ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا ا دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ جیا را جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل دادی بیماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویشی کو تاج سر دارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کہ کہتے ہیں کہ شیشہ کو بناسکتے ہیں خارا افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوامہ کی تفت دیر ہر فرد ہے ملت کے معتدار کا ستارا
محروم رہا دولت دریا سے وہ خواص کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارا دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہوقت ہے ایسی تجارت میں سلماں کا خسارا دنیا کو ہے پھر رکہ روح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا لیس کو یورپ کی مشینوں کا سارا تفت دیر اہم کیا ہے؟ کوئی کہہ نہیں سکتا مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا افلام عمل مانگ نیا گان کہن سے شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را با!
تصویر و تصور
تصویر
کہا تصویر نے تصویر گر سے نمائش ہے مری تیرے ہنر سے ولیکن کس قدر نہ منصفی ہے کہ تو پوشیدہ ہو میری نظر سے! مُصوّر
گراں ہے چشم بینا دیدہ ور پر جہاں بینی سے کیا گزری شرر پر ! نظر درد و غم و سوز و تب و تاب تو اسے ناداں قناعت کر خبر پر
تصویر
خبر عقل و خرد کی ناتوانی
نظر، دل کی حیات جادمانی نہیں ہے اس زمانے کی تیرے تاز سزاوار حدیث لن ترانی
تو ہے میرے کمالات ہنر سے نہ ہو تو میرا اپنے نقش گر سے میرے دیدار کی ہے اک یہی شرط کہ تو پنہاں نہ ہو اپنی نظر سے !
عالم برزخ
مردہ اپنی قبر سے
کیا شے ہے؟ کس امروز کا فردا ہے قیامت؟ اے میرے شبستان کہن ! کیا ہے قیامت؟
اے مردہ صد سالہ ! تجھے کیا نہیں معلوم ؟ ہر موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت !
جس موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت اُس موت کے پھندے میں گرفتار نہیں میں ہر چند کہ ہوں مُردہ صد سالہ ولیکن ظلمت کدہ خاک سے بیزار نہیں میں ہو روح پھر اک بار سوار بدن زار ایسی ہے قیامت تو خریدار نہیں میں
صدائے غیب
نے نصیب مارو کروم نے نصیب ام و در ہے فقط محکوم قوموں کے لئے مرگ ابد! بانگ اسرافیل ان کو زندہ کر سکتی نہیں روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد مر کے جی اُٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوش لحد
ب
(اپنے مردے سے)
اہ ظالم : تو جہاں میں بہت رو محکوم تھا ؟
میں نہ سمجھی تھی کہ ہے کیوں خاک میری سوزناک تیری میت سے مری تاریکیاں تاریک تر تیری میت سے زمیں کا پردہ ناموس چاک! الحذر محکوم کی نیت سے سوبار الحند اے سرافیل ! اے خدائے کائنات ! اسے جان پاک
صدائے غیب
گرچہ برہم ہے قیامت سے نظامِ ہست و بود ہیں اسی آشوب سے بے پر وہ اسرار وجود زلزے سے کوہ و در اُڑتے ہیں مانندِ سحاب زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام ہے اسی میں مشکلات زندگانی کی کشور
زمین
آه یه مرگ دوام ! آه یه رزم حیات ! ختم بھی ہوگی کبھی کشمکش کائنات! عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات ! عارف و عامی تمام بنده لات و منات! خوار ہوا کس قدر آدم یزداں صفات قلب و نظر پر گراں ایسے جہاں کا ثبات ! کیوں نہیں ہوتی سحر حضرت انساں کی رات-
معزول شهنشاه
ہو مبارک اس شہنشاہ نکو فرجام کو جس کی قربانی سے اسرار ملوکیت ہیں فاش شاہ ہے برطانوی مندر میں اک مٹی کا بت جس کو کر سکتے ہیں جب چاہیں بچاری پاش پاش! ہے یہ مشک آمیز افیوں ہم غلاموں کے لئے ساحر انگلیس! ما را خواجه دیگر تراش
دوزخی کی مناجات
اس دیر کہن میں ہیں غرض من تجاری رنجیدہ بتوں سے ہوں تو کرتے ہیں خدا یاد! پوجا بھی ہے بے سود نمازیں بھی ہیں بے سود قسمت ہے غریبوں کی وہی نالہ و فریاد! ہیں گرچہ بلندی میں عمارات فلک بوس مر حقیقت میں ہے ویرانہ آباد ! تیشے کی کوئی گردش تقدیر تو دیکھے سیراب ہے. ہے پرویز، جگر تشہ ہے فریاد ! پر علم یہ حکمت یہ سیاست یہ تجارت جو کچھ ہے وہ ہے فکر ملوکانہ کی ایجاد! اللہ ! ترا شکر کہ یہ خطہ پر پُر سوز سوداگر یورپ کی غلامی سے ہے آزاد !
مسعود مرحوم
یہ مہرومہ یہ ستارے یہ آسمان کبود کسے خبر کہ یہ عالم عدم ہے یا کہ وجوب خیالِ جادہ و منزل فسانہ وافسوں کہ زندگی ہے سراپا رحیل بے مقصود! رہی نہ آہ زمانے کے ہاتھ سے باقی وہ یاد گار کمالات احمد و محمود زوال علم و ہنر مرگ ناگہاں اسکی وہ کارواں کا متاع گراں بہا مسعود! مجھے رُلاتی ہے اہل جہاں کی بیدردی فغان مرغ سحر خواں کو جانتے ہیں سرود! نہ کہ کہ صبر میں پنہاں ہے چارہ عمر دوست نہ کہہ کہ صبر معتمائے موت کی ہے کشور!
(سعدی)
دبے کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است زعشق تا به صبوری هزار فرسنگ است نہ مجھ سے پوچھ کہ عمر گریز پا گیا ہے۔ کسے خبر کہ یہ نیرنگ وسیمیا کیا ہے ہوا جو خاک سے پیدا وہ خاک میں مستور مگر یہ غیبت صغر نے ہے یا فنا ؟ کیا ہے؟ غُبارِ راہ کو بخشا گیا ہے ذوق جمال خرد بتا نہیں سکتی کہ مدعا گیا ہے دل و نظر بھی اسی آب و گل کے ہیں اعجاز ؟ نہیں تو حضرت انساں کی انتہا کیا ہے؟ جہاں کی روح رواں لا اله الا هو مسیح و میخ و چلیپا یہ ماجرا کیا ہے؟ قصاص خون تمت کا مانگئے کس سے گناہگار ہے کون اور خوں بہا کیا ہے؟ نہیں مشو کہ یہ بندِ جہاں گرفتار یکم طلسمات کنداں دئے کہ ما داریم!
خودی ہے زندہ تو ہے موت اک مقام حیات که عشق موت سے کرتا ہے امتحان ثبات خودی ہے زندہ تو دریا ہے بی کرانہ ترا ترے فراق میں مضطر ہے موج نیل فرات! خودی ہے مُردہ تو مانند گاہ پیش نسیم خودی ہے زندہ تو سلطان جملہ موجودات! نگاہ ایک تجلی سے ہے اگر محروم دو صد ہزار تجلی تلافی مافات مقام بندہ مومن کا ہے ورائے سپہر زمین سے تا بہ ثریا تمام لات و منات ! حریم ذات ہے اس کا نشیمن ابدی نہ تیرہ خاک لحد ہے نہ جلوہ گاہ صفات! خود آگہاں کہ ازیں خاک اں برون جستند طلسم مهر و سپهر وستاره بشکستند!
بٹھے بلوچ کی نصیح بیٹے کو
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا ا دشت سے بہتر ہے نہ دلی نہ جیا را جس سمت میں چاہے صفت سیل رواں چل دادی بیماری ہے وہ صحرا بھی ہمارا
غیرت ہے بڑی چیز جہان تگ و دو میں
پہناتی ہے درویشی کو تاج سر دارا
حاصل کسی کامل سے یہ پوشیدہ ہنر کہ کہتے ہیں کہ شیشہ کو بناسکتے ہیں خارا افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوامہ کی تفت دیر ہر فرد ہے ملت کے معتدار کا ستارا
محروم رہا دولت دریا سے وہ خواص کرتا نہیں جو صحبت ساحل سے کنارا دیں ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہوقت ہے ایسی تجارت میں سلماں کا خسارا دنیا کو ہے پھر رکہ روح و بدن پیش تہذیب نے پھر اپنے درندوں کو ابھارا اللہ کو پامردی مومن پہ بھروسا لیس کو یورپ کی مشینوں کا سارا تفت دیر اہم کیا ہے؟ کوئی کہہ نہیں سکتا مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارا افلام عمل مانگ نیا گان کہن سے شاہاں چہ عجب گر بنوازند گدا را با!
تصویر و تصور
تصویر
کہا تصویر نے تصویر گر سے نمائش ہے مری تیرے ہنر سے ولیکن کس قدر نہ منصفی ہے کہ تو پوشیدہ ہو میری نظر سے! مُصوّر
گراں ہے چشم بینا دیدہ ور پر جہاں بینی سے کیا گزری شرر پر ! نظر درد و غم و سوز و تب و تاب تو اسے ناداں قناعت کر خبر پر
تصویر
خبر عقل و خرد کی ناتوانی
نظر، دل کی حیات جادمانی نہیں ہے اس زمانے کی تیرے تاز سزاوار حدیث لن ترانی
تو ہے میرے کمالات ہنر سے نہ ہو تو میرا اپنے نقش گر سے میرے دیدار کی ہے اک یہی شرط کہ تو پنہاں نہ ہو اپنی نظر سے !
عالم برزخ
مردہ اپنی قبر سے
کیا شے ہے؟ کس امروز کا فردا ہے قیامت؟ اے میرے شبستان کہن ! کیا ہے قیامت؟
اے مردہ صد سالہ ! تجھے کیا نہیں معلوم ؟ ہر موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت !
جس موت کا پوشیدہ تقاضا ہے قیامت اُس موت کے پھندے میں گرفتار نہیں میں ہر چند کہ ہوں مُردہ صد سالہ ولیکن ظلمت کدہ خاک سے بیزار نہیں میں ہو روح پھر اک بار سوار بدن زار ایسی ہے قیامت تو خریدار نہیں میں
صدائے غیب
نے نصیب مارو کروم نے نصیب ام و در ہے فقط محکوم قوموں کے لئے مرگ ابد! بانگ اسرافیل ان کو زندہ کر سکتی نہیں روح سے تھا زندگی میں بھی تہی جن کا جسد مر کے جی اُٹھنا فقط آزاد مردوں کا ہے کام گرچہ ہر ذی روح کی منزل ہے آغوش لحد
ب
(اپنے مردے سے)
اہ ظالم : تو جہاں میں بہت رو محکوم تھا ؟
میں نہ سمجھی تھی کہ ہے کیوں خاک میری سوزناک تیری میت سے مری تاریکیاں تاریک تر تیری میت سے زمیں کا پردہ ناموس چاک! الحذر محکوم کی نیت سے سوبار الحند اے سرافیل ! اے خدائے کائنات ! اسے جان پاک
صدائے غیب
گرچہ برہم ہے قیامت سے نظامِ ہست و بود ہیں اسی آشوب سے بے پر وہ اسرار وجود زلزے سے کوہ و در اُڑتے ہیں مانندِ سحاب زلزلے سے وادیوں میں تازہ چشموں کی نمود ہر نئی تعمیر کو لازم ہے تخریب تمام ہے اسی میں مشکلات زندگانی کی کشور
زمین
آه یه مرگ دوام ! آه یه رزم حیات ! ختم بھی ہوگی کبھی کشمکش کائنات! عقل کو ملتی نہیں اپنے بتوں سے نجات ! عارف و عامی تمام بنده لات و منات! خوار ہوا کس قدر آدم یزداں صفات قلب و نظر پر گراں ایسے جہاں کا ثبات ! کیوں نہیں ہوتی سحر حضرت انساں کی رات-
معزول شهنشاه
ہو مبارک اس شہنشاہ نکو فرجام کو جس کی قربانی سے اسرار ملوکیت ہیں فاش شاہ ہے برطانوی مندر میں اک مٹی کا بت جس کو کر سکتے ہیں جب چاہیں بچاری پاش پاش! ہے یہ مشک آمیز افیوں ہم غلاموں کے لئے ساحر انگلیس! ما را خواجه دیگر تراش
دوزخی کی مناجات
اس دیر کہن میں ہیں غرض من تجاری رنجیدہ بتوں سے ہوں تو کرتے ہیں خدا یاد! پوجا بھی ہے بے سود نمازیں بھی ہیں بے سود قسمت ہے غریبوں کی وہی نالہ و فریاد! ہیں گرچہ بلندی میں عمارات فلک بوس مر حقیقت میں ہے ویرانہ آباد ! تیشے کی کوئی گردش تقدیر تو دیکھے سیراب ہے. ہے پرویز، جگر تشہ ہے فریاد ! پر علم یہ حکمت یہ سیاست یہ تجارت جو کچھ ہے وہ ہے فکر ملوکانہ کی ایجاد! اللہ ! ترا شکر کہ یہ خطہ پر پُر سوز سوداگر یورپ کی غلامی سے ہے آزاد !
مسعود مرحوم
یہ مہرومہ یہ ستارے یہ آسمان کبود کسے خبر کہ یہ عالم عدم ہے یا کہ وجوب خیالِ جادہ و منزل فسانہ وافسوں کہ زندگی ہے سراپا رحیل بے مقصود! رہی نہ آہ زمانے کے ہاتھ سے باقی وہ یاد گار کمالات احمد و محمود زوال علم و ہنر مرگ ناگہاں اسکی وہ کارواں کا متاع گراں بہا مسعود! مجھے رُلاتی ہے اہل جہاں کی بیدردی فغان مرغ سحر خواں کو جانتے ہیں سرود! نہ کہ کہ صبر میں پنہاں ہے چارہ عمر دوست نہ کہہ کہ صبر معتمائے موت کی ہے کشور!
(سعدی)
دبے کہ عاشق و صابر بود مگر سنگ است زعشق تا به صبوری هزار فرسنگ است نہ مجھ سے پوچھ کہ عمر گریز پا گیا ہے۔ کسے خبر کہ یہ نیرنگ وسیمیا کیا ہے ہوا جو خاک سے پیدا وہ خاک میں مستور مگر یہ غیبت صغر نے ہے یا فنا ؟ کیا ہے؟ غُبارِ راہ کو بخشا گیا ہے ذوق جمال خرد بتا نہیں سکتی کہ مدعا گیا ہے دل و نظر بھی اسی آب و گل کے ہیں اعجاز ؟ نہیں تو حضرت انساں کی انتہا کیا ہے؟ جہاں کی روح رواں لا اله الا هو مسیح و میخ و چلیپا یہ ماجرا کیا ہے؟ قصاص خون تمت کا مانگئے کس سے گناہگار ہے کون اور خوں بہا کیا ہے؟ نہیں مشو کہ یہ بندِ جہاں گرفتار یکم طلسمات کنداں دئے کہ ما داریم!
خودی ہے زندہ تو ہے موت اک مقام حیات که عشق موت سے کرتا ہے امتحان ثبات خودی ہے زندہ تو دریا ہے بی کرانہ ترا ترے فراق میں مضطر ہے موج نیل فرات! خودی ہے مُردہ تو مانند گاہ پیش نسیم خودی ہے زندہ تو سلطان جملہ موجودات! نگاہ ایک تجلی سے ہے اگر محروم دو صد ہزار تجلی تلافی مافات مقام بندہ مومن کا ہے ورائے سپہر زمین سے تا بہ ثریا تمام لات و منات ! حریم ذات ہے اس کا نشیمن ابدی نہ تیرہ خاک لحد ہے نہ جلوہ گاہ صفات! خود آگہاں کہ ازیں خاک اں برون جستند طلسم مهر و سپهر وستاره بشکستند!