shabd-logo

پریوں کا غول

29 December 2023

4 ڏسيل 4
اب تو ۶۵۱ ھ ہے، مگر اس سے ڈیڑھ سو سال پیشتر سیاحوں اور خاصیتہ حاجیوں کے لیے وہ کچی اور اونچی سڑک نہایت ہی اندیشہ ناک اور پُر خطر تھی جو بحر خز ریسین کے جنوبی ساحل سے شروع ہوئی ہے اور شہر بابل میں ہو کے شاہنامے کے قدیم دیوستان یعنی ملک ماژندران اور علاقہ رود بار سے گزرتی اور کو ہسار طالقان کو شمالاً جنو با قطع کرتی ہوئی شہر قزوین کو نکل گئی ہے۔ مدتوں سے

اس سڑک کا یہ حال ہے کہ دن دہاڑے بڑے بڑے قافلے لٹ جاتے ہیں اور بے گناہوں کی لاشوں کو برف اور سردی مظلومی و قتل و غارت گری کی یادگار بنا کے سالہا سال تک باقی رکھتی ہے۔ ان دنوں ابتدائی سرما کا زمانہ ہے۔ سال گزشتہ کی برف پوری پگھلنے نہیں پائی تھی کہ برف برسنا شروع ہو گئی ۔ مگر ابھی جاڑا اتنے درجے کو نہیں پہنچا کہ موسم بہار کے نمونے اور فصل کی دلچسپیاں بالکل مٹ گئی ہوں ۔ آخری موسم کے دو چار پھول باقی ہیں اور کہیں کہیں اُن کے عاشق و قدردان بلبل بدخشاں بھی اپنی ہزار داستانی و نغمہ سنجی کے راگ سناتے نظر آ جاتے ہیں ۔ یہ کوہستان عرب کے خشک وبے گیاہ پہاڑوں کی طرح بر ہنہ اور دُھوپ میں جھلسے ہوئی نہیں بلکہ ہر طرف سایہ دار درخت اور گھنی جھاڑیوں نے نیچر پرستوں اور قدرت کے حقیقی قدر دانوں کے لیے محمد محمدہ عشرت کدے اور تنہائی کی خلوت گاہیں بنا رکھی ہیں ۔ اور جس جگہ درختوں کے جھنڈ تھے ، وہاں آسمان کے نیلے شامیانے کے نیچے قدرت نے گھاس کا سبزہ اور مخملی فرش بچھا دیا ہے جس پر بیٹھ کے کوئی شراب شیراز کے لطف اٹھانا چاہے تو یہاں نہر رکنے کے بدلے نہر ویریجان موجود ہے جو شاید ابھی ڈیڑھ صدی بھی نہیں گزری کہ رُود سفید سے  کاٹ کے پہاڑوں کے اندر ہی اندر مختلف گھاٹیوں میں گھمائی اور آخر شہر خرم آباد کے قریب بحر خزر میں گرائی گئی ہے۔ ان ہی دلچسپیوں اور قدرت کے ان ہی نظر فریب منظروں نے اس کو ہسار کے متعلق طرح طرح کے خیالات پیدا کر دیے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جنت ان ہی گھاٹیوں میں ہے اور بعض سمجھتے ہیں کہ قدیم دیوز ادوں کو کیومرث و رستم و نریمان کے زور بازو نے فنا کر دیا ، مگر ان کی یاد گار میں بہت سی پریاں آج تک ان تنہائی کے مقامات میں سکونت پذیر ہیں ۔ خوش عقیدہ لوگوں میں سے اکثروں نے ان پر یوں کو اُڑتے دیکھا ہے اور بعض سیاحوں کو تو پر یوں کے بڑے بڑے پڑتے نظر آئے ۔ یہ بھی سنا جاتا ہے ہے کہ کہ جو جو کوئی یکہ و تنہا ان ہوش ربا غول گھاٹیوں سے نا گہاں نکل پڑتے نظر پر یوں کے غول میں آتا ہے، فوراً مر جاتا ہے۔

مگر پر یوں اور قدیم دیوؤں سے زیادہ ظالم ملاحدہ اور باطنیہ لوگ ہیں جو اس علاقے میں آباد اور پھیلے ہوئی ہیں ۔ اور جو پرانے اصول و عقائد کا مسلمان ان کے ہاتھ پڑ جاتا ہے، کسی طرح جاں بر نہیں ہو سکتا۔ خصوصاً جمادی الاول ، جمادی الآخر اور رجب کے مہینوں میں ان کے مظالم کی دھوم مچ جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ علاقہ ہائی ترکستان وغیرہ اور استراخان کے مسلمان جب حج کو جاتے ہیں تو جہازوں پر بحر خزر سے پار ہو کے اسی علاقے میں اُترتے اور اسی کو ہا ر طالقان کو طے کرتے ہوئی ارض عراق کو جاتے اور پھر وہاں سے خاک پاک حجاز کا ارادہ کرتے ہیں ۔ اگر چہ یہاں کے مظالم کی ہر جگہ شہرت ہو گئی ہے اور بہت سے لوگوں نے یہ راستہ چھوڑ دیا ہے مگر پھر بھی بعض بے پروا مسلمان اپنی خوش اعتقادی کے جوش میں آنکلتے ہیں علی الخصوص آمل اور اس کے

مضافات کے لیے تو اور کوئی راستہ ہی نہیں ۔ یہ سڑک جس کا اوپر ذکر آیا، بہت دور تک پھیلی ہوئی ہے۔ مگر ہمارے پیش نظر صرف وہی ہے جہاں یہ سڑک نہر ویریجان کے کنارے کنارے گزری ہے ۔ اس مقام سے علاقہ رود بار کے میدان ختم ہو گئے اور کوہستان سخت اور پیچیدہ نشیب و فراز کی ابتدا ہے ۔ یہاں سے کچھ آگے بڑھ کے سڑک اور طرف گئی ہے اور نہر کوہ البرز کے دانتوں میں چکر کھا کے دشوار گزار اور پیچیدہ گھاٹیوں میں غائب ہو گئی ہے۔ شام کو شائد ہی چند گھڑیاں باقی ہوں گی ۔ آفتاب سامنے برف آلود چوٹیوں کے قریب پہنچ گیا ہے۔ اس کی کمزور کرنوں نے جو تھوڑی گرمی پیدا کر دی تھی ، مٹ گئی اور ہوا کے سر دجھونکے جو بلند برفستان سے پھیلتے ہوئی آتے ہیں، انسان کے لیے کپکپا دینے کو کافی ہیں۔

اس جگہ پر اور ایسی حالت میں شمال کی طرف سے دو مسافر سر سے پاؤں تک کپڑوں میں لیٹے اور دو بڑی گٹھڑیوں کی صورت بنائے ہوئے آہستہ آہستہ آرہے ہیں۔ دونوں اپنے چھوٹے چھوٹے اور تھکے ماندے گدھوں پر سوار ہیں۔ ان کی سست روی اور مجموعی حالت سے خیال ہوتا ہے کہ کسی گاؤں کے قریب کے ملا یا فقیر ہیں جو امارت اور سپا ہیا نہ دونوں وضعوں سے جدا کسی دینی غرض اور تقدس کی شان سے اس سفر کو نکلے ہیں ۔ مگر نہیں ۔ وہ قریب آگئے اور معلوم ہوا کہ مثلا ہیں نہ مشائخ بلکہ دونوں نو عمر شریف زادے ہیں، اور حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں میں ایک مرد ہے اور ایک عورت۔ ان کے لباس اور وضع سے چاہے نہ ظاہر ہو مگر بشرے بتاتے ہیں کہ کسی معزز خاندان کے چشم و چراغ ہیں اور ممکن نہیں کہ کسی نامی اور شریف گھرانے سے تعلق نہ رکھتے ہوں۔ اس لیے کہ موٹے موٹے اور لمبے چوڑے کملوں کے نیچے جنھیں سر سے پاؤں تک لپیٹ لیا ہے، دونوں شرفائے آمل کا لباس پہنے ہوئے ہیں ۔ مرد جو ایک خوبصورت نوجوان ہے، ایک اونی گفتان پر بڑا پوستین کا لباس پہنے ہوئے ہے۔ سر پر قدیم لمبی تر کی ٹوپی ہے جو بانس کی تیلیوں سے ایک مخروطی صورت میں بنا کے بکری کی سیاہ کھال سے مڑھ دی گئی ہے۔ ٹوپی پر عمامہ ہے اور اسکے کئی بیچ سر سے نیچے اُتر کے کانوں اور گلے میں لیٹے ہوئے ہیں ۔ پاؤں میں موزے اور ایک اونی پاجامہ ہے۔ کمر میں چمڑے کی پیٹی کسی ہے، جس میں خنجر لگا ہے اور تلوار لٹک رہی ہے ۔ اس نو جوان کے پاس کمان اور تیروں کا ترکش بھی ہے۔ مگر اس عہد قدیم کے یہ ضروری اسلحہ گدھے کی زین میں بندھے ہیں اور یہی ایک حربہ ہے جس کے ذریعے سے شکار کر کے یہ دلاور نو جوان اپنے اور اپنی دل ربا رفیقہ حیات کے لیے قوت لایموت حاصل کرتا ہے ۔ الغرض ایک گدھے پر تو یہ نوجوان سوار ہے اور دوسرے پر ایک اٹھارہ انیس برس کی پری جمال ۔ موٹے موٹے کپڑے اور بھدے پوستین اس کے زاہد فریب حسن کو بہت کچھ چھپا رہے ہیں۔ مگر ایک مہ وش کی شوخ ادائیاں کہیں چھپائے چھپی ہیں! جس قدر چہرہ کھلا ہے حسن کی شعائیں دے رہا ہے ، اور دیکھنے والے کی نظر کو پہلا ہی جلوہ یقین دلا دیتا ہے کہ ایسی نازنین و حسین پھر نظر نہیں آئے گی۔ ہماری آفت روز گارمہ جبیں ایک زرد ریشمی پاجامہ پہنے ہے جو اوپر سے نیچے تک ڈھیلا اور پاؤں کے گٹوں پر خوش نما جنت بندھا ہے۔ گلے میں دبائے سرخ کا ایک کرتا ہے اور سر پر نیلی پھولدا راطلس کی خمار ۔ لیکن یہ سب کپڑے ایک پھولے پھولے پوستین کے اندر چھپے ہوئے ہیں ۔ جو چیز کہ اس کے عورت ہونے کو عام طور پر ظاہر کر رہی ہے ، وہ چھوٹی چھوٹی سیکڑوں چوٹیاں ہیں جو خمار کے نیچے سے نکل کر ایک شانے سے دوسرے شانے تک ساری پیٹھ پر بکھری چلی گئی ہیں اور راستے کے کے ساتھ . نشیب و فراز یا گدھے کی تیز روی سے بار بار گھل جاتی ہیں۔ 

اس دل ربا لڑکی کے حسن و جمال کی تصویر دکھانا مشکل ہے۔ مگر غالباً یہ چند باتیں مشتاق دلوں میں اور آرزومند نگاہوں کے سامنے اس کے زاہد فریب چہرے کا ایک معمولی ساخا کہ قائم کر  سکیں ۔ گول آفتابی چہرہ جیسا کہ عموماً پہاڑی قوموں میں ہوتا ہے، سُتے اور کھنچے ہوئے ، سرخی کی جھلک دینے والے گال ، بڑی بڑی شرابی آنکھیں، لمبی نوک دار پیکیں ، بلند مگر کسی قدر پھیلی ہوئی ناک اور خمدار ہونٹ ، باریک اور ذرا پھیلی ہوئی باچھیں ، چھوٹے سے سانچے میں ڈھلی ہوئی نوک دار ٹھوڑی، شرمگیں اور معمولی جھکی نظروں کے ساتھ شوخ اور بے چین چشم وابر و اور اس تمام سامان محسن کے علاوہ تمام اعضا و جوارح کا غیر معمولی تناسُب ہر شخص کو . ہر شخص کو بے تاب و بے قرار کر دینے کے لیے کافی ہے ۔

یہ دونوں نوعمر مسافر چاروں طرف کے منظروں کو دیکھتے ہیں اور مقامی دشواریوں کی وجہسے دل ہی دل میں ڈرتے ہوئے چلے جاتے ہیں۔ دن کے آخر ہو جانے کے خیال سے ان کے نازک چہرے جنھوں نے ابھی تک تجربے کی پختگی نہیں حاصل کی ، پریشان ہونے لگے ہیں ۔ مگر اس پر بھی خموشی کا قفل نہیں گھلتا ۔ ناگہاں کسی فوری جذبے سے مغلوب ہو کے نازنین نے ٹھنڈی سانس لی اور بار یک دلفریب آواز میں پوچھا آج کون سا دن ہے؟؟

نوجوان ( چپکے ہی چپکے حساب لگا کر ) جمعرات۔

لڑکی: (حسرت آمیز لہجے میں ) تو ہمیں گھر چھوڑے آج پورے آٹھ دن ہوئے ۔ ( ذرا تامل کر کے ) خدا جانے کون لوگ کیا کیا باتیں کہتے ہوں گے اور کیسی کیسی رائیں قائم کی جاتی 

 ہوں گی۔

نوجوان یہی کہتے ہوں گے کہ حج کے شوق نے ہم سے وطن چھڑ دیا ۔

لڑکی پھر ایک آہ سر د بھر کے ) مجھے الزام بھی دیتے ہوں گے کہ نامحرم کے ساتھ چلی 

آئی۔


وڌيڪ ڪتاب by عبدل حلیم شرار