دل میں جو کچھ ہے مد لب پر اُسے لاؤں کیونکر ہو چھپانے کی نہ جو بات چھپاؤں کیونکر شوق نظارہ یہ کہتا ہے قیامت آئے پھر میں نالوں سے قیامت نہ اُٹھاؤں کیونکر
پھر میں نالوں سے قیامت نہ اٹھاؤں کیونکر میری ہستی نے رکھا مجھ سے تجھے پوشیدہ پھر تیری راہ میں اس کو نہ مٹاؤں کیونکر صدمہ بہ میں کیا لطف ہے الله الله ! یہ بھی اک ناز ہے تیرا نہ اٹھاؤں کیونکر زندگی تجھ سے ہے اسے نارِ محبت ! میری اشک غم سے ترے شعلوں کو بجھاؤں کیونکر تجھ میں سونے ہیں اسے تار ربات سنتی بود زخمه عشق سے تجھ کو نہ بچاؤں کیونکر ضبط کی تاب نہ یار اسے خموشی مجھ کو پائے اس درد محبت کو چھپاؤں کیونکر بات ہے راز کی پر منہ سے نکل جائے گی ہیں کئے کہ نہ تخیموں سے پھیل جائے گی - آسمان مجھ کو بجھا دے جو فروزاں ہوں میں یہ کے کہنہ تیم وال سے پھیل جائے گی - آسمان مجھ کو بجھا دے جو فروزاں ہوں میں صورت شمع اسید گورِ غریبان ہوں میں ہوں وہ ہمیار جو ہو کر مداوا مجھ کو رد چھلکے سے یہ کہتا ہے کہ درماں بیچوں میں سے دیکھنا ! تو میری صورت پہ نہ جانا کھیچیں! سمجھنے کو صفت نو گل خنداں ہوں میں موت سمجھا ہوں مگر زندگی منانی کو نام آجائے جو اس کا تو گریزاں ہوں میں دور رہتا ہوں کیسی بزم سے اور جیتا ہوں یہ سبھی جینا ہے کوئی جس سے پشیماں ہوں میں کنج عزلت سے مجھے عشق نے کھینچا نہ یہ کوہی چیز ہے جس چیز پہ نازاں ہوں میں دار غم دل احمد کی صورت کے نمایا اسکر داغ دل مہر کی صورت ہے نمایاں سیکن ہے اسے شوق ابھی ۔ اور نمایاں ہوں میں ضبط کی جاکے سنا اور کیسی کو نا صبح !!
اشک بڑھ بڑھ کے یہ کہتا ہے کہ طوفاں ہوں میں ہوں و مضمون کہ مشکل ہے سمجھنا میرا کوئی مائل ہو سمجھنے پر تو آساں ہوں میں تو یہ نہ کہتا ہے ولی مجھ کو - ولی بندہ مجھے من کے اِن دونو کی تقریر کو حیراں توں میں زاہر تنگ نظر نے مجھے کافر جانا اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں کوئی کہتا ہے کہ اقبال ہے صوفی مشرب کوئی سمجھا ہے کہ شیدا ئے جیہناں ہوں میں کوئی بجھا ہے کہ سیدا
نیناں ہوں میں ہوں عیاں سب پہ مگر پھر بھی نہیں اتنی باتیں کیا غضب آئے نگاہوں سے جو پنہاں ہوں میں دیکھ ! اسے چشم عدد مجھ کو حقارت سے نہ دیکھیا! جس پہ خالق کو بھی ہو ناز وہ انساں مہوں میں مزرعہ سوختہ عشق ہے حاصل میرا درد قربان ہو جس دل پڑھ ہے دل میرا قصت دار و رسن بازی طفلانه دول أَرني التجائے اگر سر فی افسانہ دل یا رب ! اس ساغر لبریز کی قے کیا ہوگی؟ جاوہ راہ بتا ہے خط پیمیا نہ دل ابر رحمت تھا کہ تھی عشق کی تنبلی یا رب! جل گئی مزرعہ ہستی تو اُگا دانہ دِل ن کا گنج گرانٹ یہ تجھے مل جاتے تو نے فرما د ا نہ کھودا کبھی ویرانہ دول سول عرش کا ہے کبھی کعبہ کا ہے دھوکا اس کی کیس کی منزل ہے ابھی ! میرا کا شانہ دل کچھ اُسی کو ہے مزا دہر میں آزادی کا جو ہوا قیدی زیر پری خانه دل ... اس کو اپنا ہے جنوں اور مجھے سود اور اپنا دل کسی اور کا دیوانہ ۔ میں دیوانہ ول تو سمجھتا نہیں اے زاہد نا واں ! اس کو رشک صجدہ ہے اک لغزش مستانہ دل ہائے کیا جانئے اس گھر کا مکہیں کیسا ہو؟ ہوں جو منصور سے دربانِ در خانه دل خاک کے ڈھیر کو اکسیر بنا دیتی ہے وہ اثر رکھتی ہے خاکستر پروانہ دل عشق کے دام میں نہیں کر یہ رہا ہوتا ہے برق گرتی ہے تو پینل ہرا ہوتا ہے آتی ہے اپنی سمجھ اور پر مائل ہو کر آنکھ کھل جاتی ہے انسان کی بیدل ہو کر لوگ سودا کو یہ کہتے ہیں بُرا ہوتا ہے عمل آئی مجھے پابندِ سلاسل ہو کر ہوگئی آرزو کا کبھی رونا ۔ کبھی اپنا ماتم اِس سے پوچھے کوئی ۔ کیا دل نے لیا دل ہو کر؟ میری ہستی ہی جو تھی میری نظر کا پردہ گپ بزم سے میں پر وہ محفل ہو کر میں بہتی ہو آبستی کا فنا ہو جانا حق دکھایا مجھے اس نقطہ نے باطل ہو کر خلق معقول ہے محسوس ہے خالق اے دل! دیکھ - نادان ! ذرا آپ سے غافل ہو کر طور پر تو نے جو اسے حضرت مو سے ! دیکھا وہی کچھ میں نے دیکھا پس محمل ہو کر کیا کہوں بیخودی شوق میں لذت کیا ہے ۔ تو نے دیکھا نہیں زاہد ! کبھی فائنل ہو کر رہ اُلفت میں رواں ہوں کبھی اُفتادہ ہوں موج ہو کر کبھی خاک لب کا حل ہو کر میں دمِ ذبح سمت جاتا ہوں یہ خبر قاتل ہو کر وہ مُسانہ ہوں ہے جب نہ پتا منزل کا خود بھی سیٹ جاؤں نشان رہ منزل ہو کر ہے فروغ دو جہاں داغ محبت کی ضیا چاند یہ وہ ہے کہ گھٹتا نہیں کا مل ہو کر دیدہ شوق کو دیدار نہ ہو کیا معنی آئے محفل میں جو دیدار کے قابل ہو کر عشق کا تیر قیامت تھا الهی ! تو به دل تڑپتا ہے میرا طا کر بسمل ہو کہ کے عرفاں سے میرا کا سہ دل بھر جائے میں بھی نکلا ہوں تیری راہ میں سائل ہو کر المد و استاد ملی مدفى احدى دل جان با د خدایت چه محب خوش کنی لاکھ سامان ہے اک بے سرو ساماں ہونا مجھ کو جمعیت خاطر ہے پریشاں ہونا تیری الفت کی اگر ہو نہ حرارت دل میں آدمی کو بھی میسر نہیں اِنساں ہونا یہ شہادت گہ اُلفت میں قدم ر رکھنا ہے لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا دل جو بر باد محبت ہوا، آباد ہوا۔ ساز تعمیر تھا اس قصر کو ویراں ہونا علم و حکمت کے مدینے کی کشش ہے مجھ کو لطف دے جاتا ہے کیا کیا مجھے ناداں ہونا کبھی مشرب میں اُویس قرنی سے چھپنا کبھی برق نگہ تو ہے عمراں ہونا میں گیا حشر میں جسم تو صرا یوں آئی دیکھنا ! دیکھنا !! وہ کا فردیندار آیا
تعلف آنے کا تو جب ہے کہ کسی پر آئے اور نہ دل اپنا بھی آنے کو تو سو بار آیا جوش سودائے محبت میں گریباں اپنا میں نے دیکھا تو نہ ہاتھوں میں کوئی تار آیا عشق کی راہ میں ایک سیر تھی ہر منزل پر ان کا دشت کہیں میر کا بازار آیا نے سوگلشن جنت کو کیا اس پہ نثار دشت بشرب میں اگر زیر مقدم خار آیا میں شفاعت نے قیامت میں بلا میں کیا کیا عرق شرم میں ڈوبا جو گنہگار آیا وہ میری شرم گنہ اور وہ سفارش تیری ہائے اس پیار یہ کیا کیا نہ مجھے پیار آیا ہے ترے عشق کا میخانہ عجب نہیں نہا یعنی بہشیار گیا ، اور میں سر شار آیا ماعرفنا نے چھپارکھی ہے علمت تیری قَابَ قَوْسَین سے گھلتی ہے حقیقت تیری چلے چلا جب محبت کا تلاطم مجھ کو شتی نوح ہے ہر موجہ ملزم مجھ کو حُسن تیرا میری آ آنکھوں میں سمایا جب سے تیر نکلتی ہے شعاع مہ و انجم مجھ کو تیرے قربان میں اے ساقی میخانہ ا عشق! میں نے ایک جام کہا ، تو نے دیے تم مجھ کو خاک ہو کہ یہ ملا اوج تیری الفت میں کہ فرشتوں نے لیا بہر سیستم مجھ کو گرد آسا سیر و امن سے لگا پھرتا ہوں آساسیه حشر کے روز بھی لا دو نہ کہیں تم مجھ کو کوئی دیکھے تو تیرے عاشق شیدا کا مزاج خور سے کہتا ہے چھیڑا نہ کرو تم مجھ کو موت آجائے جو مشرب کے کیسی کوچے میں میں نہ آٹھوں جو سیحا بھی کے شعر امجھ کو صفت نوک سیر فارشب فرقت میں پیجھ رہی ہے نگه دیده ام مجھ کو خوف رہتا ہے۔ یہ ہروم کہ رہ یثرب سے طور کی سمت نہ لے جائے تو ہم تجھ کو تُو نے آنکھوں کے اشارے سے تسکیں کردی شور محشر ہوا گلبانگ تر تم مجھ کو اپنا مطلب مجھے کہنا ہے مگر تیرے حضور چھوڑ جائے نہ کہیں تاب متکلم مجھ کو ہے ابھی امت مرحوم کا رونا باقی دیکھ اے بیخودی شوق نہ کر گم مجھ کو عمر حیرت ہوں سرایا غم بادی ہوں یم دہر کا مارا ہوا فریادی ہوں اے کہ انتھا نوح کو طوفاں میں سہا را تیرا اور براہیم کو آتش میں بھروسا تیرا ہے کہ مشعل تھا تو انظلمت عالم میں وجود اور تو یہ نگہ عرش بات یہ تیرا ائے کہ اپر تو ہے تیرے ہاتھ کا مہتاب کا نور چاند بھی چاند بن پا کے اِشارا تیرا گرچہ پوشیدہ رہا حسن نا ہیں ہے عیاں سنتی لولاک سے پایا تیرا ناز تھا حضرت موسے کو یہ بھیا تیرا سو تجھے کا محل گفتش کفِ پا تیرا چشم بستنی صفتِ دیدہ اسے ہوتی یدا کن میں اگر نور نہ ہوتا تیرا مجھ کو انکار نہیں آمد مہدی سے مگر پر ممکن ہے کوئی میشل ہو پیدا تیرا کیا کہوں امت مرحوم کی حالت کیا ہے جس سے بر باد تجھے ہم، وہ میت کیا ہے ۔ سے برباد حال اُمت کا بُرا ہو کہ بھلا کہتے ہیں صفت آئینہ جو کچھ ہے صفا کہتے ہیں واع عفوں میں یہ کبشہ کرنا آتی ! تو بہ اپنی ہر بات کو آواز حرا کہتے ہیں۔ ہر اِن کے ہر کام میں دنیا طلبی کا سودا ہاں ! مگر وعظ میں دُنیا کو بُرا کہتے ہیں۔ غیر بھی ہو تو اُسے چاہئیے اچھا کہنا پر غضب ہے کہ یہ اپنوں کو برا کہتے ہیں فرقہ بندی کی ہوا تیرے گلستاں میں چلی یہ وہ ناداں ہیں اسے بادِ صبا کہتے ہیں آہ ! جس بات سے ہوقت یہ محشر پیدا یہ وہ بندے ہیں اسے فتنہ رہا کہتے ہیں-
جن کی دینداری میں ہو آرزو کے زرینہاں آئے دھوکے میں انہیں راہنما کہتے ہیں لاکھ اقوام کو دنیا میں اجاڑا اس نے یہ تعصب کو مگر گھر کا دیا کہتے ہیں خانہ جنگی کو سمجھتے ہیں بنا ئے اِیمان مرض الموت ہے جو اس کو دوا کہتے ہیں مقصد تحْمَكَ تَحمِی پچھلی اِن کی زباں یہ تو اک راہ سے تجھ کو بھی مبرا کہتے ہیں تیرے پیاروں کا تو یہ حال ہو اسے شافع حشر! میرے جلیوں کو تو کیا جانئے کیا کہتے ہیں؟ بغض اللہ کے پردے میں عداوت ذاتی دین کی آڑ میں کیا کرتے ہیں کیا کہتے ہیں؟
جن کا یہ دیں ہو کہ ایک سال سے کریں ترک سلام اپنوں ایسے بندوں کو یہ بند سے صلحا " کہتے ہیں قوم کے عشق میں ہوتا کفن بھی نہ جیسے
ہوا کہتے ہیں - یہ آسے بندہ بے وارم کا وصل ہوسیلی مقصود سے کیونکر اپنا اختر سوختہ قیس ہے اختر اپنا اُمرا جو ہیں وہ سنتے نہیں اپنا کہنا سامنے تیرے پڑا ہے مجھے کیا کیا کہنا ہم جو خاموش تھے اب تک تو ادب مانع تھا تو ور نہ آتا بھی ہمیں حرف تمنا کہنا در دست دوں کا کہیں حال تمھپا رہتا ہے اپنی خاموشی بھی تھی ایک طرح کا کہنا شکوہ منت کش لب ہے کبھی منت کشِ چشم میرا کہنا جو ہے رونا تو ہے رونا کہنا قوم کو قوم بنا سکتے ہیں دولت والے بنا۔ یہ اکر راہ پر آجائیں تو پھر کیا کہنا بادہ عیش میں سرمست رہا کرتے ہیں۔ یا درمان نہ تیرا نہ جدا کا کہنا ہم نے سو بار کہا قوم کی حالت ہے بُری " سمجھتے نہیں یہ لوگ ہمارا کہنا دیکھتے ہیں یہ غریبوں کو تو برہم ہو کر فقر تھا محنہ تراشا دو عالم ہو کر اس مصیبت میں ہے اِک تُو ہی سہارا اپنا تنگ آکریب مند یاد ہوا کا اپنا ایسی حالت میں بھی امید نہ ٹوٹی اپنی نام لیوا ہیں تیرے تجھ پر ہے دعوئے اپنا فرقہ بندی سے کیا راہنماؤں نے خراب کی ہا ۔ کے ! اِن مالیوں نے باغ اُجاڑا اپنا ہم نے سو راہ اخوت کی نکالی لیکن نہ تو اپنا ہوا اپنا، نہ پر ایا اپنا دیکھ ! ائے نوح کی کشتی کے بچانے والے! ر آیا گرداب حوادث میں سفینہ اپنا س مصیبت میں اگر تو بھی ہماری نہ سنے اور ہم کس سے کہیں جا کے فسانہ اپنا ہاں ابرس ! ابر کرم دیر نہیں ہے اچھی کہ نہ ہونے کے برابر ہوا ہونا اپنا لطف یہ ہے کہ پچھلے قوم کی کھیتی اس سے ورا نہ ہونے کو تو آنسو بھی ہے دریا اپنا اب جو ہے ابر مصیبت کا دھواں دکھار آیا ڈھونڈھتا پھرتا ہے تجھ کو دل شیدا اپنا یوں تو پوشیدہ نہ تھی سمجھ سے ہماری حالت ہم نے گھبرا کے مگر تذ کرہ چھیڑا اپنا زندگی تجھ سے ہے لئے فخر جہ اسیم ! اپنی کہ دُعا حق سے کہ مشکل ہوا جینا اپنا ایک یہ بزم ہے لے دے کے ہماری باقی ہے انہی لوگوں کی ہمت پہ بھروسا اپنا داستاں درد کی لمبنی ہے کہیں کیا تجھے سے سے ضعیفوں کو سہارے کی تمنا تجھ سے قوم کو جس سے شیف ہو وہ دوا کون سی ہے؟ یہ همین جس سے میرا ہو وہ صبا کون سی ہے؟ جس کی تاثیر سے ہو عزت دین و دنیا ہائے ! ائے شافع محشر ! وُہ دُعا کون سی ہے؟ جس کی تاثیر سے یکجان ہو اُمت ساری ہاں ۔ بتا دے ! ہمیں وہ طرز وفا کون سی ہے؟ جس کے ہر قطرے میں تاثیر ہو یکرنگی کی ہاں بتا دے ! وہ کئے ہوش ربا کون سی ہے؟ قافلہ جس سے رواں ہو سوئے منزل اپنا ناقہ وہ کیا ہے ؟ وہ آواز در اکون سی ہے؟ اپنی فریاد میں تاثیہ نہیں ہے باقی! جس سے دل قوم کا پچھلے وہ صدا کون سی ہے؟
سب کو دولت کا بھروسا ہے زمانہ میں مگر اپنی آتی دنیاں تیرے سوا کون سی ہے؟ اپنی کھیتی ہے اُجڑ جانے کو اسے ابر کرم ! تجھ کو جو کھینچ کے لائے وہ ہوا کون سی ہے؟ ہے نہاں جن کی گدائی میں امیری سب کی کی آج دنیا میں وہ بزم نعت را کون سی ہے؟ تیرے قرباں کہ دکھا دی ہے جیل تو نے میں نے پوچھا جو اخوت کی بنا کون سی ہے؟ راہ اسی محفل رنگیں کی دکھائے سب کو اور اس بزم کا دیوانہ بنائے سب کو
اقبال-