shabd-logo

بلاوز

9 December 2023

3 ڏسيل 3


کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت باتیں کرتے ہوئے تھی کہ سوچنے پر بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو اگر دو بیان بھی کرنا چاہتا تو نہ کرسکتا ۔ ابعض اوقات جیسے جیسے وہ ایک دم چونک پڑتا ۔ دھند نے دھند نے خیالات جو عام حالتوں میں بے آواز بلبلوں کی طرح پیدا ہو کر مٹ جایا کرتے ہیں۔ ہون کے دماغ میں بڑے شور کے ساتھ پیدا ہوتے اور شوری کے ساتھ پھلتے ۔ اس کے دل و دماغ کے نرم و نازک پردوں پر ہر وقت جیسے خاردار پاؤں والی چیونٹیاں کی ریاتی تھیں ایک عجیب قسم کا کھنچاؤ اس کے اعضاء میں پیدا ہو گیا تھا جس کے باعث اسے بہت تکلیف ہوتی تھی۔ اس تکلیف کی شدت جب بڑھ جاتی تو اس کے جی میں آتا کہ اپنے آپ کو ایک بڑے سے باون میں ڈال دے اور کسی سے کیے۔ " مجھے کو نا شروع کردیں ۔" باورچی خانہ میں گرم مصالحہ کو کونتے وقت جب لوہے سے لوہا نکھراتا اور دھمکیوں سے چھت میں ایک گونی سی دوڑ جاتی تو مومن کے نکلے پیروں کو پیپرزش بہت بھلی معلوم ہوتی ۔ بچوں کے ذریعے سے پرزش اس کی تنی ہوئی چڑیوں اور رانوں میں دوڑتی ہوئی اس کے دل تک پہنچ جاتی، جو تیز ہوا میں رکھے ہوئے دیے کی لو کی طرح کا نپٹا شروع کر دیتا۔ مؤمن کی عمر چند روبرس کی تھی ۔ شاید سولہواں بھی لگا ہو۔ اسے اپنی عمر کے متعلق

181



صحیح اندازہ نہیں تھا۔ وہ ایک صحت مند اور تندرست لڑ کا تھا۔ جس کا لڑکپن تیزی سے جوانی کے میدان کی طرف بھاگ رہا تھا۔ اس دور نے جس سے مومن با کل ناقل تھا اس کے لہو کے ہر قطرے میں سنسنی پیدا کر دی۔ وہ اس کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا مگر کام رہتا۔ اس کے جسم میں کئی تبدیلیاں رونما ہورہی تھیں۔ گردن جو پہلے پتیلی تھی۔ اب موٹی ہوئی تھی۔ بانیوں کے بچوں میں پحسن کی پیدا ہوگئی تھی ۔ کنور نکل رہا تھا۔ سینے پر گوشت کی تبہ موٹی ہوئی تھی اور اب کچھ دنوں سے پستانوں میں گولیاں سے پڑ گئی تھیں۔ جگہ انجرائی تھی جیسے کسی نے ایک ایک پر نیا اندر داخل کر دیا ہے۔ ان ابھاروں کو ہاتھ لگانے سے مؤمن کو بہت درد محسوس ہوتا تھا۔ کبھی کبھی کام کرنے کے دوران میں غیر ارادی طور پر جب اس کا ہاتھہ ان گولیوں سے چھو جاتا تو وو ترب التتا قمیض کے موٹے اور کھردرے کپڑے سے بھی اس کو تکلیف دو سرسراہٹ محسوس ہوتی تھی۔ غسل خانے میں نہاتے وقت یا باورچی خانہ میں جب کوئی اور موجود نہ ہو۔ مومن اپنے ن اپنے قمیض کے بٹن کھول کر ان گولیوں کو غور سے دیکھتا۔ ہاتھوں سے مسلتا۔ درد ہوتا۔ نیسیں اختیں۔ جیسے جسم پھلوں سے لکھتے ہوئے پیر کی طرح زور سے جایا گیا ہو۔ کانپ کانپ جاتا۔ مگر اس کے باوجود وہ اس درد پیدا کرنے والے کھیل میں مشغول رہتا۔ کبھی کبھی زیادہ دہانے پر یہ گولیاں پچک جاتیں اور ان کے منہ سے ایک لیسد اراحاب نکل آتا ۔ اس کو دیکھ کر اس کا چم و کان کی لوؤاں تک سرخ ہو جاتا ۔ و و یہ سمجھتا کہ اس سے کوئی گنا دسر زد ہو گیا ہے۔

182


گناہ اور ثواب کے متعلق مؤمن کا علم بہت محمد ہو اتھا۔ ہر وہ فعل جو ایک انسان دوسرے انسان کے سامنے نہ کر سکتا ہو۔ اس کے خیال کے مطابق گناہ تھا۔ چنانچہ جب شرم کے مارے اس کا چیم و کان کی لوؤں تک سرخ ہو جاتا تو و وجت سے اپنی قمیض کے بٹن بند کر لیتا اور دل میں عبید کرتا کہ آئندہ ایسی فضول حرکت کبھی نہیں کرے گا لیکن ان عمد کے باوجود دوسرے یا تیسرے روز کیلیے میں وہ پھر اس کھیل

میں مشغول ہو جاتا۔ مؤمن سے سب گھر والے خوش تھے۔ یہ انفتی از کا تھا۔ جب ہر کام وقت پر کر دیتا تو کسی کو شکایت کا موقع کیسے مانا۔ اپنی صاحب کے یہاں اسے کام کرتے ہوئے صرف تین مہینے ہوئے تھے۔ لیکن اس قلیل عمر سے میں اس نے گھر کے ہر فر کو اپنی محنت کش طبیعت سے متاثر کر لیا تھا۔ کچھ روپے مہینے پر تو کر ہوا تھا۔ مگر دوسرے مہینے ہی اس کی تنخواہ میں دو روپے بڑھا دیئے گئے تھے۔ وہ اس گھر میں بہت خوش تھا۔ اس لیے کہ اس کی یہاں قدر کی جاتی تھی مگر اب کچھ دنوں سے وہ بے قرار تھا۔ ایک عجیب قسم کی آوارگی اس کے دماغ میں پیدا ہوگئی تھی۔ اس کا ہی چاہتا تھا کہ سارا دن ہے مطلب بازاروں میں گھومتا پھرے یا کسی سنسان مقام پر جا کر لینار ہے۔

اب کام میں اس کا جی نہیں لاتا تھائی لیکن اس بے دلی کے ہوتے ہوئے بھی وہ کا ہی نہیں برتا تھا۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ گھر میں کوئی بھی اس کے اندرونی انتشار سے واقف نہیں تھا۔ رضیہ تھی ہو وہ دن بھر باجہ بجانے ، نئی نئی فلمی طرزیں سیکھنے اور رسالے پڑ ھنے میں مصروف رہتی تھی۔ اس نے کبھی مؤمن کی نگرانی ہی نہ کی تھی۔

183


شکیلہ البتہ مومن سے ادھر ادھر کے کام لیتی تھی اور کبھی کبھی اسے ذاتی بھی تھی۔ مگر اب کچھ دنوں سے وہ بھی چند یا آوازوں کے نمونے اتارنے میں بے طرح مشغول تھی۔ یہ باور اس کی ایک کیلی کے تھے جسے نئی نئی تراشوں کے کپڑے پہنے کا ہے حد شوق تھا۔ شکیلہ اس سے آٹھہ با ناز مانگ کر لائی تھی اور کانڈوں پر ان کے نمونے اتار رہی تھی چنانچہ اس نے بھی کچھ دنوں سے مؤمن کی طرف دھیان نہیں دیا تھا۔

اپنی صاحب کی بیوی سخت گیر عورت نہیں تھی۔ گھر میں دو نو کر تھے۔ یعنی مؤمن کے علاوہ ایک بڑھیا بھی تھی جو زیا دوتر باورچی خانے کا کام کرتی تھی۔ مؤمن بھی کبھی اس کا ہاتھہ بنا دیا کرتا تھا۔ اپنی صاحب کی بیوی نے ممکن ہے مؤمن کی مستعدی میں کوئی کمی دیکھی ہو مگر اس نے مومن سے اس کا ذکر نہیں کیا تھا اور وو انقلاب جس میں مومن کا دل و دماغ اور جسم گزر رہا تھا۔ اس سے تو ڈپٹی صاحب کی ہوئی بالکل ناقل تھی ۔ چونکہ اس کا کوئی لاڑکانہ میں تھا۔ اس لیے وہ مؤمن کی ونی اور جسمانی تبدیلیوں کو نہیں سمجھ سکتی اور پھر مؤمن تو کر تھا نوکروں کے متعلق کون تورہ فکر کرتا ہے ؟ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک وہ تمام منزلیں پیدل طے کر جاتے ہیں اور آس پاس کے آدمیوں کو خبر تک نہیں ہوتی۔ مؤمن کا بھی بالکل یہی حال تھا۔ وہ کچھ دنوں سے موڑ مڑتا زندگی کے ایک ایسے راستے پر آنا تھا جو زیادہ لمبا تو نہیں تھا مگر بے حد پر خطر تھا۔ اس راستے پر اس کے قدم بھی تیز تیز اٹھتے تھے۔ کبھی ہوئے ہوئے وہ در اصل با نتا نہیں تھا کہ ایسے راستوں پر کسی طرح چلنا چاہیے۔ انہیں جلدی طے کرنا چاہیے یا کچھ وقت لے کر

184


آہستہ آہستہ ادھر ادھر کی چیزوں کا سہارا لے کر طے کرنا چاہیے۔ مؤمن کے تھے پاؤں کے نیچے آنے والے شباب کی گول گول چکنی بلیاں پھسل رہی تھیں ۔ وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔ اسی لیے بے حد مضطرب تھا۔ اس انظر اب کے باعث کئی بار کام کرتے کرتے چونک کر وہ غیر ارادی طور پر کسی کھوئی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیتا اور اس کے ساتھ اٹک جاتا ۔ پھر اس کے دل میں خواہش پیدا ہوتی کہ ٹانگوں سے پکڑ کر اسے کوئی اتنا کھینچے، اتنا کھینچے کہ وہ ایک مبین نارین جائے ۔ یہ سب باتیں اس کے دماغ کے کسی ایسے گوشے میں پیدا ہوئی تھیں کہ دو ٹھیک طور پر ان کا مطلب نہیں سمجھ سکتا تھا۔ غیر شعور طور پر وہ چاہتا تھا کہ کچھ ہو کیا ہو؟ بس کچھ ہو بیز پر قرینے سے بنی ہوئی پلیٹیں ایک ہم اچھلنا شروع کر دیں ۔ کیتلی پر رکھا ہوا ڈھکنا پانی کے ایک ہی اہال سے اوپر کو اڑ جائے۔ حمل کی جستی حالی پر دباؤ ڈالے تو وہ و بری ہو جائے اور اس میں سے پانی کا ایک فوارہ چھوٹ نکلے۔ اسے ایک ایسی زیر دست انگڑائی آئے کہ اس کے سارے جو علیحدہ علیحد ہ ہو جائیں اور اس میں ایک ڈھیلا اپنا پیدا ہو جائے ۔ کوئی ایسی بات وقوع پذیر ہو جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھی ہو۔ مومن بہت بے قرار تھا۔

رضیہ کی طر دیکھنے میں مشغول تھی اور شکیلہ کانڈوں پر بالاوزوں کے لوٹے اتار رہی تھی۔ جب اس نے یہ کام ختم کرایا تو وہ نمونہ جو ان سب میں اچھا تھا۔ سامنے رکھ کر اپنے لیے عودی سائن کا بلاواز بنانا شروع کر دیا ۔ اب رضیہ کو بھی اپنا با جا اور

185


فلمی گانوں کی کاپی چھوڑ کر اس طرف متوجہ ہونا پڑا۔ شکیلہ ہر کام بڑے اہتمام اور چاؤ سے کرتی تھی۔ جب سینے پرونے شناختی تو اس کی نشست بڑی پر اطمینان ہوتی تھی۔ اپنی چھوٹی بہن رضیہ کی طرح وہ افرا تفری پسند نہیں کرتی تھی۔ ایک ایک ٹانکا سونی سمجھ کر بڑے اطمینان سے لگاتی تھی تا سر غلطی کا امکان نہر ہے۔ پیائش بھی اس کی بہت مسیح تھی۔ اس لیے کہ پہلے کانہ کاٹ کر پھر کپڑا کاتی تھی ۔ یوں وقت زیادہ اصرف ہوتا ہے مگر چیز بالکل فٹ تیار ہوتی تھی۔ شکیلہ بھر بھے جسم کی صحت مند لڑ کی تھی ہاتھ بہت گد گدے تھے۔ گوشت بھری نظر ولی انگلیوں کے آخر میں ہر جوڑ پر ایک ایک نھا گڑھا تھا ۔ جب مشین چلاتی تھی تو یہ نتھے نتھے گڑھے ہاتھ کی حرکت سے بھی بھی غائب بھی ہو جاتے تھے۔ شکیلہ مشین بھی بڑے اطمینان سے چلاتی تھی۔ آہستہ آہستہ اس کی دو یا تین انگلیاں بڑی نرمی کے ساتھ مشین کی تھی کماتی تھیں ۔ کلائی میں ایک باکا سالم پیدا ہو جاتا تھا۔ گردن ذرا اس طرف جھک جاتی تھی اور بالوں کی ایک لٹ جے شاید اپنے لیے کوئی مستقل جگہ نہیں باقی تھی۔ نیچے پھسل آتی تھی ۔ شکیلہ اپنے کام میں اس قدر منہک رفیق کہ اسے بنانے یا جھانے کی کوشش ہی نہیں کرتی تھی ۔ جنوب شکیلہ اور دی سائن سامنے پھیلا کر اپنے باپ کا بلاواز تراشنے تھی تو اسے ٹیپ کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ کیونکہ ان کا اپنائیپ کھس گھسا کر اب بالکل ٹکڑے گڑے ہو گیا تھا۔ لوہے کا گڑھ وجود تھا مگر اس سے کمر اور سینے کی پیمائش کیسے ہو سکتے ہے۔ اس کے اپنے کئی بال اور موجود تھے مگر اب چونکہ وہ پہلے سے کچھ ہوئی ہو

186


گئی تھی۔ اس لیے ساری پیائش دوبارہ کرنا چاہتی تھی۔ قمیض اتار کر اس نے مومن کو آواز دی۔ جب وہ آیا تو اس سے کہا " جاؤ مؤمن اوز کر چھ نمبر سے کپڑے کا گڑلے آو۔ کہنا شکیلہ بی بی مانتی ہے۔ مؤمن کی نکا میں شکیلہ کی سفید بیان کے ساتھ ٹکرا ئیں۔ وہ کئی بار شکیلہ بی بی کو ایسی بنیانوں میں دیکھ چکا تھا۔ مگر آج اسے ایک عجیب قسم کی جھجک محسوس ہوئی۔ اس نے اپنی نگاہوں کا رخ دوسری طرف پھیر لیا اور گھبراہٹ میں کہا " کیسا گربی نیایی" شکیلہ نے جواب دیا۔ کپڑے کا گزر ایک گز تو تمہارے سامنے پڑا ہے۔ یہ لوہے کا ہے۔ ایک دوسراگز بھی ہوتا ہے، کپڑے گا۔ جاؤ چھ نمبر میں جاؤ اور دوڑ کے ان سے یہ گز لے آو۔ کہنا شکیلہ بی بی مانتی ہیں ۔" چر نمبر کا فلیٹ بالکل قریب تھا۔ مؤمن فوراہی کپڑے کا گز لے کر آ گیا۔ شکیلہ نے یہ گز اس کے ہاتھ سے لیا اور کہا۔ "یہیں خبر جاؤ۔ اسے ابھی واپس لے جانا ۔ پھر وہ اپنی بہن رضیہ سے مخاطب ہوئی ۔ ان لوگوں کی کوئی چیز اپنے پاس رکھ لی جائے تو وو بڑا دریا تقاضے کر کر کے پریشان کر دیتی ہے ادھر آو یہ گز لو اور یہاں سے میر اماپ او۔ رضیہ نے شکیلہ کی کمر اور سینے کا ماپ لینا شروع کیا تو ان کے درمیان کئی باتیں ہوئیں۔ مؤمن دروازے کی دہلیز میں کھڑا تکلیف دو خاموشی سے یہ باتیں سنتا رہا۔ رضیہ تم کز کو کھینچ کر ماپ کیوں نہیں لیتیں پھیلی دفعہ بھی یہی ہوا ۔ تم نے ماپ لیا اور میرے با اواز کا ستیا ناس ہو گیا۔ اوپر کے حصہ پر اگر کیز افت نہ

187



آئے تو ادھر ادھر بغلوں میں جھول ہو جاتے ہیں ۔"

کہاں کا لوں ۔ کہاں کا نہ لوں ۔ تم تو عجیب مخمصے میں ڈال دیتی ہو۔ یہاں کا ماپ لینا شروع کیا تھا تو تم نے کہا ڈرا اور نیچے کا لو ورا چھوٹا بڑا ہو گیا تو کون سی آفت آ جائے گی ۔ بھئی واو چیز کے فٹ ہونے ہی میں تو ساری خوبصورتی ہے۔ تریا کو دیکھو کیسے فٹ کپڑے پہنتی ہے۔ مجال ہے جو کہیں تمکن پڑے کتنے خوبصورت معلوم ہوتے ہیں ایسے کپڑے او اب ماپ لو یہ کہ کر شکیلہ نے سانس کے ذریعے اپنا سینہ بچا نا شروع کیا۔ جب اچھی طرح پھول گیا تو سانس روک کر اس نے بھی تھی آواز میں کہا۔ جواب جلدی کرو

جب شکیلہ نے سینے کی ہوا خارج کو تو مون کو ایسا محسوس ہوا۔ اس کے اندر ریٹا کے کئی تمہارے پھٹ گئے ہیں۔ اس نے گھبرا کر کہا۔ " گزلا بے بی بی ہی

دے آؤں۔" شکیلہ نے اسے جھڑک دیا۔ ڈرا شہر جاؤ" یہ کہتے ہوئے کپڑے کا گز اس کے نکلے بازو سے اپٹ گیا۔ جب شکیلہ نے اسے اتارنے کی کوشش کی تو مومن کو اس کی سفید بغل میں کالے کالے بالوں کا ایک کچھ نظر آیا ۔ جو ان کی اپنی بغلوں میں بھی ایسے ہی بال اگ رہے تھے مگر یہ کچھا اسے بہت بھلا معلوم ہوا۔ ایک سنسنی ہی اس کے سارے بدن میں دوڑ گئی۔ ایک عجیب و غریب خواہش اس کے دل میں پیدا ہوئی کہ یہ کالے کالے بال اس

188


کی مونچھیں بن جائیں۔ بچپن میں دھنوں کے کالے اور سنہری بال نکال کر اپنی مونچھیں بنایا کرتا تھا۔ ان کو اپنے بالائی ہونٹ پر جماتے وقت جو سرسراہٹ اسے محسوس ہوا کرتی تھی۔ اسی قسم کی سرسراہٹ اس خواہش نے اس کے بالائی ہونٹ اور ناک میں پیدا کر دی۔ شکیلہ کا با زواب نیچے جھک گیا تھا اور بغل چھپ گئی تھی مگر مؤمن اب بھی کالے بالوں گاو و کچھا دیکھ رہا تھا۔ اس کے تصور میں تشکیلہ کا بازو دیر تک ویسے ہی اٹھا رہا اور بغل میں اس کے سیاہ بال جھانکتے تھوڑی دیر کے بعد شکیلہ نے مومن کو گردے دیا اور کہا ۔ جاؤ دے آؤ۔ کہنا بہت بہت شکر یہ ادا کیا ہے۔“ واپس مؤمن کر واپس دے کر باہر متن میں بیٹھ گیا۔ اس کے دل و دماغ میں وند نے دھند نے خیال پیدا ہو ر ہے تھے۔ دیر تک وہ ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرتا رہا۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو اس نے غیر ارادی طور پر اپنا چھوٹا سائر تک کھولا جس میں اس نے عید کے لیے نئے کپڑے بنوا کر رکھے تھے۔ جب ٹریک کا ڈھکنا کھلا اور نئے لٹھے کی بو اس کی ناک تک پہنچی تو اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ نہا دھو کر اور یہ نئے کپڑے جان کر وہ سیدھا شکیلہ بانی کے پاس جائے اور اسے سلام کرے اس کی مجھے کی شلوار کسی طرح کھڑ کھٹر کرے گی اور اس کی رومی لوپی رومی ٹوپی کا خیال آتے ہی مؤمن کی نگاہوں کے سامنے اس کا پھند نا آ گیا اور بچند تا فورا ہی ان کالے کالے بالوں کے کچھے میں تبدیل ہو گیا جو اس نے شکیلہ کی

189


بغل میں دیکھا تھا۔ اس نے کپڑوں کے نیچے سے اپنی نئی رومی لو نی اکائی اور اس کے نزم وار پھیلے پسند نے پر ہاتھ پھیرنا شروع ہی کیا تھا کہ اندر سے شکیلہ بی بی کی

آواز آئی "مؤمن !

مومن کی زبان میں لکنت پیدا ہوئی ۔ ہمیں بی بی جی !

"تو کیا کر رہے تھے ؟"

" کچھ کچھ بھی نہیں ؟

کچھ تو ضرور کرتے ہوگے ۔ شکیلہ یہ سوال کیے جارہی تھی مگر اس کا دھیان اصل میں بلاؤز کی طرف تھا جسے اب اسے کیا کرنا تھا۔ مؤمن نے کھسیانی نہی کے ساتھ جواب دیا۔ ٹریک کھول کر اپنے لئے شایدہ ملکھ کر ہی۔ رضیہ نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ شکیلہ کو ہنستے دیکھ کر مومن کو ایک عجیب سی تسکین محسوس ہوئی اور اس تسکین نے اس کے دل میں یہ خواہش پیدا کی کہ وہ کوئی ایسی مضحکہ خیز طور پر احمقانہ حرکت کرے جس سے شکیلہ کو اور زیادہ بننے کا موقع ملے۔ چنانچہ لڑکیوں کی طرح جھینپ کر اور لہجے میں شرماہٹ پیدا کر کے اس نے کہا۔ ایرانی نیا نیا جی سے پیسے

لے کر میں ریشمی رومال بھی لاؤں گا ۔

شکیلہ نے جنتے ہوئے اس سے پوچھا۔ کیا کرو گے اس رو مال کو ؟ مون نے جھینپ کر جواب دیا۔ گلے میں باندھ لوں گا نیا نیا جی

190


یہ سن کر شکیلہ اور رضیہ دونوں دیر تک منسقی رہیں۔ گئے میں باند ھو گے تو یا درکھنا اس سے بھائی دے دوں گی ۔ یہ کہ کر شکیلہ نے اپنی نہی دبانے کی کوشش کی اور رضیہ نے کیا کمبخت نے مجھے کام ہی بھلا دیا رضیہ میں نے اسے کیوں بلایا تھا ؟" رضیہ نے جواب نہ دیا اور رو ولی قامی طرز گنگنانا شروع کر دی جو وہ دو روز سے سیکھ رہی تھی۔ اس دوران میں شکیلہ کو خود ہی یاد آ گیا کہ اس نے مومن کو کیوں با ایا تھا۔ دیکھوموں میں تمہیں یہ بنیان اتار کر دیتی ہوں ۔ دوائیوں کے پاس جو ایک دکان کی کھلی ہے تا ، وہی جہاں تم اس دن میرے ساتھ گئے تھے۔ وہاں جاؤ اور پوچھ کے آیا کہ ایس چھ بنیانوں کا وہ کیا لے گا کہنا ہم چھ لیں گے۔ اس لیے کچھ رعایت ضرور کرے سمجھ لیا نا ؟ مون نے جواب دیا ۔ جی ہاں ! اب تم میرے بہٹ جاؤ۔ مؤمن باہر نکل کر دروازے کی اوٹ میں ہو گیا ۔ چند محات کے بعد بنیان اس کے قدموں کے پاس آکر اور اندے سے شکیلہ کی آواز آئی ۔ ہم اسی قسم کی اسی زیز ان کی بالکل یہی چنے لیں گے۔ فرق نہیں ہونا چاہیے ۔" مومن نے بہت اچھا کہہ کر بنیان اٹھا لیا جو پینے کے باعث کچھ کچھ گیا ہو رہا تھا۔ جیسے کسی نے بھاپ پر رکھ کر فوراہی بنا لیا ہو۔ بدن کی بو بھی اس میں بھی ہوئی تھی بیٹھی بیٹھی گرمی بھی تھی ۔ یہ تمام چیزیں اس کو بہت بھلی معلوم ہو ئیں ۔ وہ اس بنیان کو جو ہی کے بچے کی طرح ملائم تھا۔ اپنے ہاتھوں میں مسلک یا ہر چا

191



گیا۔ جب بھاؤ داؤ دریافت کر کے بازار سے واپس آیا تو تکلیلہ بال نواز کی سلائی شروع کر چکی تھی اس اودی اودھی سائن کے بااور کی جو مومن کی رومی ٹوپی کے پسند نے سے کہیں زیاد و تشکیلی اور لچکدار تھی۔ یہ با اور شاید عید کے لیے تیار کیا جا رہا تھا کیونکہ عید اب با الکل قریب آگئی

تھی۔ مؤمن کو ایک دن میں کئی بار بلایا گیا ۔ دھنا کہ لانے کے لیے استری نکالنے کے لیے ہوئی ٹوٹ گئی تو نئی سونی لانے کے لیے شام کے قریب جب شکیلہ نے دوسرے روز پر باقی کام الحاد یا تو وہ دھاگے کے ٹکڑے اور اودی سائن کی بیکار کتریں اٹھانے کے لیے بھی اسے بلایا گیا۔ مؤمن نے اچھی طرح جگہ صاف کر دی۔ باقی سب چیزیں اٹھا کر باہر پھینک دیں۔ مگر سائن کی تکلیلی کمتریں اپنی جیب میں رکھ میں بالکل بے مطلب کیونکہ اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ ان کا کیا کرے گا؟ دوسرے روز اس نے جیب سے کتریں ڈالیں اور الگ بیند کر ان کے دھاگے الگ کرنے شروع کر دیے۔ دیر تک وہ اس کھیل میں مشغول رہا۔ حتی کہ دھاگے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کا ایک کچھا سا بن گیا ۔ اس کو ہاتھ میں لے کرہ و دیاتا رہا۔ مسلتا رہا۔ لیکن اس کے تصور میں شکیلہ کی وہی بغل تھی جس میں اس نے کالے کالے بالوں کا ایک چھوٹا سا کچھا دیکھا تھا۔ اس دن بھی اسے شکیلہ نے کئی بارہا ایا مودی سالن کے بلا ناز کی ہر شکل اس کی نگاہوں کے سامنے آتی رہی۔ پہلے جب اسے کیا کیا گیا تھا تو اس پر

192



سفید دھاگے کے بڑے بڑے نانکے جا بجا پھیلے ہوئے تھے۔ پھر اس پر استری کی گئی جس سے سب شکنیں دور ہو گئیں اور چنک بھی دوبالا ہوگئی۔ اس کے بعد کئی حالت ہی میں شکیلہ نے اسے پہنا۔ رضیہ کو دکھایا ۔ دوسرے کمرے میں سنگھار میز کے پاس آئینے میں خود کو ہر پہلو سے اچھی طرح دیکھا۔ جب پورا اطمینان ہو گیا تو اسے اتارا۔ جہاں جہاں تک یا کھلا تھا وہاں نشان بنائے۔ اس کی ساری خامیاں دور کیں۔ ایک بار پھر چین کردیکھا جب بالکل فٹ ہو گیا تو یکی سلائی شروع کی۔ ادھر سائن کا یہ با ناز سیا جا رہا تھا۔ ادھر مؤمن کے دماغ میں عجیب و تقریب خیالوں کے ٹانکے سے ادھر رہے تھے جب اسے کمرے میں باایا جاتا اور اس کی لگا میں چپکلیلی سائن کے با اوز پر پر تھیں تو اس کا جی چاہتا کہ و ہاتھ سے چھو کر اسے دیکھے صرف چھوکر ہی نہیں بلکہ اس کی ما ائم اور رہ میں وارسی پر دیر تک ہاتھ پھیر تا ر ہے۔ اپنے کھردرے ہاتھ۔ اس نے ان سائن کے نکڑوں سے ان کی ملامت کا اندازہ کر لیا تھا۔ دھاگے جو اس نے ٹکڑوں سے نکالے تھے اور بھی زیادہ ملائم ہو گئے تھے۔ جب اس نے ان کا کچھا بنایا تو رہا تھے وقت اسے معلوم ہوا تھا کہ ان میں ربڑ کی سی چک بھی ہے وہ جب بھی اندر آ کر با اواز کو دکھتا۔ ان کا خیال فورا ان بالوں کی طرف روڑ جاتا جو اس نے شکیلہ کی بغل میں دیکھے تھے۔ کالے کالے بال ۔ مون سوچتا

تھا کیا وہ بھی اس سائن ہی کی طرح ملائم ہوں گے ؟ یا ا ا ز بالاآخر تیار ہو گیا مومن کمرے کے فرش پر گیلا کپڑا پھیر رہا تھا۔ کہ قلیلہ اندر آئی قمیض اتار کر اس نے پلنگ پر رکھی ۔ اس کے نیچے اس قسم کا سفید

193


بنیان تھا۔ جس کا نمونہ لے کے مومن بھاؤ اور یافت کرنے گیا تھا اس کے او پر شکیلہ نے اپنے ہاتھ کا ملا ہوا یا اواز پینا۔ سامنے کے بک لگائے اور آئینے کے سامنے کھڑی ہوئی ۔

مومن نے فرش صاف کرتے ہوئے آئینہ کی طرف دیکھا ۔ یا اواز میں اب جان کی پڑ گئی تھی ۔ ایک دو جگہ پر وہ اس قدر چمکتا تھا کہ معلوم ہوتا تھا سائن کا رنگ سفید ہو گیا ہے شکیلہ کی پیٹھ مومن کی طرف تھی جس پر ریز حہ کی بندی کی کبھی تھری با او رفٹ ہونے کے باعث اپنی پوری گہرائی کے ساتھ نمایاں تھی۔ مؤمن سے رہا نہ گیا۔ چنانچہ اس سے کہا۔ بی بی جی ! آپ نے درزیوں کو بھی مات کر دیا

ہے۔

شکیلہ اپنی تعریف سن کر خوش ہوئی مگر وہ رضیہ کی رائے طلب کرنے کے۔ بے قرار تھی۔ اس لیے وہ صرف اچھا ہے نا کہہ کر باہر دوڑ گئی آئینے کی طرف و لیے مون اسیاو اور چمکیا اعلی دیر تک موجود

رہا۔ رات کو جب وہ پھر اس کمرے میں صراحی رکھنے کے لیے آیا تو اس نے کھوئی پر لکڑی کے پیکر میں اس با ناز کو دیکھا۔ کمرے میں کوئی موجود نہیں تھا۔ چنانچہ آگے بڑھ کر پہلے اس نے نور سے دیکھا۔ پھر ڈرتے ڈرتے اس پر ہاتھ پھیرا۔ ایسا کرتے ہوئے یوں لگا کہ کوئی اس کے جسم کے ملائم روئیں پر ہوئے ہوئے با کل ہوائی لمس کی طرح ہاتھ پھیر رہا ہے۔ رات کو جب وہ سویا تو اس نے کئی اوٹ پٹانگ خواب دیکھے اپنی

194



صاحب نے پتھر کے کولوں کا ایک ا ا ڈھیر اسے کونے کو کیا۔ جب اس نے ایک کوئلہ اٹھایا اور اس پر ہتھوڑے کی ضرب لگائی تو و و نرم نرم بالوں کا ایک کھا بن گیا یہ کالی کھانے کے مبین مبین تار تھے۔ جن کا کولا بنا ہوا تھا پھر یہ گولے کالے رنگ کے تمہارے بن کر ہوا میں اڑنا شروع ہوئے بہت اوپر جا کر یہ پچھنے لگے پھر آندھی آگئی اور مؤن کی رومی لونی کا پھند کا کہیں غائب ہو گیا پھندنے کی تلاش میں دو گا دیکھی ان دیکھی جنگیوں میں گھومتا رہا نئے اٹھے کی بو بھی کہیں سے آنا شروع ہوئی پھر نہ جانے کیا ہوا ایک کالی سائن کے بال اوز پر اس کا ہا تھ پڑا کچھ دیر وہ اس دھڑکتی ہوئی چینے پر اپنا ہاتھ پھیرتا رہا۔ پھر دفتنا مزید اگر انحہ بیٹا تھوڑی دیر تک تو وہ کچھ نہ سمجھ سکا کہ کیا ہو گیا ہے اس کے بعد اسے خوف اور تعجب اور ایک انوکھی نہیں کا احساس ہوا، اس کی حالت اس وقت عجیب و غریب تھی، پہلے اسے تکلیف دو حرارت محسوس ہوئی تھی، مگر چند لمحات کے بعد ایک ٹھنڈی سی اور اس کے جسم پر ریکھنے لگی۔

195


15
مضمون
منٹو کے افسانے (Manto ke afsane)
0.0
سعادت حسن منٹو کی کچھ عمدہ کہانیوں کا مجموعہ
1

آخری سلیوٹ

29 November 2023
1
0
0

آخری سلیوٹ یہ کشمیر کی لڑائی بھی کچھ عجیب و غریب تھی ۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑ ا خراب ہو گیا ہو۔ کھیلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا مارنا اور مرنا جانتا

2

آنکھیں

29 November 2023
0
0
0

اس کے سارے جسم میں مجھے اس کی آنکھیں بہت پسند تھیں! یہ آنکھیں بالکل ایسی ہی تھیں جیسے اندھیری رات میں موٹر کار کی ہیڈ الماس جن کو آدمی سب سے پہلے دیکھتا ہے، آپ یہ نہ سمجھے گا کہ وہ بہت خوبصورت آنک

3

اب اور کہنے کی ضرورت نہیں

29 November 2023
0
0
0

یہ دنیا بھی عجیب و غریب ہے۔ خاص کر آج کا زمان ۔۔۔۔۔ قانون کو جس طرح فریب دیا جاتا ہے اس کے متعلق شاید آپ کو زیادہ علم نہ ہو۔۔۔ آج کل قانون ایک بے معنی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ ادھر کوئی نیا قانون بنتا ہ

4

اس کا پتی

30 November 2023
1
0
0

اس کا پتی لوگ کہتے تھے کہ نتھو کا سر اس لیے گنجا ہوا ہے کہ وہ ہر وقت سوچتا رہتا ہے اس بیان میں کافی صداقت تھی کیونکہ سوچنے وقت تو ہمیشہ سر کھجایا کرتا ہے کیونکہ اس کے بال بہت کھردرے اور خشک ہیں اور

5

الو کا پچھا

30 November 2023
0
0
0

قاسم صبح سات بجے کاف سے باہر نکھار اور غسل خانے کی طرف پہلا راستے ہیں، یہ اس کو ٹھیک طور پر معلوم نہیں ہونے والے کمرے میں ہمشن میں یا غسل خانے کے اندر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی کو ال

6

الله

30 November 2023
0
0
0

دو بھائی تھے اللہ رکھا اور اللہ دتا دونوں ریاست پٹیالہ کے باشندے تھے ان کے آبا ؤ اجداد البتہ لاہور کے تھے مگر جب ان دو بھائیوں کا داد اما ازمت کی تلاش میں پیالہ آیا توں ہیں کا ہو رہا۔ اللہ رکھا اور

7

انتظار

1 December 2023
1
0
0

(گھڑی آٹھہ بجاتی ہے )  منتظر : آدھا گفته مصرف آدھا گھنٹہ اور پھر اس کے بعد ۔۔۔ یدین کی آخری ڈوبتی ہوئی گونج کتنی پیاری تھی اور اور منتظر کا منطقی وجود اگر وہ نہ آئی۔ یعنی اگر منتظر کیوں نہ آئے

8

اولاد

1 December 2023
0
0
0

جب زبیدہ کی شادی ہوئیت و اس کی عمر پچیس برس کی تھی اس کے ماں باپ تو یہ چاہتے تھے کہ سترہ برس کی ہوتے ہی اس کا بیاہ ہو جائے مگر کوئی مناسب و موزوں رشتہ ملتا ہی نہیں تھا اگر کسی جگہ بات طے ہونے پاتی ت

9

بانجھ

2 December 2023
0
0
0

میری اور اس کی ملاقات آج سے ٹھیک دو برس پہل اپولو بندر پر ہوئی شام کا وقت تھا سورج کی آخری کرنہیں سمندر کی ان دور دراز لہروں کے پیچھے غائب ہو چلی تھیں جو ساحل کے بینچ پر بیٹھ کر دیکھنے سے موٹے کپڑ

10

باسط

5 December 2023
0
0
0

باسط با کل رضا مند نہیں تھا لیکن ماں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی اول اول تو اس کو اتنی جلدی شادی کرنے کی خواہش نہیں تھی اس کے علاوہ وہ لڑکی بھی اسے پسند نہیں تھی جس سے اس کی ماں اس کی شادی کرنے

11

بھنی

5 December 2023
0
0
0

بھنگنوں کی باتیں ہورہی تھیں خاص طور پر ان کی جو ہوارے سے پہلے امرتسر میں رائی تھیں مجید کا یہ ایمان تھا کہ امرتسر کی بھٹکوں جیسی کراری چھوکریاں اور کہیں نہیں پائی جاتیں خدا معلوم تقسیم کے بعد وہ کہا

12

بسم الله

7 December 2023
0
0
0

فلم بنانے کے سلسلے میں ظہیر سے سعید کی ملاقات ہوئی سعید بہت متاثر ہو ا ہمی میں اس نے تہیہ کو سنٹرل اسٹوڈیوز میں ایک دو مرتبہ دیکھا تھا اور شاید چند باتیں بھی کی تھیں مگر متصل ملاقات پہلی مرتبہ لا ہو

13

بغیر اجازت

7 December 2023
0
0
0

نعیم کہلاتا کہلاتا ایک باغ کے اندر چلا گیا ۔۔۔ اس کو وہاں کی فضا بہت پسند آئی ۔۔۔ گھاس کے ایک تختے پر لیٹ کر اس نے خود کلامی شروع کر دی۔ کیسی پر فضا جگہ ہے ۔۔۔ حیرت ہے کہ آج تک میری نظروں سے او تج

14

بلاوز

9 December 2023
0
0
0

کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت باتیں کرتے ہوئے تھی کہ سوچنے پر بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو اگر دو بیان بھی کرنا چ

15

بلونت سنگھ مجیٹھیا

10 December 2023
1
0
0

شاہ صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو ہم فورا بے تکلف ہو گئے ۔ مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ سید ہیں اور میرے دور دراز کے رشتے دار بھی ہیں۔ وہ میرے دور یا قریب کے رشتہ دار کیسے ہو سکتے تھے، اس کے متع

---