۶۱۹۳۶
یہ عناصر کا پرانا کھیل ! یہ دنیا ئے ہوں ساکنان عرش عظیم کی تمناوں کانوں ! اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے ہ کار ساز جس نے اس کا نام رکھا تھا جہاں کاف دونوں میں نے دکھلایا سرنگی کو ملکیت کل خواب میں نے توڑا مسجد ویر و کلیسا کا فسوں میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تعت ہی کا میں نے منعم کو دیاس را یاری کا جنوں!
کون کر سکتا ہے اس کی آتیش سوزاں کو سرد جس کے ہنگاموں میں ہوا میں کا سوز دروں جس کی شاخیں ہوں ہماری آبادی سے بلند کون کر سکتا ہے اسی سنیل کہن کو سرنگوں ؟
پہلا مشیر
اس میں کیا شک ہے کہ حکم ہے یہ ایسی نظام پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود ان کی فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قیام آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام یہ ہماری سعی سیم کی کرامت ہے کے آج صوفی و کلا ملوکیت کے بندے ہیں تمام ! طبع مشرق کے لیے موزوں ہی افیون تھی ورنہ قوالی سے چھت نہیں علم کلام
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا ند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام کس کی نومیدی پہ محبت ہے یہ فرمان جدی ؟
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا جہاد اس دور میں مرد مسلماں پورام "
دوسرا مشیر
خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر؟ تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبر؟
پہلا مشیر
ہوں ، مگر میری جہاں بینی بناعی ہے مجھے جو ملوکیت کا اک پر دہ ہو کیا اس سے خطر! ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس خود نگر کار و بارش هر باری کی حقیقت اور ہے یہ وجود میر سلطاں پر نہیں ہے منحصر
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو ہے وہ سلطان غیر کی کھیتی پر ہو جس کی نظر! تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام چهره روشن، اندرون چنگیز سے تاریک تر
تیسرا مشیر
روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب ہے مگر گیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟ بے تختی ! وہ مسیح بے صلیب! نیست پیغمر برونین بونل دارد کتاب کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے دن حساب ! اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گا طبیعت کا فساد توڑ دی بندوں نے آؤؤں کے خیموں کی طناب!
چوتھا مشیر
توڑ اس کا دومتہ الکبری کے ایوانوں میں دیکھ ال سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب کون بحر روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا گاه بالد چوں صنوبرا گاہ نالد چوں رباب
تیسرا مشیر
میں تو اس کی عاقبت مینی کا کچھ قائل نہیں
جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب!
پانچواں مشیر۔
(ابلیس کو مخاطب کر کے)
اسے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار تو نے جب چاہا کی ہر پردگی کو آشکار
آب و گل تیری حرارت سے جہان سوز و ساز ابلہ جنت ترمی تعلیم سے دانائے کار مجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہیں سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار کام تھا جن کا فقط تقدیس و بسیج وطواف تیری غیرت سے ابد تک سرنگون و شتر مسار گرچہ ہیں تیرے مرید فرنگ کے ساحر تمام اب تجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار وہ یہودی نیستند گزاده رورج مزدک کا بروز ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تارتار زاغ دشتی ہو رہا ہے تمہر شا ہین و چرغ کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار فتنہ پنڈا کی ہیت کا یہ عالم ہے کہ آج کانپتے ہیں کو ہسار و مرغزار و جوتیار میرے آقا! وہ جہاں زیر وزیر ہونے کو ہے جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
ابلیس
(اپنے مشیروں سے )
ہے مرے دست تصرف میں جہان رنگ بو کیا زمین کیا مھر منہ کیا اسمان تو بتو دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق میں نے جب گرما دیا اقوام یورپ کا لہو کیا امامان سیاست کیا کلیسا کے شیوخ سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہوا کارگاہ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک مرد کی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچه گرد یہ پریشاں روزگار است و مغز، آشفتہ ہو ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس اُمت سے ہے جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو خال خال اس قوم میں ابتک نظر آتے ہیں وہ کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو جانتا ہے جس پہ روشن باطن ایام ہے- مزدکیت فتنہ فردا نہیں اسلام ہے