shabd-logo

بلونت سنگھ مجیٹھیا

10 December 2023

8 ڏسيل 8


شاہ صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو ہم فورا بے تکلف ہو گئے ۔ مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ سید ہیں اور میرے دور دراز کے رشتے دار بھی ہیں۔ وہ میرے دور یا قریب کے رشتہ دار کیسے ہو سکتے تھے، اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہہ ۔ وہ سید تھے اور میں ایک محض کشمیری۔ بہر حال ان سے میری بے تکلفی بہت لجھ گئی۔ ان کو ادب سے کوئی شغف نہیں تھا۔ لیکن جب ان کو معلوم ہوا کہ میں افسانہ نگار ہوں تو انہوں نے مجھ سے میر می چند کتابیں مستعار میں اور پڑھیں ۔ یہ کتا ہیں جو کہ افسانوں کے مجموعے تمھیں ، انہوں نے پڑھیں اور مجھے بہت تعجب ہوا کہ انہوں نے چند افسانوں کی بہت تعریف کی ۔ اتفاق سے یہ افسانے ایسے تھے جو ادبی دنیا میں شاہ کار تقسیم کیے جاچکے تھے۔ شاہ صاحب میرے پڑوسی تھے۔ انہوں نے ایک مکان الاٹ کرا رکھا تھا۔ لیکن خاندان کے افراد چونکہ زیادہ تھے اس لیے انہوں نے اپنے فلیٹ کے نیچے موٹرگیران پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ اس میں انہوں نے اپنی بیٹھک کا انتظام کیا تھا۔ اوپر زنا نہ تھا، شاہ صاحب کے دوست یار بے شمار تھے اس لیے اس گیراج میں وہ

ان کی خاطر مدارات کرتے تھے۔ ایک دن ان سے افسانوں کے بارے میں باتیں ہوئیں تو انہوں نے مجھ سے کہا۔ "میری زندگی میں ایسی کئی حقیقتیں ہیں جن کو تم افسانے بنا کر پیش کر سکتے

196



میں ہر وقت فسانوں کی تلاش میں رہتا ہوں۔ چنانچہ میں نو را متوجہ ہوا اور شاہ صاحب سے کہا۔ " مجھے امید ہے کہ آپ اچھا وار دیں گے ! شاہ صاحب نے جوابا کہا۔ میں افسانہ کار نہیں لیکن میری زندگی میں ایک ایسا واقعہ ہوا ہے جو قابل ذکر ہے۔ میں نے قابل ذکر اس لیے کہا ہے کہ آپ بہت بڑے افسانہ نگار ہیں۔ ورنہ یہ واقعہ جو میں اب بیان کرنے والا ہوں میرے نزدیک بے حد حیرت انگیز ہے۔ شاہ صاحب نے کہا جی میں نہیں کہہ سکتا کہ جو واقعہ میں آپ کو سنانے والا ہوں، ہر شخص کے لیے حیرت کا باعث ہوگا میں صرف اپنی ذات کے متعلق آپ سے عرض کر رہا ہوں اور یہ حقیقت ہے کہ میں جو داستان آپ کو سناؤں گا، اس وقت تک میری زندگی میں محیر العقول حیثیت رکھتی ہے۔" شاہ صاحب نے نیل کٹر سے اپنے ناخن کاٹنے شروع کیے میں ان کی داستان سننے کے لیے بے تاب تھا، مگر شاید ہو آغاز کے متعلق سوچ رہے تھے کہ اپنی داستان کو کہاں سے شروع کریں۔ میرا خیال درست تھا کہ جو کچھ ان پر بہتا تھا اس کوئی برس ہو چکے تھے وہ تمام واقعات کی یاد اپنے ذہن میں تازہ کر رہے تھے۔ میں نے سگریٹ سلگایا ۔ انہوں نے اپنی دس انگلیوں کے ناخن کاٹ کر انیل کر تپائی پر رکھا اور مجھ سے مخاطب ہوئے ۔ میں ان دنوں کابل میں تھا۔ یہ کہہ کره و چند لمحات خاموش رہے، اس کے بعد بولے۔ میری وہاں بہت بڑی دکان تھی جس میں بڑھیا سے بڑھیا سامان موجود در بتا تھا۔

197



میں نے شاہ صاحب سے پوچھا۔ " آپ جنرل مرچنٹ تھے؟" شاد صاحب نے جواب دیا ۔ جی ہاں کامل کا سب سے بڑا اجنرل مرچنٹ میری دکان میں کابل کی قریب قریب ہر عورت سودا لینے آتی تھی آپ سے میں ایک بات عرض کروں ساتھہ کے دکاندار جب یہ دیکھتے تھے کہ کسی روز عورتوں کی بجائے میری دکان میں مرد کا بک آئے ہیں تو وہ مجھ سے فارسی زبان میں افسوس کا اظہار کرتے تھے کہ آنا آج یہ کیا ہوا کامل کی عورتیں اور لڑکیاں مرگئیں یا تمہارے نصیب ہو گئے ۔" شاد صاحب مسکر ا دیتے تھے اس کے علاوہ اور وہ کیا جواب دے سکتے تھے لیکن ان کو اس بات کا پورا احساس تھا کہ ان کی دکان میں گاہکوں کی اکثریت عورتوں اور لڑکیوں کی ہوتی ہے اور وہ یہ بھی جانتے تھے کہ یہ سب ان کی چرب زبانی کا جز د ہے۔ نہوں نے مجھ سے کہا۔ منٹو صاحب میں بہترین سیلز مین ہوں خاص طور پر عورتوں کے ساتھ تو میں اس طرح سودا کر سکتا ہوں کہ یہاں لاہور میں کوئی بھی نہیں کر سکتا بی اے ہوں تھوڑی بہت سائیکالوجی بھی میں نے پڑھی ہے، اس لیے مجھے معلوم ہے کہ عورتوں سے کسی طرح ذیل" کیا جا سکتا ہے یہی وہ تھی کہ سارے کابل میں میری دکان ہی ایسی تھی جس میں ہر وقت کوئی نہ کوئی کا یک موجود ہوتا تھا ۔ میں نے شاہ صاحب کی یہ خود تعریفی سنی اور ان سے کہا۔ یقینا آپ بہترین سیلز مین ہیں کہ آپ کی مختلو کا انداز وہی اس کا ثبوت ہے ۔

198



شاد صاحب مسکرائے۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ میں اپنی داستان بہترین سیلزمین کے انداز بیان میں بیان نہیں کر سکوں گا۔ میں نے ان سے کہا۔ آپ شروع تو کیجیے۔" شاہ صاحب نے چند لمحات اپنے حافظے کو پھر ٹوا اور اپنی داستان شروع کی۔ مخلو صاحب ! جیسا کہ میں آپ سے پہلے عرض کر چکا ہوں، میں کابل میں تھا۔ یہ کوئی دس برس پہلے کی بات ہے جب میری صحت بہت اچھی تھی ۔ یوں تو میں اب بھی تنومند کہلاتا ہوں مگر اس زمانے میں میر اہم آن کے مقابلے میں دگنا تھا۔ ہر روز ورزش کرتا تھا سینکڑوں ڈنر پلیتا تھا، مگدر ھماتا تھا۔ سگریٹ پیتا تھا نہ شراب بس ایک اچھا کھانے کی عادت تھی۔ افغانی نہیں ، ہندوستانی ، چنانچہ میں امرتسر سے اپنے ساتھ ایک بہت اچھا کشمیری باور پی لے گیا تھا جو ہر روز میرے لیے لذین سے لذیذ کھانے تیار کر کے میز پر رکھتا تھا میری زندگی بڑی ہموار گز دری تھی۔ آمدن بہت معقول تھی۔ بینک میں لاکھوں افغانی روپے جمع تھے لیکن

شاہ صاحب تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو گئے۔ میں نے ان سے پوچھا۔ لیکن کہہ کر آپ چپ ہو گئے اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ آپ پھر بھی ما خوش تھے۔"

شاد صاحب نے اعتراف کیا " جی ہاں میں ان تمام آسائشوں کے باوجود نا خوش تھا اس لیے کہ میں اکیلا تھا مجر وتھا اگر میری دکان میں عورتیں اور لڑکیاں زیادہ نہ آتیں تو بہت ممکن ہے کہ مجھے اپنے تجرد کا احساس نہ ہوتا

199



لیکن معاملہ اس کے برعکس تھا کابل کی ہر صاحب ثروت عورت میری دکان میں آتی تھی دکان میں داخل ہوتے ہیں یجور تھیں اور لڑکیاں اپنا برقع اتار کر ایک طرف رفتیں اور سودا خریدنے میں مصروف ہو جاتیں مخصو صاحب ! آپ کا شاید یہ خیال ہو کہ جویہ اشرقی قسم کا لباس پہنتی ہوں گی، مگر حقیقت اس کے یاس ہے۔ یوں تو وہاں کی عورتیں اور لڑکیاں پر وہ کرتی ہیں مگر لباس نصیت اور چین پہنتی ہیں۔ سکرٹ کئے ہوئے بال ، رنگے ہوئے ناخن، پنڈلیاں نکلی جب وہ میر کی دکان میں آتی تھیں تو اپنے پر تھے اتار کر ایک طرف رکھ دیتی تھیں اور مال دیکھنے میں مصروف ہو جاتی تھیں ۔" شاہ صاحب نے بولنا بند کیا تو میں نے ان سے پوچھا " آپ کو ان میں سے کسی سے محبت تو یقینا ہو گئی ہوگی ۔ شاہ صاحب بہت سنجید و ہو گئے۔ جی ہاں ! ایک لڑکی سے ہوئی تھی ، جو اپنا برقع نہیں اتارتی تھی ہستی کہ نقاب بھی نہیں اٹھاتی تھی ۔“ میں نے ان سے پوچھا ۔ کون تھی وہ ؟ انہوں نے جواب دیا ۔ ایک بہت بڑے گھرانے سے متعلق تھی۔ اس کا باپ فوج کا اعلی افسر تھا۔ بڑا سخت گیر مجھے اس سے صرف اس لیے محبت ہوئی کہ دہاتھوں کے علاوہ واپنے جسم کا کوئی حصہ نہیں دکھائی تھی ۔" میں نے پوچھا۔ اس کی وجہ ؟ شاہ صاحب نے کہا " مجھے معلوم نہیں اور نہ میں نے اس سے بھی اس بارے میں استشارہی کیا لیکن میرے تصور میں وہ انتہا درجے کی حسین تھی۔

200


گوری چٹی جسم خواوے تھے میں اپنا ہو، لیکن اس کے تناسب کے متعلق

دیکھ لیا اند از دانگانا کوئی اتنا زیادہ مشکل نہیں تھا میں نے چور آنکھوں سے دیا تھا کہ وہ جوانی کا آورش مجسمہ ہے لیکن مصیبت یہ تھی کہ ہ و چند مغلوں کے لیے میری دکان میں آتی تھی۔ چیز میں خریدنے اور ان کی قیمتوں کے بارے میں فیصلہ کرنے میں چند منٹ صرف کرتی تھی اور چلی جاتی تھی ۔" میں نے شاہ صاحب سے پوچھا۔ یہ معاملہ کب تک جاری رہا ہو قریب قریب چھ مہینے تک مجھ میں اتنی ہمت ہی نہیں تھی کہ میں اس سے اپنی محبت کا اظہار کروں۔ میں اس سے بہت مرغوب تھا، اس لیے کہ وہ دوسروں سے مختلف تھی۔ اس میں ایک عجیب قسم کی رعونت تھی میں اس کو ہے طرح گھورتا تھا، حالانکہ یہ شاکی نہیں تھی۔ لیکن میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور تھا منٹو صاحب ایک دن میں دکان میں بیضا اس کے متعلق سوچ رہا تھا کہ نیلی فون کی گھنٹی بھی۔ نوکر نے ریسیور اٹھایا اور مجھ سے کہا کہ کوئی خاتون آپ سے بات کرنا چاہتی ہیں میں نے سوچا کہ کوئی کا بک ہو گی اور نئے مال کے تعلق پوچھنا چاہتی ہوگی ۔ اٹھ کر میں نے ریسیور ہاتھ میں لیا اور پوچھا، مادام آپ کیا چائی ہیں؟ ادھر سے آواز آئی، کیا آپ سید مظفر علی ہیں ؟ میں نے جواب دیا، جی اب میں نے آواز پہچان لی تھی یہ اس کی ہاں ارشادا تھی اس کی جو میری دکان میں برقع نہیں اتارتی تھی میں گھبرا گیا منٹو صاحب ا یه عاشق ہونا بھی ایک عجیب لعنت ہے۔ یہ سن کر میں مسکر دیا ۔ " آپ ٹھیک فرماتے ہیں شاہ صاحب لیکن

201



انہوں ہے کہ میں اس لعنت میں ابھی تک گرفتار نہیں ہوا ۔ شاہ صاحب کو بہت افسوس ہوا ۔ حد ہوگئی ہے۔ انسان اپنی جوانی میں کم از کم ایک مرتبہ تو ضرور عشق میں گرفتار ہوتا ہے خیر ، آپ کو ابھی تک عشق نہیں ہوا تو خدا کرے کہ بہت جلد ہو جائے ، کیونکہ یہ مرض بہت دلچسپ ہے ۔ میں نے مسکرا کر شاہ صاحب سے کیا۔ آپ اپنی داستان بیان کیجیے مجھے عشق ہو گا تو میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو اس کی پوری روئید اوستا دوں گا۔

شاد صاحب کرسی پر سے اٹھ کر پانٹری پر لیٹ گئے اور آنکھیں بند کر لیں۔ مغلو صاحب میں اس لڑکی کے عشق میں اس بری طرح گرفتار ہوا کہ ورزش بھول گیا وہ میری دکان پر اکثر آتی تھی میں اس کو گھورتا تھا لیکن دیکھنے میں اومال کتنا خراب ہو گیا ہے یہ اسی مشق خانہ خراب کا باعث ہے میں آپ سے اس کے ٹیلی فون کی بات کر رہا تھا جب میں نے ریسیور اٹھایا اور اس کی آواز پہچان لی تو اس نے مجھ سے کیا دیکھو میں جب بھی تمہاری دکان میں آتی ہوں تم مجھے گھورتے ہو۔ اگر اپنی خیریت چاہتے ہو تو ٹھیک ہو جا اور نہ تمہارے حق میں بہت پر اہو گا مخصو صاحب میں جواب سوچ ہی رہا تھا کہ اس نے ٹیلیفون کا سلسانہ قطع کر دیا میں دیر تک گونگے ریسیور کو کان کے ساتھ لگائے

کھڑا رہا اور سوچتا رہا کہ اس دھمکی کا مطلب کیا ہے ۔“ میں نے شاہ صاحب سے پوچھا گیا، و جمعی اصلی تھی ؟ جی ہاں چوتھے روزہ میری دکان میں آئی تو میں نے اس کی نقاب کی

202



طرف پھر انہیں لگا ہوں سے دیکھا تو اس نے جھنجھلا کر میرے ملازموں کے سامنے

مجھ سے کہا تم میں شرم نہیں آتی کہ تم مجھے اس طرح دیکھتے ہو میں سن ہو گیا

لیکن اس نے چند چیزیں خریدیں دام دیئے اور اپنی موٹر میں بینہ کر چلی

گئی ۔ میں شاہ صاحب کی داستان میں کافی دن ہی لے رہا تھا۔ " عجیب لڑکی تھی آپ سے اسے نفرت بھی تھی مگر اس کے باوجود آپ کی دکان میں آتی تھی ۔ شاہ صاحب نے آنکھیں کھولیں۔ منٹو صاحب ایسی ہی تھی کہ میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اس کی نفرت و حقارت مصنوعی ہے و و در اصل وہ میری محبت سے متاثر ہو چکی ہے اور مخلص بناوٹ کے طور پر تحصے کا اظہار کرتی ہے لیکن جب ایک روز اس نے مجھے بہت زور سے امن لعن کی تو میں سرد ہو گیا پر اس کی محبت تھی جو میرے دل سے جاتی ہی نہیں تھی میں نے بہت کوشش کی کہ اس کو بھول جاؤں میں نے خود کو سمجھایا کہ تم عجیب بے قوف ہو۔ ایک لڑکی جس کی تم نے مشکل نہیں دیکھی جو تم سے نفرت کرتی ہے، تم اس سے عشق فرمارہے ہو۔ باز آؤ تمہارا کارو بار ماشاء اللہ بہت اچھا ہے۔ سارے افغانستان میں تمہاری ساتھ ہے۔ یہ کیا جھک مار رہے ہو لیکن منو صاحب عشق بہت بری بلا ہے میں اس سے اپنا دیکھا نہ چٹر اس کا 64

میں نے ان سے کیا " آپ خواہ مخواہ داستان طویل بناتے جا رہے ہیں۔ انجام پر " شاہ صاحب پانٹری پر سے اٹھے اور کرسی پر بینہ گئے ۔ حضرت ایسی

203



داستانیں اکثر طویل ہوا کرتی ہیں۔ عشق ایک مرض ہے اور جب تک طول نہ پکڑے معرض نہیں ہوتا محض ایک مذاق ہوتا ہے خیر ، اب جبکہ آپ چاہتے ہیں کہ میں اپنی داستان طویل نہ بناؤں تو مختصر طور پر عرض کرتا ہوں کہ میرا عشق جب بہت شدت اختیار کر گیا تو ایک روز میں بے اختیار رونے لگا۔ میرے شہر امرتسر کا ایک باشند و سردار بلونت سنگھ تھا جو مجھے کے ایک اچھے خاندان کافر دتھا۔ وہ کابل میں ایک انجینئر نگ فرم میں ملازم تھا۔ کھانے پینے والا آدمی تھا ، اس لیے وہ ہر مہینے مجھ سے پچاس ساتھ رو پے قرض لے جاتا تھا۔ مزید قرض لینے کی فرض ہی سے وہ اس وقت میری دکان میں آیا جب کہ میری آنکھیں نمناک تھیں ۔ دو میرے پاس کرسی پر بینہ گیا۔ اس نے معلوم نہیں مجھ سے کیا پو چھا اور میں نے جانے کیا جواب دیا لیکن جب اس نے مجھ سے یہ کیا ۔ دوست تم کو کوئی روگ لگ گیا ہے۔ تو میں چونک پڑا۔ انہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں سردار بلونت سنگھ تھیا اپنی گھنی مونچھوں کے اندر مسکرایا تم مجھوٹ بولتے ہو، صاف صاف بتاؤ تمہیں یہاں کسی سے عشق ہوا ہے میں خاموش رہا تو وہ پھر بولا، دیکھوا کر کوئی مشکل درپیش ہے تو ہم سب ٹھیک کر دیں گے جب اس نے اسی قسم کی چند اور باتیں کیں تو میں نے سارا معاملہ اس کو بتا دیا ۔ میں نے پوچھا تو اس نے مشکل آسان کرنے کا کیا کر بتایا ؟ شاد صاحب نے کیا۔ اس نے مجھے ایک منتر بتایا " "جی ہاں !"

204



آپ سید ہیں کیا آپ منتر جنتر پر ایمان لا سکتے ہیں ؟ شاہ صاحب نے کیا۔ گانا تو نہیں چاہیے تھا کہ یہ ہمارے مذہب میں جائزہ نہیں لیکن اس وقت سردار بلونت سنگھ کا مشورہ ماننا ہی پڑا، اس لیے کہ مشق بری بالا ہے اس نے مجھے ایک منتر بتایا اور کہا کہ سات رنگوں کے پھول لو۔ ان میں سے ہر ایک پر یہ منتر پڑھ کر پھونکو اور منگل کے روز اس لڑکی کو کسی نہ کسی طریقے سے یادہ پیشتر مجھے ابھی تک یاد ہے۔ میں نے ان سے کیا۔ توراسنا ہے تو " شاد صاحب نے ایک محلے کے لیے اپنے حافظے کو نواں اور کہا ۔

لکھیا پچھل سے نکھ پیار کی پاک مارا ساتھ کی! G L گوره چھل چل پے کوی کبھی ہمیں چھوڑ پھول وبانی سیمان میں نے بیشتر سنا تو مجھے اپنا لڑکپن یاد آ گیا جب میں نے منتروں کی ایک کتاب خریدی تھی اور اس میں سے ایک منتر از یر اس غرض سے کیا تھا کہ میں سکول کے تمام امتحانوں میں پاس ہوتا چلا جاؤں پینتر مجھے اب تک یاد ہے

دیوی

205



لونگ نما کا مشیری اعتمادے بھر رنگ پر اسواد لیکن اس کے پڑھنے کا نتیجہ یہ ا تھا کہ میں نویں جماعت میں ٹیل ہو گیا تھا۔ میں نے اس منتر کا ذکر شاہ صاحب سے نہ کیا اور ان سے پوچھا ۔ تو آپ نے سات رنگ کے پھولوں پر پیشتر پڑھا ؟ "جی ہاں وہ آئی اس نے مجھے نیا فون پر کہہ دیا تھا کہ وہ آئے گی۔ شام کو پانی بجے کے قریب میں اس کا انتظار کرتا رہا۔ وہ ٹھیک پانچ بج کر پانی منٹ پر آئی اور اس نے چیکو سلوا کیا کے مال کے متعلق استفسار کیا۔ عرض یہ ہے کہ مال وال کا قصہ بالکل فراڈ تھا میں نے اس سے کہا کہ ملازموں نے ابھی تک پیڈیاں نہیں کھولیں، آپ کی تشریف لائیے گا۔ وہ بہت جزیز ہوئی ، میں منتر پڑھے پھولوں کی طرف دیکھ رہا تھا اتفاق کی بات کہ اس نے بھی ان پھولوں کی طرف دیکھا اور مجھ سے کہا، یہ پھول تمہاری میز پر کہاں سے آگئے؟ میں نے جواب دیا، یہ میں نے آپ کے لیے خریدے تھے۔ اگر آپ کو پسند ہوں میر امطلب ہے اگر آپ کو ان کی خوشبو پسند ہو۔ تو آپ انہیں قبول فرمائیں اس نے دو سات پھول اٹھائے اور انہیں سونگھا ۔ میں نے ان سے پوچھا اس لڑ کی کار عمل کیا تھا ؟ شاد صاحب نے جواب دیا۔ اس نے ناک بھوں چڑھا کر کیا یہ پھول ہیں؟ ان میں تو خوشبو ہے نہ جو ہو بہر حال اس نے وہ پھول سونگھے چند چیزیں خریدیں اور چلی گئی شام کو سر دار بلونت سنگو یہ بھیا میری دکان پر آیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا کہ وہ پھول سنگھار ہے ؟ میں نے اس سے کہا۔ سنگھا تو

206


دیے ہیں لیکن اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، یہ مجھے معلوم نہیں ۔ سردار بلونت سنگھ ہنسا۔ اس نے بڑے زور سے میرا ہاتھ دبایا اور کہا دوست ! اب تمہارا کام مجھو کہ پندر و آنے

ہو گیا ہے۔“ مجھے برای حیرت تھی کہ منتر کے ذریعے سے ایسا کام پندرہ آنے کیونکر ہو سکتا ہے، مگر سید صاحب نے کہنا شروع کیا۔ مغلو صاحب ! آپ یقین ماننے کی میرا کام پندرہ آنے مکمل ہو گیا دوسرے دن کو کو جان کا ٹیلیفون آیا کہ وہ کچھ جنہیں خریدنے کے لیے آ رہی ہے، میں نے اس کا استقبال کیا وہ کوئی چینے خرید تا نہیں چاہتی تھی ۔ بہت دیر تک وہ میری دکان میں ادھر ادھر پھرتی رہی ۔ اس کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہوئی تم سے کئی مرتبہ کہ چکی ہوں کہ مجھے گھورا نہ کرو اور وہ جو تم نے پھول سنگھائے تھے، اس کا کیا مطلب تھا۔ میں نے کو کو جان سے لکنت بھرے لہجے میں کیا۔ میں میں وہ پھول جو تھے پھول تھے میں نے میں نے مال جو چیکو سلوہ کیا سے آیا تھا، کھلا ہوا نہیں تھا اس لیے میں نے وہ پھول آپ کی خدمت میں پیش کر دیئے کو کو جان کے متعے میں سخت مضطرب تھی اس نے انتظر اب بھرے لہجے میں کہا۔ تم نے مجھے پھول کیوں سنگھائے ؟ میں نے اس سے جائے معصومانہ انداز میں پوچھا " کیا آپ کو اس سے کوئی تکلیف ہوئی ؟ وہ بڑے کرم انداز میں ہوئی تکلیف میں ساری رات وہ سات پھول دیکھتی رہی ہوں بھول آتے تھے اور جب میں انہیں حاصل کرنا چاہتی تھی تو وہ مجھ سے بڑے بہت جاتے تھے یہ کیسے پھول تھے ؟ میں نے جواب دیا میرے وطن کے تھے

207



چونکہ میرے وطن کے تھے اس لیے میں نے آپ کی خدمت میں پیش کیے لیکن مجھے حیرت ہے کہ مو رات بھر آپ کو کیوں نظر آ تھے اور ستاتے رہے۔“ میں نے شاہ صاحب سے پوچھا " یہ پھول آپ نے کہاں سے منگوائے

شاد صاحب نے جواب دیا جی ! منگوائے کہاں سے تھے وہیں افغانستان کے تھے نہایت واہیات قسم کے پھول، جن میں خوشبو نام کو بھی نہیں تھی شام کو سردار بلونت سنگھ آیا۔ مزید قرض لینے کے لیے۔ اس نے مجھ سے قرض لینے سے پہلے دریافت کیا، کیسے شاہ صاحب، اس معاملے کا کیا ہوا؟ میں نے اس کو ساری بات بتادی وہ قرض لینا بھول گیا ۔ اپنا بالوں بھر ہا تھ میرے کندھے پر زور سے مار کر دیا یا ۔ شاہ تھی، آپ کا کام سولہ آنے ہو گیا ہے ولی کی ایک

بوتل نکا ہے۔" شاہ صاحب نے مجھے بتایا کہ انہوں نے اسکی کی بوتل کے علاوہ ایک وہ یہ سگریٹوں کا بھی منگوایا جس میں سے سردار بلونت سنگھ کی بھیا تمباکو نوشی کے ٹیٹ انداز میں پے در پے کئی سگریٹ پھو لکھتے رہے۔ جب جانے لگے تو انہوں نے شاہ صاحب سے کہا کہ دیھوا بھی تھوڑی کی کسر باقی ہے ۔ اگلے منگو تم تم اور ساتھ پھول اور ان پر وہی منتر پڑھ کر اس لڑکی کو سنگ سادہ پیڑا پار ہو جائے گا شاد صاحب بہت پریشان ہوئے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہاب کی کوکو جان کو پھول کیسے سنگھا سکیں گے جبکہ ، واں معاملے کے متعلق شما کی تھی لیکن معاملہ عشق کا تھا، اس لیے شاد صاحب موت کے منہ میں جانے کے لیے بھی تیار تھے۔

208



شاد صاحب نے پشاور سے پھول منگوائے ان میں سے بات منتخب کیے اور ہر ایک پر منتر پڑھا اور اپنے میز کے گلدان میں رکھ دیئے ۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی دکان میں جابجا گلدان رھوائے اور ان میں پھول سجا دیے ۔ سی کو شاہ صاحب نے کو کو جان کو ٹیلیفون کیا اور اس سے پھر جھوٹ بولا کہ چیکو سلونا کیا کا مال کھل گیا ہے، آپ آئے اور دیکھ لیجیے۔ کوکو جان آئی مگر مال وال موجود نہیں تھا شاہ صاحب تھوڑی دیر کے لیے بوکھلائے ، پھر ڈرا ہوش سنبھال کر اپنے نوکروں کو من طعن کی کریم نے ابھی تک مال کیوں نہیں کھولا ۔ کو کو بیان کے ساتھ اس کی والدہ و یو بو جان تھی ۔ وہ ایک طرف ٹائلٹ کا سامان دیکھنے میں مصروف تھی۔ کو کو جہان نے جب دکان میں جا بجا پھول دیکھے تو وہ مجب ہونے کے علاوہ مضطرب بھی ہوئی۔ میرے میز پر وہ خاص پھول پڑے تھے۔ وو ان کے پاس آئی گلدان میں سے اٹھا کر اس نے انہیں سونگھا اور مجھ سے کہا " یہ افغانستان کے پھول نہیں ۔ اور میں نے جواب دیا ۔ جی ہاں یہ میرے وطن کے ہیں میں نے خاص آپ کے لیے منگوائے ہیں۔ یو او جان خرید وفروخت میں مشغول تھی۔ اس دوران میں کو کو جان سے میں نے اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا۔ و وخت ناراض ہوئی اور اپنی ماں کے ساتھ چلی گئی شام کو سر دار بلونت سنگھ کی کھیا آیا اس سے بات چیت ہوئی۔ میں نے اس کو دس روپے قرض دیئے ۔ جب اس نے روپے اپنی جیب میں ڈالے تو مجھ سے پوچھا۔ آج منگل ہے وہ پھول عمادیے تھے آپ نے؟ میں نے سارا واقعہ بیان کر دیا سردار بلونت

209



نکھ نے اپنا ہالوں بھرا ہاتھ زور سے میرے ہاتھ پر مارا اور کہا، شاہ جی ، اب کام ستر و آنے پورا ہو گیا ہے وکی کی ایک بوتل نکاؤ۔" شاد صاحب نے وسکی کی بوتل نکائی۔ سردار بلونت سنگھی کی بھیا نے آدمی ، دکان میں پی اور آدمی اپنے ساتھ لے گیا۔ میں نے شاہ صاحب سے پوچھا ۔ دوسری دفعہ پھول سکھانے سے کیا نتیجہ برآمد ہوا۔ براے شاہ صاحب نے جواب دیا " وہ بہت بے چین ہوئی ۔ اسے دن رات اتنے بھول نظر آنے لگے کہ ایک دن وہ سخت اضطراب کی حالت میں آئی۔ یہ تقع جو اس نے کبھی اتارا نہیں تھا، کیلے کے چھلکے کی طرح اتار کر ایک طرف پھینکا اور مجھ سے مخاطب ہوئی " دیکھو شادا تم نے مجھ پر کوئی جادو کر دیا ہے میں نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا جو مجھے پہلی بار نظر آیا تھا مغنو صاحب امیں نے اپنی زندگی میں اس جیسی حسین لڑکی اب تک نہیں دیکھی میں اس کو دیکھتا رہا اس نے ے تیز وتند لہجے میں کہا۔ "تم نے مجھے پھول کیوں سکھائے تھے میں پاگل ہوئی جا رہی ہوں دن ہو یا رات، ہر وقت مجھے وہ تمہارے پھول دکھائی دیتے ہیں، مجھے معلوم ہے کہ تم مجھ سے محبت کرتے ہو لیکن تو ہیں معلوم ہونا چاہیے کہ میں ایک شریف گھرانے کی لڑکی ہوں۔ میرے والدین منتقریب میری شادی کر رہے ہیں ۔ تم نے مجھ پر یہ کیا جادو چھوٹا ہے یہ کہہ کر اں نے میرے میز پر سے گلدان میں سے پھول بنائے اور فرش پر پھینک کر اپنی سینڈل سے مسل دیے لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ ناراض ہونے کے باوجود نا راض نہیں تھی اور چاہتی تھی کہ میں اس سے باتیں کروں ، لیکن مجھے اس کا یقین نہیں تھا اس لیے

2110

میں خاموش رہا وہ کچھ دیر غصے کی حالت میں کھڑی رہی ۔ اس کے بعد اس نے برقع پہنا اور چلی گئی ۔"

میں نے شاہ صاحب سے پوچھا تو سردار بلونت سنگھ کے کھیا کا منتر کام کر گیا ! "جی ہاں کام کر گیا اس کو پھول ہی پھول نظر آتے تھے میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ یہ سب بکواس ہے مگر گلو جان کی باتوں سے مجھے یقین ہو گیا کہ منتر اپنا اثر کر گیا ہے، حالانکہ جونتر آپ سن چکے ہیں ، اس میں ایسی کوئی بات نہیں جس سے آدمی کو یہ معلوم ہو کہ دو اثر کرے گا لیکن واقعہ یہ ہے کہ وہ جب پھر میری دکان میں آئی تو برقع اتار کر مجھ سے بغل گیر ہوگئی اور رونا شروع کر دیا۔ میں نے اس کو کئی مرتبہ چوما۔ اس نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ تھوڑی دیر کے بعد میری میز پر گلدان میں جو پھول پڑے تھے اس نے آیا لے اور انہیں توفی کر ایک طرف پھینک دیا۔ اس کے بعد وہ برقع پہن کر تیزی سے باہر نکل گئی ۔ داستان کافی طوالت پاز رہی تھی۔ میں نے شاہ صاحب سے کہا " " آپ مختصرا فرمایے کہ انجام کیا ہوا ؟ کیا ، ولر کی آپ کو مل گئی ؟ شاہ صاحب نے ایک آہ بھری۔ جی نہیں اس کی شادی ہو گئی۔ مگر جلہ عروسی میں داخل ہوتے ہی معلوم نہیں کیا ہوا کہ دوگری اور گرتے ہی مرکی اس کے ہاتھ میں ساتھ پھول تھے مختلف رنگوں گے ۔" میں نے دیکھا کہ شاہ صاحب کی پانکری کے ساتھ تپائی پر پیتل کے پھولدان میں سات مختلف رنگوں کے پھول اڑ سے ہوئے تھے۔

211




15
مضمون
منٹو کے افسانے (Manto ke afsane)
0.0
سعادت حسن منٹو کی کچھ عمدہ کہانیوں کا مجموعہ
1

آخری سلیوٹ

29 November 2023
1
0
0

آخری سلیوٹ یہ کشمیر کی لڑائی بھی کچھ عجیب و غریب تھی ۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑ ا خراب ہو گیا ہو۔ کھیلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا مارنا اور مرنا جانتا

2

آنکھیں

29 November 2023
0
0
0

اس کے سارے جسم میں مجھے اس کی آنکھیں بہت پسند تھیں! یہ آنکھیں بالکل ایسی ہی تھیں جیسے اندھیری رات میں موٹر کار کی ہیڈ الماس جن کو آدمی سب سے پہلے دیکھتا ہے، آپ یہ نہ سمجھے گا کہ وہ بہت خوبصورت آنک

3

اب اور کہنے کی ضرورت نہیں

29 November 2023
0
0
0

یہ دنیا بھی عجیب و غریب ہے۔ خاص کر آج کا زمان ۔۔۔۔۔ قانون کو جس طرح فریب دیا جاتا ہے اس کے متعلق شاید آپ کو زیادہ علم نہ ہو۔۔۔ آج کل قانون ایک بے معنی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ ادھر کوئی نیا قانون بنتا ہ

4

اس کا پتی

30 November 2023
1
0
0

اس کا پتی لوگ کہتے تھے کہ نتھو کا سر اس لیے گنجا ہوا ہے کہ وہ ہر وقت سوچتا رہتا ہے اس بیان میں کافی صداقت تھی کیونکہ سوچنے وقت تو ہمیشہ سر کھجایا کرتا ہے کیونکہ اس کے بال بہت کھردرے اور خشک ہیں اور

5

الو کا پچھا

30 November 2023
0
0
0

قاسم صبح سات بجے کاف سے باہر نکھار اور غسل خانے کی طرف پہلا راستے ہیں، یہ اس کو ٹھیک طور پر معلوم نہیں ہونے والے کمرے میں ہمشن میں یا غسل خانے کے اندر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی کو ال

6

الله

30 November 2023
0
0
0

دو بھائی تھے اللہ رکھا اور اللہ دتا دونوں ریاست پٹیالہ کے باشندے تھے ان کے آبا ؤ اجداد البتہ لاہور کے تھے مگر جب ان دو بھائیوں کا داد اما ازمت کی تلاش میں پیالہ آیا توں ہیں کا ہو رہا۔ اللہ رکھا اور

7

انتظار

1 December 2023
1
0
0

(گھڑی آٹھہ بجاتی ہے )  منتظر : آدھا گفته مصرف آدھا گھنٹہ اور پھر اس کے بعد ۔۔۔ یدین کی آخری ڈوبتی ہوئی گونج کتنی پیاری تھی اور اور منتظر کا منطقی وجود اگر وہ نہ آئی۔ یعنی اگر منتظر کیوں نہ آئے

8

اولاد

1 December 2023
0
0
0

جب زبیدہ کی شادی ہوئیت و اس کی عمر پچیس برس کی تھی اس کے ماں باپ تو یہ چاہتے تھے کہ سترہ برس کی ہوتے ہی اس کا بیاہ ہو جائے مگر کوئی مناسب و موزوں رشتہ ملتا ہی نہیں تھا اگر کسی جگہ بات طے ہونے پاتی ت

9

بانجھ

2 December 2023
0
0
0

میری اور اس کی ملاقات آج سے ٹھیک دو برس پہل اپولو بندر پر ہوئی شام کا وقت تھا سورج کی آخری کرنہیں سمندر کی ان دور دراز لہروں کے پیچھے غائب ہو چلی تھیں جو ساحل کے بینچ پر بیٹھ کر دیکھنے سے موٹے کپڑ

10

باسط

5 December 2023
0
0
0

باسط با کل رضا مند نہیں تھا لیکن ماں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی اول اول تو اس کو اتنی جلدی شادی کرنے کی خواہش نہیں تھی اس کے علاوہ وہ لڑکی بھی اسے پسند نہیں تھی جس سے اس کی ماں اس کی شادی کرنے

11

بھنی

5 December 2023
0
0
0

بھنگنوں کی باتیں ہورہی تھیں خاص طور پر ان کی جو ہوارے سے پہلے امرتسر میں رائی تھیں مجید کا یہ ایمان تھا کہ امرتسر کی بھٹکوں جیسی کراری چھوکریاں اور کہیں نہیں پائی جاتیں خدا معلوم تقسیم کے بعد وہ کہا

12

بسم الله

7 December 2023
0
0
0

فلم بنانے کے سلسلے میں ظہیر سے سعید کی ملاقات ہوئی سعید بہت متاثر ہو ا ہمی میں اس نے تہیہ کو سنٹرل اسٹوڈیوز میں ایک دو مرتبہ دیکھا تھا اور شاید چند باتیں بھی کی تھیں مگر متصل ملاقات پہلی مرتبہ لا ہو

13

بغیر اجازت

7 December 2023
0
0
0

نعیم کہلاتا کہلاتا ایک باغ کے اندر چلا گیا ۔۔۔ اس کو وہاں کی فضا بہت پسند آئی ۔۔۔ گھاس کے ایک تختے پر لیٹ کر اس نے خود کلامی شروع کر دی۔ کیسی پر فضا جگہ ہے ۔۔۔ حیرت ہے کہ آج تک میری نظروں سے او تج

14

بلاوز

9 December 2023
0
0
0

کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت باتیں کرتے ہوئے تھی کہ سوچنے پر بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو اگر دو بیان بھی کرنا چ

15

بلونت سنگھ مجیٹھیا

10 December 2023
1
0
0

شاہ صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو ہم فورا بے تکلف ہو گئے ۔ مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ سید ہیں اور میرے دور دراز کے رشتے دار بھی ہیں۔ وہ میرے دور یا قریب کے رشتہ دار کیسے ہو سکتے تھے، اس کے متع

---