shabd-logo

1

17 November 2023

9 ڏسيل 9


تیرے لیے کا واقعہ ہے

ایم اے کی ساری کلاس حاضرتھی۔ لڑکیاں ہم سے اگلی قطار میں بھی تھیں۔۔۔ سان پاکستانی ہر نوں میں جو سب سے آخری تھی ۔۔۔۔ اکتوبر کا دن تھا جس طرح بھٹی سے نکل کر مکئی کے والے عطیہ پھولے ہوئے ہے اور اللہ کے نظر آتے ہیں ایسے ہی اکتوبر کا بیان تھا یا انھواں ہوا اور سلیم ۔ اس سے پہلے کے تمام دن بھلی ای و گرم تھے۔ لیکن میدادن سفید سفید دھوپ میں مکہ چھوڑا پھولا ہوا ہو انظر آتا تھا۔ یکھ بالوں میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ گھڑیوں کے تابع نہیں رہتے اپنی گنجائش اور

مالی کے مطابق گزارتے ہیں

پرفیسر کیل نے بی کار مسی اس لڑکی کی طرف نظریں اٹھا کر سوال کیا ۔ " دیا

تعارف کرائے "

والے کے دن سے لے کر اب تک ہم اس کے نام کے تعلق کی تیا نے لگا چکے تھے۔ چاستالی برٹی ابھی اس نے کرہی ہے ایسے ہاز وہ کھا پیسے اور سائیکل کے سہارے

سر میرا نام یکی شاہ ہے، میں نے کھیر ڈکالج سے بی اے کیا ہے اور میرے

میک سیالوی اور ہسٹری تھے۔

پہلی مرتبہ تمام عل یا اپنے آپ کو باقی کا اس سے باضابطہ طورپر متعارف گزار ہے۔ تھے اس سے پہلے فرمان کنیم الیہ اور کمر تعارف کر چکی تھیں۔ لیکن بیا نام لڑکیاں پر سلام ہے اور انہاں سے لی گئی تھیں، جنہوں نے اخباری کاندوں پر کیسے ہوئے اونس رٹے رٹ کر بی اے کیا ہو۔ کوثر کے علاوہ ان لڑکیوں کی جنرل نالج اورعلمی

استعدادیوں کی آتا ہوں تک محمد وقتی۔

کوثر حبیب بورسیمی شاہ ہماری کلاس کی آنکھیں تھیں۔ جگر کاتی روشنی ۔۔۔

سے بھری ہوئی۔ لیکن کوز حبیب متاثر کرنے سے پہلے ایک گیر نائی تھی۔ جینا کرنے سے پہلے خود ہار جانے کی عادی تھی۔ اس کے جسم اور کا بھی کی وجہ سے ہی اسکی تھی، مہینے بہت خوبصورت باب روشن ہو لیکن بار بار نکلی کا شور از جانے کی وجہ سے

روشنی میں تواتر شدہ ہے ور کی شادی

ہونگیورگی معاشرے کی پیے مار تھی۔ اس وقت اس نے موری بند شکار کے اوپ وال کا سفید کرتے لیکن رکھا تھا۔ گے میں جمائی مال مالا کٹ ناف کو چھو رہا ہے۔ کندھے پر چلنے والے کینوں کے قبیلے میں مانیالندی اب تک اتر ہی تھے۔ ایک ایک امری تھی جس میں کی فون نمبر اور نے تجھے اے کے دن اور جی تھے ایک دو ایسے حیتی پین بھی شاید موجود ہوں گے جن میں سیاسی نہ ہونے کی وجہ سے وہاں پر است مانگ کر کھا کرتی تھی اس کے سا جانوں پر سرخ رنگ غالب تھا۔ اکتوبر کے میدون کی روشنی میں اس کے بال آگ کاکرنے ہی والے تھے۔ وہ وائل میرے سامنے تھی اور اگر میں میں چاہتا تو اس کے کندھوں پر پینے سے سجے ہوئے بالوں کو چھوسکتا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح اس کے کرنے کے نیچے سے ان کی باڈس کا ان تک ایک اورپر جانے والی متناہوں کو دیکھ کر میں خوار وہ ہو گیا۔ بھری پستول سے گھی میں اس طرح خالک نہیں ہوا۔

ارکوں کی قطار میں پیار کار کا آئی آپ تھا

جب مسکن شاہ اپنا تعارف کروا یکی تو آلت آب الھا، امریکی فوں کا نہ دیتا سوری ابتایت مول ورلے کے ساتھ پیش کر ہوا ۔۔۔ گرمی کیا تو اسی عکس مین ڈالر میں نے بھاری آواز میں کیا۔۔۔۔ سمیر نام آفتاب بٹ ہے مری اس کانی کای وند شوربات ہوں آپ مجھے خوب جانتے

پروفیسر بیل نے اپنی آنکھوں سے چشمہ اتار کر کہا ۔۔۔۔ لیکن تمہارے ہم

ماعت شاہ تمہیں نہیں جانتے "

آفتاب نے پہلے لڑکیوں کی قطار پر کر نہیں ڈالیں پھر ڈسکس کیلئے والوں کی طرح تھوڑا پاؤں پر گھو م اور لڑکوں کومخاطب کر کے بولا۔۔۔ پچھلے سال میں یونین کا صدر تعالی اے میں میرے ممالک سائیکالوجی اور سوالیا لوجی تھے۔ میں اگر خود پسندی اور فلموں کا شوقین نہ ہوتا تو شایع کیہ اے میں باپ کرتا لیکن مجھے فٹ نے آنے کا پکو خاص انسوں بھی نہیں ہوا کیونکہ جواز کی ماناب میں فرٹ آئی ہے وہ مجھ سے نوٹس لے کر جاتی رہی ہے ویسے میر کی Reputation والد کین کے خوف

سے اوراللہ سے لن سے انگلی ہے۔" ساری کلاس پاس رہی۔ لڑکوں میں سے کسی دل جلے نے نعرہ لگایا۔ میاں منقو

میان شو

تعارف جاری رہا۔ رہا۔۔۔۔ پانی لڑکوں اور چو رولز کے جب تعارف کروا چکے تو اتنا حالات زندگی نور جوں سے اوجھل ہو چکی تھی ۔ شاید اس کے بعد کلاس ختم ہو جاتی اور جمائیاں شروح اہو تیں لیکن اس کے بعد ڈاکٹر کیل نے میں ہر سے پاک ھمایا۔ ایک او را پر ایک تا سامر بڑی بڑی مونچھیں چھوٹے دھڑ اور جے جے بوٹوں والا ایک کا مک گھر نایا۔ پھر ان کی آنکھوں کی چوکور فریم کی بینک پہنائی۔ فریار کے انداز میں پھیلے ہوئے بازو کھنچے ۔۔۔ اور ہے لکھنا۔

اتاری - ڈاکٹر بیل ۔ میں آپ کو شاہی سوشیا لوٹی پڑھاؤں

ایک ایرانی تصویر بنانے والی پرو فیسر ہم سے مشکل پانی چھ سال و اتھالیکن کتب اس کے ہاں ایک ایسا اگر موجود تھا جو شیروں کو سدھارنے والے استعمال کرتے

جیہا سے بھی کورین کیا جانا نہ آیا۔ لیکن وہ قانون کا جوا کھیلا جانتا تھا۔ کنکریات کی بھی کرتا اس کا موب محفل تھا۔ اپنے شاگر یوں کی کھوپڑیاں کھولنا اور خالی پا کر انہیں جوں کی توں بند کر دیا اسے ہی سے باندھ تھا۔ الی ہوئی زبانیں آزاد کرا کے ھوٹے کی طرح باتیں کرنا اور یہ بے کی مسلسل زبان ہو گئے والوں کو چپ کرانے کا ان بھی صرف اسے آتا تھا خوب مروری بر تا اور ہر طرح کی آزادی دیتا۔ کوئی بات کبھی سے شاک نہ کرسکی سوشیالوجی کے ساتھ ساتھ اسے دنیا کاہر بلاک آتا تھابی لیے اس کی موجودگی میں خون تعلیمی تنفع سے ہمیشہ پاک بہتی اور طالب علم ایک وسرے کی تشخیص میں زیادہ غلطیاں نہ کرتے ۔

پروفیسر کتل نے اپنی گدی پر دایاں باھر کھا دمای آرا سا پر اٹھا کر بولا۔ میں مر اور کربے میں آپ لوگوں سے بہت وائیں ہوں لیکن چونکہ میری شادی نہیں ہوئی اس لیے مجھے پیار کرنے کے لیے صرف کتا ہیں کی ہیں۔ ابھی تک میرا Persian کتائیں ہیں ۔ کلاں میں کبھی کبھی آپ لوگ کچھ ایسے سوال کریں گے تین کا جواب مجھے نہیں آتا ہوگا۔ اور میں پشتی سے انا کشمیر ہوں کہ سب کچھ یہ داشتہ کرتا ہوں کسی اور کی علمی برتری برداشت نہیں کرسکتا اس لیے wem 1 100 جب تک آپ میری کلاس میں رہیں پیشہ مجھے گرد سیکھیں ۔ میرے علم کون یا وہ مائیں کسی کی پر پائل station ہو گا آپ خود بات کی تین کو بہتر رکھتے ہوں گئے لیکن مجھے اس بات کا احساس دلا کر آپ کو نقصان ہو گا مہر کی چھاتی چھوٹی ہو جائے گی میں پی Wheaters منو بسوں کا ہو میری بات اصل ہو جائے گی کون کون چاہتا ہے کہ ہیں احساس کمتری میں 12 ہو جاؤ بالحد الاسے سوائے آفتاب

کے کسی نے ماتحت الھایا۔

بھلا کیوں مسٹر آفتاب آپ کیوں چاہتے ہیں کہ میں احساس کمتری میں 1970

ہوں۔"

راس لیے کہ آپ پہلے سے انسان کمتری میں 10 ہیں۔ صرف ہمارے

چاہتے سے ککھ نہیں ہوتا "

اقیوں میں سب سے اولیا فرا یہ پروفیسر کیل کا تھا ۔ اب کمرے میں نیت بان کی لڑکیوں کی قطار کے جفر میں یہی شاہ لڑکوں کی کلدی کے مرے ہی آنا بہت ۔۔۔۔ اور ان دونوں کے اند، اتصال پر پروفیسر سیل۔۔ میگون ہمیوں کے درمیان چاند ر سرکٹ کی طرنا بنے گی۔

نی کے ختم ہو لے ہم پر وفیسر کیں پھر گویا ہوا۔ میرے پاس فی الحال موال سائیکل ہے کسی لڑکے کو ضروری کام ہواتو وہ مجھ سے پانی مانگ سکتا ہے۔ لیکن جو وعدے کے مطابق موٹر سائیکل واپس نہیں کرے گام و دو بارہ اپنے اس حق کو استعمال نہیں کر سکا اگر کوئی لڑکی بس ستاپ پر کھڑی ہو اور ہا تھ دے کر مجھے روکے میں سے انٹ دوں گا لیکن اگر وہ مجھے موڑ سائیکل موڑنے کو کہے گی تو میں اسے اتار دوں گا۔ اب آپ سب مجھے نا سکتے ہیں کہ آپ کے پاس کیا لکھ ہے ؟۔۔۔ جو آپ

وہروں کے ساتھ Share کرسکتے ہیں اور کسی حد تک

ایک طرف سے آواز آئی۔

بال کبھی کبھی ...

وی سامان کے بعد

تیمی شادیهی

کانگ کی تاب نے جواب دیا۔

کڈ ویری گر مجھے یا چلا کہ ادارتی کلاس سوشیالوجی کی کلاس کا جی این

ب کافی ہے اور ہم اس اعتماد کر کے آسانی سے آگے چل سکتے ہیں۔ والی دی ہے کیا

آپ لوگ باکو لگتے ہیں فرد اور معاشرے کا آپس میں یا رشتہ ہے؟ فرد کی آواز یزی

ضروری ہی ہے۔۔۔ لیلی کی بھی پی کی مکس ہوگا کہ معاشرہ بھی اپنی تمام ار

داریوں سے گزر ہو جاتی ہو کر میں قائم ہے۔

اب پروفیسر کی شکل بری ہوگئی۔ اسے موٹر سائکل بھی پرانی

میں معصوم بھی شاہ کا کہ نیچر شرو ع ہو گیا ہے۔

پروفیسر کٹل ہائی یا یک رتی سے اتر اور معاشرے کے ہاتھی رہی کو زیر بحث رہا تھا۔ لیکن لکھا ہے باری باری گیند ہم سب کے کورٹ میں جانتا کہ ہم اپنی پوری ونی قوت کے ساتھ اسے پروفیسر کے کورٹ میں بتا دیتے، دیکھتے دیکھتے پورے جھانے لگے۔ جو دین بھی ہو گئیں۔ ہاتھ ہوا میں چلتے تھے۔ لڑکیاں جو نمازیں ایت کر ہی نہیں ہوئی تھیں سونے کے ساتھ برف تو کرتی نظر آئے گئیں ۔ اسے فر داور معاشرے سے ہو کر اب اور ہائی تھی۔ اور ہم سویان تمال بیند روانی یا میکسیکیور کا گینڈا کے مختلف معاشروں کا نکال کرتے کرتے بھی فرد کی محرومی کے متعلق سوچی

رہے تھے اور کبھی معاشرے کی بے چارگی ہی افسوس کر رہے تھے۔ پھر سینی شاید ابھی اور لی کر آپ کا کیا خیال ہے اگر معاشر ہو

تو کیا کوئی فرد بھی خود بھی کر سکتا ہے ؟

پروفیسر نے اپنے پینے کیے۔ میں انگلیاں اور میں پھر سوال کولڑکیوں کی قطار میں پھینک دیا۔ لڑکوں کی تکار سے جب کوئی خاطر خواہ جواب نہ ملاتو پروفیسر نے کہا

اور اصل خوردگی ایک States ہے کسی معاشرے کے اندر اگر کوئی پور می رفت کیا جاتا تو خودتی ان کا آخری درجہ حرارت ہوگا۔ افسوں میں شاہ ابھی کوئی مورتی

سو ساکتی رہی نہیں۔ ان کی اس لیے ہم تم نہیں کر سکتے لیکن خیال کیا جاتا ہے کہ

سوسائی کا پریشر پاگل ہے کا اہم وجہ ہے اور پاگلی پی سی خوردگی کاباعث ہے۔ اس کے بعد دوار قائم کے حوالے سے دیر تک بات کرتا رہا۔ ہم سب اس کی عمر میں تھے جب خواتی سے ایک رہنمائی اور رومانی پریشکی پید ا ہو جاتی ہے لیکن

وجوہات کا جائزہ لیا گیا جن کی میہ سے فرد خودگی پر مائل ہوتا ہے۔ اقتصادی معاشرتی مشخصی ذاتی وجوہات یا اگر بار خودکشی سے کھسک کر باقی مراض اور پاگل نیکی طرف مڑ گئی۔ کہے کہ مرد کی نیتی ہی رہی تھی ۔ اصلی و و و دی اند این اقفا

جس کی بار انسان کی اعتماد اقد اما با المانے پر کیوں ہوتا ہے۔ یکیو شروع سے آخر تک خاموشی سے بھی رہی۔ پروفیسر کیٹل کے ساتھ ساتھ قرزان طبیب اور کوہ بہت گرم جوئی سے بجٹ میں حصہ لے رہی تھیں۔ لیکن یہاں کی

ان کی بولتی بند ہوگی۔

کیل پروفیسر آپ لوگوں نے فرد اور معاشرے کی کالاش کو بہت خوبی سے سمجھا ہے اور بہت سے گیا نیچے اندہ کے ہیں۔ میں فرزانہ ٹھیک کہتی ہیں کہ معاشرے کا پسند انجب فرد کی گردن پر بہت الگ ہونے لگتا ہےتو کبھی کبھی اردوت سے پہلے خود اپنے فیصلے سے مرمانا تا ہے۔ کور نے خودکشی کی ان گنت و جو بات کو ایسے دوان کیا ہے کہاں میں ایک کی دریافت کی ہیں تازگی پیدا ہوگئی لیکن اب میں آپ لوگوں کو دالوت و یا ہوں کہ و ہیں اور گلی کاٹ ہے آپ سب متفقہ طور پ پاگل کنان بوم نیم بنیں پاگل پن کی اصلی وجہ کیا ہے۔۔۔ اور گھنے بانگم بات جس قدر ششدر کر نے والی حالت ہے اسی طرح پاگل پن پیدا کرنے کی وجہ کو بھی

حیران کن ہونا چاہئیے ۔"

اب تماری الرکوں کی ٹیم اس جہ میں تھو نے کس کر باطل ہوئی۔ انگل پان کی رہو جو اسے ہوسکتی ہیں۔ ایک تو unctional المیہ ہوگئی ۔

کہ بچے پید انتی دوری پاکمل ہو۔۔۔ دوسری جا نفسیاتی ہوسکتی ہے۔" اور گیراو گھئے ان وجوہات کے علاوہ شایع کوئی اور میں بھی ہو یا

اب تک آفتاب کے منہ سے ایک اور بھی نہ نکا تھا۔ یہ کشمیری بچہ سفید رنگ کی بیجنگ میں یہ تھوڑے گفٹ کی طرح کا کیا نا تھا۔ آفتاب کی یہ عادت بعد میں

ہیں پتہ چلی کہ جہاں منظر بہت سے کال حال جاہ وہاں جو ایک انتہا نہ ضائع کرتا ۔ جہاں اللہ سے خود یہ بچہ ہو جاتے وہاں وہ نکلے کو استعمال نہ کرتا، جہاں مختصر ہا ہے کائی ہوتی وہاں وہ بھی محلے میں نہ پڑا ۔ اور عوام انٹس میں پاتے کرنے کا عادی

الیوں کتا جات ایک نیرو برقی ما وقت سے نمبر تین سے آگے ہونے کی نشر و بت نہ ہوتی ۔ ایم اے کی کلاس میں

الت آپ کی سب سے بھی من گوشی ۔

آتاب اللہ اس نے اپنے مولوی باز وصلیب کی طرح اٹھانے آدمی آستین والی مری میں اس کے میلوں پیاز و مورنی گلاں سے لے ہوئے نظر آ رہے تھے۔ کھڑکی

سے آنے والی روشنی جس کی یہ خان پٹھوں میں چہکتے شہد میں روشنی پیدا کر رہی تھی ور اس وقت وہ بائیک کھیلوں میں آگ مشعل الانے والے کھلاڑی کی طرح خوبصورت، کوار و در مقال نظر آرہا تھا۔ شاکھ ہی لیے میں نے اس کی طرف کیلئے

کی غلطی کی مورد پائی ہوگی۔

پاگل پن بیش : آمورد آرناں سے بے انت ہے سر ۔۔۔۔ اور آسود اردو میں ان Teen سے اہم لیتی ہیں۔ جو ہر کام میں موجو در آتی ہیں۔ جس گھر میں ماموں زاد کیا سے شادی نہیں ہو گئی وہاں ماموں زا اور ان کے عشق لاحاصل

ے کی یہ ہوسکتی ہے۔"

کرلیا سے مستعار لے کا تی۔ میں نے چینی جیسی بھی انگریزی میں

ر پاگل ہے کی یہ میں نے نہیں لی۔

میں جس پاگل ہے کا ذکر کر رہا ہوں وہ میر تقی مر کا پاگل ہے ہے۔۔۔ فرہاد کا یا گل ہے ہے۔۔۔ پروفیسر کشی تو دیوانے ہیں کی ایک سائیڈ دکھارہے تھے خوشی ہو۔

موتہ میں دوسری سائیڈ قران کر رہا ہو جہاں آیا کر دیوانہ پی مقدس ہو جاتا ہے۔

مالات اور فتح کر لیتا ہے دودھ کی نہریں بہارت ہے۔"

کیاڑ کے نے پیچھے سے امر دلگایا نہ جاؤ بنا بر باد صاحب

آفتاب نے بیچے اتر کی نظر انی اور دیا گیا۔

has a pond پروفیسر کیل کی آنکھیں پہلے تھیں۔ یعنی ہم اس نتیجے، پہنچے ہیں کہ پاگل بین و جسم کا ہے۔۔۔ ایک محبت ایک می گو اب اس مہینے آپ سب کی ہے Armigament ہوگی کر آپ مجھے ایک نا ایک وہ اسکی تائیں جس سے اردو میں پاگل پن سے ہوتا ہے۔ بیلی نہیں ہونی چاہیے - Environmental میں ہونی چاہیے ۔ کوئی آفاقی نظریہ لیکن بالکل انی وہ ہونی چاہیے میں سب سے زیا دہ سے پھر سے جواب پر

سب سے زیادہ مہر دوں گا۔"

کلاس میں خورجی گیا۔

روع انے پن کی صرف ایک وجہ ہے ماحول ماحول ۔۔۔ ماحول میں

ایک طرف سے آواز آئی۔

السر انسان میں پید انہی شخص ہوتا ہے Biological"

Repression"

انے زمانے کوئی اصلی پاگل پن کی صرف ایک ہو ہے۔۔۔ صرف

ایک ای عشق اس اصل مشق لاحاصل بحق الحاصل -

جنگ ڈالنے کی انداز میں کتاب کرسی پر چھ کر پایا۔

اور اگر پروفیسر کیل نے کہا ۔ دوستو میر کی hoor onset کا

سوال ہے اگر تم لوگ ایسے شور مچاؤ گے تو کائی والے میری رپورٹ کر دیں گے۔

پر

تیل صاحب کے ہاں اور میری تبدیل مظفر گردہ کردیں گے۔"



اس کے بعد بحث بے توار کی کشتی بن کر چلنے لگی۔

کلاس کے کسی میں نوجوان نے گروپ شادی اور حشیش کا قصہ چھیڑ دیا۔ پھر مغرب کی آزا دردی کی بات نیگرو مسئلے کی طرف گئی۔ سویڈن میں ابے سینا کے رفیوجی مسائل، ریڈ انڈین اور ان کے جادو گروں کی باتیں تو نا آبادیات اور جمہوریت کے بکھیڑے جاپان اور اس کی انڈسٹریل کامیابی ۔۔۔۔ روس کا پلٹتا ہوا کمیونسٹ نظام، جو بھی بات کسی کو معلوم تھی اس نے کی ۔۔۔ لیکن سیمی شاہ کو کرسی پر کھڑے آفتاب کے عشق 11 حاصل نے سر کر لیا۔ وہ گلبرگ کی ساختہ تھی۔ اس کی ساری عمر کو فونٹ سکولوں اور کالجوں میں گزری تھی۔ اپنے خالی اوقات میں وہ انگریزی موسیقی سنتی، ٹائم اور نیوز و یک پڑھتی، ٹی وی پر امریکی سیریز دیکھتی اس کی واڈ روب میں گنتی کے شلوار قمیض تھے ،وہ شمپو بٹیر سپرے، ٹشو پیپر، کولون، اور سینٹ سپرے کے بل بوتے پر سنگار کرتی تھی ۔ اس نے کبھی لوٹے پانی سے غسل نہ کیا تھا۔ بیک برش اور شاور سے نہانے والی اس دختر گلبرگ کو نہ جانے کیا ہوا کہ ایک کشمیری بچے سے وہ بھی اندرون شہر کے رہنے والے سے جب وہ عشق لاحاصل کا نعرہ لگا رہا تھا مات کھا گئی ۔ اس سے پہلے سیمی شاہ اور آفتاب سنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے تھے۔ ایڈمیشن فیس داخل کرواتے وقت برآمدے میں آتے جاتے۔ لیکن اس تیرے پیریڈ میں ان دونوں کی نگاہوں میں پہلے استعجاب انجرا۔ پھر پہچان پیدا ہوئی اور ایک ہی سیشن میں سب کچھ اعتراف میں بدل گیا۔ کلاس کے بعد وہ دونوں اٹھے ایک انجانی قوت کے تحت ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ باہر پہنچ کریسمی شاہ کچھ کہے بغیر آفتاب کی موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی۔ آفتاب نے سوال نہ کیا کہ اسے کہاں جاتا ہے

اور وہ دونوں کسی فلمی منتظر کی طرح آہستہ آہستہ سڑک پر فیڈ آؤٹ کر گئے ۔ تعارفی

تقریب میں تین افراد نے میر اپڑا کیا۔

آفتاب جسم کے اعتبار کے بالکل یونانی تھا۔۔۔اگر وہ کلاس میں موجود نہ ہوتا تو



اس کے بعد بحث ہے چوار کی کشتی بن کر چلنے لگی۔ کلاس کے کسی ہیں نوجوان نے گروپ شادی اور حشیش کا قصہ چھیڑ دیا۔ پھر مغرب کی آزا در دی سی بات نیگرو مسئلے کی طرف گئی ۔ سویڈن میں ابے سینا کے رفیوجی مسائل، ریڈ انڈین اور ان کے جادوگروں کی باتیں تو نا آبادیات اور جمہوریت کے بکھیڑے جاپان اور اس کی انڈسٹریل کامیابی ۔۔۔۔روس کا پلٹتا ہوا کمیونسٹ نظام ، جو بھی بات کسی کو معلوم تھی اس نے کی ۔ لیکن سیمی شاہ کو کرسی پر کھڑے آفتاب کے عشق لاحاصل نے سر کر لیا۔ وہ گلبرگ کی ساختہ تھی ۔ اس کی ساری عمر کو نونٹ سکولوں اور کالجوں میں گزری تھی ۔ اپنے خالی اوقات میں وہ انگریزی موسیقی سنتی ، نائم اور نیوز و یک پڑھتی، ٹی وی پر امریکی سیر یز دیکھتی اس کی واڈ روب میں گنتی کے شلوار قمیض تھے ،وہ شمپو ہئیر سپرے ٹشو پیپر، کولون، اور سینٹ سپرے کے بل بوتے پر سنگار کرتی تھی ۔ اس نے کبھی لوٹے بالٹی سے غسل نہ کیا تھا۔ بیک برش اور شاور سے نہانے والی اس دختر گلبرگ کو نہ جانے کیا ہوا کہ ایک کشمیری بچے سے وہ بھی اندرون شہر کے رہنے والے سے جب وہ عشق لاحاصل کا نعرہ لگا رہاتھا مات کھا گئی ۔ اس سے پہلے سیمی شاہ اور آفتاب کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے تھے ۔ ایڈمیشن فیس داخل کرواتے وقت برآمدے میں آتے جاتے ۔ لیکن اس تیسرے پیریڈ میں ان دونوں کی نگاہوں میں پہلے استعجاب ابھرا۔ پھر پہچان پیدا ہوئی اور ایک ہی سیشن میں سب کچھ اعتراف میں بدل گیا۔ کلاس کے بعد وہ دونوں اٹھے ایک انجانی قوت کے تحت ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ باہر پہنچ کر سیمی شاہ کچھ کہے بغیر آفتاب کی موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی ۔ آفتاب نے سوال نہ کیا کہ اسے کہاں جاتا ہے اور وہ دونوں کسی فلمی مصر کی طرح آہستہ آہستہ سڑک پر فیڈ آؤٹ کر گئے ۔ تعارفی

تقریب میں تین افراد نے میرا پڑا کیا۔ آفتاب جسم کے اعتبار کے بالکل یونانی تھا ۔۔۔ اگر وہ کلاس میں موجود نہ ہوتا تو


تھا مات کھا گئی ۔ اس سے پہلے سیمی شاہ اور آفتاب کنکھیوں سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے تھے ۔ ایڈمیشن فیس داخل کرواتے وقت برآمدے میں آتے جاتے ۔ لیکن اس تیسرے پیریڈ میں ان دونوں کی نگاہوں میں پہلے استعجاب ابھرا۔ پھر پہچان پیدا ہوئی اور ایک ہی سیشن میں سب کچھ اعتراف میں بدل گیا۔ کلاس کے بعد وہ دونوں اٹھے ایک انجانی قوت کے تحت ساتھ ساتھ چلنے لگے۔ باہر پہنچ کر سیمی شاہ کچھ کہے بغیر آفتاب کی موٹر سائیکل پر بیٹھ گئی ۔ آفتاب نے سوال نہ کیا کہ اسے کہاں جاتا ہے اور وہ دونوں کسی فلمی مصر کی طرح آہستہ آہستہ سڑک پر فیڈ آؤٹ کر گئے ۔ تعارفی

تقریب میں تین افراد نے میرا پڑا کیا۔ آفتاب جسم کے اعتبار کے بالکل یونانی تھا ۔۔۔ اگر وہ کلاس میں موجود نہ ہوتا توچھڑی میز پر نظراتی چھڑی تک ہماری رسائی نہ تھی ۔ اس لیے ہم میز سے بدلے لیا کرتے تھے ۔ پر کار سے گود گود کر نقصوں کی شکل میں اس کی چاروں ٹانگوں پر کئی گالیاں کندہ تھیں ۔ لیکن یہ میز بدسلوکی کے باوجود اور ماسٹر صاحب کی ہمدردی بد دعاؤں کے باوصف کبھی اپنی جگہ سے نہ تھے۔ اگر ان کے منہ سے نکل جاتا کہ جنگ آزادی ۱۹۴۷ء میں ہوتی تھی ۔ تو پھر تمام کتابوں کی تصدیق کے باوجود اپنی رائے بدلنے پر رضامند نہ ہوتے ، ان کی اس تل خاصیت کی وجہ سے ان کے تمام شاگردوں ڈرپوک گھنے اور بزرگ دشمن تھے۔ ماسٹر غلام رسول مغل بادشاہوں کی شان میں کوئی گستاخی برداشت نہ کر سکتے تھے۔ بابر سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک تمام شاہ ان کے ہیرو تھے ۔ اگر ان کے عہد حکومت یا ذات میں کوئی کوتا ہی کسی کو نظر



آتی تو وہ بلبلا اٹھتے ۔ نکتہ چینی کرنے والے کو دلائل دے کر قائل کرنے کی ان میں صلاحیت نہ تھی۔ ایسے میں ان کا دولیم کنٹرل کھلتا جاتا اور وہ دلیل کی جگہ

چنگھار سے اگلے کو قائل کر لیتے ۔

نویں جماعت کے شروع میں کہیں سے تو رک جہانگری میرے ہتھے چڑھ گئی۔ میں سارا دن ہم جماعت کو اس کے واقعات سناتا نہ تھکتا۔ گو میں ماسٹر غلام رسول کی ذہنیت سے واقف تھا لیکن نئی ئی جوانی ڑھی تھی انا پھن اٹھائے کھڑی تھی میں نے ہم جماعتوں پر اپنا رعب ڈالنے کے لیے ایک روز کلاس میں جرائت سے کہا۔ ماسٹر جی

آپ نے تو زک جہانگیری پڑھی ہے ۔“

” جب تو ابھی تھوڑا تھوڑا موتا پھرتا تھا تن میں نے اس کو پڑھا تھا، بیٹھ جا اور

زیادہ علمیت نہ بگھارا کر کلاس میں ۔“ ماسٹر جی ۔۔۔۔ میں نے ذراسی ارکوشش کے بعد کہا۔

کیا ہے؟“

اس میں کچھ ایسے واقعات درج ہیں جن کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ بادشاہجہانگیر کچھا یہار حمول نہیں تھا۔“

ماسٹر غلام رسول نے چاک کا ٹکڑا اڑیل میز پر مارا۔

نور جہاں سے شادی کی ۔۔۔۔ یہ رحم دلی نہیں ؟ کوئی بادشاہ کسی دوہا جو سے

شادی کرتا ہے؟ اس کو کی تھی کنواریوں کی بول بتا رحمدلی نہیں تو اور کیا ہے ۔ بتا؟“

ماسٹر جی اور میں مختلف پیانوں سے رحم دلی کو نا پتے تھے۔

جہانگیر نے ایک ملزم کو ۔۔۔ ماسٹر جی بکرے کی کھال میں بند کروا کے اوپر ملزم تھا ناں کوئی بے گناہ تو نہیں تھا۔ سزا ہمیشہ بہتری کے لیے دی جاتی ہے اب میں تم کو مارتا ہوں تو کیا اس کا فائدہ مجھے ہوتا ہے بتاؤ۔۔۔۔ساری سزا ملزم کے فائدے

کے لیے ہوتی ہے ۔“



آئی تو وہ بلبلا اٹھتے ۔ نکتہ چینی کرنے والے کو دلائل دے کر قائل کرنے کی ان میں صلاحیت نہ تھی۔ ایسے میں ان کا وولیم کنٹرل کھلتا جاتا اور وہ دلیل کی جگہ

چنگمار سے اگلے کو قائل کر لیتے۔

نویں جماعت کے شروع میں کہیں سے تو رک جہا نگری میرے ہتھے چڑھ گئی۔ میں سارا دن ہم جماعت کو اس کے واقعات سناتا نہ تھکتا۔ گو میں ماسٹر غلام رسول کی ذہنیت سے واقف تھا لیکن بی نئی جوانی بھی تھی انا پچھن اٹھائے کھڑی تھی میں نے ہم جماعتوں پر اپنا رعب ڈالنے کے لیے ایک روز کلاس میں جرائت سے کہا۔ ماسٹر جی

آپ نے تو زک جہانگیری پڑھی ہے ۔“

"جب تو ابھی چھوڑا تھوڑا ہوتا پھرتا تھا۔ تین میں نے اس کو پڑھا تھا ، بیٹھ جا اور

زیادہ علمیت نہ بگھارا کر کلاس میں ۔"

ماسٹر جی ۔۔۔۔ میں نے ذراسی ارکوشش کے بعد کیا۔

کیا ہے؟" اس میں کچھ ایسے واقعات درج ہیں جن کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ بادشاہ

جہانگیر کچھ ایسا حمل نہیں تھا۔“

ماسٹر تعلام رسول نے چاک کا ٹکڑا اڑیل میز پر مارا۔

نور جہاں سے شادی کی ۔۔۔۔ یہ رحم دلی نہیں ؟ کوئی بادشاہ کسی دوہا جو سے شادی کرتا ہے؟ اس کو کی تھی کنواریوں کی بول بتا رحمدلی نہیں تو اور کیا ہے ۔ پتا؟

ماسٹر جی اور میں مختلف پیانوں سے رحم دلی کو ناچتے تھے۔

جہانگیر نے ایک ملزم کو ۔۔۔ ماسٹر جی بکرے کی کھال میں بند کروا کے اوپر ملزم تھا ناں کوئی بے گناہ تو نہیں تھا۔ سزا ہمیشہ بہتری کے لیے دی جاتی ہے اب میں تم کو مارتا ہوں تو کیا اس کا فائدہ مجھے ہوتا ہے بتاؤ ۔۔۔۔ ساری سزا ملزم کے فائدے

کے لیے ہوتی ہے۔"




لیکن ماسٹر جی جو بکری کی کھال میں سلوا دیا گیا اس کو کیا فائدہ ہوا؟“ بیٹھ جا۔۔۔۔ بیٹھ جا اور بخشی نہ جاتا کر اپنے بڑے بھائی مختار کی طرح ۔۔۔۔ مطلب ہو نہ ہو بخش پہلا جا رہا ہے، بولے جارہا ہے خیر سے موٹھ آجائیں سدھی

پدی تو بات کریں گے جہانگیر اعظمہ کی "

وہ سکندراعظم کی طرح ہر مغل بادشاہ کے ساتھ اعظم لگانے کے عادی تھے اپنی مونچھوں کے سلسلے میں میں پہلے ہی کچھ شرمسار ہتا تھا اس لیے میں چپ چاپ بیٹھ

گیا لیکن علمیت بگھارنے والے کڑکے نے میرے اندر کہیں بغاوت کر دی۔ تعلیم و تدریس کی بڑی بدنصیبی یہ ہے کہ نام استاد عموماً اوسط درجے کا شخص ہوتا ہے اور وہ دینی جسمانی اور جذباتی طور پر لکیر کے فقیر قسم کی باتیں سوچتا ہے اسے ضبط و اظم سے مڈل کلاس لوگوں سے، اور پڑھا کوطلبا کو پڑھانے سے پیار ہوتا ہے لیکن سارادن و ویدی قد آور شخصیتوں اور ان کے کارناموں کی تعلیم دیتا ہے ۔ ایسے لوگ جنہوں نے کبھی معاشرے کے ساتھ مطابقت نہ کی ۔ عام ترین ہوتے ہوئے وہ ایسے لوگوں کی تعلیم عام کرتا ہے جن کی سطح پر وہ سوچ بھی نہیں سکتا اس کا اپنا کرداربچوں کو عام بنانے پر مصر رہتا ہے اور اس کی تعلیم بچوں کو خاص ہونے پر اکساتی رہتی ہے۔ سکول سے بھاگ جانے والے بچوں کی جگہ سکول میں نہیں ہوتی لیکن ایسے ہی باقی بچوں کو بیچ کر کھڑا کر کے ہمیشہ ان عظیم شخصیتوں کی روشن مثالیں دی جاتی ہیں جو خودسکولوں سے بھاگے تھے ۔ ہر غلام رسول بچوں کو جنہیں جینیس ۔ ۔ ۔ ۔ کی کتابیں پڑھا کر عام بنانے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور یہی تعلیم کا سب سے بڑا المیہ ہے خاص لوگوں کی تعلیم اور عام لوگوں کی دادا گیری میرے دل کی نشا پر بھی ماسٹر غلام رسول کئی قد آور شخصیتیں کھڑی تھیں اس درخت جیسی ہوگئی جسے زیبائش کے لیے جاپان میں پالا جاتا ہے، جو سالوں پرانا ہوتا ہے لیکن جس کا قد ایک حد سے آگے

نہیں بڑھ سکتا۔



میں اسی لیے اس قدر چھتا تھا کہ کبھی کبھی بے گل ہو جاتا ۔ تجزیے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن عملی زندگی میں بھی سیدھے راستوں کی بجائے میں پگڈنڈیوں پر آوارہ کتوں کی طرح سرگرداں رہتا۔ مجھے کسی ایسے گرد کی تلاش تھی، جو مجھے کھینچ تان کر اپنے علم جتنا بڑا کر دے لیکن سکول کے بعد ایک اور ماسٹر غلام

رسول مل گئے۔ ان سے میری ملاقات بی اے کے پہلے سال میں ہوئی۔ پروفیسر تنویر ہمیشہ فارن سگریٹ پیتے ان کے تھری میں سوئے بے داغ ہوتے۔ چہرے پر موٹے شیشوں کی عینک ہوتی ۔ کلاسوں کے علاوہ وہ ہمارا ٹوریل بھی لیتے تھے ۔ انہوں نے بھی ان گنت کتابیں پڑی تھیں۔ ان کا مطالعہ مجھے مرعوب کرتا تھا۔ کیونکہ میری اولین تعلیم دیہاتی تھی ۔ اس لیے میں فیوڈل نظام پسند کرتا تھا۔ وہ پکے سوشلسٹ تھے۔۔۔۔ تھوری کی حد تک وہ معاشرے کی ہر مسیت کو دولت کی غلط بانٹ سے منسوب کہتے۔ ۔۔۔ بی اے کے پہلے سال میں وہ ایک اور قسم کے ماسٹر غلام رسول ہیں۔ وہ دل سے سوشلسٹ تھے۔ لیکن صرف کتابی طور پر ۔۔۔۔ان کا رہنا سہنا ملنا ملانا ، زندگیبسر کرنے کی چھوٹی چھوٹی جزیات کسی فیوڈل لارڈ کیسی تھیں مشکل پیتھی۔ وہ نہا اپنے

سوشلسٹ نظریے پر تنقید برداشت کرتے تھے۔ نہ اپنی طرز زندگی پر ۔

اگر کوئی تضاد ان کے شاگردوں کی نظر پڑ جاتا اور وہ اس پر رائے دے دیتے تو ماسٹر تنویرسختی کے ساتھ اس آزادی رائے کی سرکوبی کرتے جس کے وہ پر چارک

تھے۔

بی اے فائنل کے امتحانوں سے کچھ دن پہلے کی بات ہے وہ میں کلاس میں سگریٹ پینے کی اجازت دے کر اپنے روشن خیال ہونے کا ثبوت دے رہے تھے ۔

میں کھڑا ہو کر بولا۔۔۔ سرایک بات ہے۔“

دو سگریٹ مت بجھاؤ ہم دوست ہیں پوچھو۔ اور بیٹھے رہو ۔“




سر آپ ہر روز ہمیں بتاتے ہیں کہ رو پی تھرڈ ورلڈ ڈولت کی جڑ ہے۔ پھر آپ اپنی کا ر بیچ کر معمولی موٹر سائیکل کیوں نہیں خرید لیتے ؟“

ابھی میں پختہ نہیں تھا اور نہیں جانتا تھا کہ عام طور پر قول اور فعل کے تضاد سے

بڑی قد آور شخصیتوں کا نمبیر بنا ہوتا ہے۔

پرو فیسر تصویر کا چہرہ لال ہو گیا۔ انہوں نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کہا " یہ بالکل پرسنل سوال ہے بیٹھ جاؤ ار یاد رکھو تم قصباتی لوگوں کے mamers بہت کمزور ہوتے ہیں، بے وقوف گدھے ۔۔۔۔ اگر میں کار بیچ دوں گا تو کالج کیسے آؤں گا ؟

میری انا کو سخت دھچکا لگا۔ اس لیے بحث کو اب چھوڑ نا میرے لیے بھی آسان نہ تھا میں نے پروفیسر تنویر کو زچ کرنے کے لیے کہا۔۔۔۔ سٹیکل پر سر ۔۔۔۔ سائیکل پر ۔۔۔۔ انسان کو عوام میں ملے رہنا چاہئیے ۔

“ یہ Space age ہے گھرے آدمی ۔۔۔ ہر کام میں وقت بچانا پڑتا ہے۔ اور ہم مجھے سائیکل سوار بنارے ہو ۔ “دو لیکن سر چین بھی تو Space age میں ہے وہاں کے لاگ ۔۔۔۔ ایک دانشور انٹو کو کل سائیکل پر آئے جاتے۔ ۔۔۔ اور تمہارے برنس کارخانے دار۔۔۔۔ دو کوڑی کے نو دولتے کاروں پر گھو میں ۔ مر مر کر تو جگہ ملی ہے معاشرے میں۔۔۔۔ برسوں کی جدوجہد کے بعد گریڈ بڑھے ہیں۔ ہم بھی عزت

وار زندگی بسر کرنے کے قابل ہوئے ہیں ۔“

مسر لیکن آپ کے نظریات کے مطابق تو سوسائٹی میں کوئی طبقہ نہیں ہونا چاہیے،

جس سے عزت بے عزتی کا سوال پیدا ہو ۔ “

اب پروفیسر کے منہ سے جھاگ اڑنے لگی وہ دونوں بازواہر الہرا کر بولے۔۔۔ بیٹھ جاؤ، بیٹھ جاؤ۔۔۔ مینڈ کی! کھوپڑی ڈھائی ڈھائی انچ کی ہوتی ہے اور




اس میں مارکس کے نشریات بٹھانا چاہتے ہیں ، بیٹھ جاؤ۔۔۔۔ بھائی میاں ۔ پہلے ٹائی کی ناٹ باندھنا سیکھو ۔۔۔۔۔ پھر ادھر آنا ۔۔۔۔ان باتوں کی طرف۔۔

میں اپنی نائی کی ناٹ ہتھیلی میں چھپا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ پرو فیسر تنویر کو کھوپڑیاں کھولنے کا عمل نہیں آتا تھا۔ وہ کسی کو ایسی تعلیم دینے کے اہل نہ تھے جو نظر یے اور عمل

کا فرق کم کر دے۔

لیکن پروفیسر سہیل ایسا چھپا ہو کا غز نہیں تھا، جس پر مزید کچھ لکھا نہ جاسکے، وہ تو سلیٹ کی مانند تھا، لکھا۔۔۔۔ مٹایا اور پھر لکھ لیا کتابوں سے اس کا شغف دیکھ کر مجھے بہت حیرت ہوئی ۔۔۔۔ مجھے بھی عرصہ سے کتابوں کی رفاقت نصیب تھی۔ لیکن کتابوں نے مجھ سے زندگی کی ہلکی طرف کو چشیدہ کر دیا تھا۔ میں محسوس کرتا تھا، کہ کتابوں نے مجھ سے زندگی کی ہلکی طرف کو پوشیدہ کر دیا تھا، میں محسوس کرتا تھا، کہ کتابوں سے محبت کرنے والے عموماً زندگی کی اس اہم سمت کو بھول جاتے ہیں۔ وہاس قدر سنجیدہ ہو جاتے ہیں کہ مزاح مکمل طور پر ان کی زندگی سے نکل جاتا ہے اور وہ لمبہ جبہ پہن کر سارا وقت پڑھے ہوئے نظریات کی لاٹھی سے دوسروں کی پٹائی میں

مصروف رہتے ہیں۔

پروفیسر سہیل خلف اور عجیب تھا مخصیت پر کسی نہ کسی غلام رسول نے اپنی مہر لگارکھی تھی ۔۔۔۔۔ اسلیے بچے کی طرح سادہ، کسی گنوار کی طرح مخیر اور کسی مسخرے جیسے ہنسوڑ پروفیسر سہیل کو دیکھ کر میں ہکا بکا رہ گیا ۔ تعارفی کلاس میں ہی مجھے اپنی علم دوستی سے گلہ پیدا ہو گیا ۔ مہا تم بدھ کی دھاما پا دھا سے لے کر موجودہ دور کے تازہ ترین علم پیرا سائیکلو جی تک مجھے جو کچھ پیش آیا تھا۔ اس سے اکتا ہٹ پیدا ہوگئی ۔ کاش میں بھی

سادہ سلیٹ ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ پچھلا لکھا ہوا مٹا سکتا اور پروفیسر سہیل کی دی ہوئی Assignment کو اسی تازگی سے لکھ سکتا جس کی وہ ہم سے توقع رکھ رہے تھے ۔




حالانکہ ابھی میں نے مضمون نہیں لکھا تھا۔ لیکن ابھی سے انہین مایوس کرنے کا دکھ

مجھے تھا۔

آفتاب کے حسن اور پروفیسر سہیل کے علم کے آگے گھٹنے لینے کے بعد میں نے تیسر اسجدہ سیمی شاہ کو کیا ۔۔۔۔ غالباً اس میں اس کلچر کی جیت تھی جود یہاتی لوگوں و

میسر نہیں آتا ۔ میں نے اس سے پہلے اتنی مکمل شہری لڑکی نہین دیکھی تھی۔ اسے دیکھ کر میں اشتہاروں کی دنیا میں پانی گیا۔ اور وہ مجھے ہوائی سفروں پر بادلوں سے اوپر لے گئی۔ اس کا لب ولہجہ ۔ لباس اٹھنا بیٹھنا، جسم سے اٹھنے والی خوشبو سب اس بات کی گواہ تھیں کہ وہ مجھ سے زیادہ مہذب ہے۔ اب میری انا کا یہی مسئلہ تھا کہ میں اس لڑکیکو پچھاڑوں ۔ اور اسے اپنید یہاتی بیک گراؤنڈ میں گھسیٹ کر لے جاؤں جہاں وہ میری وجہ سے پچھاڑ کھا کر گرے اور مکمل طور پر دیہاتی ہو جائے۔

پھر اس کے صبح و شام ماں کی طرح لسی پینے دودھ دوہنے ، چرغا کاتنے اور بڑی بڑی مانڈلوں میں ساگ لگاتے ہوئے صرف ہوں۔ شاید ہر مرد کے اندر یہ آرزوہوتی ہے کہ وہ عورت کو اس کی پٹڑی سے اتارے اور اپنے راستے پر لے کر چلے۔ اب یہ اور بات ہے کہ آفتاب مجھ سے پہلے ہی سیمی شاہ کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر رخصت ہو گیا تھا۔ اور اندرون شہر کے گھر پر اردو میں پہا لیکچر دے رہا تھا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں

پوٹھوہار کا وہ علاقہ جہاں آج کل دوسرے درجے کے بے آب خاکستری پہاڑ ہیں اور جن کو مقامی لوگ بتیاں پکارتے ہیں ۔ یہی علاقہ جو ہوائی جہاز کی کھڑکی سے امریکہ کے جنوبی ریگستانوں سے مشابہ نظر آتا ہے یہ علاقہ ایک زمانے میں لہریں مارتا چاند کی طرف لپکا ، مردیں سمندر تھا۔ پھر کسی جوگی نے وتین صدی سے اس کے




کنارے بیٹھا گیان دھیان میں مصروف تھا۔ مندر کو نظروں سے اوجھل ہونے کا سراپ دے دیا۔ سمندر ایسے لوٹا کہ ہر ہر ہر پالا گن پالا گن کہتی بحیرہ عرب میں جاگری اور اس علاقے کی تہہ آب چھپی ہوئی پہاڑیاں ٹنڈ منڈ باہر نکل آئیں۔ ان پہاڑیوں کے نشیب وفراز اور کٹاؤ ایسے تھے کہ ہر ورلہر سمندر کے بہاؤ کا پتہ دیتے

تھے۔ کچھ اور لوگ کہتے ہیں اس علاقے سے حق کبھی ایک گھنٹہ جنگل تھا جنگل کے درخت ایسے اونچے چھتنارے ڈال ملے تھے کہ اس میں بہنے والی نڈیوں کو بھی راستہ نہ ملتا اور سورج کی روشنی سے ان کے پانیوں میں کبھی ست رکھے پھر نہ پڑتے۔ یہاں سارا دن پرندے آزادی سے گھومتے پھرتے اور الو بھی دن کے وقت دیکھ سکتے تھے۔ لیکن ایک رات چاند سے ایسے آسیب کی ہوا اتری کہ سارا جنگل مند منڈ ہو گیا اور سب ندی نالے سوکھ گئے ۔ اسکے علاوہ کچھ لوگ کہتے ہیں کئی قرن پہلے جب پہلی بار بنی نوع انسان متحد ہوا تو یہ جنگل موجود تھا۔ اس وقت وہ تمام منذ اول علوم رائج تھے جو آج پھر سکھائے جاتے ہیں ۔ تب پہلی بار انسان نے مریخ اور زہرہ کا سفرکیا تھا اور زمین پر ایٹم بن بنائے تھے ۔ جب تم ان کی کمان پورے زور سے تن گئی تو انسان نے سارے بم گرا کر اللہ کی دھرتی کو تہس نہس کر دیا۔ اور یہ جنگل بے آب و

گیاہ بنجر علاقہ بن گیا۔

سی تب کا ذکر ہے جب انسان نے پہلی بار متمدن ہو کر اپنے ہم دنیا پر نہ چلائے تھے۔ جانوروں کی بستیوں میں اس ایجاد کی وجہ سے بہت تشویش پھیلی ہوئی تھی ۔ اسی لیے جنگل میں کانفرنس بلائی گئی ۔ جانوروں کی اس بین الاقوامی کانفرنس میں اتنے

پرندے آئے کہ جنگل کے درختوں کی کسی شاخ پر بیٹھنے کو جگہ باقی مندری۔ ہند سندھ سے کاسنی پروں غول در غول آئے کھاسی کی پہاڑیوں سے سرخ دم والی بلبل اور فیروزی رنگ کا کبوتر اس شان سے آیا کہ اس کے اندرونی تاریخی پروں سے




سکی آنکھیں خیرہ ہوئیں کھٹ منڈو کا بھیجنگا اور تبت کے شاہین کئی پڑاؤ گھر گھر کر حاضر ہوئے ۔ افریقہ کے بھٹ تیتر بن مرغی اور بلبلیں تو آتی ہی تھیں لیکن شکاری پرندوں نے بھی اپنی مصروفیات بھلا کر امریکہ اور آسٹریلیا سے یہاں تک کا سفر اختیار کیا تھا۔ اونچے اونچے درختوں میں ریسٹ ہاؤس بن گئے شکرہ باز چرخ عقاب گوایشیا کو چک اور روسی ترکستان کے باسی تھے لیکن وہ بھی پامیر کے پرندوں کو ساتھ لے کر پہنچے تھے۔ کوا، مینا، نہیں کھٹکھٹ چکوں، چڑیا، مقامی جنگل کے عوام تھے ۔ اس لیے میٹنگ میں ان کی اجتماعی ووٹ بہت اہم تھی۔ لیکن انفرادی طور پر کوئی ان کی رائے کو نہ پوچھتا تھا۔ مڑی ہوئی ناک اور ار نچی اڑانوں والے پرندے سفید فام قوموں کی طرح احساس برتری سے اترتے پھر رہے تھے ۔ دریائے گھاگر اور چتر نجی کے طاس سے لٹورے، بھوری کنڈول اور غوغائی بڑے طمطراق اور سلیقے سے فوجی ہوائی جہازوں جیسی فارمیشن بناتی آئیں ۔ زریں پشت، نیل کنٹھ اور ہدہدوں کی ٹولیوں نے پرانے درختوں کے گھنٹھ بسرام کے لیے چن لیے۔ فاختہ کوئل اور چنڈول کو اس مجلس مشاورت سے کوئی دل چہی نہ تھی ان کے بھانویں انسان چا ہے۔ ساریکائنات ختم کر دیتا وہ میلے گھونٹیاں تو جنگل والوں سے ملے ملانے چغلی عیب جوئی

کے لیے آئی تھیں۔ لیکن جنگل میں پہنچ کر انہیں پتہ چلا کہ معامل بیگلین ہے۔ کانفرنس سے کچھ دن پہلے سارے بن میں بھانت بھانت کے پرندوں سے کوک پڑی تھی ۔ صاحب صدر کا سب انتظار کر رہے تھے ۔ کرسی صدارت خالی ہونے کی وجہ سے کانفرنس جاری نہ کی جاسکتی تھی ۔ کچھ عرصہ بعد پرندوں کی نمائندہ ٹولی ماؤنٹ ایورسٹ سے یہ خبر لے کر واپس آئی کہ وہ تمام پر بہت جھان آئے ہیں۔ دھولی دھار نانگا پر ہت، کے ٹو اور کچھ گا نیک ہو آئے ہیں لیکن ہما کا کہیں سراغ نہیں ملا۔ شاید دنیا میں کسی زیر دست بادشاہ کی آمد تھی اور وہ اس کے انتخاب مین کا ئناتی طاقتوں کی مدد کرنے کے لیے اپنے وی آئی پی ٹور پر نکلا تھا۔ اس دور کے متعلق بھی

12
مضمون
راجہ گدھ
0.0
قيوم نام کے شکس کی کہانی جو ایک کھوئے ہوئے پیار کی وجہ سے ایک فلسفیانہ راہ پر نکل پڑتا ہے۔
1

راجہ گدھ

17 November 2023
2
0
0

راجہ گدھ بانو قدسیه تیرے لیے کا واقعہ ہے ایم اے کی ساری کلاس حاضرتھی۔ لڑکیاں ہم سے اگلی قطار میں بھی تھیں۔۔۔ سان پاکستانی ہر نوں میں جو سب سے آخری تھی ۔۔۔۔ اکتوبر کا دن تھا جس طرح بھٹی سے نکل کر مکئ

2

1

17 November 2023
1
0
0

تیرے لیے کا واقعہ ہے ایم اے کی ساری کلاس حاضرتھی۔ لڑکیاں ہم سے اگلی قطار میں بھی تھیں۔۔۔ سان پاکستانی ہر نوں میں جو سب سے آخری تھی ۔۔۔۔ اکتوبر کا دن تھا جس طرح بھٹی سے نکل کر مکئی کے والے عطیہ پھول

3

.

18 November 2023
0
0
0

پرندوں میں بہت چہ میگوئیاں ہوئیں ۔ کچھ شکاری ہوا بازوں کا خیال تھا کہ قیامت کے آزار قریب ہیں اور یہ قریب ہے اور یہ قیامت خود انسان کے ہاتھوں بر پا ہونے والی ہے۔ دنیا کو قیامت سے بچانے کے لیے مردمومن ک

4

.

18 November 2023
0
0
0

پرندوں میں بہت چہ میگوئیاں ہوئیں ۔ کچھ شکاری ہوا بازوں کا خیال تھا کہ قیامت کے آزار قریب ہیں اور یہ قریب ہے اور یہ قیامت خود انسان کے ہاتھوں بر پا ہونے والی ہے۔ دنیا کو قیامت سے بچانے کے لیے مردمومن ک

5

.

18 November 2023
0
0
0

پرندوں میں بہت چہ میگوئیاں ہوئیں ۔ کچھ شکاری ہوا بازوں کا خیال تھا کہ قیامت کے آزار قریب ہیں اور یہ قریب ہے اور یہ قیامت خود انسان کے ہاتھوں بر پا ہونے والی ہے۔ دنیا کو قیامت سے بچانے کے لیے مردمومن ک

6

.

20 November 2023
0
0
0

جس وقت میں باغ سے باہر گا تو ہلکی ہلکی بوند بوندی ہورہی تھی۔ پرانے بھٹے تک پہنچتے پہنچتے بارش کا یہ عالم تھا کہ مجھے لگا۔ پانی کا ریلا مجھے زمین مین میخنا چاہتا ہے ۔ اس روز میں نے مائی تو تو بہ کی جھ

7

.

20 November 2023
0
0
0

خدا حافظ ۔ میں نے ہاتھ بڑھایا ۔ تم سیمی سے ملے ۔۔۔۔۔؟ ۔۔۔۔‘ نظریں جھکا کر اس نے پوچھا۔ تمہاری شادی کے روز ملا تھا پھر وہ پنڈی طلی گئی ۔ کیسی ہے؟“ ٹھیک ہی ہو گی ۔ میں کوشش کروں گا۔“ در کیسی کوشش؟

8

.

21 November 2023
0
0
0

تکلیف کے حوالے ہو جانا چاہتے ہیں۔ ایک خوشی سے منہ موڑ کر کسی اور خوشی میں ڈو بنا چاہتے ہیں۔ یہ انسان کے لیے اتناہی نیچرل ہے جیسے وہ ایک ٹانگ پر ہمیشہ کے لیے کھڑا نہ رہ سکے ۔ آفتاب بھی تمہارے نا اسودہ

9

.

22 November 2023
0
0
0

ابھر آئے تھے، بڑی دیر تک میں باہر کو ٹھے پر ٹہلتا رہا۔ یکدم مجھے اپنی گدی سے کئی سمتوں میں آوازیں آنے لگی تھیں۔ میں نے کئی بار پلٹ کر دیکھا، جیسے میرے سر کے ساتھ کوئی اور سر جوڑے ٹہل رہا تھا۔ پھر کمرے

10

.

23 November 2023
0
0
0

تھا اس کے منہ پر ۔“ جھڑ کے کیوں دیے بی بی نے “ ریڈیو سٹیشن نہیں جاتی تھی باجی بی بی کا غصہ ہی برا ہے۔ پرسوں باجی گلزار کے منہ پر کھینچ کے چپیڑ مار دی تھی۔ باجی گلزار گری منحے پر پاوا لگا گال پر دو ٹا

11

.

23 November 2023
0
0
0

صرف اس کے سائے کا رنگ بدل جاتا ہے اور اس سائے میں نہ جانے کیا کشش ہوتی ہے کہ وہ سارے کا سارا خوف سے لبریز ہو جاتا ہے اور جیسے ہوا میں سگریٹ کی پنی کا نیچی ہے ایسے ہی اس کی پسلیوں تلے اس کلا دل کرز ن

12

.

23 November 2023
0
0
0

ہمکنا ر ہوتے ہی اس کا چہری کتنا شانت کیسا آزاد ہو گیا ۔ اس دن کے بعد میری زندگی کا ہر لمحہ موت کے متعلق سوچنے میں گزرنے لگا۔ موت کے ساتھ ہمکلامی کے بعد مجھ میں ایسا خوف پیدا ہو جاتا ہے کہ میں سر سے پا

---