shabd-logo

الیس کی مجلش شوریٰ

25 September 2023

12 ڏسيل 12


                                                                   ۶۱۹۳۶

یہ عناصر کا پرانا کھیل ! یہ دنیا ئے ہوں ساکنان عرش عظیم کی تمناوں کانوں ! اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے ہ کار ساز جس نے اس کا نام رکھا تھا جہاں کاف دونوں میں نے دکھلایا سرنگی کو ملکیت کل خواب میں نے توڑا مسجد ویر و کلیسا کا فسوں میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تعت ہی کا میں نے منعم کو دیاس را یاری کا جنوں!
کون کر سکتا ہے اس کی آتیش سوزاں کو سرد جس کے ہنگاموں میں ہوا میں کا سوز دروں جس کی شاخیں ہوں ہماری آبادی سے بلند کون کر سکتا ہے اسی سنیل کہن کو سرنگوں ؟
                                    پہلا مشیر
اس میں کیا شک ہے کہ حکم ہے یہ ایسی نظام پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود ان کی فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قیام آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام یہ ہماری سعی سیم کی کرامت ہے کے آج صوفی و کلا ملوکیت کے بندے ہیں تمام ! طبع مشرق کے لیے موزوں ہی افیون تھی ورنہ قوالی سے چھت نہیں علم کلام
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا ند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام کس کی نومیدی پہ محبت ہے یہ فرمان جدی ؟
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا   جہاد اس دور میں مرد مسلماں پورام "
                                    دوسرا مشیر
خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر؟ تو جہاں کے تازہ  فتنوں سے نہیں ہے با خبر؟
                                      پہلا مشیر
ہوں ، مگر میری جہاں بینی بناعی ہے مجھے جو ملوکیت کا اک پر دہ ہو کیا اس سے خطر! ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس خود نگر کار و بارش هر باری کی حقیقت اور ہے یہ وجود میر سلطاں پر نہیں ہے منحصر
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو ہے وہ سلطان غیر کی کھیتی پر ہو جس کی نظر! تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چهره روشن، اندرون چنگیز سے تاریک تر
                                     تیسرا مشیر
روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب ہے مگر گیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟ بے تختی ! وہ مسیح بے صلیب! نیست پیغمر برونین بونل دارد کتاب کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے دن حساب ! اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا طبیعت کا فساد توڑ دی بندوں نے آؤؤں کے خیموں کی طناب!
                  چوتھا مشیر
توڑ اس کا دومتہ الکبری کے ایوانوں میں دیکھ ال سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب کون بحر روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا گاه بالد چوں صنوبرا گاہ نالد چوں رباب
                                    تیسرا مشیر
میں تو اس کی عاقبت مینی کا کچھ قائل نہیں
جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب!
                             

                                پانچواں مشیر۔       
                         (ابلیس کو مخاطب کر کے)
 

اسے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار تو نے جب چاہا کی ہر پردگی کو آشکار
آب و گل تیری حرارت سے جہان سوز و ساز ابلہ جنت ترمی تعلیم سے دانائے کار مجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہیں سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار کام تھا جن کا فقط تقدیس و بسیج وطواف تیری غیرت سے ابد تک سرنگون و شتر مسار گرچہ ہیں تیرے مرید فرنگ کے ساحر تمام اب تجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار وہ یہودی نیستند گزاده رورج مزدک کا بروز ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تارتار زاغ دشتی ہو رہا ہے تمہر شا ہین و چرغ کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار فتنہ پنڈا کی ہیت کا یہ عالم ہے کہ آج کانپتے ہیں کو ہسار و مرغزار و جوتیار میرے آقا! وہ جہاں زیر وزیر ہونے کو ہے جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
                      

                                       ابلیس

                             (اپنے مشیروں سے ) 

 ہے مرے دست تصرف میں جہان رنگ بو کیا زمین کیا مھر منہ کیا اسمان تو بتو دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق میں نے جب گرما دیا اقوام یورپ کا لہو کیا امامان سیاست کیا کلیسا کے شیوخ سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہوا کارگاہ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک مرد کی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچه گرد یہ پریشاں روزگار است و مغز، آشفتہ ہو ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس اُمت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو خال خال اس قوم میں ابتک نظر آتے ہیں وہ کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے- مزدکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے







ٻيا مزاحیہ میمز ڪتاب

5
مضمون
ارمغان حجاز
0.0
ارمغان حجاز علامہ اقبال کی شعری تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1938ء میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب علامہ اقبال کی وفات کے چند مہینے بعد شائع ہوئی۔ یہ کتاب اردو اور فارسی دونوں زبانوں کے کلام کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب علامہ اقبال کی نا مکمل کتابوں میں سے ہے جسے وہ حج کا فرض ادا کرنے اور دربارِ حضورﷺ کی حاضری کے بعد مکمل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے، ان کا ارادہ تھا کہ وہ ارمغان حجاز لکھ کر حجاز مقدس میں اپنے ساتھ لے جائیں گے لیکن بیماری نے انہیں مہلت نہ دی اور وہ وفات پا گئے اور ان کی وفات کے کے بعد یہ کتاب شائع ہو سکی۔ یہ کتاب فراق حجاز کی پر فضا نغموں سے معمور ہے یہ وہ دور ہے جب علامہ علالت و پریشان کے حالات سے گزر رہے تھے، اس لئے ارمغان حجاز کے کلام میں جوش کے ساتھ سوز و گداز بھی پایا جاتا ہے،ارمغان حجاز اصل میں اقبال کا آخری ارمغان ملک و ملت ہے جس میں ان کے فکرو فلسفہ اور دعوت و پیام کے متنوع اور کثیر الجہات نقوش کی بو قلمونی ہے۔ عالم تصورات کا یہ سفرحجاز اقبال کے آخری تارِ نفس تک جاری رہا۔ زیر نظر اردو فارسی دونوں حصے شامل کتاب ہیں
1

الیس کی مجلش شوریٰ

25 September 2023
0
0
0

                                                                   ۶۱۹۳۶ یہ عناصر کا پرانا کھیل ! یہ دنیا ئے ہوں ساکنان عرش عظیم کی تمناوں کانوں ! اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے ہ کار ساز جس نے اس

2

حصہ

25 September 2023
0
0
0

                                                ٢ جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآن نہیں ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں بے بدی بیا ہے پیران حرم کی آستیں عصر

3

اوردو نظمیں

25 September 2023
0
0
0

       بٹھے بلوچ کی نصیح بیٹے کو ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا ا دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ جیا را جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل دادی بیماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو می

4

اُردو نظمیں

25 September 2023
0
0
0

ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا ا دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ جیا را جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل دادی بیماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں پہناتی ہے درویشی کو ت

5

رباعیات

25 September 2023
0
0
0

رباعیات مری شاخ امل کا ہے شمر کیا تری تقدیر کی مجھ کو خبر کب کلی گل کی ہے محتاج کشور آج نسیم صبح فردا پر نظر کیا ! فراغت دے اسے کار جہاں سے کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے ہوا پیری سے شیطاں کہنہ اندی

---