shabd-logo

خواب شکوہ

23 September 2023

24 ڏسيل 24

دل سے جو بات نکلتی ہے، عصر رکھتی ہے پر نہیں، تقویٰ پرواز مگر رکھتی ہے

 قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے خاک سے اٹھتی ہے، گردون پہ گُزر رکھتی ہے

 عشق تھا فتنہ گرو۔ سرکاش او چلاک میرا آسمان خوش گیا نالہ-بیبا

 پیر-گردون نی کہا سن کے، کہیں ہے کوئی! بولے سیارے، سرِ عرشِ بارین ہے کوئی! 

چاند کہتا تھا، نہیں، اہل زمین ہے کوئی!کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ یہیں ہے کوئی! 

کچھ جو سمجھ تو میرے شکوے کو رضوان سمجھے مجھے جنت سے نکلا ہوا انسان سمجھ

 تھی فرشتوں کو بھی حیرت، کے یہ آواز ہے کیا! عرش والو پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا! 

آ گئی خاک کی چھٹکی کو بھی پرواز ہے کیا؟

 غافل آداب سے یہ سکھاں زمین کسے ہیں شوخ و گستاخ یہ پاسی کے مکین کیسے ہیں! 

کیا قدر شوخ کے اللہ سے بھی برہم ہے جو مسجد ملائیک یہ وہی آدم ہے؟ 

عالم کیف ہے، دانا رموز کام ہے ہان، مگر اعجاز کے اسرار سے نامحرم ہے

 ناز ہے تقدّتِ گفتار پہ انسانوں کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو!

 آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ تیرا اشک بیت سے لبریز ہے پیمانہ تیرا 

اسمانگیر ہوا نارا مستانہ تیرا کس قدر شوخ زوبان ہے دل دیوانہ تیرا

 شکر شکوے کو کیا حسین ادا سے نہیں سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو

 ہم تو میال با کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں راہ دکھلائیں کسے راہو منزل ہی نہیں تربیات عام تو ہے، جوہر قابیل ہی نہیں جس سے تمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں کوئی قابیل ہو تو ہم شان کائی دیتے ہیں دھونڈنے والے کو دنیا بھی نہیں دیتے ہیں! ہاتھ بی زور ہیں، الہاد سے دل کھو-گر ہیں امتی بائس-رسوائی-پیغامبر (ص) ہیں لیکن شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے لیکن گار ہیں، براہیم پدر، اور پسر آزار ہیں بدہ آشام نہ، بڑا نیا، خم بھی نئے حرم کعبہ نیا، لیکن بھی نہیں، تم بھی نہیں وہ بھی دن کے یہ مایا رانائی تھا نازش-موسم گل لالہ صحرائی تھا! جو مسلمان تھا اللہ کا سودا تھا کبھی محبوب تمھارا یہ ہرجائی تھا کسی یکجائی سے اب احد غلامی کر لو ملت احمد (ص) کو مقام کر لو! کس قدر تم پہ گران سب کی بیداری ہے ہم سے کب پیار ہے! ہان نیند تمہین پیاری ہے تبع آزاد پہ قائد رمضان بھری ہے تمہی کہ دو، یہ آئے وفاداری ہے؟ قوم مضحب سے ہے،مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں، جزبِ بہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں باقی جو رہے لیکن گار ہیں تھا براہیم پدار، اور پسر آزار ہیں بڑا آشام نیا، بڑا نیا، کھم بھی نہیں حرم کعبہ نیا، لیکن بھی نہیں، تم بھی نہیں وہ بھی دن کی یہ مایا رانا تھا نازشِ معصومِ گل لالہِ صحرائی تھا! جو مسلمان تھا اللہ کا سودا تھا کبھی محبوب تمھارا یہ ہرجائی تھا کسی یکجائی سے اب احد غلامی کر لو ملت احمد (ص) کو مقام کر لو! کس قدر تم پہ گران سب کی بیداری ہے ہم سے کب پیار ہے! ہان نیند تمہین پیاری ہے تبع آزاد پہ قائد رمضان بھری ہے تمہی کہ دو، یہ آئے وفاداری ہے؟ قوم مضحب سے ہے،مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں، جزبِ بہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں باقی جو رہے لیکن گار ہیں تھا براہیم پدار، اور پسر آزار ہیں بڑا آشام نیا، بڑا نیا، کھم بھی نہیں حرم کعبہ نیا، لیکن بھی نہیں، تم بھی نہیں وہ بھی دن کی یہ مایا رانا تھا نازشِ معصومِ گل لالہِ صحرائی تھا! جو مسلمان تھا اللہ کا سودا تھا کبھی محبوب تمھارا یہ ہرجائی تھا کسی یکجائی سے اب احد غلامی کر لو ملت احمد (ص) کو مقام کر لو! کس قدر تم پہ گران سب کی بیداری ہے ہم سے کب پیار ہے! ہان نیند تمہین پیاری ہے تبع آزاد پہ قائد رمضان بھری ہے تمہی کہ دو، یہ آئے وفاداری ہے؟ قوم مضحب سے ہے،مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں، جزبِ بہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں تم بھی نہ وہ بھی دن کے یہ مایا رانائی تھا نازشِ موسمِ گل لالہِ صحرائی تھا! جو مسلمان تھا اللہ کا سودا تھا کبھی محبوب تمھارا یہ ہرجائی تھا کسی یکجائی سے اب احد غلامی کر لو ملت احمد (ص) کو مقام کر لو! کس قدر تم پہ گران سب کی بیداری ہے ہم سے کب پیار ہے! ہان نیند تمہین پیاری ہے تبع آزاد پہ قائد رمضان بھری ہے تمہی کہ دو، یہ آئے وفاداری ہے؟ قوم مضحب سے ہے،مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں، جزبِ بہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں تم بھی نہ وہ بھی دن کے یہ مایا رانائی تھا نازشِ موسمِ گل لالہِ صحرائی تھا! جو مسلمان تھا اللہ کا سودا تھا کبھی محبوب تمھارا یہ ہرجائی تھا کسی یکجائی سے اب احد غلامی کر لو ملت احمد (ص) کو مقام کر لو! کس قدر تم پہ گران سب کی بیداری ہے ہم سے کب پیار ہے! ہان نیند تمہین پیاری ہے تبع آزاد پہ قائد رمضان بھری ہے تمہی کہ دو، یہ آئے وفاداری ہے؟ قوم مضحب سے ہے،مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں، جزبِ بہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں ہان نیند تمہین پیاری ہے تبع آزاد پہ قائد رمضان بھری ہے تمہی کہ دو، یہ آئے وفاداری ہے؟ قوم مضحب سے ہے،مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں، جزبِ بہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں ہان نیند تمہین پیاری ہے تبع آزاد پہ قائد رمضان بھری ہے تمہی کہ دو، یہ آئے وفاداری ہے؟ قوم مضحب سے ہے،مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں، جزبِ بہم جو نہیں، محفلِ انجم بھی نہیں