shabd-logo

اولاد

1 December 2023

8 ڏسيل 8


جب زبیدہ کی شادی ہوئیت و اس کی عمر پچیس برس کی تھی اس کے ماں باپ تو یہ چاہتے تھے کہ سترہ برس کی ہوتے ہی اس کا بیاہ ہو جائے مگر کوئی مناسب و موزوں رشتہ ملتا ہی نہیں تھا اگر کسی جگہ بات طے ہونے پاتی تو کوئی ایسی مشکل پیدا ہو جاتی کہ رشته عملی صورت اختیار نہ کر سکتا۔ آخر جب زبیدہ پچیس برس کی ہوگئی تو اس کے باپ نے ایک رنڈوے کا رشتہ قبول کر لیا ۔۔۔۔ اس کی عمر پینتیس برس کے قریب قریب تھی یا شاید اس سے بھی زیادہ ہو۔ صاحب روزگار تھا مارکیٹ میں کپڑے کی تھوک فروشی کی دکان تھی ہر ماہ پانی چھ سو روپے مالیتا تھا۔ ز بید وبیری فرمانبر دارلٹز کی تھی اس نے اپنے والدین کا فیصلہ منظور کر لیا چنانچہ شادی ہوگئی ، اور وہ اپنی سسرال چلی گئی۔ اس کا خاوند جس کا نام علم الدین تھا، بہت شریف اور محبت کرنے والا ثابت ہوا۔ زبیدہ کی ہر آسائش کا خیال رکھتا تھا کپڑے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ حالانکہ دوسرے لوگ اس کے لیے رہتے تھے۔ چالیس ہزار اور تھری بی کا ٹھا، شنوں اور دو گھوڑے کی بوسکی کے تھانوں کے تھان زبید و کے پاس موجود تھے۔ وہ اپنے میکے ہر ملتے جاتی ۔۔۔۔۔ ایک دن وہ گئی تو اس نے ڈیوڑھی میں قدم رکھتے ہی بین کرنے کی آواز سنی اند رکتی تو اسے معلوم ہوا کہ اس کا باپ اچانک دل کی حرکت بند ہونے کے باعث مر گیا ہے۔
97


اب زبیدہ کی ماں، کیلی رہ گئی تھی گھر میں سوائے ایک نوکر کے اور کوئی بھی نہیں تھا اس نے اپنے شوہر سے درخواست کی کہ وہ اسے اجازت دے کہ وہ اپنی بیوہ
ماں کو اپنے پاس با الے۔ علم الدین نے کہا " جازت لینے کی کیا ضرورت تھی ۔۔۔ تمہارا گھر ہے اور تمہاری ماں میری ماں ۔۔۔ جاؤ انہیں لے آؤ۔ جو سامان وغیر ہ ہو گا اس کو یہاں لانے کا بندہ بہت میں ابھی کیے دیتا ہوں زبیدہ بہت خوش ہوئی گھر کافی بڑا تھا دو تین کمرے خالی پڑے تھے وو تانگے میں گئی اور اپنی ماں کو ساتھ لے آئی علم الدین نے سامان اٹھوانے کا بندو بست کر دیا تھا، چنانچہ بھی پہنچ گیا زبیدہ کی ماں کے لیے کچھ سوچ بچار کے بعد ایک کرو مختص کر دیا گیا۔ ایک دن اس نے اپنی بیٹی سے کیا " مجھے یہاں آئے ہیں مہینے ہو گئے ہیں ۔۔۔۔ میں نے اپنی جیب سے ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا ۔۔۔ حالانکہ تمہارے مرحوم باپ کے چھوڑے ہوئے دس ہزار روپے میرے پاس موجود
وہ بہت ممنون و تشکر تھی۔ اپنے داماد کے حسن سلوک سے بہت متاثر ۔ اس کے جی میں کئی مرتبہ یہ خواناش پیدا ہوئی کہ وہ اپنا سارا زیور جو کئی ہزاروں کی مایت کا تھا، اس کو دے دے کہ وہ اپنے کاروبار میں لگائے اور زیادہ سائے مگر وہ طبعا کنجوس تھی۔
ہیں ۔۔۔ اور زیور الگ زبیدہ انبیٹھی کے کوکلوں پر پھا کا سینک رہی تھی ماں تم بھی کیسی باتیں کرتی
98


ہو کیسی ویسی میں نہیں جانتی ۔۔۔۔۔ میں نے یہ سب روپے علم الدین کو دے دیئے ہوتے اگر میں چاہتی ہوں کہ تمہارے کوئی بچہ پیدا ہو ۔۔۔۔۔ تو یہ سارارہ پیدا اس کو تحفے کے طور پر دوں ۔ زبیدہ کی ماں کو اس بات کا بڑا خیال تھا کہ ابھی تک بچہ پیدا کیوں نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔ شادی ہوئے قریب قریب دو برس ہو چکے تھے مگر بچے کی پیدائش کے آثار ہی نظر نہیں آتے تھے۔ وہ اسے کئی حکیموں کے پاس لے گئی ۔ کئی منجو نیں، کئی سفوف کئی قرص اس کو کھلوائے، مگر خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ آخر اس نے پیروں فقیروں سے رجوع کیا تو نے ٹوٹکے استعمال کئے گئے۔ تعویز دھاگے بھی ۔۔۔۔ مگر مراد یہ نہ آئی زبیدہ ۔۔۔ اس دوران میں تنگ آگئی ایک دن چنانچہ اس نے اکتا کر اپنی ماں سے کہہ دیا چھوڑو اس قصے کو ۔۔۔۔ بچھ نہیں ہوتا تو نہ ہو۔ ہے۔
اس کی بوڑھی ماں نے منہ بسور کر کیا بیٹا ۔۔۔۔۔ یہ بہت بڑا قصہ ہے ۔۔۔۔۔ تمہاری عقل کو معلوم نہیں کیا ہو گیا ہے۔۔۔ تم اتنا بھی نہیں جھتی ہو کہ اولا د کا ہونا کتنا ضروری ہے اس سے تو انسان کی زندگی کا باغ سدا ہر ابھرا رہتا
زبید و نے پچھا، چنگیر میں رکھا میں کیا کروں ۔۔۔۔ بچہ پیدا نہیں ہوتا تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔"
99


بڑھیا نے کیا قصور کسی کا بھی نہیں بیٹی ۔ بس صرف ایک اللہ کی مہر بانی
چاہئیے
ترابید اللہ میاں کے حضور ہزاروں مرتبہ دعائیں مانگ چکی تھی کہ واپنے فضل وکرم سے اس کی گود ہری کرے مگر اس کی ان دعاؤں سے کچھ بھی نہیں ہوا تھا ۔ جب اس کی ماں نے ہر روز اس سے بچے کی پیدائش کے متعلق باتیں کرنا شروع کیں تو اس کو ایسا محسوس ہونے لگا کہ وہ بنجر زمین ہے، جس میں کوئی پودا اگ ہی نہیں سکتا۔
راتوں کو وہ عجیب عجیب سے خواب دیکھتی ۔ بڑے اوٹ پٹانگ قسم کے کبھی یہ دیکھتی کہ و لق و دق صحرا میں کھڑی ہے اس کی گود میں ایک گل گوتھنا سابچہ ہے، جسے وہ ہوا میں اتنے زور سے اچھالتی ہے کہ وہ آسمان تک پہنچ کر نائب ہو جاتا
کبھی یہ دیکھتی کہ وہ اپنے بستر میں لیٹی ہے جو ننھے منے بچوں کے زندہ اور متحرک گوشت سے بنا ہے۔
ایسے خواب دیکھ دیکھ کر اس کا دل و دماغ غیر متوازن ہو گیا ۔۔۔۔۔ بیٹھے بیٹھے اس کے کانوں میں بچوں کے رونے کی آواز آنے لگتی ، اور وہ اپنی ماں سے کہتی یہ کسی کا بچہ رو رہا ہے ؟
اس کی ماں نے اپنے کانوں پر زور دے کر یہ آواز سننے کی کوشش کی ، جب کچھ
سنائی نہ دیا تو اس نے کہا " کوئی بچہ رو نہیں رہا ۔۔۔۔۔ نہیں ماں ۔۔۔۔ رو رہا ہے۔ بلکہ رورہ کے مالکان ہوئے جا رہا
100


اس کی ماں نے کہا کیا تو میں بہری ہوگئی ہوں، یا تمہارے کان بجنے لگے ہیں زبیدہ خاموش ہو گئی لیکن اس کے کنوں میں دیر تک کسی نوزائیدہ بچے کے رونے اور بلکنے کی آوازیں آتی رہیں، اور اس کو کئی بار یہ بھی محسوس ہوا کہ اس کی چھاتیوں میں دودھ اتر رہا ہے اس کا ذخر اس نے اپنی ماں سے نہ کیا لیکن جب وہ اندر اپنے کمرے میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے گئی تو اس نے قمیض اٹھا کر دیکھا کہ اس کی چھاتیاں انجری ہوئی تھیں۔ بچے کے رونے کی آواز اس کے کانوں میں اکثر چپکتی رہی ۔۔۔ لیکن وہ اب سمجھ گئی تھی کہ یہ سب واہمہ ہے حقیقت صرف یہ ہے کہ ان کے دل و دماغ پر مسلسل ہتھوڑے پڑتے رہے ہیں کہ اس کے بچے کیوں نہیں ہوتا اور وہ خود بھی بڑی شدت سے وہ خلا محسوس کرتی ہے، جو کسی بیاہی عورت کی زندگی میں نہیں ہونا چاہیے۔ وہ اب بہت اداس رہنے لگی ۔ محلے میں بچے شور مچاتے تو اس کے کان پھٹنے کیتے اس کا جی چاہتا کہ باہر نکل کر ان سب کا گلا گھونٹ ڈالے ۔ اس کے شو ہر علم الدین کو اولا اولاد کی کوئی فکر نہیں تھی وہ اپنے بیوپار میں مکن تھا کپڑے کے بھاؤ روز بروز چڑھ رہے تھے ۔ آدمی چونکہ ہشیار تھا، اس لیے اس نے کپڑے کا کافی ذخیرہ جمع کر رکھا تھا اب اس کی ماہانہ آمدن پہلے سے دو گنا ہو گئی تھی۔ مگر اس آمدن کی زیادتی سے زبیدہ کو کوئی خوشی حاصل نہیں ہوئی تھی جب اس کا شوہر نوٹوں کی گڈی اس کو دیتا ، تو اسے اپنی جھولی میں ڈال کر دیر تک انہیں اوری دیتی رہتی ۔۔۔۔ پھر وہ انہیں اٹھا کر کسی خیالی جھولنے میں بٹھا دیتی۔
101


ایک دن علم الدین نے دیکھا کہ ووٹوٹ جو اس نے اپنی بیوی کو لا کر دیئے تھے ، دودھ کی پتیلی میں پڑے ہیں وہ بہت حیران ہوا کہ یہ کیسے یہاں پہنچ گئے چنانچہ اس نے زبیدہ سے پو چھا کسی نوٹ دودھ کی پتیلی میں کسی نے ڈالے ہیں ؟ زبیدہ نے جواب دیا " بچے بڑے شریر ہیں ، یہ حرکت نبی کی ہوگی علم الدین بہت متحیر ہوا لیکن یہاں بچے کہاں ہیں ؟ زبید و اپنے خاوند سے کہیں زیادہ متحیر ہوئی" کیا ہمارے ہاں بچے نہیں ۔۔۔۔۔ آپ بھی کیسی باتیں کرتے ہیں ۔۔۔۔ ابھی سکول سے واپس آتے ہوں گے۔۔۔ ان سے پوچھوں گی کہ یہ حرکت کس کی تھی۔“ علم الدین سمجھ گیا اس کی بیوی کے دماغ کا توازن قائم نہیں لیکن اس نے اپنی ساس سے اس کا ذکر نہ کیا کہ وہ بہت کمز ور عورت تھی۔ ود دل ہی دل میں زبیدہ کی دمانی حالت پر افسوس کرتا رہا مگر اس کا علاج اس کے بس میں نہیں تھا اس نے اپنے کئی دوستوں سے مشور ہ لیا ان میں سے چند نے اس سے کہا کہ پاگل خانے میں داخل کرا دو۔ مگر اس کے خیال ہی سے اسے وحشت ہوتی تھی۔ اس نے دکان پر جانا چھوڑ دیا سارا وقت گھر رہتا اور زبیدہ کی دیکھ بھال کرتا ، که مبادا وه کسی روز کوئی خطر ناک حرکت کر بیٹھے۔ اس کے گھر پر ہر وقت موجود رہنے سے زبیدہ کی حالت کسی قدر رو رست ہوگئی ، لیکن اس کو اس بات کی بہت فکر تھی کہ دکان کا کارو بارکون چلا رہا ہے۔ کہیں وہ آدمی جس کو یہ کام سپر د کیا گیا ہے نہین تو نہیں کر رہا۔
102



اس نے چنانچہ کئی مرتبہ اپنے خاوند سے کہا ' دکان پر تم کیوں نہیں جاتے ؟ علم الدین نے اس سے بڑے پیار کے ساتھ کہا جانم ۔۔۔ میں کام کر کے
تھک گیا ہوں ، اب تھوڑی دیر آرام کرنا چاہتا ہوں
مگر دکان کس کے سپر د ہے ؟
میرا نوکر ہے۔۔۔ وہ سب کام کرتا ہے
کیا ایماندار ہے ؟
ہاں ۔۔۔۔ ہاں ------ بہت ایماندار ہے۔۔۔۔ دھر کی بڑی کا حساب دیتا ہے۔۔۔ تم کیوں فکر کرتی ہو زبیدہ نے بہت متفکر ہو کر کہا " مجھے کیوں فکر نہ ہو گی بال بچے دار ہوں مجھے اپنا تو کچھ خیال نہیں لیکن ان کا تو ہے۔ یہ آپ کا نوکر اگر آپ کا روپیہ مار گیا تو یہ مجھتے کہ بچوں ۔۔۔۔
علم الدین کی آنکھوں میں آنسو آ سکھئے زبیدہ۔۔۔۔۔۔ ان کا اللہ مالک ہے ویسے میں انوکر بہت وفادار ہے اور ایماندار ہے تو ہمیں کوئی تردہ نہیں کرنا چاہیے۔“ مجھے تو کسی قسم کا تر وہ نہیں ہے لیکن بعض اوقات ماں کو اپنی اولاد کے متعلق
سوچنا ہی پڑتا ہے ۔ علم الدین بہت پریشان تھا کہ کیا کرے زبیدہ سارا دن اپنے خیالی بچوں کے کپڑے سیتی رہتی ۔ ان کی جرا میں دھوتی، ان کے لیے اونی سویٹر مفتی کئی بار اس نے اپنے خاوند سے کہہ کر مختلف سائز کی چھوٹی چھوٹی سینڈ لیں منگوائیں ، جن کو وہ ہر صبح پالش کرتی تھی۔
103



علم الدین یہ سب کچھ دیکھتا اور اس کا دل رونے لگتا۔ اور وہ سو پاتا کہ شاید اس کے گناہوں کی سزا اس کو مل رہی ہے ۔ یہ گناہ کیا تھے، اس کا علم علم الدین کو میں
تھا۔
ایک دن اس کا ایک دوست اس سے ملا جو بہت پریشان تھا معلم الدین نے اس سے پریشانی کی وجہ دریافت کی تو اس نے بتایا کہ اس کا ایک لڑکی سے معاشقہ ہو گیا تھا اب وہ حاملہ ہوگئی ہے ارتقاط کے تمام ذرائع استعمال کیے گئے ہیں، مگر کامیابی نہیں ہوئی ۔ علم الدین نے اس سے کہا دیکھوار قاط و نقاط کی کوشش نہ کرو۔ بچہ
پیدا ہونے دو
اس کے دوست نے جسے ہونے والے بچے سے کوئی دی پی نہیں تھی، کہا " میں
بچے کا کیا کروں گا ؟"
تم مجھے دے دینا "
بچہ پیدا ہونے میں کچھ دیر تھی اس دوران میں علم الدین نے اپنی بیوی زبید وکو
یقین دلایا کہ وہ حاملہ ہے اور ایک ماہ کے بعد اس کے بچہ پیدا ہو جائے گا زبید دبا رہا کہتی مجھے اب زیادہ اولاد میں چاہیے، پہلے ہی کیا کم ہے"
علم الدین خاموش رہتا
اس کے دوست کی داشتہ کے لڑکا پیدا ہوا ، جو علم الدین نے زبیدہ کے پاس جو
کہ ہو رہی تھی لٹا دیا ۔۔۔۔ اور اسے جگا کر کہا " زبیدہ تم کب تک بے ہوش پڑی
رہوگی یہ دیکھو، تمہارے پہلو میں کیا ہے۔
زبید و نے کروٹ بدلی اور دیکھا کہ اس کے ساتھ ایک ننھا منا بچہ ہاتھ پاؤں
104


مار رہا ہے۔ علم الدین نے اس سے کہا " لڑکا ہے اب خدا کے فضل و کرم سے ہمارے پانچ بچے ہو گئے ہیں ۔" ز بید و بہت خوش ہوئی " پیڑ کا کب پیدا ہوا ؟ صبح سات بجے اور مجھے اس کا علم ہی نہیں ۔۔۔۔ میرا خیال ہے درد کی وجہ سے میں بے علم الدین نے کہا ہاں ، کچھ ایسی ہی بات تھی لیکن اللہ کے فضل و کرم سے دوسرے روز جب علم الدین اپنی بیوی کو دیکھنے گیا تو اس نے دیکھا کہ وہ لہو لبان ہے اس کے ہاتھ میں اس کا کٹ تھروٹ استرا ہے وہ اپنی چھاتیاں کاٹ
ہوش ہوگئی ہوں گی۔
سب ٹھیک ہو گیا۔
رہی ہے۔ علم الدین نے اس کے ہاتھ سے استرا چھین لیا " یہ کیا کر رہی ہو تم ؟ زبیدہ نے اپنے پہلو میں لیٹے ہوئے بچے کی طرف دیکھا اور کیا ساری رات بلکتا رہا ہے، لیکن میری چھاتیوں میں دودھ نہ اترا۔ سامنت ہے
ایسی اس سے آگے ، ود اور کچھ نہ کہہ سکی ۔ خون سے لتھڑی ہوئی ایک انگلی اس نے بچے کے منہ کے ساتھ لگا دی ، اور ہمیشہ کی نیند سوگئی۔
105


ایکٹریس کی آنکھ
پایوں کی گھڑی کی شوٹنگ تمام شب ہوتی رہی تھی، رات کے تھکے ماندے اینٹر لکڑی کے کمرے میں جو کمپنی کے وان نے اپنے میک اپ کے لیے خاص طور پر تیار کرایا تھا اور جس میں فرصت کے وقت سب ایکٹر اور بیلٹر میں سیٹھ کی مالی حالت پر تبصرہ کیا کرتے تھے، صوفوں اور کرسیوں پر اونگھ رہے تھے۔ اس چوبی کمرے کے ایک کونے میں میلی سی تپائی کے اوپر دس پندرو چائے کی خالی پیالیاں اوندھی سیدھی پڑھی تھیں جو شاید رات کو نیند کا غلبہ دور کرنے کے لیے ان یٹروں نے لی تھیں۔ ان پیالیوں پر سینکڑوں لکھیاں بھنبھنارہی تھیں ۔ کمرے کے باہر ان کی بھنبھناہٹ سن کر کسی نو وارد کو یہی معلوم ہوتا کہ اندر نیکی کا پنکھا چل رہا
ہے۔ دراز قدوان جو شکل و صورت سے لاہور کا کوچوان معلوم ہوتا تھا، ریشمی سوٹ میں ملبوس صوفے پر دراز تھا آنکھیں کھلی تھیں اور منہ بھی نیم و اتھا مگر و دمو ر ہا تھا اسی طرح اس کے پاس ہی آرام کرسی پر ایک مونچھوں والا اومیٹر عمر کا میٹر اونگھ رہا تھا۔ کھڑکی کے پاس ڈنڈے سے ایک لگائے ایک اور امیٹر ہونے کی کوشش میں مصروف تھا۔ کمپنی کے مکالمہ نویس یعنی منشی صاحب ہونٹوں میں بیڑی دبائے اور ٹانگیں ، میک اپ ٹیبل پر رکھے، شاید وہ گیت بنانے میں مصروف تھے جو انہیں چار ہے کیلے صاحب کو دکھانا تھا۔ اولی ہوئی ہوئی ۔ ۔ ہائے ۔۔۔۔۔۔ ہائے
106


انتا یہ آواز باہر سے اس چوٹی کمرے میں کھڑکیوں کے رائتے اندر داخل ہوئی وان صاحب حجت سے اٹھ بیٹھے اور اپنی آنکھیں ملنے لگے مونچھوں والے ایٹر کے لیے لیے کان ایک ارتعاش کے ساتھ اس نسوانی آواز کو پہچاننے کے لیے تیار ہوئے۔ منشی صاحب نے میک اپ ٹیبل پر سے ٹائلیں اٹھالیں او روان صاحب کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا اوئی اوئی ہوئی ۔۔۔ ہائے ۔۔۔ ہائے اس پروان بنشی اور دوسرے ایکٹر جو نیم فنودگی کی حالت میں تھے چونک پڑے، سب نے کاٹھ کے اس بکس نما کمرے سے اپنی گرد نہیں باہر نکالیں ارے، کیا ہے بھئی "خیر تو ہے" جتنے منہ اتنی باتیں۔۔۔۔۔ گھر کی میں سے نکلی ہوئی ہر گر دن بڑے انتظر اب کے ساتھ متحرک ہوئی اور ہر ایک کے منہ سے گھبراہٹ میں ہمدردی اور استفسار کے ملے جلے جذبات کا اظہار ہوا۔
کیا ہوا ؟
اماں ، یہ تو ۔۔۔۔ دیوی ہیں
کیابات ہے ! دیوئی ؟
بائے ۔۔۔ ہائے ۔۔۔۔ ہائے۔ ہوئی۔۔۔۔۔ ہوئی دیوی، کمپنی کی ہر باہر یہ ہیروئن کے چھوٹے سے منہ سے چینیں تھیں اور باہوں کو انتہائی کرب و اضطراب کے تحت ڈھیلا چھوڑ کر اس نے اپنے چپل پہنے پاؤں کو
107



زور زور سے اسلو ڈیو کی پتھریلی زمین پر مارتے ہوئے چیخنا چلا نا شروع کر دیا ۔ خور کا حصہ کا ہونا ساقد ، گول گول گرایا ہوا ڈیل کھلتی ہوئی گندمی رنگت ، خوب خوب کالی کالی تیکھی بھنویں ، کھلی پیشانی پر گہرا کسوم کا ٹیکا ۔۔۔۔ بال کالے بھنورا سے جو سیدھی مانگ نکال کر پیچھے جوڑے کی صورت میں لپیٹ دے کر مکھی کیے ہوئے تھے، ایسے معلوم ہوتے تھے، جیسے شہد کی بہت سی مکھیاں چھتے پر بیٹھی ہوئی
ہیں۔ کنارے وار سفید سوتی ساڑھی میں لیلی ہوئی ، چولی گجراتی تراش کی تھی، بغیر ہستیوں کے، جن میں سے جو بن پھٹا پڑتا تھا، ساڑھی بمبئی کے طرز سے بندھی تھی چاروں طرف میٹھا میٹھا مجھول دیا ہوا تھا۔۔۔۔۔ گول گول کلائیاں جن میں کھلی کھلی جاپانی رقمیں چوڑیاں کھنکھارہی تھیں ۔ ان ریشمیں چوڑیوں میں ملی ہوئی ادھر ادھر ولایتی ہونے کی پہلی پتلی لنگنیاں جم جم کر رہی تھیں کان موزوں اور اویں بڑی خوبصورتی کے ساتھ نیچے جھکی ہوئیں، جن میرے ہیرے کے آویزے ، شبنم کی دو تھراتی ہوئی بوندیں معلوم ہو رہی تھیں۔ چیختی چلاتی ، اور زمین کو چپل پہنے ہیروں سے کولتی، دیوی نے دانی آنکھ کو نتھے سے سفید رومال کے ساتھ ملنا شروع کر دیا۔ ہائے میری آنکھ۔۔۔ ہائے میری آنکھ۔۔۔۔۔۔۔ ہائے کاٹھ کے بکس سے باہر نکلی ہوئی کچھ کر دنہیں اندر کو ہو گئیں اور جو باہر تھیں، پھر سے ملنے لگیں ۔ آنکھ میں کچھ ہی گیا ہے ؟
108


یہاں کنکر بھی تو بے شمار ہیں۔۔۔۔۔ ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں" یہاں جھاڑو بھی تو چھ مہینے کے بعد دی جاتی ہے“
اندر آ جاؤ ، دیوی ہاں ہاں ، آؤ۔۔۔ آنکھ کو اس طرح نہ بلو ارے بابا ۔۔ بولا نہ تکلیف ہو جائے گی۔ تم اندر تو ہو آنکھ باقی باقی ، دیوی کمرے کے دروازے کی جانب براحی وان نے ایک کر تپائی سے بڑی صفائی کے ساتھ ایک رومال میں چائے کی پیالیاں سمیٹ کر میک اپ ٹیبل کے آئینے کے پیچھے چھپا دیں اور اپنی پرانی پتلون سے ٹیبل کو جھاڑ پونچھ کر صاف کر دیا۔ باقی، میٹروں نے کرسیاں اپنی اپنی جگہ پر جما دیں اور بڑے سلیقے سے بیٹھ گئے۔ منشی صاحب نے پر نائی ادھ جلی بیری پھینک کر جیب سے ایک سگریٹ نکال کر سا گانا شروع کر دیا ۔ دیوی اندر آئی صوفے پر سے منشی صاحب اور وان اٹھ کھڑے ہوئے منشی صاحب نے بڑھ کر کہا آؤ، دیوی یہاں بیٹھو دروازے کے پاس بڑی بڑی سیاہ و سفید مونچھوں والے بزرگ بیٹھے تھے، ان کی مونچھوں کے لٹکے اور بڑھے ہوئے ہال تھر تھرائے اور انہوں نے اپنی نشست پیش کرتے ہوئے گجراتی لہجے میں کہا " ادھر بیجو دیوی ان کی تھر تھراتی ہوئی مونچھوں کی طرف دھیان دیئے بغیر آنکھ جاتی اور ہائے ہائے کرتی آگے بڑھائی ایک نوجوان نے جو ہیرو سے معلوم ہو رہے تھے اور پھنسی پھنسی قمیص پہنے ہوئے تھے جھٹ سے ایک چوکی نما کرسی سر کا کر آگے بڑھا
109



دی اور دیوی نے اس پر بیٹھ کر اپنی ناک کے بانے کو رومال سے رگڑنا شروع کر
دیا۔ سب کے چہرے پر دیوی کی تکلیف کے احساس نے ایک عجیب و تریب رنگ پیدا کر دیا تھا۔ منشی صاحب کی قوت احساس چونکہ دوسرے مردوں سے زیادہ تھی، اس لیے چشمہ بنا کر انہوں نے اپنی آنکھ مانا شروع کر دی تھی ۔ جس نوجوان نے کرسی پیش کی تھی ، اس نے جھک کر دیوی کی آنکھ کا ملاحظہ کیا اور بڑے مفکرانہ انداز میں کہا آنکھ کی سرخی بتارہی ہے کہ تکلیف ضرور ہے" ان کا لہجہ پھٹا ہوا تھا آواز اتنی بلند تھی کہ کمرہ گونج اٹھا یہ کہنا تھا کہ دیوی نے اور زور زور سے چلانا شروع کر دیا اور سفید ساڑھی میں اس کی ٹائلیں انظر اب کا بے پناہ مظاہرہ کرنے لگیں ۔ ان صاحب آگے بڑھے اور بڑائی ہمد روی کے ساتھ اپنی سخت کمر جھکا کرویونی سے پوچھا " جلن محسوس ہوتی ہے یا چھین ایک اور صاحب جو اپنے سولا ہیٹ سمیت کمرے میں ابھی ابھی تشریف لائے تھے، آگے بڑھ کے پوچھنے لگے پوٹوں کے نیچے رگڑی تو محسوس نہیں ہوتی " دیوی کی آنکھ سرخ ہو رہی تھی پونے ملنے اور آنسوؤں کی نمی کے باعث پیلے میلے نظر آ رہے تھے چتونوں میں سے لال اہل ڈوروں کی جھلک چک میں سے غروب آفتاب کا سرخ سرخ منفہ پیش کر رہی تھی۔ وہنی آنکھ کی پلکیں نمی کے باعث بھاری اور کھنی ہوگئی تھیں، جس سے ان کی خوبصورتی میں چار چاند لگ گئے تھے۔ با ہیں ڈھیلی کر کے دیوی نے دکھتی آنکھ کی پتلی نچاتے ہوئے کیا۔
110



اں ۔۔۔ بڑا انکلیو ہوتی ہے۔ ہائے ۔۔۔۔ اوئی اور پھر سے آنکھ کو کیلے رومال سے مانا شروع کر دیا ۔ سیاہ و سفید مونچھوں والے صاحب نے جو کونے میں بیٹھے تھے ، باند آواز میں کیا اس طرح آنکھ نہ رکز و خالی پہلی کوئی اور انکلیو ہو جائے گی ۔" کیا ہاں ، ہاں ۔۔۔۔ ارے تم پھر وہی کر رہی ہو پھٹی آواز والے نوجوان نے
وان جو فورا ہی دیوی کی آنکھ کو ٹھیک حالت میں دیکھنا چاہتے تھے، بگڑ کر بولے" تم سب بیکار ہا تھیں بنا رہے ہو۔ کسی سے ابھی تک یہ بھی نہیں ہوا کہ دو ڑ کر ڈاکٹر کو بالائے۔ اپنی آنکھ میں یہ تکلیف ہو تو پتہ چلے ۔۔۔۔ یہ کہہ کر انہوں نے مڑ کر کھڑکی میں سے باہر گردن نکالی اور زور زور سے پکارنا شروع کیا۔" ارے۔۔۔۔ کوئی ہے۔ کوئی ہے؟ گلاب ؟ گلاب جب ان کی آواز صدا الصحر اثابت ہوئی تو انہوں نے گردن اندر کو کرلی اور یزانا شروع کر دیا خدا جانے ہوٹل والے کا یہ چھوکرا کہاں غائب ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔ پڑا لیکھ رہا ہو گا اسٹوڈیو میں کسی تختے پر ۔۔۔۔ مردود، با بکار پھر فوراً ہی دور اسٹوڈیو کے اس طرف گلاب کو دیکھ کر چلائے ، جو انگلیوں میں چائے کی پیاریاں انکائے چلا آرہا تھا ارے گلاب ۔۔۔۔۔ گلاب ! گلاب بھاگتا ہوا آیا اور کھڑکی کے سامنے پہنچ کر ٹھہر گیا۔ وان صاحب نے گھبرائے ہوئے لہجہ میں اس سے کہا دیکھو! ایک گلاس میں پانی لا۔۔۔۔ جلدی سے ۔۔۔۔ بھا گو


گلاب نے کھڑے کھڑے اندر جھانکا، دیکھنے کے لیے کہ یہ گڑ بڑ کیا ہے۔۔۔ اس پر ہیرو صاحب للکارے ارے دیکھتا کیا ہے۔۔۔لا، تا گلاں بھاگ کے جا، بھاگ کے" میں تھوڑا سا پانی ۔ گلاب سامنے، تین کی چھت والے ہوٹل کی طرف روانہ ہو گیا۔ دیوی کی آنکھ میں چھن اور بھی زیادہ بڑھ گئی اور اس کی بناری انگڑے کی گیر می ایسی منھی منی ٹھوڑی روتے بچے کی طرح کا پچنے لگی او روہ اٹھ کر درد کی شدت سے کر اتاتی ہوئی صوفے پر بیٹھ گئی دیتی ہوے سے ماچس کی ڈبیا کے برابر ایک آئینہ نکال کر اس نے اپنی رکھتی آنکھ کو دیکھنا شروع کر دیا۔ اتنے میں منشی صاحب ہوئے گلاب سے کہہ دیا پانی میں تھوڑی سی برف بھی ڈالتا لائے ۔“ ہوتا۔ ہاں ، ہاں، سر دپانی اچھا رہے گا یہ کہہ کر ان صاحب کھڑکی میں سے گردن باہر نکال کر چلائے گلاب ۔۔۔۔۔ ارے گلاب ۔۔ پانی میں تھوڑی سی برف چھوڑ کے لانا" اس دوران میں ہیر و صاحب جو کچھ سوچ رہے تھے، کہنے لگے " میں بولتا ہوں کہ رومال کو سانس کی بھانپ سے گریم کرو اور اس سے آنکھ کو سینک دو۔۔۔۔۔ کیوں دادا ؟ ایک دم ٹھیک رہے گا “ سیادہ سفید مونچھوں والے صاحب نے سر کو اثبات میں بڑے زور سے ہلاتے ہوئے کہا۔ بیر و صاحب کھونٹیوں کی طرف بڑھے۔ اپنے کوٹ میں سے ایک سفید رومال ریال کر دیوی کو سانس کے ذریعے سے اس کو گرم کرنے کی ترکیب بتائی اور الگ ہو
112



کر کھڑے ہو گئے ۔ دیوی نے رو مال لے لیا اور اسے منہ کے پاس لے جا کر گال پھلا پھاڑ کر سانس کی گرمی پہنچائی ، آنکھ کونکور دی مگر کچھ افاقہ نہیں ہوا۔
کچھ آرام آیا ؟ سوا ہیٹ والے صاحب نے دریافت کیا دیوی نے رونی آواز میں جواب دیا نہیں ۔نہیں ۔۔۔۔ ابھی نہیں گالا میں مرگی " اتنے میں گلاب پانی کا گلاس لے کر آ گیا۔ ہیرو اور وان دوڑ کر بڑھے اور دونوں نے مل کر دیوی کی آنکھ میں پانی پو لیا جب گلاس کا پانی آنکھ کو نسل دینے میں ختم ہو گیا تو دیوی پھر اپنی جگہ پر بیٹی گئی اور آنکھ جھپکا نے لگی ۔ بس تھوڑی دیر کے بعد آرام آجائے گا" آنکھ دکھل جانے پر پانی کی ٹھنڈک نے تھوڑی دیر کے لیے دیوی کی آنکھ میں چین رفع کر دی مگر فوراہی پھر سے اس نے درد کے مارے چلانا شروع کر دیا ۔ کیا بات ہے؟ یہ کہتے ہوئے ایک صاحب باہر سے اندر آئے اور دروازے کے قریب کھڑے ہو کر معاملے کی اہمیت کو جھنا شروع کر دیا ۔ تو وارد کہنہ سال ہونے کے باوجود چست و چالاک معلوم ہوتے تھے مونچھیں سفید تھیں جو بیڑی کے دھوئیں کے باعث سیاہی مائل زر در نگت اختیار کر چکی تھیں ان کے کھڑے ہونے کا انداز بتا رہا تھا کہ فوج میں رہ چکے ہیں ۔
کچھ افاقہ ہوا
اب تکلیف تو نہیں ہے ؟
کنکری نکل گئی ہوگی
113



سیاہ رنگ کی ٹوپی سر پر ذرا اس طرف ترچھی پہنے ہوئے تھے پتلون اور کوٹ کا کپر معمولی اور خاکستری رنگ کا تھا کولہوں اور رانوں کے اوپر پتلون میں پڑے ہوئے جھول اس بات پر چغلیاں کھا رہے تھے کہ ان کی ٹانگوں پر گوشت بہت کم ہے۔ کالر میں بندھی ہوئی میلی لکھائی کچھ اس طرح نیچے لٹک رہی تھی کہ معلوم ہوتا تھا وہ ان سے اچھی ہوئی ہے۔ پتلون کا کپڑا گھٹنوں پر سے کیچ کر آگے بڑھا ہوا تھا، جو یہ بتا رہا تھا کہ وہ اس بے جان چیز سے بہت کڑا کام لیتے رہے ہیں ۔ گال بڑھاپے کے باعث پچکے ہوئے آنکھیں ڈرا اندر کو دھنسی ہوئیں ، جو بار بارشانوں کی عجیب جنبش کے ساتھ سکیٹر لی جاتی تھیں ۔ آپ نے کاندھوں کو جنبش دی اور ایک قدم آگے بڑھ کر کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں سے پوچھا " کنکر پڑ گیا ہے کیا ؟ اور اثبات میں جواب پا کر دیوی کی طرف بڑھتے ہیرو اور ان کو ایک طرف ہٹنے کا اشارہ کر کے آپ نے کہا پانی سے آرام نہیں آیا۔ خیر رومال ہے کسی کے پاس؟ النصف درجن رو مال ان کے ہاتھ میں دے دیئے گئے بڑے ڈرامائی انداز میں آپ نے ان پیش کردہ رومالوں میں سے ایک منتخب کیا، اور اس کا ایک کنارا پکڑ کر دیوی کو آنکھ پر سے ہاتھ بنا لینے کا حکم دیا ۔ جب ویوی نے ان کے حکم کی تعمیل کی تو انہوں نے جیب میں سے مداری کے سے انداز میں ایک چرمی بنٹوا نکالا اور اس میں سے اپنا چشمہ نکال کر مال احتیاط سے ناک پر چڑھا لیا ۔ پھر چشمے کے شیشوں میں سے دیوی کی آنکھ کا دورہی سے اکثر کر معائنہ کیا پھر دفعتنا فوٹوگرافر کی کی پھرتی دکھاتے ہوئے آپ نے اپنی ٹانگیں
114



115
چوڑی کہیں اور جب انہوں نے اپنی پتلی پتلی انگلیوں سے دیوی کے پہیولوں کو ہا کرنا چاہا تو ایسا معلوم ہوا کہ وہ فولو لیتے وقت کیمرے کا لینس بند کر رہے ہیں۔ دو تین مرتبہ ڈرامائی انداز سے اپنے کھڑے ہونے کا رخ بدل کر انہوں نے دیوی کی آنکھ کا معائنہ کیا اور پھر پہونے کھول کر بڑی آہستگی سے رومال کا کناردان کے اندرداخل کر دیا ۔۔۔ حاضرین خاموشی سے اس عمل کو دیکھتے رہے۔ پانچ منٹ تک کمرے میں قبر کی کی خاموشی طاری رہی۔ آنکھ صاف کرنے کے بعد اس ڈرامائی انداز میں فولو کر افر صاحب نے ۔۔۔۔ چونکہ وہ بزرگ فوٹو گرافر ہی تھے۔ چشمہ اتار کر چرمی بنوے میں رکھ کر دیوی سے کہا " اب کنگر نکل گیا ہے۔۔۔ تھوڑی دیر میں آرام آجائے گا۔ دیوی نے انگلیوں سے آنکھ کے پھولوں کو چھوا اور ننھا سا آئینہ نکال کر اپنا اطمینان کرنے لگی۔ نگری نکل گئی تا ؟ اب درد محسوں تو نہیں ہوتا“ سالا ، اب انکل گیا ہو گا۔ بہت دکھ دیا ہے اس نے " ویومی اب طبیعت کیسی ہے ؟ یہ شور سن کر فوٹو گرافر صاحب نے کاندھوں کو زور سے جنبش دی اور کیا تم سارا دن کوشش کرتے رہتے مگر کچھ نہ ہوتا ۔ ۔ ہم فوج میں بچھویں برس بھاڑا نہیں جھونکتا رہا ۔۔۔۔ یہ سب کام جانتا ہے۔ منکر نکل گیا ہے ، اب صرف جلن باقی ہے وہ بھی دور ہو جائے گی۔


یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ دیوئی جو آئینے میں روٹی صورت بنائے اپنا اطمینان کر رہی تھی ایکا ایکی مسکرائی اور پھر کھل کھلا کر نہیں دی۔۔۔۔ چوبی کمرے میں مترنم تارے بکھر گئے۔
اب آرام ہے۔ ساب آرام ہے یہ کہہ کر دیوی، سیٹھ کی جانب روانہ ہوگئی ، جو ہوٹل کے پاس اکیلا کھڑا تھا، اور سب لوگ دیکھتے رہ گئے۔ ہیرو جب صوفے پر بیٹھنے لگا تو منشی صاحب کی ران نیچے دب گئی آپ بھنا گئے " اب کیا پھر ہونے کا ارادہ ہے۔ چلو بیٹھو، مجھے کل والے سین کے ڈائیلاگ سناؤ ہیرو کے دماغ میں اس وقت کوئی اور ہی سین تھا۔
116



15
مضمون
منٹو کے افسانے (Manto ke afsane)
0.0
سعادت حسن منٹو کی کچھ عمدہ کہانیوں کا مجموعہ
1

آخری سلیوٹ

29 November 2023
1
0
0

آخری سلیوٹ یہ کشمیر کی لڑائی بھی کچھ عجیب و غریب تھی ۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑ ا خراب ہو گیا ہو۔ کھیلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا مارنا اور مرنا جانتا

2

آنکھیں

29 November 2023
0
0
0

اس کے سارے جسم میں مجھے اس کی آنکھیں بہت پسند تھیں! یہ آنکھیں بالکل ایسی ہی تھیں جیسے اندھیری رات میں موٹر کار کی ہیڈ الماس جن کو آدمی سب سے پہلے دیکھتا ہے، آپ یہ نہ سمجھے گا کہ وہ بہت خوبصورت آنک

3

اب اور کہنے کی ضرورت نہیں

29 November 2023
0
0
0

یہ دنیا بھی عجیب و غریب ہے۔ خاص کر آج کا زمان ۔۔۔۔۔ قانون کو جس طرح فریب دیا جاتا ہے اس کے متعلق شاید آپ کو زیادہ علم نہ ہو۔۔۔ آج کل قانون ایک بے معنی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ ادھر کوئی نیا قانون بنتا ہ

4

اس کا پتی

30 November 2023
1
0
0

اس کا پتی لوگ کہتے تھے کہ نتھو کا سر اس لیے گنجا ہوا ہے کہ وہ ہر وقت سوچتا رہتا ہے اس بیان میں کافی صداقت تھی کیونکہ سوچنے وقت تو ہمیشہ سر کھجایا کرتا ہے کیونکہ اس کے بال بہت کھردرے اور خشک ہیں اور

5

الو کا پچھا

30 November 2023
0
0
0

قاسم صبح سات بجے کاف سے باہر نکھار اور غسل خانے کی طرف پہلا راستے ہیں، یہ اس کو ٹھیک طور پر معلوم نہیں ہونے والے کمرے میں ہمشن میں یا غسل خانے کے اندر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی کو ال

6

الله

30 November 2023
0
0
0

دو بھائی تھے اللہ رکھا اور اللہ دتا دونوں ریاست پٹیالہ کے باشندے تھے ان کے آبا ؤ اجداد البتہ لاہور کے تھے مگر جب ان دو بھائیوں کا داد اما ازمت کی تلاش میں پیالہ آیا توں ہیں کا ہو رہا۔ اللہ رکھا اور

7

انتظار

1 December 2023
1
0
0

(گھڑی آٹھہ بجاتی ہے )  منتظر : آدھا گفته مصرف آدھا گھنٹہ اور پھر اس کے بعد ۔۔۔ یدین کی آخری ڈوبتی ہوئی گونج کتنی پیاری تھی اور اور منتظر کا منطقی وجود اگر وہ نہ آئی۔ یعنی اگر منتظر کیوں نہ آئے

8

اولاد

1 December 2023
0
0
0

جب زبیدہ کی شادی ہوئیت و اس کی عمر پچیس برس کی تھی اس کے ماں باپ تو یہ چاہتے تھے کہ سترہ برس کی ہوتے ہی اس کا بیاہ ہو جائے مگر کوئی مناسب و موزوں رشتہ ملتا ہی نہیں تھا اگر کسی جگہ بات طے ہونے پاتی ت

9

بانجھ

2 December 2023
0
0
0

میری اور اس کی ملاقات آج سے ٹھیک دو برس پہل اپولو بندر پر ہوئی شام کا وقت تھا سورج کی آخری کرنہیں سمندر کی ان دور دراز لہروں کے پیچھے غائب ہو چلی تھیں جو ساحل کے بینچ پر بیٹھ کر دیکھنے سے موٹے کپڑ

10

باسط

5 December 2023
0
0
0

باسط با کل رضا مند نہیں تھا لیکن ماں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی اول اول تو اس کو اتنی جلدی شادی کرنے کی خواہش نہیں تھی اس کے علاوہ وہ لڑکی بھی اسے پسند نہیں تھی جس سے اس کی ماں اس کی شادی کرنے

11

بھنی

5 December 2023
0
0
0

بھنگنوں کی باتیں ہورہی تھیں خاص طور پر ان کی جو ہوارے سے پہلے امرتسر میں رائی تھیں مجید کا یہ ایمان تھا کہ امرتسر کی بھٹکوں جیسی کراری چھوکریاں اور کہیں نہیں پائی جاتیں خدا معلوم تقسیم کے بعد وہ کہا

12

بسم الله

7 December 2023
0
0
0

فلم بنانے کے سلسلے میں ظہیر سے سعید کی ملاقات ہوئی سعید بہت متاثر ہو ا ہمی میں اس نے تہیہ کو سنٹرل اسٹوڈیوز میں ایک دو مرتبہ دیکھا تھا اور شاید چند باتیں بھی کی تھیں مگر متصل ملاقات پہلی مرتبہ لا ہو

13

بغیر اجازت

7 December 2023
0
0
0

نعیم کہلاتا کہلاتا ایک باغ کے اندر چلا گیا ۔۔۔ اس کو وہاں کی فضا بہت پسند آئی ۔۔۔ گھاس کے ایک تختے پر لیٹ کر اس نے خود کلامی شروع کر دی۔ کیسی پر فضا جگہ ہے ۔۔۔ حیرت ہے کہ آج تک میری نظروں سے او تج

14

بلاوز

9 December 2023
0
0
0

کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت باتیں کرتے ہوئے تھی کہ سوچنے پر بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو اگر دو بیان بھی کرنا چ

15

بلونت سنگھ مجیٹھیا

10 December 2023
1
0
0

شاہ صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو ہم فورا بے تکلف ہو گئے ۔ مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ سید ہیں اور میرے دور دراز کے رشتے دار بھی ہیں۔ وہ میرے دور یا قریب کے رشتہ دار کیسے ہو سکتے تھے، اس کے متع

---