یہ تحقیقی مقالہ سات (7) ابواب پر مشتمل ہے ۔ ابتدائی تین (3) ابواب تمہیدی نوعیت کے ہیں ، جن میں قرآن مجید کا عمومی تعارف کرایاگیاہے ، ترجمۂ قرآن کی ضرورت واہمیت اور اس راہ کی مشکلات کا تذکرہ کیا گیا ہے اور فنِ ترجمہ نگاری کی تاریخ اور عہد اسلامی میں ترجمہ کی روایات پر اجمالی روشنی ڈالنے کے ساتھ اردو زبان میں ترجمہ نگاری کے آغاز وارتقا سے بحث کی گئی ہے ۔ باب چہارم ڈاکٹر ہاشمی کی تحقیق کی اصل جولان گاہ ہے ۔ اس میں 6 فصلوں کے تحت صدی بہ صدی قرآن مجید کے مکمل اور جزوی تراجم کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ان کا جائزہ لیا گیا ہے ۔ مصنف کی تحقیق کے مطابق سولہویں صدی میں صرف چند اجزائے قرآن کے ترجمے ہوئے تھے ۔ ستراہویں صدی میں صرف ایک مکمل ترجمہ و تفسیر (تفسیر وہابی1686ء) لکھی گئی اور پانچ نامکمل جزوی تراجم ہوئے ، البتہ اٹھارہویں صدی میں خاطر خواہ کام ہوا ۔ چنانچہ نو (9) مکمل تراجم اور پندرہ (15) تا بیس(20) جزوی تراجم کا پتہ چلتا ہے ۔ شاہ عبد القادر کا بامحاورہ ترجمہ اور شاہ رفیع الدین کا لفظی ترجمہ اسی صدی کے آخری زمانے میں ہوگئے تھے ، البتہ ان کی اشاعت انیسویں صدی کے اوائل میں ہوئی ۔ انھوں نے اس صدی کے تیرہ(13) تراجم کا مختصر تعارف کرانے کے بعد ان میں سے تین تراجم (شاہ عبدالقادر اور شاہ رفیع الدین کے تراجم کے علاوہ شاہ مراد اللہ انصاری کے ترجمہ وتفسیر) کا مفصل تعارف کرایاہے ۔ ان تین صدیوں کو انھوں نے ترجمۂ قرآن کا پہلا دور قرار دیا ہے ۔ Read more