رباعیات
مری شاخ امل کا ہے شمر کیا تری تقدیر کی مجھ کو خبر کب کلی گل کی ہے محتاج کشور آج نسیم صبح فردا پر نظر کیا !
فراغت دے اسے کار جہاں سے کہ چھوٹے ہر نفس کے امتحاں سے ہوا پیری سے شیطاں کہنہ اندیش گناہ تازہ تر لائے کہاں سے !
دگرگوں عالم شام و سحر کر جهان خشک و تر زیر و زبرگر رہے تیری خدائی داغ سے پاک مرے بے ذوق سجدوں سے مدد کر!
غریبی میں ہوں محسود امیری کہ غیرت مند ہے میری فقیری مدر اس فقر و درویشی سے جس نے مسلماں کو سکھا دی سر بریری
خرد کی تنگ دامانی سے فریاد تجلی کی فراوانی سے فریاد گوارا ہے اسے نظارہ غیر نگہ کی نامسلمانی سے فریاد
کہا اقبال نے شیخ حرم سے نہ محراب مسجد سو گیا کون ؟ ندا مسبحر کی دیواروں سے آئی فرنگی بتکدے میں کھو گیا کون ؟
کہن ہنگامہ ہائے آرزو سرو کہ ہے مرد مسلماں کا لہورد بتوں کو میری لادینی مبارک کہ ہے آج آتش اللہ ھو سرد!
حادیث بنده مومن دل آویز جگر پیر خوں ، نفس روشن نگر تیز ! میتر ہو کے دیدار اس کا کہ ہے وہ رونق محفل کم آمین!
تمیز خار و گل سے آشکارا نیم صبح کی روشن ضمیری! حفاظت پھول کی ممکن نہیں ہے
اگر کانٹے میں ہو خوئے حریری !
نہ کر ذکر فراق و آشنائی
کہ اصل زندگی ہے خود نمائی نہ دریا کا زیاں ہے نے گہر کا
دلِ دریا سے گوہر کی جدائی !
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے ؟ خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے؟ عبث ہے شکوہ تقدیر یزداں تو خود تف زیر یزداں کیوں نہیں ہے؟
خرد دیکھے اگر دل کی نگہ سے جہاں روشن ہے نور لا الہ سے فقط اک گردش شام و سحر ہے
اگر دیکھیں فروغ مہرومہ سے !
کبھی دریا سے مثل موج اُبھر کر کبھی دریا کے سینے میں اُتر کر کبھی دریا کے ساحل سے گزر کر مقام اپنی خودی کا فاش ترکر!