٢
جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآن نہیں ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں بے بدی بیا ہے پیران حرم کی آستیں عصر حاضر کے تقاضوں سے ہے لیکن یہ خوف ہو نہ جائے آشکار امشرع چین میرکریں
الحذر آئین بیچمیر سے سو بار الحذر حافظ ناموس زن ، مرد آنها ، مردان دیں موت کا پیغام هر نوع غلامی کے لیے نے کوئی فغفور و خاقان نے فقیر را نشیں کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف منعموں کو مال و دولت کا بنا تا ہے امیں اس سے بڑھ کر اور کیا فکر وعمل کا انتقرب لا پادشاہوں کی نہیں ، اللہ کی ہے یہ زمیں چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب نیمت ہے کہ خود مومن سے محروم یقین ہے یہی بہتر الہیات میں الجھ سے یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الحجب رہے
٣
توڑ ڈالیں جس کی تعبیریں عظیم شش جہات ہو نہ روشن اس خدا پیشی کی تاریک رات ابن مریم مرگ یا زندہ جاوید ہے ؟ ہیں صفات ذات حق حق سے جدا یا عین ذات؟ آنے والے سے سیخ ناصری مقصود ہے یا مجدد جس میں ہوں فرزند مریم کے صفات ؟ میں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم امت مرحوم کی ہے کسی عقیدے میں نجات ؟ کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں یہ الہیات کے ترشے ہوئے لات و منات ؟ تم اسے بیگانہ رکھو عالیہ کردار سے تا بساط زندگی میں اس کے سب گھرے ہوں بات ! خیراسی میں ہے قیامت تک رہے مومن غلام چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہان بے ثبات ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات! نفس ڈرتا ہوں اس باہمت کی بیداری سے میں ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کا ئنات !
مست رکھو ذکر دن کر صبح گاہی میں اسے پخته تر کر دو مزاج خانعت ہی میں اسے!