اس کا احساس تھا اس لیے اس نے کوشش کی کہ شاردا کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح ختم ہو جائے۔ چنانچہ اس نے شار داہی سے کہا۔ شاردا میں شادی شدہ آدمی ہوں۔ میری جتنی جمع پونچھی تھی، ختم ہوگئی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا میں کیا کروں۔ تمہیں چھوڑ بھی نہیں سکتا ۔ حالانکہ چاہتا ہوں کہ ادھر کا کبھی رخ نہ کروں ۔“

شار دانے یہ سنا تو خاموش ہو گئی۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد کہا۔ جتنے روپے میرے پاس ہیں، آپ لے سکتے ہیں۔ صرف مجھے جے پور کا کرایہ دے دیجئے تا کہ میں شکنتلا کو لے کر واپس چلی جاؤں۔“

نذیر نے اس کا پیار لیا اور کہا۔ " بکواس نہ کرو تم میرا مطلب نہیں سمجھیں۔ بات یہ ہے کہ میرا روپیہ بہت خرچ ہو گیا بلکہ یوں کہو کہ ختم ہو

گیا ہے۔ میں یہ سوچتا ہوں کہ تمہارے پاس کیسے آسکوں گا۔“

شار دانے کوئی جواب ندویا۔ نذیر ایک دوست سے قرض لے کر جب دوسرے روز ہوٹل میں پہنچا تو کریم نے بتایا کہ وہ جے پور جانے کے لیے تیار بیٹھی ہے۔ نذیر نے اس کو بلایا۔ مگر وہ نہ آئی۔ کریم کے ہاتھ اس نے بہت سے نوٹ بھجوائے اور یہ کہا۔ ” آپ یہ روپے لے اور مجھے اپنا ایڈریس دے دیجئے ۔ لیجئے۔

نذیر نے کریم کو اپنا ایڈریس لکھ کر دے دیا اور روپے واپس کر دیئے ۔ شاردا آئی۔ گود میں منی تھی۔ اس نے آداب عرض کیا اور کہا۔ میں آج شام کو جے پور جا رہی ہوں ۔

نذیر نے پوچھا۔ کیوں؟“ شمار دانے مختصر جواب دیا۔ ” مجھے معلوم نہیں ۔ اور یہ کہہ کر وہ چلی گئی۔ نذیر نے کریم سے کہا کہ اسے بلا کر لائے۔ مگر وہ نہ آئی۔ نذیر چلا گیا۔ اس کو یوں محسوس ہوا کہ اس کے بدن کی حرارت چلی گئی ہے۔ اس کے سوال کا جواب چلا گیا ہے۔

وہ چلی گئی واقعی چلی گئی۔ کریم کو اس کا بہت افسوس تھا۔ اس نے نذیر سے شکایت کے طور پر کہا۔


2

98

نذیر صاحب! آپ نے کیوں اس کو جانے دیا ؟ نذیر نے اس سے کہا۔ بھائی میں کوئی سیٹھ تو ہوں نہیں ۔ ہر دوسرے روز پچاس ایک دس ہوٹل کے تیس بوتل کے اور اوپر کا خرچ علیحدہ۔ میرا تو دیوالیہ پٹ گیا ہے۔ خدا کی قسم مقروض ہو گیا ہوں ۔“ نذیر کو معلوم نہیں تھا کہ محبت کیا ہوتی ہے؟ وہ فقط اتنا جانتا تھا کہ شاردا میں جسمانی خلوص ہے۔ وہ اس کے مردانہ سوالات کا بالکل صحیح جواب ہے۔ اس کے علاوہ وہ شاردا کے متعلق اور کچھ نہیں جانتا تھا۔ البتہ اس نے مختصر الفاظ میں یہ ضرور کہا تھا کہ اس کا خاوند عیاش تھا اور اس کو صرف اس لیے چھوڑ گیا تھا کہ دو برس تک اس کے ہاں اولاد نہیں ہوئی تھی۔ لیکن جب وہ اس سے علیحدہ ہوا تو نو مہینے کے بعد منی پیدا ہوئی جو بالکل اپنے باپ پر ہے۔

شکنتلا کو وہ اپنے ساتھ لے گئی۔ وہ اس کا بیاہ کرنا چاہتی تھی۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ شریفانہ زندگی بسر کرے۔ کریم نے نذیر کو بتایا تھا کہ وہ اس سے بہت محبت کرتی ہے۔ کریم نے بہت کوشش کی تھی کہ شکنتلا سے پیشہ کرائے کئی پسنجر آتے تھے۔ ایک رات کے دو دو سو روپے دینے کے لیے تیار تھے۔ مگر شار دا نہیں مانتی تھی، کریم سے لڑنا شروع کر دیتی تھی۔ کریم اس سے کہتا تھا۔ تم کیا کر رہی ہو ؟ وہ جواب دیتی ۔ اگر تم بیچ میں نہ ہوتے تو میں ایسا بھی نہ کرتی۔ شار دانے نذیر سے ایک بار اس کا فوٹو مانگا تھا جو اس ۔ سے لا کر اس کو دے دیا تھا۔ یہ وہ اپنے ساتھ جے پور لے گئی تھی۔ اس نے نذیر سے کبھی محبت کا اظہار نہیں کیا تھا۔ جب دونوں بستر پر لیٹے ہوتے تو وہ بالکل خاموش رہتی ۔ نذیر اس کو بولنے پر اکساتا مگر وہ کچھ نہ یہ خرچ نہ ہونے دیتی ۔" کہتی۔ لیکن نذیر اس کے جسمانی خلوص کا قائل تھا۔ جہاں تک اس بات کا تعلق تھا وہ اخلاص کا مجسمہ تھی۔ وہ چلی گئی۔ نذیر کے سینے کا بوجھ ہلکا ہو گیا۔ کیونکہ وہ اس کی گھریلو زندگی میں بہت بری طرح حائل ہو گئی تھی۔ اگر وہ کچھ دیر اور رہتی تو بہت ممکن تھا کہ نذیر اپنی بیوی سے بالکل غافل ہو جاتا ۔ کچھ دن گزرے تو وہ اپنی اصلی حالت پر آنے لگا۔ شاردا کا جسمانی لمس اس کے جسم سے آہستہ آہستہ دور ہونے

لگا۔ ٹھیک پندرہ دن کے بعد جب نذیر گھر میں بیٹھا دفتر میں کام کر رہا تھا اس کی بیوی نے صبح کی ڈاک لا کر اسے دی۔ سارے خط وہی کھولا کرتی تھی۔ ایک خط اس نے کھولا اور دیکھ کر نذیر سے کہا۔ ” معلوم نہیں گجراتی ہے یا ہندی ۔ نذیر نے خط لے کر دیکھا۔ اس کو معلوم نہ ہو سکا کہ ہندی ہے یا گجراتی ۔ الگ ٹرے میں رکھ دیا اور اپنے کام میں مشغول ہو گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد نذیر کی بیوی نے اپنی چھوٹی بہن نعیمہ کو آواز دی۔ وہ آئی تو وہ خط اٹھا کر اسے دیا۔ ذرا پڑھو تو کیا لکھا ہے۔ تم تو ہندی اور گجراتی پڑھ سکتی ہو۔“ نعیمہ نے خط دیکھا اور کہا۔ ”ہندی ہے ۔ اور یہ کہہ کر پڑھنا شروع کیا۔


99

جے پور۔۔۔۔۔۔ پریئے نذیر صاحب! اتنا پڑھ کر وہ رک گئی۔ نذیر چونکا۔ نعیمہ نے ایک سطر اور پڑھی۔ آداب ! آپ تو مجھے بھول چکے ہوں گے مگر جب سے میں یہاں آئی ہوں آپ کو یاد کرتی رہتی ہوں ۔“ اس نے بیوی کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہ دیا اور چلا گیا۔ ایک دوست کے پاس جا کر اس نے شاردا کے خط جیسے کاغذ منگوائے اور ہندی میں ویسی ہی روشنائی سے ایک خط لکھوایا۔ پہلے فقرے وہی رکھے۔ مضمون یہ تھا کہ بمبئی سنٹرل پر شاردا اس سے ملی تھی ۔ اس کو اتنے بڑے مصور سے مل کر بہت خوشی ہوئی تھی، وغیرہ وغیرہ۔ شام کو گھر آیا تو اس نے نیا خط اپنی بیوی کو دیا اور اردو کی نقل پڑھ کر سنادی۔ بیوی نے شاردا کے متعلق اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا۔ عرصہ ہوا ہے میں ایک دوست کو چھوڑنے گیا تھا۔ شاردا کو یہ دوست جانتا تھا۔ وہاں پلیٹ فارم پر میرا تعارف ہوا۔ مصوری کا اسے بھی شوق تھا۔“

نعیمہ کا رنگ سرخ ہو گیا۔ اس نے کاغذ کا دوسرا رخ دیکھا۔ کوئی شار دا ہے ۔“ نذیر اٹھا جلدی سے اس نے نعیمہ کے ہاتھ سے خط لیا اور اپنی بیوی سے کہا۔ خدا معلوم کون ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔ میں باہر جا رہا ہوں۔ اس کو پڑھا کر اردو میں لکھو الاؤں گا ۔“

بات آئی گئی ہوگئی۔ لیکن دوسرے روز شاردا کا ایک اور خط آگیا۔ اس کو بھی نذیر نے اسی طریقے سے گول کیا اور فور انشار دا کو تا ر دیا کہ وہ خط لکھنا بند کر دے اور اس کے نئے پتے کا انتظار کرے۔ ڈاک خانے جا کر اس نے متعلقہ پوسٹ مین کو تاکید کر دی کہ جے پور کا خط وہ اپنے پاس رکھنے صبح آکر وہ اس سے پوچھ لیا کرے گا۔ تین خط اس نے اس طرح وصول کئے ۔ اس کے بعد شاردا اس کو اس کے دوست

کے پتے پر خط بھیجنے لگی۔ شمار دا بہت کم گو تھی، لیکن خط بہت لیے لکھتی تھی۔ اس نے نذیر کے سامنے کبھی اپنی محبت کا اظہار نہیں کیا تھا، لیکن خط اس اظہار سے پر ہوتے تھے۔ گلے شکوئے ہجر و فراق اس قسم کی عام باتیں جو عشقیہ خطوں میں ہوتی ہیں۔ نذیر کو شاردا سے وہ محبت نہیں تھی۔ جس کا ذکر افسانوں اور ناولوں میں ہوتا ہے۔ اس لیے اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ جواب کیا لکھے اس لیے یہ کام اس کا دوست ہی کرتا تھا۔ ہندی میں جواب لکھ کر وہ نذیر کو سنا دیتا اور نذیر کہہ دیتا تھا۔ ٹھیک ہے۔ شاردا بمبئی آنے کے لیے بے قرار تھی لیکن وہ کریم کے پاس نہیں ٹھہر نا چاہتی تھی۔ نذیر اس کی رہائش کا اور کہیں بند و بست نہیں کر سکتا تھا کیونکہ مکان ان دنوں ملتے ہی نہیں تھے۔ اس نے ہوٹل کا سوچا مگر خیال آیا ایسا نہ ہو راز فاش ہو جائے۔ چنانچہ اس نے شاردا کو کھوایا کہ


2

100

ابھی کچھ دیر انتظار کرے۔ اتنے میں فرقہ وارانہ فسادات شروع ہو گئے۔ بٹوارے سے پہلے عجیب افراتفری مچی تھی۔ اس کی بیوی نے کہا کہ وہ لاہور جانا چاہتی ہے۔ میں کچھ دیر وہاں رہوں گی اگر حالات ٹھیک ہو گئے تو واپس آجاؤں گی ورنہ آپ بھی وہیں چلے آئے گا۔“ نذیر نے کچھ دیر اسے روکا مگر جب اس کا بھائی لاہور جانے کے لیے تیار ہوا تو وہ اور اس کی بہن اس کے ساتھ چلی گئیں اور وہ اکیلا رہ گیا۔ اس نے شاردا کو سرسری طور پر لکھا کہ وہ اب اکیلا ہے۔ جواب میں اس کا تار آیا کہ وہ آرہی ہے۔ اس تار کے مضمون کے مطابق وہ جے پور سے چل پڑی تھی۔ نذیر بہت سیپٹا یا مگر اس کا جسم بہت خوش تھا۔ وہ شاردا کے جسم کا خلوص چاہتا تھا۔ وہ دن پھر سے مانگتا تھا جب وہ شاردا کے ساتھ چمٹا ہوتا تھا، صبح گیارہ بجے سے لے کر شام سات بجے تک ۔ اب روپے کے خرچ کا سوال نہیں تھا۔ کریم بھی نہیں تھا۔ ہوٹل بھی نہیں تھا۔ اس نے سوچا۔ میں اپنے نوکر کو راز دار بنالوں گا سب ٹھیک ہو جائے گا دس پندرہ روپے اس کا منہ بند کر دیں گے۔ میری

بیوی واپس آئی تو وہ اس سے کچھ نہیں کہے گا۔ دوسرے روز وہ اسٹیشن پہنچا۔ فرنٹیر میں آئی، مگر شاردا تلاش کے باوجود اسے نہ ملی۔ اس نے سوچا شاید کسی وجہ سے رک گئی ہے دوسرا تار بھیجے گی۔

اس سے اگلے روز وہ حسب معمول صبح کی ٹرین سے اپنے دفتر روانہ ہوا۔ وہ مہالکشمی اترتا تھا۔ گاڑی وہاں رکی تو اس نے دیکھا کہ پلیٹ فارم پر شار دا کھڑی ہے۔ اس نے زور سے پکارا۔ شاردا

شار دانے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ نذیر صاحب“ نذیر نے کچھ دیر سوچ کر اس سے کہا۔ ” تم یہاں ٹھہرو میں دفتر سے چھٹی لے کر ابھی آتا ہوں ۔“ شمار دا کو بنچ پر بٹھا کر نذیر جلدی جلدی دفتر گیا۔ ایک عرضی لکھ کر وہاں چپڑاسی کو دے آیا اور شاردا کو اپنے گھر لے گیا۔ راستے میں دونوں نے کوئی بات نہ کی، لیکن ان کے جسم آپس میں گفتگو کرتے رہے۔ ایک دوسرے کی طرف کھینچتے رہے۔ گھر پہنچ کر نذیر نے شاردا سے کہا۔ تم نہالؤ میں ناشتے کا بندوبست کراتا ہوں۔“

تم یہاں کہاں؟“ شار دانے شکایتا کہا ۔ آپ مجھے لینے نہ آئے تو میں یہاں آپ کے دفتر پہنچی۔ پتہ چلا کہ آپ ابھی تک نہیں آئے۔ یہاں پلیٹ فارم پر اب آپ کا انتظار کر رہی تھی۔“

شار د ا نہانے لگی۔ نذیر نے نوکر سے کہا ۔ کہ اس کے دوست کی بیوی آئی ہے جلدی سے ناشتہ تیار کر دے۔ اس سے یہ کہہ کر نذیر


101

2

نے الماری سے بوتل نکالی۔ ایک پیگ جو دو کے برابر تھا، گلاس میں انڈیلا اور پانی ملا کر پی گیا۔ وہ اسی ہوٹل والے ڈھنگ سے شاردا سے اختلاط چاہتا تھا۔ شاردا نہا دھو کر باہر نکلی اور ناشتہ کرنے لگی۔ اس نے ادھر ادھر کی بے شمار باتیں کیں۔ نذیر نے محسوس کیا جیسے وہ بدل گئی ہے۔ وہ پہلے بہت کم گو تھی اکثر خاموش رہتی تھی، مگر اب ت پر اپنی محبت کا اظہار کرتی تھی۔ نذیر نے سوچا۔ یہ محبت کیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اگر یہ اس کا اظہار نہ کرے تو کتنا اچھا ہے۔ مجھے اس کی خاموشی زیادہ پسند تھی۔ اس کے ذریعے مجھ تک بہت سی باتیں پہنچ جاتی تھیں ۔ مگر اب اس کو جانے کیا ہو گیا ہے باتیں کرتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے اپنے عشقیہ خط پڑھ کر سنا رہی ہے۔“ ناشتہ ختم ہوا تو نذیر نے ایک پیگ تیار کیا اور شاردا کو پیش کیا، لیکن اس نے انکار کر دیا۔ نذیر نے اصرار کیا تو شاردا نے اس کو خوش کرنے کی خاطر ناک بند کر کے وہ پینگ پی لیا۔ برا سامنہ بنایا۔ پانی لے کر کلی کی ۔ نذیر کو افسوس سا ہوا کہ شار دانے کیوں پی۔ اس کے اصرار پر بھی انکار کیا ہوتا تو زیادہ اچھا تھا۔ مگر اس نے اس کے بارے میں زیادہ غور نہ کیا۔ نوکر کو بہت دور ایک کام سے بھیج دیا۔ دروازہ بند کیا اور شاردا کے ساتھ بستر پر لیٹ گیا۔

تم نے لکھا تھا کہ وہ دن پھر کب آئیں گے۔ لو آگئے ہیں پھر وہی دن بلکہ راتیں بھی۔ ان دنوں راتیں نہیں ہوتی تھیں، صرف دن ہوتے تھے۔ ہوٹل کے میلے کچیلے دن۔ یہاں ہر چیز اجلی ہے۔ ہر چیز صاف ہے۔ ہوٹل کا کرایہ بھی نہیں، کریم بھی نہیں، یہاں ہم اپنے مالک آپ ہیں ۔“

شار دانے اپنے فراق کی باتیں شروع کر دیں۔ یہ زمانہ اس نے کیسے کاٹا۔ وہی کتابوں اور افسانوں والی فضول باتیں، گلے شکوئے آئیں راتیں تارے گن گن کر کاٹنا۔ نذیر نے ایک پیک اور پیا اور سوچا۔ کون تارے گنتا ہے گن کیسے سکتا ہے اتنے سارے تاروں کو بالکل فضول ہے بے ہودہ ہے بکواس ہے۔“

یہ سوچتے ہوئے اس نے شاردا کو اپنے ساتھ لگا لیا۔ بستر صاف تھا، شار د ا صاف تھی وہ خود صاف تھا کمرے کی فضا بھی صاف تھی۔ لیکن کیا وجہ تھی کہ نذیر کے دل و دماغ پر وہ کیفیت طاری نہیں ہوتی تھی جو اس غلیظ ہوٹل میں لوہے کی چار پائی پر شاردا کی قربت میں ہوتی تھی۔

نذیر نے سوچا شاید اس نے کم پی ہے۔ اٹھ کر اس نے ایک پیگ بنایا اور ایک ہی دفعہ میں ختم کر کے شاردا کے ساتھ لیٹ گیا۔ شاردا ے پھر وہی لاکھ مرتبہ کہی ہوئی باتیں شروع کر دیں۔ وہی ہجر و فراق کی باتیں ۔ وہی گلے شکوے۔ نذیر اکتا گیا اور اس اکتاہٹ نے اس کے جسم کو کند کر دیا۔ اس کو محسوس ہونے لگا کہ شاردا کی سان گھس کر بے کار ہوگئی ہے۔ اس کے جسم کے جذبات کو اب وہ تیز نہیں کر سکتی۔ لیکن


102

2

وہ پھر بھی اس کے ساتھ دیر تک لیٹا رہا۔ فارغ ہوا تو اس کا جی چاہا کہ ٹیکسی پکڑے اور اپنے گھر چلا جائے اپنی بیوی کے پاس۔ مگر جب اس نے سوچا کہ وہ تو اپنے گھر میں ہے اور اس کی بیوی لاہور میں، تو دل ہی دل میں بہت جھنجھلایا۔ اس کو یہ خواہش ہوئی کہ اس کا گھر ہوٹل بن جائے۔ شاردا کے جسم کا خلوص بدستور برقرار تھا ، مگر وہ فضا نہیں تھی۔ وہ سودے بازی نہیں تھی۔ اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے والی بات نہیں تھی۔ ہوٹل کی وہ غلاظت نہیں تھی۔ یہ سب چیزیں مل ملا کروج ایک ماحول بناتی تھیں، وہ نہیں تھا۔ نذیر اپنے گھر میں تھا۔ اس بستر پر تھا جس پر اس کی سادہ لوح بیوی اس کے ساتھ سوتی تھی۔ یہ احساس اس کے تحت الشعور میں تھا اس لیے وہ سمجھ نہ سکتا تھا کہ معاملہ کیا ہے۔ کبھی وہ یہ سوچتا که و سکی خراب ہے کبھی وہ سوچتا کہ شار دانے التفات نہیں برتا۔ اور کبھی یہ خیال کرتا تھا کہ وہ خاموش رہتی تو سب ٹھیک ہوتا ۔ پھر وہ یہ سوچتا

کہ اتنی دیر کے بعد ملی ہے دل کی بھڑر اس تو نکالنا ہی تھی بے چاری کو ۔ کی بھر اس تو نکالنا ہی تھی بے چاری کو ۔ ایک دو دن میں ٹھیک ہو جائے گئی وہی پرانی شاردا بن جائے گی۔

پندرہ دن گزر گئے مگر نذیر کوشار داوہ پرانی ہوٹل والی شاردا محسوس نہ ہوئی۔ اس کی بچی جے پور میں تھی، ہوٹل میں وہ اس کے ساتھ ہوتی

تھی۔ نذیر اس کے زکام کے لیے اس کی بھینسوں کے لیے اس کے گلے کے لیے دوائیں منگوایا کرتا تھا۔ اب یہ چیز نہیں تھی۔ وہ بالکل اکیلی

تھی۔ نذیر اس کو اور اس کی منی کو بالکل ایک سمجھتا تھا۔ ایک بار شاردا کی دودھ بھری چھاتیوں پر دباؤ ڈالنے کے باعث نذیر کے بالوں بھرے سینے پر دودھ کے کئی قطرے چمٹ گئے تھے۔ اور اس نے ایک عجیب قسم کی لذت محسوس کی تھی۔ اس نے سوچا تھا ماں بننا کتنا اچھا ہے۔ ۔ اور یہ دودھ۔ مردوں میں یہ کتنی بڑی کمی ہے کہ وہ کھا پی کر سب ہضم کر جاتے ہیں۔ عورتیں کھاتی ہیں اور کھلاتی بھی ہیں۔ کسی کو پالنا اپنے بچے ہی سہی کتنی شاندار چیز ہے۔ اب منی شاردا کے ساتھ نہیں تھی۔ وہ نامکمل تھی۔ اس کی چھاتیاں بھی نامکمل تھیں۔ اب ان میں دودھ نہیں تھا۔ وہ سفید سفید آب حیات ۔ نذیر اب اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچتا تھا وہ اس کو منع نہیں کرتی تھی۔ شاردا اب شاردا نہیں تھی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاردا وہی شار دا تھی بلکہ اس سے کچھ زیادہ تھی۔ یعنی اتنی دیر جدا رہنے کے بعد اس کا جسمانی خلوص تیز ہو گیا تھا وہ روحانی طور پر بھی نذیر کو چاہتی تھی۔ لیکن نذیر کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاردا میں اب وہ پہلی سی کشش یا جو کچھ تھا، نہیں رہا۔

پندرہ دن لگا تار اس کے ساتھ گزارنے پر وہ اس نتیجے پر پہنچا تھا۔ پندرہ دن دفتر سے غیر حاضری بہت کافی تھی۔ اس نے اب دفتر جانا شروع کر دیا۔ صبح اٹھ کر دفتر جاتا اور شام کو لوتا ۔ شار دانے بالکل بیویوں کی طرح اس کی خدمت کرنا شروع کر دی۔ بازار سے اون خرید کر اس کے لیے سویٹر بن دیا۔ شام کو دفتر سے آتا تو اس کے لیے سوڈے منگوا کر رکھے ہوتے۔ برف تھوموس میں ڈالی ہوتی۔ صبح اٹھ کر اس کا شیو کا سامان میز پر رکھتی۔ پانی گرم کرا کے اس کو دیتی ۔ وہ شیو کر چکتا تو سارا سامان صاف کرتی۔ گھر کی صفائی کراتی ۔ خود جھاڑو دیتی۔ نذیر


2

103

اور بھی زیادہ اکتا گیا۔

رات کو وہ اکٹھے ہوتے تھے۔ مگر اب اس نے یہ بہانہ کیا کہ وہ کچھ سوچ رہا ہے اس لیے اکیلا ہونا چاہتا ہے۔ شمار دا دوسرے پلنگ پر سونے لگی۔ مگر یہ نذیر کے لیے ایک اور الجھن ہو گئی ۔ وہ گہری نیند سوئی ہوتی اور وہ جاگتا رہتا اور سوچتا کہ آخر یہ سب کچھ ہے کیا۔ یہ شاردا یہاں کیوں ہے؟۔ کریم کے ہوٹل میں مانے اس کے ساتھ چند دن بڑے اچھے گزارے تھے مگر یہ اس کے ساتھ کیوں چمٹ گئی ہے۔ آخر اس کا انجام کیا ہوگا۔ محبت وغیرہ بکواس ہے۔ جو ایک چھوٹی سی بات ہے وہ اب نہیں رہی۔ اس کو واپس جے پور جانا چاہیے۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے یہ محسوس کرنا شروع کیا کہ وہ گناہ کر رہا ہے۔ وہ کریم کے ہوٹل میں بھی کرتا تھا۔ اس نے شادی سے پہلے بھی ایسے بے شمار گناہ کئے تھے مگر ان کا اس کو احساس ہی نہیں تھا، لیکن اب اس نے بڑی شدت سے محسوس کرنا شروع کیا تھا کہ وہ اپنی بیوی سے بے وفائی کر رہا ہے۔ اپنی سادہ لوح بیوی سے جس کو اس نے کئی بار شاردا کے خطوں کے سلسلے میں چکمہ دیا تھا۔ شاردا اب اور بھی زیادہ بے کشش ہو گئی ۔ وہ اس سے روکھا برتاؤ کرنے لگا مگر اس کے التفات میں کوئی فرق نہ آیا۔ وہ اتنا جانتی تھی کہ آرٹسٹ لوگ موجی ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ اس سے اس کی بے التفاتی کا گلہ نہیں کرتی تھی۔ پورا ایک مہینہ ہو گیا۔ جب نذیر نے دن گئے تو اس کو بہت الجھن ہوئی۔ یہ عورت کیا پورا ایک مہینہ یہاں رہی ہے۔ میں کسی قدر ذلیل آدمی ہوں ۔ اور ادھر ہر روز میں اپنی بیوی کو ایک خط لکھتا ہوں جیسے بڑا وفادار شوہر ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے مجھے اس کا بہت خیال ہے۔ جیسے اس کے بغیر میری زندگی اجیرن ہے۔ میں کتنا بڑا فراڈ ہوں ۔ ادھر اپنی بیوی سے غداری کر رہا ہوں ادھر شاردا سے۔ میں کیوں اس سے صاف صاف نہیں کہہ دیتا کہ بھئی اب مجھے تم سے لگاؤ نہیں رہا لیکن سوال یہ ہے کہ مجھے لگاؤ نہیں رہا یا شاردا میں وہ پہلی سی بات نہیں رہی؟ وہ اس کے متعلق سوچتا مگر اسے کوئی جواب نہ ملتا۔ اس کے ذہن میں عجیب افراتفری پھیلی تھی۔ وہ اب اخلاقیات کے متعلق سوچتا تھا ۔ بیوی سے جو وہ غداری کر رہا تھا اس کا احساس ہر وقت اس پر غالب رہتا تھا۔ کچھ دن اور گزرے تو یہ احساس اور بھی زیادہ شدید ہو گیا اور نذیر کو خود سے نفرت ہونے لگی۔ " میں بہت ذلیل ہوں۔ یہ عورت میری دوسری بیوی کیوں بن گئی ہے۔ مجھے اس کی کب ضرورت تھی۔ یہ کیوں میرے ساتھ چپک گئی ہے۔ میں نے کیوں اس کو یہاں آنے کی اجازت دی جب اس نے تار بھیجا۔ لیکن وہ تارایسے وقت پر ملا تھا کہ میں اس کو روک ہی نہیں سکتا تھا۔“

پھر وہ سوچتا کہ شاردا جو کچھ کرتی ہے بناوٹ ہے۔ وہ اس کو اس بناوٹ سے اپنی بیوی سے جدا کرنا چاہتی تھی۔ اس سے اس کی نظروں میں شار دا اور بھی گرگئی۔ اس سے نذیر کا سلوک اور زیادہ روکھا ہو گیا۔ اس روکھے پن کو دیکھ کر شاردا بہت زیادہ ملائم ہو گئی۔ اس نے نذیر کے آرام و آسائش کا زیادہ خیال رکھنا شروع کر دیا۔ لیکن نذیر کو


104

2 اس کے اس رویے سے بہت الجھن ہوئی۔ وہ اس سے بے حد نفرت کرنے لگا۔ ایک دن اس کی جیب خالی تھی۔ بینک سے روپے نکلوانے اس کو یاد نہیں رہے تھے۔ دفتر بہت دیر سے گیا۔ اس لیے کہ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔ جاتے وقت شار دانے اس سے کچھ کہا تو وہ اس پر برس پڑا ۔ بکواس نہ کرو میں ٹھیک ہوں ۔ بینک سے روپے نکلوانے بھول گیا ہوں اور سگریٹ میرے سارے ختم ہیں ۔ دفتر کے پاس دکان سے اس کو گولڈ فلیک کا ڈبہ ملا۔ یہ سگریٹ اس کو نا پسند تھے مگر ادھا رل گئے تھے اس لیے دو تین مجبوراً پینے پڑے۔ شام کو گھر آیا تو دیکھا کہ تپائی پر اس کا من بھاتا سگریٹ کا ڈبہ پڑا ہے۔ خیال کیا کہ خالی ہے۔ پھر سوچا کہ شاید ایک دو اس میں پڑے ہوں ۔ کھول کر دیکھا تو بھرا ہوا تھا۔ شمار دا سے پوچھا۔ ” یہ ڈبہ کہاں سے آیا ؟ شمار دا نے مسکرا کر جواب دیا۔ ” اندر الماری میں پڑا تھا ۔“ نذیر نے کچھ نہ کہا۔ اس نے سوچا شاید میں نے کھول کر اندر الماری میں رکھ دیا تھا اور بھول گیا۔ لیکن دوسرے دن پھر تپائی پر سالم ڈبہ موجود تھا۔ نذیر نے جب شاردا سے اس کی بابت پوچھا تو اس نے مسکرا کر وہی جواب دیا۔ ” اندر الماری میں پڑا تھا۔“ نذیر نے بڑے غصے کے ساتھ کہا۔ ” شاردا تم بکواس کرتی ہو۔ تمہاری یہ حرکت مجھے پسند نہیں۔ میں اپنی چیزیں خود خرید سکتا ہوں۔ نذیر نے ایک لحظے کے لیے خیال کیا کہ شاردا کی کوئی غلطی نہیں۔ اسے آگے بڑھ کر اس کا منہ چوم لینا چاہیے۔ اس لیے کہ وہ اس کا اتنا خیال رکھتی تھی۔ مگر فورا ہی اس کو اپنی بیوی کا خیال آیا کہ وہ غداری کر رہا تھا۔ چنانچہ اس نے شاردا سے بڑے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔ بکواس نہ کرو میرا خیال ہے کہ تمہیں کل یہاں سے روانہ کردوں ۔ کل صبح تمہیں جتنے روپے درکار ہوں دے دوں گا۔“ شمار دانے کچھ نہ کہا۔ رات کو وہ نذیر کے ساتھ سوئی ۔ ساری رات وہ اس سے پیار کرتی رہی ۔ نذیر کو اس سے الجھن ہوتی رہی، مگر اس نے شاردا پر اس کا اظہار نہ کیا۔ صبح اٹھا تو ناشتے پر بے شمار لذیذ چیزیں تھیں۔ پھر بھی اس نے شاردا سے کوئی بات نہ کی ۔ فارغ ہو کر وہ سیدھا

میں بھکاری نہیں ہوں، جو تم میرے لیے ہر روز سگریٹ خریدا کرو۔“ شار دانے بڑے پیار سے کہا۔ ” آپ بھول جاتے ہیں اس لیے میں نے دو مرتبہ گستاخی کی ۔“ نذیر نے بے وجہ اور زیادہ غصہ سے کہا۔ میرا دماغ خراب ہے۔ لیکن مجھے یہ گستاخی ہرگز پسند نہیں ۔ شاردا کا لہجہ بہت ہی ملائم ہو گیا ۔ میں آپ سے معافی مانگتا ہوں ۔

بینک گیا۔ جانے سے پہلے اس نے شاردا سے صرف اتنا کہا۔ میں بینک جا رہا ہوں ابھی واپس آتا ہوں ۔


2
مضمون
ٹھنڈا گوشت (Thanda Gosht)
0.0
کہانی میں 1947 کی تقسیم سے جڑے واقعات کو بیان کیا گیا ہے ۔ ایشور سنگھ، جو اُن خوفناک واقعات پر موجود تھا، اپنی آخری سانسیں لیتے ہوئے اپنا ایک قصہ بیان کرتا ہے۔