shabd-logo

آخری سلیوٹ

29 November 2023

6 ڏسيل 6


آخری سلیوٹ
یہ کشمیر کی لڑائی بھی کچھ عجیب و غریب تھی ۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑ ا خراب ہو گیا ہو۔ کھیلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا مارنا اور مرنا جانتا تھا چھوٹے بڑے افسروں کی نظروں میں اس کی بڑی تو قیر تھی ، اس لیے کہ وہ بڑا ایجا در غار راور سمجھدار ساہی تھا۔ پانون ماند / مشکل کام ہمیشہ اسے ہی سوچتے تھے اور وہ ان سے عہدہ پر آ ہوتا تھا۔ مگر اس لڑائی کا ڈھنگ ہی نرالا تعادل میں بڑا اولولہ ، بڑا جوش تھا۔ بھوک پیاس سے بے پرو اب صرف ایک ہی لگن تھی ، دشمن کا صفایا کر دینے کی ، مگر جب اس سے سامنا ہوتا تو جانی پہچانی صورتیں نظر آئیں بعض دوست دکھائی دیتے، بڑے بغلی قسم کے دوست جو پچھلی لڑائی میں اس کے دوش بدوش اتحادیوں کے دشمنوں سے لڑے تھے، پر اب جان کے پیاسے بنے ہوئے تھے ۔ صوبیدار رب نواز سوچتا تھا کہ یہ سب خواب تو نہیں پھیلی برائی جنگ کا بھرتی ، قد اور چھاتیوں کی پیائش، پی ٹی، چاند ماری اور پھر اعلان گاؤ۔۔۔۔۔ ادھر سے ادھر ادھر سے ادھر، آخر جنگ کا خاتمہ، پھر ایک دم پاکستان کا قیام اور ساتھ ہی کشمیر کی لڑائی ، اوپر تلے کتنی چیز میں رب نواز ہو چتا تھا کہ کرنے والے نے یہ سب کچھ سوچ سمجھ کر کیا ہے تا کہ دوسرے بوکھلا جائیں اور سمجھ نہ سکیں ۔ ورنہ یہ بھی کوئی بات تھی کہ اتنی جلدی اتنے بڑے انقلاب بر پا ہو جائیں۔


اتنی بات تو صوبید ار رب نواز کی سمجھ میں آتی تھی کہ وہ کشمیر حاصل کرنے کے لئے لڑ رہے ہیں کشمیر کیوں حاصل کرتا ہے، یہ بھی وہ اچھی طرح سمجھتا تھا اس لیے که پاکستان کی بقاء کے لیے اس کا الحاق اشد ضروری ہے، مگر نشانہ باندھتے ہوئے اسے جب کوئی جانی پہچانی شکل نظر آ جاتی تھی تو وہ کچھ دیر کے لیے بھول جاتا تھا کہ وہ کسی فرض کے لیے لڑ رہا ہے، کسی مقصد کے لیے اس نے بندوق اٹھائی ہے، اور وہ یہ طالبا اس لیے بھولتا تھا کہ اسے بار بار خود کو یا د کرانا پڑتا تھا کہ اب کی وہ صرف تنخواہ، زمین کے مربعوں اور تمغوں کے لیے نہیں بلکہ اپنے وطن کی خاطر لڑ رہا ہے، یہ بٹن پہلے بھی اس کا وطن تھا ، وہ اس علاقے کا رہنے والا تھا جواب پاکستان کا ایک حصہ بن گیا تھا۔ اب اسے اپنے اس ہم وطن کے خلاف لڑتا تھا جو بھی اس کا ہمسایہ ہوتا تھا، جس کے خاندان سے اس کے خاندان کے پشت با پشت کے در بین مراسم تھے۔ اب اس کا وطن و ہ تھا جس کا پانی تک بھی اس نے کبھی نہیں پیا تھا، پر اب اس کی خاطر ، ایک دم اس کے کاندھے پر بندوق رکھ کر یہ حکم دے دیا گیا تھا کہ جاؤ، یہ جگہ جہاں تم نے ابھی اپنے گھر کے لیے وہ اینٹیں بھی نہیں چنیں، جس کی ہوا اور جس کے پانی کا مزا بھی ابھی تک تمہارے منہ میں ٹھیک طور پر نہیں بیٹا، تمہارا وطن ہے ۔ جاؤ اس کی خاطر پاکستان سے لڑو ۔۔۔۔۔۔ اس پاکستان سے جس کے میں دل میں تم نے اپنی عمر کے اتنے برس گزارے ہیں۔ رب نو از سوچتا تھا کہ یہی حال ان مسلمان فوجیوں کا ہے جو ہندوستان میں اپنا گھر بار چھوڑ کر یہاں آئے ہیں وہاں ان سب سے سب کچھ چھین لیا گیا تھا یہاں آ کران ہیں اور تو کچھ نہیں ملا البتہ بندوقیں مل گئی ہیں۔ اسی وزن کی ، اسی شکل کی ، اسی



مارکہ اور چھاپ کی۔ پہلے سب مل کر ایک ایسے دشمن سے لڑتے تھے۔ ان کو انہوں نے پیٹ اور انعام و اکرام کی خاطر اپنا دشمن یقین کر لیا تھا۔ اب وہ خود دو حصوں میں بٹ گئے تھے۔ پہلے سب ہندوستانی فوج کہلاتے تھے اب ایک پاکستانی تھا اور دوسرا ہندوستانی۔ ادھر ہندوستان میں مسلمان ہندوستانی فوج تھے رب تو از جب ان کے متعلق سوچتا تو اس کے دماغ میں ایک عجیب گڑ بڑی پیدا ہو جاتی۔ اور جب وہ کشمیر کے متعلق سوچتا تو اس کا دماغ بالکل جواب دے جاتا ۔ پاکستانی فوجی کشمیر کے لیے لڑ رہے تھے یا کشمیر کے مسلمانوں کے لیے؟ اگر انہیں کشمیر کے مسلمانوں ہی کے لیے لڑایا جاتا تھا تو حیدر آباد، اور جونا گڑھ کے مسلمانوں کے لیے کیوں نہیں لڑنے کے لیے نہیں کیا جاتا تھا اور اگر یہ جنگ ٹھیٹ اسلامی جنگ تھی تو دنیا میں دوسرے اسلامی ملک ہیں وہ اس میں کیوں حصہ نہیں لیتے۔ رب نواز بہت سوچ بچار کے بعد اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ یہ باریک باریک ہا تہیں فوجی کو بالکل نہیں سوچنا چاہیں اس کی عقل ہوئی ہونی چاہئے۔ کیونکہ موتی عقل والا ہی اچھا سپاہی ہو سکتا ہے مگر فطرت سے مجبور کبھی کبھی وہ چور دماغ سے ان پر تصور کر ہی لیتا تھا اور بعد میں اپنی اس حرکت پر خوب ہنستا تھا۔ دریائے کشن گنگا کے کنارے اس سڑک کے لیے جو مظفر آباد سے کرن جاتی ہے۔ کچھ پھر سے سے لڑائی ہو رہی تھی ۔۔۔۔ عجیب و غریب لڑائی تھی رات کو بعض اوقات آسا پہاڑیاں فائروں کے بجائے گندی گندی گالیوں سے گونج اٹھتی تھیں۔ ایک مرتبہ صوبیدار رب نواز اپنی پانوں کے جوانوں کے ساتھ شب خون




مارنے کے لیے تیار ہو رہا تھا کہ دو ر نیچے ایک کھائی سے گالیوں کا شور اٹھا پہلے تو وہ گھبرا گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ بہت سے بھوت مل کر ناچ رہے ہیں اور زور زور کے قوی ہے
لگا رہے ہیں وہ ہر ہوا یا خنزیر کی دم ۔۔۔۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔" ایک جوان نے گونجتی ہوئی آوازوں سے مخاطب ہو کہ یہ بڑی گالی دی اور رب نواز سے کہا " صو بیدار صاحب گالیاں دے رہے ہیں اپنی ماں کے یار رب نواز یہ گالیاں سن رہا تھا جو بہت اگرمانے والی تھیں اس کے جی میں آئی کہ بدن بول دے مگر ایسا کرنا غلطی تھی، چنانچہ وہ خاموش رہا۔ کچھ دیر جوان بھی چپ رہے، مگر جب پانی سر سے گزر گیا تو انہوں نے بھی گلا پھاڑ پھاڑ کے گالیاں لڑکا نا شروع کر دیں۔ رب نواز کے لیے اس قسم کی لڑائی بالکل نئی چینے تھی۔ اس نے جوانوں کو دو تین مرتبہ خاموش رہنے کے لیے کیا مگر گالیاں ہی کچھ ایسی تھیں کہ جواب دیئے بنا انسان سے نہیں رہا جاتا تھا۔ دشمن کے سپاری نظر سے اوجھل تھے رات کو تو خیر اندھیر تھا مگر وہ دن کو بھی نظر نہیں آتے تھے۔ یعرف ان کی گالیاں نیچے پہاڑی کے قدموں سے اٹھتی تھیں اور پتھروں کے ساتھ نگر انکر ا کر ہوا میں چلی جاتی تھیں ۔ رب نواز کی پلاٹون کے جوان جب ان گالیوں کا جواب دیتے تھے تو اس کو ایسا لگتا تھا کہ وہ نیچے نہیں جاتیں ، اوپر کو اڑ جاتی ہیں اس سے اس کو خاصی کوفت ہوتی تھی ۔۔۔۔ چنانچہ اس نے جھنجھلا کر حملہ کرنے کا حکم دے دیا۔ رب نواز کو وہاں کی پہاڑیوں میں ایک عجیب بات نظر آئی تھی۔ چڑھائی کی طرف کوئی پہاڑی درختوں اور بوٹوں سے لدی پھندی ہوتی تھی اور اترائی کی



طرف بھی کشمیری تو کے سر کی طرح کسی کی چڑھائی کا حصہ گنجا ہوتا تھا اور اترائی کی طرف درخت ہی درخت ہوتے تھے چیڑ کے لیے تناور درخت ، ان کے بنے ہوئے دھاگے جیسے چوں پر فوجی بوٹ پھسل پھسل جاتے تھے۔ جس پہاڑی پر صو بیدار رب نواز کی پلاٹون تھی، اس کی اترائی درختوں اور جھاڑیوں سے بے نیاز تھی۔ ظاہر ہے کہ حملہ بہت ہی خطر ناک تھا مگر سب جوان ہ خوشی تیار تھے۔ گالیوں کا انتقام لینے کے لیے وہ بہت بے تاب تھے۔ حملہ ہوا اور کامیاب رہا۔ دو جوان مارے گئے۔ چار زخمی ہوئے ، دشمن کے تین آدمی کھیت ر ہے ، باقی رسد کا کچھ سامان چھوڑ کر بھاگ نکلے۔ صور ید ا ر رب نواز اور اس کے جوانوں کو اس بات کا بڑا دکھ تھا کہ دشمن کا کوئی زندہ سپاہی ان کے ہاتھ نہ آیا جس کو وہ خاطر خواہ گالیوں کا مزا چکھا تھے۔ مگر یہ مورچہ فتح کرنے سے وہ ایک بڑی اہم پیاری پر قابض ہو گئے تھے ۔ وائرلیس کے ذریعے سے صوبید ار رب نواز نے پلانون ماند ر میجر اسلم کو فورا ہی اپنے حملے کے اس نتیجے سے مطلع کر دیا تھا اور شاباش وصول کر لی تھی۔ قریب قریب ہر پہاڑی کی چوٹی پر پانی کا ایک تالاب سا ہوتا تھا۔ اس پہاڑی پر بھی تالاب تھا مگر دوسری پہاڑیوں کے تالابوں کے مقابلے میں زیادہ پڑا اس کا پانی بھی بہت صاف اور شفاف تھا۔ گو موسم سخت سر دتھا۔ مگر سب نہائے، دانت بجتے رہے مگر انہوں نے کوئی پرواہ نہ کی ۔ وہ ابھی اس شغل میں مصروف تھے کہ فائر کی آواز آئی ۔ سب نکلے ہی لیٹ گئے تھوڑی دیر کے بعد صوبیدار رب نواز خاں نے دور بین لگا کر نیچے ڈھلوانوں پر نظر دوڑانی مگر اسے دشمن کے چھپنے کی


جگہ کا پتا نہ چلا۔ اس کے دیکھتے دیکھتے ایک اور فائر ہوا اور اترائی کے فورا بعد ایک نسبتا چھوٹی پہاڑی کی داڑھی سے اسے دھواں الفتا نظر آیا اس نے فورا ہی اپنے جوانوں کو فائر کا حکم دیا ۔
ادھر سے دھڑا دھڑا فائر ہوئے، ادھر سے بھی جوابا گولیاں چلنے لگیں ۔۔۔ صوبیدار رب نواز نے دور بین سے دشمن کی پوزیشن کا بغور مطالعہ کیا وہ غالبا بڑے بڑے پتھروں کے پیچھے محفوظ تھے۔ مگر یہ محافظ دیوار بہت ہی چھوٹی تھی زیادہ دیر تک وہ جھے نہیں رہ سکتے تھے۔ ان میں سے جو بھی ادھر ادھر بتا ، اس کا صور بیدار رب نواز کی زد میں آنا یقینی تھا۔ تھوڑی دیر فائز ہوتے رہے۔ اس کے بعد رب نواز نے اپنے جوانوں کو منع کر دیا کہ وہ گولیاں ضائع نہ کریں صرف تاک میں رہیں جو نہی دشمن کا کوئی سپاہی پتھروں کی دیوار سے نکل کر ادھر یا ادھر جانے کی کوشش کرے اس کو اڑا دیں ۔ یکم کر اس نے اپنے الف نکلے بدن کی طرف دیکھا اور بڑبڑایا خنزیر کی کپڑوں کے بغیر آدمی حیوان معلوم ہوتا ہے۔“ لیے لیے وقفوں کے بعد دشمن کی طرف سے اکا دکا فائر ہوتا رہا یہاں سے اس کا جواب بھی بھی دے دیا جاتا ۔ یہ کھیل پورے وہ دن جاری رہا ۔۔۔۔۔ موسم یک لخت بہت سرد ہو گیا۔ اس قدر سرد کہ دن کو بھی خون منجمد ہونے لگتا تھا، چنانچہ صو بیدار رب نواز نے چائے کے دور شروع کرا دیئے ۔ ہر وقت آگ پر کیتلی دھری رہتی ۔ جو نبی سردی زیادہ ستائی ایک اور اس گرم گرم مشروب کا ہو جاتا۔ ویسے دشمن پر یہ ابر کیا تھی ۔ ایک بہتا تو دوسرا اس کی جگہ دور بین لے کر بیٹھ جاتا ۔




ہڈیوں تک اتر جانے والی سرد ہوا چل رہی تھی ۔ جب اس جوان نے جو پہرے دار تھا، بتایا کہ پتھروں کی دیوار کے پیچھے کچھ گڑ بڑی ہو رہی ہے۔ صوبیدار رب نواز نے اس سے دور بین لی اور غور سے دکھا۔ اسے حرکت نظر نہ آئی لیکن فوراً ہی ایک آواز بلند ہوئی اور دیر تک اس کی گونج اس پاس کی پہاڑیوں کے ساتھ نکراتی رہی ۔ رب نواز اس کا مطلب نہ سمجھا اس کے جواب میں اس نے اپنی بندوق دائی دی۔ اس کی گونج و بی تو پھر ادھر سے آواز بلند ہوئی، جو صاف طور پر ان سے مخاطب تھی رب نواز چلایا "خنزیر کی دم بول کیا کہتا ہے تو ! فاصلہ زیادہ نہیں تھا رب نواز کے الفاظ دشمن تک پہنچ گئے، کیونکہ وہاں سے کسی نے کہا " گائی نہ دے بھائی رب نواز نے اپنے جوانوں کی طرف دیکھا اور بڑے جھنجھلائے ہوئے تعجب کے ساتھ کہا بھائی ؟۔۔۔ پھر وہ اپنے منہ کے آگے دونوں ہاتھوں کا بھونپو بنا کر چا یا بھائی ہو گا تیری ماں کا جنا ۔ یہاں سب تیری ماں کے یار ہیں ! ایک دم دھر سے ایک زخمی آواز باند ہوئی رب نواز ! رب نواز کانپ گیا ۔۔۔۔۔ یہ آواز آس پاس کی پہاڑیوں سے سر پھوڑتی رہی اور مختلف انداز میں، رب نواز ب نواز ، و براقی با آخر خون منجمد کر دینے والی سرد ہوا کے ساتھ جانے کہاں اڑ گئی۔ رب نواز بہت دیر کے بعد چونکا یہ کون تھا پھر وہ آہستہ سے بڑا جا ایا ختری کی دم !



اس کو اتنا معلوم تھا ٹیٹوال کے محاذ پر سپاہیوں کی اکثریت 219 رجمنٹ کی ہے ۔ وہ بھی اسی رجمنٹ میں تھا۔ مگر یہ آواز تھی کس کی؟ وہ ایسے بے شمار آدمیوں کو جانتا تھا۔ جو بھی اس کے عزیز ترین دوست تھے کچھا لیے بھی جن سے اس کی دشمنی تھی، چند ذاتی اغراض کی بناء پر لیکن یہ کون تھا جس نے اس کی گائی کا برا مان کر
اسے چیخ کر پکارا تھا۔ رب نواز نے دور چین لگا کر دیکھا، مگر پہاڑی کی تلی ہوئی چھدری داڑھی میں اسے کوئی نظر نہ آیا ۔ دونوں ہاتھ کا بھونپو بنا کر اس نے زور سے اپنی آواز ادھر یکی یہ کون تھا ؟ رب نواز بول رہا ہے۔۔۔۔۔۔ رب نواز رب نواز یہ رب نواز بھی کچھ دیر تک پہاڑیوں کے ساتھ ٹکراتا رہا۔ رب نواز پریڈایا " خنزیر کی دم ! فورا ہی ادھر سے آواز بلند ہوئی میں ہوں ۔۔۔۔ میں ہوں رام نگی
رب نواز یہ سن کر یوں اچھال جیسے وہ چھلانگ لگا کر دوسری طرف جانا چاہتا ہے پہلے اس نے اپنے آپ سے کہا " رام سنگھ ؟ پھر حلق پھاڑ کے چلایا " رام سنگھ ۔۔۔۔۔ ہوئے رام سنگھا۔ خندی کی دم ! خنزیر کی دم ابھی پہاڑیوں کے ساتھ نکہ انکرا کر پوری طرح کم نہیں ہوئی تھی کہ رام سنگھ کی پھٹی پھٹی آواز بلند ہوئی موئے مہار کے کھوتے ! رب نواز بھوں بھوں کرنے لگا جوانوں کی طرف رعب دار نظروں سے دیکھتے ہوئے 200 جایا سکتا ہے۔۔ خنزیر کی دم ! پھر اس نے رام سنگھ کو جواب دیا "


اوے بابات کے کر اوپر شاد۔۔۔۔۔ اوئے خنزیر کے جھٹکے
رام سنکھ بے تحاشا قہقہے لگانے لگا۔ رب نواز بھی زور زور سے بہنے لگا۔
پہاڑیاں یہ آوازیں بڑے کھلنڈرے انداز میں ایک دوسرے کی طرف اچھاتی
رہیں ۔۔۔ صوبیدار رب نواز کے جوان خاموش تھے۔
جب نفسی کا دورہ ختم ہوا تو ادھر سے رام سنگھ کی آواز بلند ہوئی دیکھو یار ہمیں
چائے چینی ہے ؟
میش کرد رام سنگھ چلایا " ہوئے پیش کسی طرح کریں ۔۔۔۔ سامان تو ہمارا ادھر پڑا
رب نواز نے پوچھا کدھر
رام سنگھ کی آواز آئی ادھر ۔۔۔۔ جدھر تمہارا فائر ہمیں از استا ہے
رب نواز نا تو کیا چاہتے ہو تم ۔۔۔۔ خنزیر کی دم !
رام سنگھ بولا نہیں سامان لے آنے دے
لے آ یہ کہہ کر اس نے اپنے جوانوں کی طرف دیکھا رام سنگھ کی تشویش بھری آواز بلند ہوئی تو از ادے گا، کمہار کے کھوتے !"
رب نواز نے بھنا کر کہا " ایک نہیں اوئے سنتو کو سر کے کچھوے“
رام سنگھ بنا " قسم کھا نہیں مارے گا !
رب نواز نے پوچھا کس کی قسم کھاؤں !"
رام سنگھ نے کیا کسی کی بھی کھائے !


رب نواز ہنما ہوئے جا۔۔۔۔ منگوالے اپنا سامان چند نحات خاموشی رہی ، دور بین ایک جوان کے ہاتھ میں تھی اس نے معنی خیز نظروں سے صوبیدار رب نواز کی طرف دیکھا۔ بندوق پھلانے ہی والا تھا کہ رب نواز نے اسے منع کیا نہیں۔ نہیں ! پھر اس نے دور بین لے کر خود ہی دیکھا۔ ایک آدمی ڈرتے ڈرتے پنجوں کے بل پتھروں کے عقب سے نکل کر جا رہا تھا۔ تھوڑی دور اس طرح چل کرو داٹھا اور تیزی سے بھاگا اور کچھ دور جھاڑیوں میں نائب ہو گیا ۔ دومنٹ کے بعد واپس آیا تو اس کے دونوں ہاتھوں میں کچھ سامان تھا۔ ایک محلے کے لیے وہ رکا۔ پھر تیزی سے پتھروں کی محفوظ دیوار کی طرف بھاگا اور بالآخر وہاں پہنچ گیا۔ وہ نظروں سے اوجھل ہوا تو رب نواز نے اپنی بندوق پہلا دی۔ تراخ کے ساتھ ہی رب نواز کا قیقت یہ بلند ہوا۔ یہ دونوں آواز میں مل کر کچھ دیر جھنجھناتی رہیں۔ پھر رام سنگھ کی آواز آئی تھینک یو۔“ نو مینشن رب نواز نے یہ کہہ کر جوانوں کی طرف دیکھا ایک راؤنڈ ہو
جائے تفریح کے طور پر دونوں طرف سے گولیاں چلنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر خاموشی ہو گئی رب نواز نے دور بین لگا کر دیکھا پہاڑی کی داڑھی میں سے دھواں اٹھ رہا تھا ۔ وہ پکارا چائے تیار کر لی رام سنگھا ؟ جواب آیا " بھی کہاں ہوئے کمہار کے کھوتے ! رب نو از وات کا مبار تھا جب کوئی اس کی طرف اشارہ کرتا تھا تو نصے سے اس





کا خون کھولنے لگتا تھا۔ ایک صرف رام سنگھ کے منہ سے وہ اسے برداشت کر لیتا تھا اس لیے کہ وہ اس کا بے تکلف دوست تھا۔ ایک ہی گاؤں میں وہ پل کر جوان ہوئے تھے۔ دونوں کی عمر میں صرف چند دن کا فرق تھا۔ دونوں کے باپ، پھر ان کے باپ بھی ایک دوسرے کے دوست تھے۔ ایک ہی سکول میں پرائمری تک جھتے تھے اور ایک ہی دن فوج میں بھرتی ہوئے تھے اور پچھلی برای جنگ میں کئی محاذوں پر اکٹھے بڑے تھے۔ رب نواز اپنے جوانوں کی نظروں میں خود کو خفیف محسوس کر کے بڑا بڑا ایا اختر میر کی دم ۔۔۔۔۔ اب بھی باز نہیں آتا ۔ پھر وہ رام سنگھ سے مخاطب ہوا اک نہیں ہوئے کھوتے کی جوں ۔ رام سنگھ کا قیمیہ بلند ہو ا رب نواز نے ایسے ہی شست باندھی ہوئی تھی تفریحا اس نے لیلی دبادی تراخ کے ساتھ ہی ایک فلک شگاف چیخ بلند ہوئی۔ رب نواز نے فورا دور بین لگائی اور دیکھا کہ ایک آدمی نہیں ، رام سنگھ پیٹ پکڑے، پتھروں کی دیوار سے ڈرامیٹ کر وہ ہر ا ہوا اور گر پڑا۔ رب نواز زور سے چینا رام سنگھ اور اچھل کر کھڑا ہو گیا، ادھر سے بیک وقت تین چار فائز ہوئے ایک گولی رب نواز کا دایاں بازو چانتی ہوئی نکل گئی۔ فورا ہی وہ اوندھے منہ زمین پر گر پڑا۔ اب دونوں طرف سے فائر شروع ہو گئے ۔ ادھر کچھ سپاہیوں نے گڑ بڑ سے فائدہ اٹھا کر پتھروں کے عقب سے نکل بھاگنا چاہا۔ ادھر سے فائر جاری تھے مگر انٹا نے پر کوئی نہ بیٹھا۔ رب نواز نے اپنے جوانوں کو اترنے کا حکم دیا تین فوراہی مارے گئے لیکن افتان و خیزاں باقی جوان دوسری پہاڑی پر پہنچی




گے۔"
رام سنگھ خون میں لت بہت پتھریلی زمین پر پڑ گمراہ رہا تھا گوئی اس کے پیٹ میں گئی تھی رب نواز کو دیکھ کر اس کی آنکھیں تمتما انھیں مسکرا کر اس نے کیا ہوئے کمہار کے کھوتے ، یہ تو نے کیا کیا۔ رب نواز ، رام سنگھ کا زخم اپنے پیٹ میں محسوس کر رہا تھا لیکن وہ مسکر اکر اس پر جو کا اور دوزانو ہو کر اس کی بیٹی کھولنے لگا "خنزیر کی ہم تم سے کس نے باہر نکلنے کو کہا
تھا۔
پینٹی اتارنے سے رام سنگھ کو سخت تکلیف ہوئی ۔ ورد سے وہ چلا چل پڑا۔ جب میں اتر گئی اور رب نواز نے زخم کا معائنہ کیا جو بہت خطر ناک تھا تو رام سنگھ نے رب نواز کا ہاتھ دیا کر کہا میں اپنا آپ دکھانے کے لیے باہر نکلا تھا کہ تو
نے۔۔۔۔ اوئے رب کے پتر ۔۔۔۔ فائر کر دیا ۔
رب نواز کا گلا رندھ گیا قسم وحدہ لاشریک کی۔۔۔۔ میں نے ایسے ہی
بندوق چلائی تھی ۔۔۔۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ تو کھوتے کا سنگھ باہر نکل رہا
ہے۔۔۔ مجھے افسوس ہے ! رام سنگھ کا خون کافی بہہ گیا تھا۔ رب نواز اور اس کے ساتھی کئی گھنٹوں کے بعد وہاں پہنچے تھے۔ اس عمر سے تک تو ایک پوری ملک خون کی خالی ہو سکتی تھی ۔ رب نواز کو حیرت تھی کہ اتنی دیر تک رام سنگھ زندہ رہ سکا ہے۔ اس کو امید نہیں تھی کہ وہ بچے گا ۔ ہلانا جلانا غلط تھا، چنانچہ اس نے فورا وائرلیس کے ذریعے سے پانون مانڈر سے درخواست کی کہ جلد ہی ایک ڈاکٹر روانہ کیا جائے۔ اس کا دوست رام




سنگھ زخمی ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر کا وہاں تک پہنچنا اور پھر وقت پر پہنچتا یا کل محال تھا۔ رب تو از کو یقین تھا کہ رام سنگھ صرف چند گھڑیوں کا مہمان ہے پھر بھی وائرلیس پر پیغام پہنچا کر اس نے مسکر اکر رام سنگھ سے کہا " ڈاکٹر آرہا ہے ۔۔۔ کوئی فکر نہ کر رام سنگھ بڑی نحیف آواز میں سوچتے ہوئے بولا فکر کسی بات کی نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ بتا میرے کتنے جوان مارے ہیں تم لوگوں نے ؟ رب نواز نے جواب دیا صرف ایک !" رام سنگھ کی آواز اور زیادہ نحیف ہو گئی تیرے کتنے مارے گئے؟ رب نواز نے جھوٹ بوائی مجھے اور یہ کہ کر اس نے معنی خیز نظروں سے اپنے جوانوں کی طرف دیکھا۔ چھ چھ رام سنگھ نے ایک ایک آدمی اپنے دل میں گنا میں زخمی ہوا تو وہ بہت بد دل ہو گئے تھے۔۔۔۔ پر میں نے کیا۔ کھیل جاؤ اپنی اور دشمن کی جان ہے ۔۔۔ کچھ۔۔۔۔ ٹھیک ہے وہ پھر مانی کے دھندلکوں میں چلا گیا " رب نواز یاد ہیں وہ دن ت ہیں ۔۔۔۔۔ اور رام سنگھ نے بیتے دن یا دکر نے شروع کر دیئے۔ کھیتوں کھلیانوں کی باتیں سکول کے قصے 219 جات رجمنٹ کی داستانیں ۔۔۔۔۔ سائڈنگ افسروں کے لطیفے اور باہر کے ملکوں میں اجنبی عورتوں سے معاشقے ان کا ذکر کرتے ہوئے رام سنگھ کو کوئی بہت دلچسپ واقعہ یا دا گیا۔ بننے لگا تو اس کے نہیں ابھی مگر اس کی پر واہ نہ کرتے ہوئے وہ زخم سے اوپر ہی اوپر نہس کر کہنے لگا اوئے سور کے




مل یاد ہے تمہیں و ہندم رب نواز نے پوچھا کون؟ رام سنگھ نے کہا " وو۔۔۔۔۔۔ اٹلی کی۔۔۔۔ کیا نام رکھا تھا ہم نے اس
کا برای مار خور عورت تھی ! ہاں تجھ رب نواز کو فورا ہی وہ عورت یاد آ گئی ہاں سلام معافیتو پیسے ختم ۔ تما شا ختم ۔۔ پر سے کبھی کبھی رعایت کر دیتی تھی مسولینی کی بچی ! رام سنگھ زور سے نہا۔۔۔۔۔ اور اس کے زخم سے جھے ہوئے خون کا ایک لوتھڑا نکل آیا سرسری طور پر رب نواز نے جو اپنی باندھی تھی وہ کھسک گئی تھی اسے ٹھیک کر کے اس نے رام سنگھ سے کہا " " اب خاموش رہو" رام سنگھ کو بہت تیز بخار تھا۔ اس کا دمانع اس کے باعث بہت تیز ہو گیا تھا بولنے کی طاقت نہیں تھی مگر بولے پیا جا رہا تھا۔ کبھی کبھی رک جاتا ۔ جیسے یہ دیکھ رہا ہے کہ ٹینکی میں کتنا پڑ ول باقی ہے کچھ دیر کے بعد اس پر ہذیانی کیفیت طاری ہو گئی، لیکن کچھ ایسے وقفے بھی آتے تھے کہ اس کے ہوش و جواں سلامت ہوتے تھے۔ انہی وقفوں میں اس نے ایک مرتبہ رب نواز سے سوال کیا یا را چونی بہتا، کیا
تم لوگوں کو ہ ابھی کشمیر چاہیے !" رب نواز نے پورے خلوص کے ساتھ کہا ہاں ، رام سنگھا ! رام سنگھ نے اپنا سر ہلایا نہیں ۔۔۔۔ میں نہیں مان سکتا۔۔۔ تمہر ہیں اور نمایا گیا ہے۔“





ہے۔ رب نواز نے اس کو یقین دلانے کے انداز میں کہا تم ہیں ورغلایا گیا قسم پنجتن پاک کی ۔۔۔ رام سنگھ نے رب نواز کا ہاتھ پکڑ لیا قسم نہ کھایا را۔۔۔۔۔ ٹھیک ہوگا لیکن اس کا لہجہ صاف بتا ر ہا تھا کہ اس کو رب نواز کی قسم کا یقین نہیں ۔ ون ڈھلنے سے کچھ دیر پہلے پالون سائڈنٹ میجر اسلم آیا اس کے ساتھ چند سپاہی تھے مگر ڈاکٹر نہیں تھا۔ رام سنگھ بے ہوشی اور نزع کی حالت میں کچھ بڑبڑا رہا تھا۔ مگر آواز اس قدر کمزور اور شکست تھی کہ سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا۔ میجر اسلم بھی 219 جاٹ رجمنٹ کا تھا اور رام سنگھ کو بہت اچھی طرح جانتا تھا ۔ رب نواز سے سارے حالات دریافت کرنے کے بعد اس نے رام سنگھ کو بلایا ۔۔۔ رام نگھ رام سنگی رام سنگھ نے اپنی آنکھیں کھولیں لیئے لیئے الیکشن ہو کر اس نے سلیوٹ کیا لیکن پھر آنکھیں کھول کر اس نے ایک محلے کے لیے غور سے میجر اسلم کی طرف دیکھا اس کا سلیوٹ کرنے والا اکثر ا ہوا ہاتھ ایک دم گر پڑا۔ جھنجھلا کر اس نے برا برانا شروع کیا کچھ نہیں ہوئے رام میاں ۔۔۔۔ بھول ہی گیا تو سور کے ا کہ پیزانی یزانی ؟ رام سنگھ اپنی بات پوری نہ کر سکا بند ہوتی ہوئی آنکھوں سے اس نے رب نواز کی طرف نیم سوالیہ انداز میں دیکھا اور سر و ہو گیا۔





15
مضمون
منٹو کے افسانے (Manto ke afsane)
0.0
سعادت حسن منٹو کی کچھ عمدہ کہانیوں کا مجموعہ
1

آخری سلیوٹ

29 November 2023
1
0
0

آخری سلیوٹ یہ کشمیر کی لڑائی بھی کچھ عجیب و غریب تھی ۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑ ا خراب ہو گیا ہو۔ کھیلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا مارنا اور مرنا جانتا

2

آنکھیں

29 November 2023
0
0
0

اس کے سارے جسم میں مجھے اس کی آنکھیں بہت پسند تھیں! یہ آنکھیں بالکل ایسی ہی تھیں جیسے اندھیری رات میں موٹر کار کی ہیڈ الماس جن کو آدمی سب سے پہلے دیکھتا ہے، آپ یہ نہ سمجھے گا کہ وہ بہت خوبصورت آنک

3

اب اور کہنے کی ضرورت نہیں

29 November 2023
0
0
0

یہ دنیا بھی عجیب و غریب ہے۔ خاص کر آج کا زمان ۔۔۔۔۔ قانون کو جس طرح فریب دیا جاتا ہے اس کے متعلق شاید آپ کو زیادہ علم نہ ہو۔۔۔ آج کل قانون ایک بے معنی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ ادھر کوئی نیا قانون بنتا ہ

4

اس کا پتی

30 November 2023
1
0
0

اس کا پتی لوگ کہتے تھے کہ نتھو کا سر اس لیے گنجا ہوا ہے کہ وہ ہر وقت سوچتا رہتا ہے اس بیان میں کافی صداقت تھی کیونکہ سوچنے وقت تو ہمیشہ سر کھجایا کرتا ہے کیونکہ اس کے بال بہت کھردرے اور خشک ہیں اور

5

الو کا پچھا

30 November 2023
0
0
0

قاسم صبح سات بجے کاف سے باہر نکھار اور غسل خانے کی طرف پہلا راستے ہیں، یہ اس کو ٹھیک طور پر معلوم نہیں ہونے والے کمرے میں ہمشن میں یا غسل خانے کے اندر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی کو ال

6

الله

30 November 2023
0
0
0

دو بھائی تھے اللہ رکھا اور اللہ دتا دونوں ریاست پٹیالہ کے باشندے تھے ان کے آبا ؤ اجداد البتہ لاہور کے تھے مگر جب ان دو بھائیوں کا داد اما ازمت کی تلاش میں پیالہ آیا توں ہیں کا ہو رہا۔ اللہ رکھا اور

7

انتظار

1 December 2023
1
0
0

(گھڑی آٹھہ بجاتی ہے )  منتظر : آدھا گفته مصرف آدھا گھنٹہ اور پھر اس کے بعد ۔۔۔ یدین کی آخری ڈوبتی ہوئی گونج کتنی پیاری تھی اور اور منتظر کا منطقی وجود اگر وہ نہ آئی۔ یعنی اگر منتظر کیوں نہ آئے

8

اولاد

1 December 2023
0
0
0

جب زبیدہ کی شادی ہوئیت و اس کی عمر پچیس برس کی تھی اس کے ماں باپ تو یہ چاہتے تھے کہ سترہ برس کی ہوتے ہی اس کا بیاہ ہو جائے مگر کوئی مناسب و موزوں رشتہ ملتا ہی نہیں تھا اگر کسی جگہ بات طے ہونے پاتی ت

9

بانجھ

2 December 2023
0
0
0

میری اور اس کی ملاقات آج سے ٹھیک دو برس پہل اپولو بندر پر ہوئی شام کا وقت تھا سورج کی آخری کرنہیں سمندر کی ان دور دراز لہروں کے پیچھے غائب ہو چلی تھیں جو ساحل کے بینچ پر بیٹھ کر دیکھنے سے موٹے کپڑ

10

باسط

5 December 2023
0
0
0

باسط با کل رضا مند نہیں تھا لیکن ماں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی اول اول تو اس کو اتنی جلدی شادی کرنے کی خواہش نہیں تھی اس کے علاوہ وہ لڑکی بھی اسے پسند نہیں تھی جس سے اس کی ماں اس کی شادی کرنے

11

بھنی

5 December 2023
0
0
0

بھنگنوں کی باتیں ہورہی تھیں خاص طور پر ان کی جو ہوارے سے پہلے امرتسر میں رائی تھیں مجید کا یہ ایمان تھا کہ امرتسر کی بھٹکوں جیسی کراری چھوکریاں اور کہیں نہیں پائی جاتیں خدا معلوم تقسیم کے بعد وہ کہا

12

بسم الله

7 December 2023
0
0
0

فلم بنانے کے سلسلے میں ظہیر سے سعید کی ملاقات ہوئی سعید بہت متاثر ہو ا ہمی میں اس نے تہیہ کو سنٹرل اسٹوڈیوز میں ایک دو مرتبہ دیکھا تھا اور شاید چند باتیں بھی کی تھیں مگر متصل ملاقات پہلی مرتبہ لا ہو

13

بغیر اجازت

7 December 2023
0
0
0

نعیم کہلاتا کہلاتا ایک باغ کے اندر چلا گیا ۔۔۔ اس کو وہاں کی فضا بہت پسند آئی ۔۔۔ گھاس کے ایک تختے پر لیٹ کر اس نے خود کلامی شروع کر دی۔ کیسی پر فضا جگہ ہے ۔۔۔ حیرت ہے کہ آج تک میری نظروں سے او تج

14

بلاوز

9 December 2023
0
0
0

کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت باتیں کرتے ہوئے تھی کہ سوچنے پر بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو اگر دو بیان بھی کرنا چ

15

بلونت سنگھ مجیٹھیا

10 December 2023
1
0
0

شاہ صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو ہم فورا بے تکلف ہو گئے ۔ مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ سید ہیں اور میرے دور دراز کے رشتے دار بھی ہیں۔ وہ میرے دور یا قریب کے رشتہ دار کیسے ہو سکتے تھے، اس کے متع

---