shabd-logo

ٹوبہ ٹیک سنگھ

27 November 2023

11 ڏسيل 11

ہوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہئے یعنی جو مسلمان پاگل ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں پاکستان پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انہیں ہندوستان کے حوالے کر دیا جو ہندو اور سکھ پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو :

جائے معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول بہر حال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق اور ادھر ادھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں اور بالاخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لئے مقرر ہو گیا۔ اچھی طرح چھان بین کی گئی۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے ۔ وہیں رہنے دئے گئے تھے۔ جو باقی تھے ان کو سرحد پر روانہ کر دیا گیا۔ یہاں پاکستان میں چونکہ قریب قریب تمام ہندو سکھ جاچکے تھے۔ اس لئے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا۔ جتنے ہندو سکھ پاگل تھے سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بورڈار پر پہنچا دئے گئے۔

ادھر کا معلوم نہیں لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر چہ میگوئیاں ہونے لگیں ۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز باقاعدگی ۔ پڑھتا تھا اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا۔ "مولبی ساب " یہ پاکستان کے اس نے بڑے غور وفکر کے بعد جو اب دیا۔ ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ینچی تو بڑی دلچہ دلچسپ کے ساتھ زمیندار ن کیا ہوتا ہے". 3-

یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہو گیا۔

ای طرح ایک سکھ پاگل نے ایک دوسرے سکھ پاگل سے پوچھا۔"

سردار جی ہمیں ہندوستان کیوں

وا دیا تھا کہ

پاکستان

بھیجا جا رہا ہے ۔ ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی"۔

دوسرا مسکرایا۔ "مجھے تو ہندو ستوڑوں کی بولی آتی ہے "۔۔۔

ہندوستانی بڑے شیطانی آکر آکر پھرتے ہیں۔

ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے پاکستان زندہ باد کا نعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش

پر پھسل کر گرا اور بے ہوش ہو گیا۔ بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے ۔ ان میں اکثریت

ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دا

پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں یہ کچھ کچھ کہتے تھے کہ

کیا ہے لیکن صحیح واقعات سے وہ بھی ہے خبر تھے ۔ اخبارون

سپاری ان پڑھ اور جاہی تھے ۔ ان کی گفتگو سے بھی و

صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدی محمد علی جناح ہے جس کو قائد اعظم

لئے ایک علیحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے ۔

اس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانے کے ہیں امام العالم المطالب پاگل جن کا دماغ

پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا اس مخمصے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں ۔

اگر ہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے ۔ اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ

نہیں کر سکتے تھے ان

مانے مسلمانوں کے

کا محل وقوع کیا ہے

عرصہ پہلے میں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے ۔ ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان اور ہندوستان اور پاکستان کے چکر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہو گیا۔ جھاڑو دیتے دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور سینے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے بچے اترنے کو کہا تو وہ اور اوپر چڑھ گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا ۔ " میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ

پاکستان میں" میں اس درخت ہی پر رہوں گا بڑی مشکلوں کے بعد جب اس کا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اترا اور اپنے ہندو سکھ دوستوں سے گلے مل مل کر رونے لگا۔ اس خیال سے اس کا دل بھر آیا تھا کہ کہ وہ اسے چھوڑ کر ہندوستان چلے

جائیں گے۔

ایک ایم ایس سی پاس ریڈیو انجینئر میں جو مسلمان تھا اور دوسرے پاگلوں سے بالکل الگ تھلگ

باغ کی ایک خاص روش پر سارا دن خاموش مسلتا رہتا تھا یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام

کپڑے اتار کر دفعدار کے حوالے کر دیئے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کر دیا۔

چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سرگرم کارکن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ

سولہ مرتبہ نمایا کرتا تھا یک لخت یہ عادت ترک کر دی۔ اس کا نام مو

چنانچہ اس نے ایک

دن اپنے جنگلے میں اعلان کر دیا کہ وہ قائد اعظم محمد علی جناح ہے اس کی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل

ماسٹر تارا سنگھ بن گیا۔ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہو جائے مگر دونوں کو خطر ناک پاگل

قرار دے کر علیحدہ علیحدہ بند کر دیا گیا۔

لاہور کا ایک نوجوان ہندو وکیل تھا جو محبت میں ناکام ہو کر پاگل ہو گیا تھا۔ جب اس نے سنا کہ

امرت سر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا۔ اس شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبت

ہوئی تھی تو اس نے اس وکیل کو ٹھکرا دیا تھا مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بھولا تھا

چنانچہ وہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل ملا کر ہندوستان کے دو

کڑے کر دیئے ۔۔۔۔ اس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی

جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تو وکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل برا نہ کرے ۔ اس کو

ہندوستان بھیج دیا جائے گا۔ اس ہندوستان میں جہاں اس کی محبوبہ رہتی تھی مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں

چاہتا تھا۔ اس لئے کہ اس کا خیال تھا کہ امرت سر میں اس کی پریکٹس نہیں چلے گی۔

ی رئاین وارڈ میں دو اینگلو انڈین پاگل تھے ۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کر کے انگریز

چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر مختگو

کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں اب ان کی حیثیت کسی قسم کی ہو گی ۔ یورپین وارڈ رہے گا یا اڑا

دیا جائے گا۔ بریک فاسٹ ملا کرے گا یا یا نہیں۔ کیا انہیں ڈبل روٹی کے بجائے بلندی انڈین چپانی تو


زہر مار نہیں کرنا پڑے گی۔ ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پدرہ برس ہو چکے تھے ۔ ہر وقت اس کی زبان سے یہ گیب و غریب الفاظ سنے میں آتے تھے ۔ " اوپر دی گڑ گڑ دی ایکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لائین" دن کو سوتا تھا نہ رات کو ۔ پہرہ داروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لمحے کے لئے بھی نہیں سویا لیتا بھی نہیں تھا۔ البتہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا۔ ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے ۔ پڈلیاں بھی پھول گئیں تھیں مگر اس جسمانی

تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ ہندوستان پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلق

جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی تو وہ غور سے سنتا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا کہ اس کا کیا

خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیا ۔ " اوپر دی گڑ گڑ دی ایکس دی بے دھیانا دی دال

آف دی پاکستان گورنمنٹ" لیکن بعد میں آف دی پاکستان کی جگہ اوف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ

گورنمنٹ نے لے لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ توبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے

جہاں کا وہ رہنے والا ہے ۔ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں

جو بنانے کی کوشش کرتے تھے وہ خود اس الجھاؤ میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے

ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سنا ہے کہ پاکستان میں ہے ۔ کیا پتا ہے کہ لاہور جو اب پاکستان میں

ہے کل ہندوستان میں چلا جائے۔ یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ

رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کی

ارے سے غائب ہی ہو جائیں۔

اس سکھ پاگل کے کیس چھدرے ہو کہ یہ

دارمی اور سر کے بال آپس میں جم گئے تھے جس کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہو گئی تھی

مگر آدمی بے ضرر تھا ۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا۔ پاگل

خانے کے جو پرانے ملازم تھے وہ اس متعلق اتنا جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں

تھیں ۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ اچانک دماغ الٹ کیا اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی

زنجیروں میں اسے باندھ کر لائے اور پاگل خانے میں دا

ہینے میں ایک بار ملاقات و لوگ آتے تھے اور اس کی خیر خیریت دریافت کر کے چلے جاتے تھے ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پر اب پاکستان ہندوستان کی گر ہو شروع ہوئی تو ان کا اس کا نام لیکن مجھ تھا مگر م نہیں تھا کہ دن عزیز و اقارب اس

بہت کم نہاتا تھا اس لئے

آنا بند

کون سا ہے مہینہ کون سا ہے یا کتنے سال بیت .

سے ملنے کے لئے آتے ھے والے اپنا آپ کے اعمال الباتنا عالما جانا الار سے کہتا کو اس کی

ملاقات آ رہی ہے۔ اس دن وہ اچھی طرح نما تا بدن پر خوب صابن کھتا اور سر میں تیل لگا کر

کٹھا کرتا اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا نکلوا کے پہنتا اور یوں حج بن کر ملنے والوں

کے پاس جاتا۔ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار " اوپر دی گڑ گڑ دی ایلکس دی

بے دھیانا دی منگ دی دال آف دی لائین" کہہ دیا۔

اس کی ایک لڑکی تھی جو ہر مہینے ایک انگلی بڑھتی ہوحتی پدرہ برسوں میں جوان ہو گئی تھی۔ بشن

سکھ اس کو پہچانا ہی نہیں تھا وہ بچی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی جوان ہوئی تب

بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔

پاکستان اور ہندوستان کا قصہ شروع ہوا تو اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا توبہ ٹیک سنگھ

کہاں ہے ۔ جب اطمینان بخش جواب نہ ملا تو اس کی کرید دن بدن بڑھتی گئی۔ اب ملاقات بھی

نہیں آتی تھی ۔ پہلے تو اسے اپنے آپ پتا چل جاتا تھا کہ ملنے والے آ رہے ہیں پر اب جیسے اس

روز بشن نگھ سنگھ نے تبہ لگایا لگایا اور کہا سے آتے ہیں جہاں اس کی زمینیں ہیں ۔ پاگل خانے میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کرتا تھا۔ اس سے جب ایک پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان : وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں ۔ اس لئے کہ ہم نے ابھی بان مجھے نے اس خدا سے کئی مرتبہ بڑی منت سماجت سے کہا کہ وہ حکم دے دے تاکہ جھنجھٹ ختم ہو مگر وہ بہت مصروف تھا اس لئے کہ اسے اور بے شمار حکم دیتے تھے ایک دن تک آکر وہ اس پر برس پڑا اوپر دی گڑ گڑ دی ایکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف وا ہے گورتی را خالصہ اینڈ دا ہے گو روٹی کی فتح -- جو بولے سونسال است سری اکال" اس کا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمانوں کے خدا ہو۔ سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سنتے

کے دل کی آواز بھی بند ہو گئی تھی جو اسے ان کی آمد کی خبر دے دیا کرتی تھی۔

اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جو اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے تھے اور اس کے لئے

پھل املھائیاں اور کپڑے لاتے تھے۔ وہ اگر ان سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے تو وہ یقین

اسے تا دیتے کہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں ۔ کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی

تارے سے کچھ دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک مسلمان جو اس کا دوست تھا ملاقات کے لئے آیا۔ پہلے وہ کبھی نہیں آیا تھا۔ جب بشن سنگھ نے اسے دیکھا تو ایک طرف ہٹ گیا اور واپس جانے لگا سپاہوں نے اسے روکا۔ " ہے تم سے ملنے آیا ہے ۔ تمہارا دوست فضل دین ہے "۔ بشن سنگھ نے فضل دین کو ایک نظر دیکھا اور کچھ بڑبڑانے لگا۔ فضل دین نے آگے بڑھ کر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی ۔۔۔ تمہارے سب آدمی خیریت سے ہندوستان چلے گئے تھے ۔۔۔ مجھ سے جتنی مدد ہو سکی میں نے کی تمہاری بیٹی روپ کور --- "


وہ کچھ کہتے کہتے رک گیا۔۔ بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا۔ ”بیٹی روپ کور" فضل دین دین نے رک رک کر کہا۔ ہاں ۔۔۔ وہ --- وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے ۔۔۔ ان کے ساتھ ہی

چلی گئی تھی"۔ بشن سنکھ خاموش رہا ۔ فضل دین نے کہنا شروع کیا۔ " انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری خیر خیریت پوچھتا رہوں ۔ اب میں نے سنا ہے کہ تم ہندوستان جا رہے ہو۔ بھائی بلبیر سنگھ اور بھائی اوا سنگھ سے میرا سلام کہنا اور بہن امرت کور سے بھی ---- بھائی بلبیر سے کہنا۔ فضل دین راضی خوشی ہے ور بھوری بھینسیں جو وہ چھوڑ گئے تھے ۔ ان میں سے ایک نے کٹا دیا ہے دوسری کے کئی ہوئی تھی پر وہ چھ دن کی ہو کے مرگئی ---- اور ---- میرے لائق جو خدمت ورها وا ہو کہنا میں ہر وقت تیار ہوں"۔ اور یہ تمہارے لئے تھوڑے سے مرونڈے لایا ہوں"۔ بشن سنگھ نے مرونڈوں کی پوٹلی لے کر پاس کھڑے سپاہی کے حوالے کر دی اور فضل دین سے

وہیں ہے جہاں تھا"۔

پوچھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے"۔

فضل دین نے قدرے حیرت سے کیا کہاں ہے .

بشن سنگھ نے پھر پوچھا۔ "پاکستان میں یا ہندوستان میں "۔

ہندوستان میں ۔۔ نہیں نہیں پاکستان میں فضل دین بوکھلا سا گیا۔

بشن سنگھ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔ " اوپر دی گڑ گڑ دی ایکس دی بے دھیانا وی منگ دی دال آف دی

پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی ور کے منہ "۔

تبادلے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں ۔ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے والے پاگلوں کی

فہرستیں پہنچ گئی تھیں اور تبادلے کا دن بھی مقرر ہو چکا تھا۔

سخت سردیاں تھیں جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو سکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے

محافظ دیتے کے ساتھ روانہ ہوئیں متعلقہ افسر بھی

سپرنٹنڈنٹ ایک دوسرے سے ملے اور ابتدائی کارروائی ختم ہونے کے بعد تبادلہ شروع ہو گیا : بھاگ رات بھر جاری رہا۔ پاگلوں کو لاریوں سے نکالنا اور ان کو دوسرے ا م تھا۔ بعض تو باہر نکلتے ہی نہیں تھے۔ جو نکلنے پر رضا مند ہوتے تھے۔ ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا۔ کیونکہ ادھر ادھر اٹھتے تھے جو نگے تھے ان کو کپڑے پہنائے جاتے تو وہ پھاڑ کر اپنے تن سے جدا کر دیتے کوئی گالیاں بک رہا ہے ۔ کوئی گا رہا ہے ۔ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں ۔ رو رہے ہیں بلک رہے ہیں۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ پاگل عورتوں کا شور و غونا الگ تھا اور سردی

اتنی کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے۔ پاگلوں کی اکثریت اس تبادلے کے حق میں نہیں تھی ۔ اس لئے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انہیں اپنی جگہ سے اکھاڑ کر کہاں پھینکا جا رہا ہے وہ چند جو کچھ سوچ سمجھ سکتے تھے "پاکستان زندہ

باد " اور "پاکستان مردہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔ دو تین مرتبہ فساد ہوتے ہوتے بچا کیونکہ بعض مسلمانوں اور سکھوں کو یہ نعرے سن کر طیش آگیا تھا۔ جب بشن سنگھ کی باری آئی اور واہگہ کے اس پار متعلقہ افسر اس کا نام رجسٹر میں درج کرنے لگا تو اس نے پوچھا۔ "ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے ۔۔۔ پاکستان میں یا ہندوستان میں"۔

متعلقہ افسر ہنسا۔ "پاکستان میں"۔

یہ سن کر بشن سنگھ اچھل کر ایک طرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے مگر اس نے چلنے سے انکار کر دیا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ " یہاں ہے ۔ اور زور زور سے چلانے لگا۔ " اوپر دی گڑ گڑ دی ایکس دی ہے دھیانا دی منگ دی وال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے ۔ اگر نہیں گیا تو اسے فوراً وہاں بھیج دیا جائے مگر وہ نہ مانا۔ جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہو گیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں نہیں ہلا سکے گی۔

آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لئے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور

تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا۔

سورج نکلنے سے پہلے ساکت و صامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی ۔ ادھر ادھر

سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا

تھا۔ اوندھے منہ لیٹا ہے ۔ ادھر خار دار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا۔ ادھر ویسے ہی تاروں

کے پیچھے پاکستان ۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا

تھا۔

1
مضمون
ٹوبہ ٹیگ سنگھ (Toba Tek Singh)
0.0
’’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘‘ تقسیم ہند کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ذہنی پناہ کے قیدیوں کے تبادلے کے حالت اور کیسے سناتی ہے۔ یہ منٹو کے سبز مشہور کاموں میں سے ایک ہے۔