فلم بنانے کے سلسلے میں ظہیر سے سعید کی ملاقات ہوئی سعید بہت متاثر ہو ا ہمی میں اس نے تہیہ کو سنٹرل اسٹوڈیوز میں ایک دو مرتبہ دیکھا تھا اور شاید چند باتیں بھی کی تھیں مگر متصل ملاقات پہلی مرتبہ لا ہور ہی میں ہوئی ۔ اہور میں یوں تو بے شمار فلم کمپنیاں تھیں مگر سعید کو اس تلخ حقیقت کا علم تھا کہ ان میں سے اکثر کاوجود صرف ان کے نام کے بورڈوں تک ہی محدود ہے۔ ظہیر نے جب اس کو اکرم کی معرفت بار یا تو اس کو سو فیصدی یقین تھا کہ تمہیں بھی دوسرے فلم پروڈیوسروں کی طرح کھوکھلا ہے جو لاکھوں کی باتیں کرتے ہیں آفس قائم کرتے ہیں کرائے پر فرنیچر لاتے ہیں اور آخر میں آس پاس کے ہوٹلوں کے بل مار کر بھاگ جاتے ہیں۔ تمہیر نے بڑی سادگی سے سعید کو بتایا کہ وہ کم سے کم سرمائے سے فلم بنانا چاہتا ہے۔ ہمی میں و و اسلات فلم بنانے والے ڈائر یکٹر کا اسٹنٹ تھا۔ پانچ برس تک وہ اس کے ماتحت کام کرتا رہا اس کو خود فلم بنانے کا موقع ملنے ہی والا تھا کہ بندہ ستان تقسیم ہو گیا اور اسے پاکستان آنا پڑا۔ یہاں و د تقریبا ڈھائی سال بیکار رہا مگر اس دوران میں اس نے چند آدمی ایسے تیار کر لیے جو رو پیدالگانے کے لیے تیار ہیں۔ اس نے سعید سے کہا " دیکھئے جناب ! میں کوئی فرسٹ کلاس فلم بنانا نہیں چاہتا۔ کم علم آدمی ہوں اسٹنٹ فلم بنا سکتا ہوں اور انشا اللہ اچھا اسٹنٹ فلم بناؤں گا پچاس ہزار روپوں کے اندراند ر سوفیصدی نفع تو یقینی ہے ۔۔۔۔۔ آپ کا کیا خیال
163
سعید نے کچھ دیر سوچ کر جواب دیا نہاں اتنا نفع تو ہونا چاہیے شہیر نے کہا جو آدمی رو پید لگانے کے لیے تیار ہیں میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ حساب کتاب سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہو گا یہ آپ کا کام ہے ۔۔۔ باقی
سب چیزیں میں سنبھال لوں گا۔
سعید نے پوچھا مجھ سے آپ کیا خدمت چاہتے ہیں
تعبیر نے بڑی سادگی سے کہا " پاکستان کے تقریبا تمام ڈسٹری بیوٹر آپ کو جانتے ہیں میری یہاں ان لوگوں سے واقفیت نہیں بڑی نوازش ہو گی اگر آپ
میرے فلم کی ڈسٹری بیوشن کا بندو بست کر دیں ۔
سعید نے کہا آپ فلم تیار کر لیں انشا اللہ ہو جائے گا“
آپ کی بڑی مہربانی ہے کیہ کہ کرظیم نے میز پر پڑے ہوئے پیڈ پر پنسل
سے ایک پھول سا بنایا " سعید صاحب امجھے سو فیصدی یقین ہے کہ میں کامیاب
رہوں گا۔۔۔۔ ہیروئن میری بیوی ہو گی ۔
سعید نے پوچھا آپ کی بیوی ؟
جی ہاں"
پہلے کسی فلم میں کام کر چکی ہیں"
جی نہیں، ظہیر نے پیڈ پر پھول کے ساتھ شاخ بناتے ہوئے کہا میں نے
شادی یہاں لاہور میں آکر کی ہے۔۔۔۔ میرا ارادہ تو نہیں تھا کہ اسے فلم ان میں
لاؤں مگر اس کو شوق ہے ۔۔۔۔ بہت شوق ہے ہر روز ایک فلم دیکھتی
164
ہے۔۔۔۔۔ میں آپ کو اس کا فو ٹو دکھاتا ہوں ۔
تظہیر نے میز کا دراز کھول کر ایک لفافہ نکالا اور اس میں سے اپنی بیوی کا فولو سر کا کر سعید کی طرف بڑھا دیا۔ سعید نے فوٹو دیکھا معمولی خدو خال کی جوان عورت تھی تنگ ماتھا، باریک ناک موٹے ہوئے ہونٹ آنکھیں بڑی بڑی اور اداس ۔ یہ آنکھیں ہی تھیں جو اس کے چہرے کے دوسرے خطوط کے مقابلے میں سب سے نمایاں تھیں سعید نے تھور سے ان کو دیکھنا چاہا مگر معیوب سمجھا اور فوٹو میز
پر رکھ دیا
تشہیر نے پوچھا کیا خیال ہے آپ کا؟ سعید کے پاس اس سوال کا جواب تیار نہیں تھا اس کے دل و دماغ پر در اصل وہ آنکھیں چھائی ہوئی تھیں بڑی بڑی اداس آنکھیں، غیر ارادی طور پر اس نے میز پر سے فوٹو اٹھایا اور ایک نظر دیکھ کر پھر وہیں رکھ دیا اور کہا " آپ زیادہ بہتر جانتے
ظہیر نے پیڈ پر ایک اور پھول بنانا شروع کیا کہ فوٹو اچھی نہیں ۔۔۔۔۔۔ ڈرا
سی بھی ہوتی ہے ۔ اتنے میں پچھلے دروازے کا پر دو ہلا اور تمہیر کی بیوی داخل ہوئی ۔۔۔۔ وہی بڑی بڑی اداس آنکھیں ظہیر اس کی طرف دیکھ کر مسکر یا عجیب و غریب نام ہے اس کا ۔۔۔۔ بسم اللہ ! پھر سعید کی طرف اشارہ کیا یہ میرے دوست سعید
صاحب ہیں
165
بسم اللہ نے کہا " آداب عرض" سعید نے اس کا جواب اٹھ کر دیا تشریف رکھیے بسم اللہ دو پہ ٹھیک کرتی سعید کے پاس والی کرسی پر بیٹھ گئی ہلکے پیازی رنگ کے کلف لگے ململ کے مبین دوپٹے کے پیچھے اس کے سینے کا ابھار چغلیاں کھا رہا تھا۔ سعید نے اپنی نگا ہیں دوسری طرف پھیر لیں۔ قیر نے فوٹو واپس لفافے میں رکانہ اور سعید سے کہا مجھے سو فیصدی یقین ہے کہ بسم اللہ پہلے ہی فلم میں کامیاب ثابت ہوگی لیکن سمجھ میں نہیں آتا ، اس کا فلمی نام کیا رکھوں بسم اللہ ٹھیک معلوم نہیں ہوتا کیا خیال آپ کا ۔ سعید نے بسم اللہ کی طرف دیکھا اس کی بڑی بڑی اداس آنکھوں میں وہ ایک محلے کے لیے جیسے ڈوب سا گیا۔ فورا ہی نگاہ اس طرف سے ہٹا کر اس نے تمہیر سے کہا جی ہاں ۔۔۔۔۔ بسم اللہ نحیک نہیں ہے کوئی اور نام ہونا چاہیے۔" تھوڑی دیر تک ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں۔ بسم اللہ خاموش تھی اس کی برائی بڑی اداس آنکھیں بھی خاموش تھیں ۔ سعید نے اس دوران میں ان آنکھوں کے اندر کئی بارڈبکیاں لگا ئیں ظہیر اور وہ دونوں باتیں کرتے رہے بسم اللہ خاموش بیٹھی اپنی بڑی بڑی اداس آنکھوں پر چھائی ہوئی سیاہ پلکیں جھپکا کی اس کے ہلکے پیازی رنگ کے کلف کیا ململ کے دوپٹے کے پیچھے اس کے سینے کا ابھار برابر چغلیاں کھاتا رہا۔ سعید ادھر دیکھتا ایک دھکے کے ساتھ اس کی نظر میں دوسری طرف پیٹ
جائیں۔ بسم اللہ کا رنگ گہرا سانولا تھا فوٹو میں اس رنگت کا پتا نہیں چاہتا تھا اس گہرے
166
سانولے رنگ پر اس کی بڑی بڑی کالی آنکھیں اور بھی زیادہ اداس ہو گئی تھیں۔ سعید نے کئی مرتبہ سوچا کہ اس اداسی کا باعث کیا ہے۔۔۔۔۔ ان کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ اداس دکھائی دیتی ہیں یا کوئی اور وجہ ہے کوئی معقول بات سعید کے
ذہن میں نہ آئی۔ ظمیہ بمبی کی باتیں شروع کرنے والا تھا کہ بسم اللہ انھی اور چلی گئی اس کی چال میں بے ڈھنگا پن تھا جیسے اس نے اونچی ایڑھی کے چپل نئے نئے استعمال کرنے شروع کیے ہیں۔ غرارے کی نشست بھی ٹھیک نہیں تھی سلوٹوں کا گراؤ بھدا تھا اس کے علاوہ سعید نے یہ بھی محسوس کیا کہ ادب آداب سے بسم اللہ محض کوری ہے ۔۔۔۔ لیکن اس کے گہرے سانولے چہرے پر دو بڑی بڑی سیاہ آنکھیں اداس ہونے کے باوجود دس قد رجذ بات انگیز تھیں ۔ چند ہی ملاقاتوں میں تسبیر سے سعید کے تعلقات بہت گہرے ہو گئے ظہیر ہے حد سادہ دل تھا اس خاص چینے سے سعید بہت متاثر ہوا تھا اس کی کسی بھی بات میں بناوٹ نہیں ہوتی تھی خیال جس شکل میں پیدا ہوتا تھا سادہ الفاظ میں تبدیل ہو کر اس کی زبان پر آجاتا تھا کھانے پینے اور رہنے سہنے کے معاملے میں بھی وہ سادگی پسند تھا۔
جب بھی سعید اس کے یہاں جاتا ظہیر اس کی خاطر تواضع کرتا سعید نے اس
سے کئی بار کہا کہ تم یہ تلف نہ کیا کرو مگر وہ نہ مانا وہ اکثر کیا کرتا ” اس میں کیا تلف
ہے آپ کا اپنا گھر ہے ۔ سعید نے جب تقریبا ہر روز ہیر کے ہاں جانا شروع کیا تو اس نے سوچا کہ یہ
167
بہت بری بات ہے وہ میری اتنی عزت کرتا ہے مجھے اپنا دوست سمجھتا ہے اور میں اس سے صرف اس لیے ملتا ہوں کہ مجھے اس کی بیوی سے اچھپی ہوگئی ہے یہ بہت
بری بات ہے۔ اس کے ضمیر نے کئی دفعہ اسے ٹو کا مگر وہ برابر ظہیر کے ہاں جاتا رہا۔ بسم الله اکثر آجاتی تھی شروع شروع میں خاموش بیٹھی رہائی پھر آہستہ آہستہ اس نے باتوں میں حصہ لینا شروع کر دیا لیکن گفتگو کے لحاظ سے وہ نام تھی سعید کو دکھ ہوتا تھا کہ وہ اچھی باتیں کرنا کیوں نہیں جانتی۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ ظہیر گھر سے باہر تھا سعید نے آواز دی تو بسم اللہ بولی " باہر گئے ہوئے ہیں یہ سن کر کچھ دیر کھڑا رہا کہ شاید وہ اس سے کہیے، اندر آ جائے ابھی آتے ہیں مگر ایسا نہ ہوا۔ ظہیر کے فلم کا چکر چل رہا تھا اس کا ذکر قریب قریب ہر روز ہوتا تشہیر کہتا مجھے اتنی جلدی نہیں ہے ہر ایک چیز آرام سے ہو گی اور اپنے وقت پر ہوگی۔ سعید کو ظہیر کے قلم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اس کو اگر وی پی تھی تو بسم اللہ سے جس کی بڑی بڑی اداس آنکھوں میں وہ کئی بارغو طے لگا چکا تھا اور اس کی یہ دلچسپی دن بدن بڑھتی جارہی تھی جس کا احساس اس کے لیے بہت تکلیف دو تھا کیونکہ یہ کھلی ہوئی بات تھی کہ وہ اپنے دوست ظہیر کی بیوی سے جسمانی رشتہ پیدا کرنے کا خواہاں تھا۔
دن گزرتے گئے ظہیر کے قلم کا کام وہیں کا وہیں تھا۔ سعید ایک دن اس سے ملنے گیا تو وہ کہیں باہر کیا ہوا تھا چلنے ہی والا تھا کہ بسم اللہ نے کہا " اندر آ جائے وہ
168
کہیں دور نہیں گئے سعید کا دل دھڑکنے لگا کچھ توقف کے بعد وہ کمرے میں داخل ہوا اور کرسی پر بیٹھ گیا بسم اللہ میز کے پاس کھڑی تھی سعید نے جرات سے کام لے کر اس سے کہا " جیسے
بسم اللہ اس کے سامنے والی کرسی پر بیئر کی تھوڑی دیر خاموش رہی اس کے بعد سعید نے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کیا ظہیر آئے نہیں ابھی تک ؟ بسم اللہ نے مختصر جواب دیا " آجائیں گے" تھوڑی دیر پھر خاموشی رہی اسی دوران میں کئی مرتبہ سعید نے بسم اللہ کی آنکھوں کی طرف دیکھا اس کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اٹھ کر ان کو چومنا شروع کر دے اس قدر چو ہے کہ ان کی ساری اداسی دھل جائے مگر سعید نے اس خواہش پر قابو پا کر اس سے کہا آپ کو فلم میں کام کرنے کا بہت شوق ہے ؟ بسم اللہ نے ایک جمائی لی اور جواب دیا " ہے تو سہی سعید نام بن گیا " یہ لائن اچھی نہیں میرا مطلب ہے بڑی بد نام ہے اس کے بعد اس نے فلم لائن کی تمام برائیاں بیان کرنا شروع کر دیں تصویر کا خیال آیا تو اس نے رخ بدل لیا " آپ کو شوق ہے تو خیر دوسری بات ہے کیریکٹر مضبوط ہو تو آدمی کسی بھی لائن میں ثابت قدم رہ سکتاہے پھر تمہیں خود اپنا فلم بنا رہا ہے لیکن آپ کسی دوسرے کے فلم میں کام ہرگز نہ کیجئے گا۔ بسم اللہ خاموش رہی سعیدوک اس کی یہ خاموشی بہت بری معلوم ہوئی پہلی مرتبہ اس کو تنہائی میں اس سے ملنے کا موقع ملا تھا مگر وہ بولتی ہی نہیں تھی سعید نے
169
ایک دو مرتبہ ڈرتے ڈرتے لو و لینے والی نگاہوں سے اسے دیکھا مگر کوئی رد عمل پیدا نہ ہوا۔ تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ اس سے مخاطب ہوا ، چھا تو پان ہی کھلائے
بسم اللہ ابھی ریشمی قمیض کے پیچھے اس کے سینے کا نمایاں ابھار ہلا سعید کی نگاہوں کو دہی کا سالگا بسم اللہ میرے کمرے میں گئی تو وہ ڈر ڈر کے تیکھی تیکھی باتیں
سوچنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ پان لے کر آئی اور سعید کے پاس کھڑی ہوگئی " لیجیے سعید نے شکریہ کہہ کر پان لیا تو اس کی انگلیاں بسم اللہ کی انگلیوں سے چھوئیں اس کے سارے بدن میں برقی لہر دوڑ گئی اس کے ساتھ ہی تعمیر کا کا نیا اس کے دل
میں بیجا۔ بسم اللہ سامنے کرسی پر بیندگی اس کے گہرے سانولے چہرے سے سعید کو کچھ پتہ نہیں چتا تھا۔ سعید نے سوچا کوئی اور عورت ہوتی تو فورا سمجھ جاتی کہ میں اسے کن آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ، لیکن شاید سمجھ گئی ہو شاید یہ بھی کبھی ہو کچھ مجھ میں نہیں
سعید کا دماغ بے حد مضطرب تھا ایک طرف بسم اللہ کا ستانے والا وجود تھا اس کی بڑی برائی اداس آنکھیں اس کے سینے کا نمایاں ابھار، دوسری طرف ظہیر کا خیال ، اس کے ضمیر کا کا نا، سب مجیب الجھن میں پھنس گیا تھا ۔ بسم اللہ کی طرف سے کوئی شمارہ نہیں ملا تھا اس کا مطلب صاف تھا کہ جو چیز سعید سوچ رہا ہے نا ممکن ہے مگر وہ پھر بھی اس کو انہی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا ۔
170
تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد وہ اس سے مخاطب ہوا ' ظہیر نہیں آئے میرا خیال ہے میں چلتا ہوں
بسم اللہ نے خلاف توقع کہا نہیں نہیں بیٹھے " آپ تو کوئی بات ہی نہیں کرتیں یہ کہہ کر سعید اللها
بسم اللہ نے پوچھا " چلے ؟ سعید نے اس کی طرف لوہ لینے والی نگاہوں سے دیکھا جی نہیں بیٹھتا ہوں بسم اللہ نے ایک جمائی لی مجھے کیا اعتراض ہو گا
آپ کو اگر کوئی اعتراض نہ ہو
ہے۔
بسم اللہ کی آنکھوں میں شمار سا پیدا ہو گیا سعید نے کہا آپ کو شاید نیند آرہی
جی ہاں رات جاگتی رہی
سعید نے ذرا بے تکلفی سے پوچھا کیوں ؟“
بسم اللہ نے ایک اور جمائی لی کہیں باہر گئے ہوئے تھے
سعید بیٹھ گیا تھوڑی دیر کے بعد بسم اللہ سوگئی اس کے سینے کا نمایاں ابھار ریشمی
تمرین کے پیچھے سانس کے زیرو بم سے ہولے ہولے ہل رہا تھا بڑی بڑی اداس
آنکھیں اب بند تھہیں دایاں بازو ایک طرف ڈھلک گیا تھا آستین اوپر کو اٹھ گئی تھی سعید نے کہا گہرے سانولے رنگ کی کلائی پر بندی کے حروف کھدے ہوئے تھے
اتنے میں تصویر آگیا۔
سعید اس کی آمد پر سٹپٹا سا گیا تمہیر نے اس سے ہاتھ ملایا اپنی بیوی بسم اللہ کی
171
طرف دیکھا ارے سو رہی ہے
سعید نے کہا میں جا رہا تھا کہنے لگیں ظہیر صاحب ابھی آ جائیں گے آپ جیسے میں بیٹھا تو آپ ہوگئیں ظہیر ہنسا، سعید بھی ہنسنے لگا بھئی واو الجو الجو ا ظہیر نے بسم اللہ کے سر پر ہاتھ پھیرا بسم اللہ نے ایک بھی آپ بھری اور اپنی بڑی بڑی او اس آنکھیں کھول دیں اداسی کے ساتھ ساتھ اب ان میں ویرانی سی بھی تھی ۔ اٹھو ایک ضروری کام پر جاتا ہے بسم اللہ سے یہ کہہ کر فسیر سعید سے مخاطب ہوا معاف کیجئے گا سعید صاحب میں ایک کام سے جا رہا ہوں انشاء اللہ کل ملاقات ہوگی۔ سعید پہلا گیا دوسرے روز اس نے ظہیر کے ہاں جانے سے پہلے یہ دعا مانگی کہ وہ گھر پر نہ ہو وہاں پہنچ تو باہر کئی آدمی جمع تھے سعید کو ان سے معلوم ہوا کہ بسم اللہ قریر کی بیوی نہیں تھی وہ ایک ہندو لڑکی تھی جو فسادوں میں یہاں رہ گئی تھی ظہیر اس سے پیشہ کرتا تھا پولیس ابھی ابھی اسے بر آمد کر کے لے گئی ہے۔ وہ بڑی بڑی سیاہ اور اداس آنکھیں اب بھی سعید کا پیچھا کرتی رہتی ہیں۔
172