باسط با کل رضا مند نہیں تھا لیکن ماں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی اول اول تو اس کو اتنی جلدی شادی کرنے کی خواہش نہیں تھی اس کے علاوہ وہ لڑکی بھی اسے پسند نہیں تھی جس سے اس کی ماں اس کی شادی کرنے پر تلی ہوئی تھی وہ بہت دیر تک ٹالتا رہا۔ جتنے بہانے بنا سکتا تھا اس نے بنائے لیکن آخر ایک روز اس کو ماں کی اٹل خواہش کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہی پڑا اور اصل انکار کرتے کرتے وہ بھی تنگ آ گیا تھا چنانچہ اس نے دل میں سوچا یہ بک بک ختم ہی ہو جائے تو اچھا ہے، ہو نے دو شادی کوئی قیامت تو نہیں لوٹے پڑے گی ۔۔۔۔۔ میں بھالوں
اس کی ماں بہت خوش ہوئی لڑکی والے اس کے عزیز تھے اور وہ عرصہ ہوا ان کو زبان دے چکی تھی جب باسط نے ہاں کی تو وہ تاریخ کی کرنے کے لیے لڑکی والوں کے ہاں گئی انہوں نے ٹال مٹول کی تو باسط کی ماں کو بہت غصہ آیاد سعیدہ کی ماں امیں نے اتنی مشکلوں سے باسط کو رضامند کیا ہے، اب تم تاریخ یکی نہیں کر رہی ہو شادی ہوگی تو اس مہینے کی ہیں کو ہو گی نہیں تو نہیں ہوگی اور یہ بات سوال۔ آنے کی ہے سمجھ لیا "
جھمکی نے کام کیا لڑکی کی ماں یا لآخر راضی ہوگئی سب تیاریاں مکمل ہوئیں ہیں کو دلہن گھر میں تھی باسط کو گوہ و پسند نہیں تھی لیکن وہ اس کے ساتھ نبھانے کا فیصلہ کر چکا تھا، چنانچہ وہ اس سے بڑی محبت سے پیش آیا ۔ اس پر بالکل ظاہر نہ ہونے دیا
145
کہ وہ اس سے شادی کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اور یہ کہ وہ زیر دستی اس کے سر منڈجہ دی گئی ہے۔
نئی انہیں عام طور پر بہت شرمیلی ہوتی ہیں لیکن باسط نے محسوس کیا کہ سعیدہ ضرورت سے زیادہ شرمیلی ہے۔ اس کے اس شرمیلے پن میں کچھ خوف بھی تھا جیسے وہ باسط سے ڈرتی ہے شروع شروع میں باسط نے سوچا کہ یہ چینے دور ہو جائے گی نگره و یراھتی ہی گئی۔ باسط نے اس کو چند روز کے لیے میکے بھیج دیا واپس آئی تو اس کا خوف آلود شرمیلا پن ایک حد تک دور ہو چکا تھا یا سط نے سوچا ایک دو مرتبہ اور میکے جائے گی تو ٹھیک ہو جائے گی مگر اس کا یہ قیاس غلط نگار سعیدہ پھر خوف زدہ
رہنے لگی ۔ باسط نے ایک روز اس سے پوچھا " سعیدہ تم ڈی ڈاری کیوں رہتی ہو سعیده یدین کر چونکی نہیں تو ۔۔۔۔ نہیں تو " باسط نے اس سے بڑے پیار بھرے لہجے میں کہا " آخر بات کیا ہے۔۔۔۔۔ خدا کی قسم مجھے بڑی الجھن ہوتی ہے۔۔۔۔ کس بات کا ڈر ہے تماد ہیں ۔۔۔۔ میری ماں اتنی اچھی ہے وہ تم سے ساسوں کا سا سلوک نہیں کرتی میں تم سے اتنی محبت کرتا ہوں ۔ ۔ پھر تم ایسی صورت کیوں بنائے رکھتی ہو کہ معلوم ہوتا ہے تم میں یہ خوف ہے کہ کوئی تم میں پیٹے گا یہ کہ کر اس نے سعیدہ کا منہ چوما۔ سعیدہ خاموش رہی اس کی آنکھیں البتہ اور زیادہ خوف زدہ ہو گئیں باسط نے اس کو اور پیار کیا اور کہا تو ہیں ہر وقت بہتی رہنا چاہیے ۔۔۔۔۔ او اب ذرا ہوں ۔ ہنسو میری جان !
146
سعیدہ نے بننے کی کوشش کی باسط نے پیار سے اس کو تھپکی دی" شاباش۔۔۔۔۔ اسی طرح مسکراتا چہرہ ہونا چاہیئے ہر وقت !" باسط کی یہ محبت ظاہر ہے کہ باکل مصنوعی تھی، کیونکہ سعیدہ کے لیے اس کے دل میں کوئی جانے میں تھی لیکن وہ صرف اپنی ماں کی خاطر چا ہتا تھا کہ سعیدہ سے اس کارشتہ نا کام ثابت نہ ہو اس کی ماں اپنی شکست کبھی برداشت نہ کر سکتی اس نے اپنی زندگی میں شکست کا منہ دیکھا ہی نہیں تھا اس لیے باسط کی انتہائی کوشش یہی تھی کهہ سعیدہ سے اس کی سمجھ جائے، چنانچہ اپنے دل میں سعیدہ کے لیے اس نے بڑے خلوص کے ساتھ مصنوعی محبت پیدا کر لی تھی۔ اس کی ہر آسائش کا خیال رکھتا تھا اپنی ماں سے سعیدہ کی چھوٹی سی بات کی بھی تعریف کرتا تھا جب ودیہ محسوس کرتا کہ اس کی ماں بہت مضمون ہے، اس بات سے متمکن ہے کہ اس نے باسط کا رشتہ ٹھیک جگہ کیا ہے تو اس کو دلی خوشی ہوتی۔ شادی کو ایک مہینہ ہو گیا اس دوران میں سعیدہ کئی مرتبہ میکے گئی باسط کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھاوہ سمجھتا تھا کہ یوں اس کا خوف آلود تر میالا پن دور ہو جائے گا مگر ایسا نہ ہوا یہ دن بہ دن بڑھتا چلا جار ہا تھا اب تو سعید دہشت زدہ دکھائی دیتی تھی باسط حیران تھا کہ بات کیا ہے اس کے بارے میں اس نے ماں سے کوئی بات نہ کی اس لیے کہ اسے یقین تھا کہ وہ اس کو ڈانٹ پلاتیں بکواس نہ کرو مجھے معلوم تھا تم ضرور ایک روز اس میں کیڑے ڈالو گے ۔ باسط نے سعید وہی سے کہا میری جان اتم مجھے بتاتی کیوں نہیں ہو سعیده چونک اٹھی "جی ؟
147
اس کے چونکنے پر باسط نے یوں محسوس کیا جیسے اس نے سعیدہ کی کسی دکھتی رگ پر زور سے ہاتھ رکھ دیا تھا لہجے میں اور زیادہ پیار بھر کے اس نے کہا۔۔۔۔۔ میں نے پوچھا تھا کہ اب تم اور زیادہ خوف زدہ رہنے لگی ہو آخر بات کیا ہے ۔“ سعیدہ نے تھوڑے توقف کے بعد جواب دیا بات تو کچھ بھی
نہیں۔ کیا بیماری ہے۔ میں ذرا بیمار ہوں" تم نے مجھ سے کبھی ذکر ہی نہیں کیا " سعیدہ نے دوپٹے کے کنارے کو انٹلی پر لیتے ہوئے جواب دیا " امی جان! علاج کرارہی ہیں میر جلدی ٹھیک ہو جاؤں گی ۔ باسط نے سعیدہ سے اور زیادہ دلچسپی لینا شروع کی تو اس نے دیکھا کہ وہ ہر روز چھپ کر کوئی دوا کھاتی ہے۔ ایک دن جب کہ ہو اپنے قفل لگے ٹریک سے دوا نکال کر کھانے والی تھی وہ اس کے پاس پہنچ گیا وہ زور سے چونکی سفوف کی کھلی ہوئی پڑیا اس کے ہاتھ سے گر پڑی ۔ باسط نے اس سے پوچھا یہ دوا کھاتی ہو سعیدہ نے تھوک نگل کر جواب دیا " جی ہاں ۔ امی جان نے حکیم صاحب سے منگوائی تھی ۔ کچھ افاقہ ہے اس سے تو کھاؤ۔۔۔۔ اگر آرام نہ آئے تو مجھ سے کہنا میں ڈاکٹر کے پاس لے
"جی ہاں"
چلوں گا
سعیدہ نے پڑ یا فرش پر سے اٹھائی اور سر ہلا کر کہا " جی اچھا"
148
باسط چلا گیا اس نے سوچا اچھا ہے کوئی علاج تو ہو رہا ہے خدا کرے اچھی ہو جائے میرا خیال ہے یہ ڈرو کچھ نہیں بیماری ہے۔۔۔۔ دور ہو جائے گی انشا اللہ ! اس نے سعیدہ کی اس بیماری کا اپنی ماں سے پہلی بار ذکر کیا تو کہنے لگی ۔۔۔۔ بکو اس بے خدا کے فضل و کرم سے اچھی بھلی ہے، کیا بیماری ہے
باسط نے کہا مجھے کیا معلوم امی جان ام تو سعیدہ ہی بتا سکتی ہے آپ کو باسط کی ماں نے بڑی بے پروائی سے کہا میں پوچھوں کی اس سے جیب سعیدہ سے دریافت کیا تو اس نے جواب دیا کچھ نہیں خالہ جان اسر میں در در بتا تھا امی جان نے حکیم صاحب سے دو امتگادی تھی۔ اصل میں باسط صاحب بڑے وہی ہیں۔۔۔۔ ہر وقت کہتے رہتے ہیں کہ تم واری ڈاری کی دکھائی دیتی ہو مجھے ڈر کس بات کا ہوگا بھار
باسط کی ماں نے کہا " بکواس کرتا ہے تم اس کی فضول باتوں کا خیال نہ کیا کرو چند روز کے بعد باسط نے محسوس کیا کہ سعیدہ بہت ہی زیادہ گھبرائی ہوئی ہے اس کا انتظر اب اس کے روئیں روئیں سے ظاہر ہوتا تھا شام کے قریب اس نے باسط سے کہا امی جان سے ملنے کو جی چاہتا ہے ۔ مجھے ہاں چھوڑ آئے باسط نے جواب دیا نہیں سعیدہ ! آج تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے سعیدہ نے اصرار کیا آپ مجھے وہاں چھوڑ آپ ٹھیک ہو جاؤں گی باسط نے انکار کر دیا وہاں طبیعت ٹھیک ہو سکتی ہے تو یہاں بھی ٹھیک ہو سکتی ہے، جاؤ آرام سے لیٹ جاؤ"
149
باسط کی ماں آگئی باسط نے اس سے کہا امی جان ! دیکھئے سعید وضد کر رہی ہے طبیعت اس کی ٹھیک نہیں، کہتی ہے مجھے امی جان کے پاس لے چلو۔“ باسط کی ماں نے بڑی بے پروائی سے کیا کل چلی جانا سعید ہا سعیدہ نے اور کچھ نہ کیا خاموش ہو کر باہر سخن میں چلی گئی تھوڑی دیر کے بعد باسط با ہر گا ۔ سعیدہ حسن میں نہیں تھی اس نے ادھر ادھر تلاش کیا مگر وہ نہ ملی باسط نے سوچا اوپر کو تجھے پر ہوگی او پر گیا تو نسل خانے کا دروازہ بند تا کھٹکھٹا کر اس نے آوازدی سعیده ! اندر سے بڑی نحیف آواز آئی جی ! باسط نے پوچھا کیا کر رہی ہو اور زیادہ نحیف آواز آئی تمہارہی ہوں باسط نیچے آ گیا سعیدہ کے بارے میں سوچتا سو چتا یا ہر گلی میں لگا اموری کی طرف نظر پز کی تو اس میں خون ہی خون تھا اور یہ خون اس غسل خانے سے آرہا تھا جس میں سعیدہ نہا رہی تھی باسط کے ذہن میں تھے اوپر کئی خیالات اوندھے سیدھے گرے پھر یہ گروان شروع ہوگئی ہوا۔ خون ۔ خون در خون
کوئی جواب نہ ملا تو پھر پکارا سعیدہ !
پھر اس نے آہستہ آہستہ سوچنا شروع کیا۔ سعیدہ کی ماں شادی کی تاریخ پکی نہیں کرتی تھی اس نے کہا تھا ایک دو مہینے تخبر جاؤ۔۔۔۔ سعیدہ کا بار بار اپنی ماں سے ملنے جانا ۔۔۔۔۔ اس کا ہر وقت خوفزدہ رہنا دہ کھانا اور خاص طور پر آج بہت
150
ہی زیادہ وحشت زده ربنا۔ باسط سارا معاملہ سمجھ گیا۔ سعیدہ پیٹ سے تھی جب وہ بہن بن کر اس کے پاس آئی تھی اس کی ماں کی یہ کوشش تھی کہ حمل گر جائے چنانچہ آج وہ چیز ہو گئی باسط نے سوچا کیا میں اوپر جاؤں جاکر سعیدہ کو دیکھوں ۔ اپنی ماں سے بات کروں ماں کا سوچا تو اس کو خیال آیا کہ وہ یہ صدمہ برداشت نہیں کر سکے گی وہ اپنے بیٹے کی آنکھوں میں ذلیل ہوتا کبھی گوارا نہیں کرے گی ضرور کچھ کھا کر مر جائے گی وہ کوئی فیصلہ نہ کر سکا اپنے کمرے میں گیا اور سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ کئی بار اس کو سعیدہ کا خیال آیا کہ وہ خدا معلوم کسی حالت میں ہو گی اس کے جسم پر اس کے دل و دماغ پر کیا کچھ بہتا ہو گا اور کیا بیت رہا ہو گا کیسے اتنا بڑا راز چھپائے گی کیا لوگ پہچان نہیں جائیں گے جوں جوں وہ سعیدہ کے بارے میں سوچتا اس کے دل میں ہمدردی کا جذبہ بڑھتا جاتا اس کو سعید و پر ترس آنے لگا بے چاری معلوم نہیں بے ہوش پڑی ہے یا ہوش میں ہے ہوش میں بھی اس پر جانے کیا گزری ہو گی کیا وہ نیچے آسکے گی ؟ تھوڑی دیر کے بعد وہ اٹھ کر محن میں گیا تو سعیدہ نیچے آئی اس کا رنگ بے حد زردتها اناز رو کو دبا کل مردہ معلوم ہوتی تھی اس سے بمشکل چلا جاتا تھا۔ ٹائلیں لڑکھڑا رہی تھیں کمر میں جیسے جان ہی نہیں تھی باسط نے اس کو دیکھا تو اس پر بہت ترس آیا اندر سے برقع اٹھایا اور اس سے کہا چلو میں تم ہمیں چھوڑ آؤں۔“ سعیدہ نے بہت ہمت سے کام لیا باسط کے ساتھ چل کر باہر سڑک تک گئی باسط نے تانکہ لیا اور اس کو اس کی ماں کے پاس چھوڑ آیا ماں نے اس سے پوچھا "
151
سعیدہ کہاں ہے ؟ باسط نے جواب دیا "ضد کرتی تھی میں اسے چھوڑ آیا ہوں" باسط کی ماں نے اس کو ڈاتھا" بکواس کرتے ہو ضد کرنے دی ہوئی تم اسی طرح اس کی عادتیں خراب کرو گے اور پھر مجھ سے کہو گے کہ میں نے غلط جگہ تمہارا
رشتہ کیا تھا۔" باسط نے کہا نہیں امی جان ! سعید و بڑی اچھی لڑکی ہے اس کی ماں مسکرائی" میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ وہ بہت نیک لڑکی ہے تم اسے ضرور پسند کرو گے پھر تھوڑی دیر چھالیا کاٹنے کے بعد ایک دم باسط سے مخاطب ہوئی اور ہاں یا سط یہ اوپر نسل خانے میں خون کی سا تھا باسط پیٹا گیا وہ کچھ نہیں امی جان امیری تکسیر پھوٹی تھی ماں نے بڑے قصے کے ساتھ کیا کم بخت گرم چیزیں نہ کھایا کرو جب دیکھو جی ہیں مونگ پھلی سے بھری ہیں ۔ باسط کچھ دیر اپنی ماں کے ساتھ باتیں کرتا رہا، وانحہ کر کہیں گئی تو باسط او پر نسل خانے میں گیا پانی ڈال کر اس کو اچھی طرح صاف کیا اس کے دل کو اس بات کا بڑا اطمینان تھا کہ اس نے اپنی ماں سے سعیدہ کے متعلق کوئی بات نہیں کی اور نہ اس نے سعیدہ پر یہ ظاہر بنوے دیا کہ وہ اس کا راز جانتا ہے۔ وہ دل میں فیصلہ کر چکا تھا کہ سعیدہ کار از ہمیشہ اس کے سینے میں دفن رہے گا وہ کافی تکلیف اٹھا چکی تھی باسط کے خیال کے مطابق اس کو اپنے کیے کی سزامل چکی تھی مزید سزا دینے کا کوئی فائدہ نہیں " خدا کرے وہ جلد تندرست ہو جائے اب
152