نعیم کہلاتا کہلاتا ایک باغ کے اندر چلا گیا ۔۔۔ اس کو وہاں کی فضا بہت پسند آئی ۔۔۔ گھاس کے ایک تختے پر لیٹ کر اس نے خود کلامی شروع کر دی۔ کیسی پر فضا جگہ ہے ۔۔۔ حیرت ہے کہ آج تک میری نظروں سے او تجعل رہی نظریں جھیل کلامی جاری تھی۔ ی نرم نرم گھاس کتنی فرحت ناک ہے آنکھیں پاؤں کے تلوؤں میں چلی آئیں ۔۔۔۔ اور یہ پھول ۔۔۔ یہ پھول اتنے خوبصورت نہیں جتنی ان کی ہر جائی خوشبو ہے۔۔۔۔ ہر شے جو ہر جائی تو۔۔۔ خوبصورت ہوتی ہے۔۔۔ ہر جائی عورت ۔۔۔۔۔۔ ہر جائی مرور کچھ مجھ میں نہیں آتا ۔۔۔۔ یہ خوبصورت چیزیں پہلے پیدا ہوئی تھیں ۔یا خوبصورت خیال ۔۔۔۔۔۔ ہر خیال خوبصورت ہوتا ہے۔ مگر مصیبت یہ ہے کہ ہر پھول خوبصورت نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔ مثال کے طور پر یہ پھول، اس نے اٹھ کر ایک پھول کی طرف دیکھا اور اپنی خود کلامی جاری رکھی۔ یہ اس ٹہنی پر اکڑوں بیٹھا ہے ۔۔۔۔ کتنا سفلہ دکھائی دیتا ہے بہر حال یہ جگہ
نظر ہو تو چیز میں نظر بھی نہیں آتیں ۔ آپ کی نظر کی بے نظری ! دیر تک وہ گھاس کے اس تختے پر لینا اور ٹھنڈک محسوس کرتا رہا لیکن اس کی خود
173
خوب ہے۔۔۔۔ ایک بہت بڑا دماغ معلوم ہوتی ہے ۔۔۔۔ روشنی بھی ہے۔۔۔۔ سائے بھی ہیں ۔۔۔۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت میں نہیں بلکہ
یہ جگہ سوچ رہی ہے۔ یہ پر فضا جگہ جو اتنی دیر میر کی نظروں سے اوجھل رہی ۔ اس کے بعد نیم فری سرت میں کوئی نغزل گانا شروع کر دیتا ہے ۔۔۔۔۔ کہ اچانک موٹر کے ہارن کی کرخت آواز اس کے ساز دل کے سارے تار جھنجھوڑ دیتی
ہے۔ وہ چونک کر اٹھتا ہے۔ دیکھتا ہے کہ ایک موٹر پاس کی روش پر کھڑی ہے اور ایک لہی لہی مونچھوں والا آدمی اس کی طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھ رہا ہے ۔۔۔۔۔ اس مونچھوں والے آدمی نے گرج کر کیا ۔ ے تم کون ہو ۔۔۔
نعیم جو اپنے ہی نشہ میں سرشار تھا چونکا ۔۔۔۔
یہ موٹر اس باغ میں کہاں سے آگئی"
مونچھوں والا جو اس باغ کا مالک تھا بڑا بڑا لیا
وضوع قطع سے تو آدمی شریف معلوم ہوتا ہے مگر یہاں کیسے گھس آیا ۔۔۔۔ کسی
اطمینان سے لینا تھا جیسے اس کے باوا کا باغ ہے ۔۔۔ پھر اس نے بلند آواز میں
للکار کے نعیم سے کہا
کہاں ۔۔۔۔ کچھ سنتے ہو۔
نعیم نے جواب دیا
174
ہے۔"
حضور سن رہا ہوں ۔۔۔ تشریف لے آئے ۔۔۔۔ یہاں بہت پر فضا جگہ
باغ کا مالک بھنا گیا
تشریف کا بچہ ۔۔۔۔ ادھر آی"
نعیم لیٹ گیا
بھی مجھ سے نہ آیا جائے گا تم خود ہی چلے آؤ۔۔۔۔۔ واللہ بڑی باقریب جگہ ہے تمہاری سب کو نت دور ہو جائے گی بان کا مالک موٹر سے نکلا۔ اور قصے میں بھرا ہوا نعیم کے پاس آیا
اٹھو یہاں سے نعیم کے کانوں کو اس کی تیکھی آواز بہت ناگوار گزری اتنے اونچے نہ بولو۔ آپ میرے پاس لیٹ جاؤ۔ بالکل خاموش جس طرح کہ میں لینا ہوا ہوں ۔۔۔۔ آنکھیں بند کر لو اپنا سارا جسم ڈھیلا چھوڑ دمان کی ساری بتیاں گل کر دو ۔۔۔۔ پھر جب تم اس اندھیرے میں چلو گے تو سوالتی ہوئی تمہاری انگلیاں غیر ارادی طور پر ایسے قمقمے روشن کریں گی جن باغ کے مالک نے ایک لحظے سوچا ۔۔۔۔ نعیم سے کہا
کے وجود سے تم با کل فاضل تھے ۔
اد میرے ساتھ لیٹ جاؤ
دیوا نے معلوم ہوتے ہو۔۔۔
نعیم مسکرایا نہیں ۔۔۔ تم نے کبھی دیوانے دیکھے ہی نہیں ۔۔۔۔۔ میری
175
جگہ یہاں اگر کوئی دیوانہ ہوتا تو و دان بھری ہوئی جھاڑیوں اور ٹہنیوں پر بچوں کے گالوں کے مانند لٹکے ہوئے پھولوں سے کبھی مطمئن نہ ہوتا ۔۔۔۔۔۔ دیوانگی اطمینان کا نام نہیں میرے دوست ۔۔ لیکن آؤ ہم دیوانگی کی باتیں کریں ۔ بکواس بند کرو ۔۔۔۔۔ نکل جاؤ یہاں سے باغ کے مالک کو پیش آگیا ۔۔۔اس نے اپنے ڈرائیور کو بلایا کہ آ کر نعیم کو دھکے مار کر باہر نکال دے۔
ارے تم کون ہو ۔۔۔۔۔ بڑے بد تمیز معلوم ہوتے ہو" جب تعلیم باہر جا رہا تھا تو اس نے گیٹ پر ایک بورڈ دیکھا جس پر یہ لکھا تھا بغیر اجازت اندر آنا منع ہے
وہ مسکرایا حیرت ہے کہ یہ میری نظروں سے اوجھل رہا ۔۔۔۔۔۔ نظر ہو تو بعض چیزیں نظر نہیں بھی آتیں۔ و نظر کی یہ بے نظیر ہی یہاں سے نکل کر وہ ایک آرٹ کی نمائش میں چلا گیا تا کہ آپنی بنی تکدر دور کر
بال میں داخل ہوتے ہی اس کو عورتوں اور مردوں کا جھرمٹ نظر آیا جو دیواروں پر کی پینٹنگز دیکھ رہا تھا۔ ایک مرد کسی پاری عورت سے کہہ رہا تھا ر فوجدار ۔۔۔۔ یہ پینٹنگ دیکھی آپ نے" منز فوجدار نے تصویر کو ایک نظر دیکھنے کے بعد ایک عورت شیریں کی طرف
176
بڑے تھور سے دیکھا اور اس مرد سے جو نالبا اس کا ہونے والا تو ہر تھا کیا تم نے دیکھا شیر میں کتنی سچ بن کے آئی ہے۔ ایک نوجوان عورت ایک نو عمر لڑکی سے کہہ رہی تھی ثریا ادھر آ کے تصویریں دیکھ تو وہاں کھڑی کیا کر رہی ہے" ریا کو تصویروں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اصل میں اس کو ایک بوائے فرینڈ سے مانا تھا۔ نعیم پاس کھڑا تھا ۔۔۔۔۔ اس نے ہلکے سے طنز کے ساتھ کیا میں۔۔۔۔ میں
ایک ادھیڑ عمر کا مرد جسے پینٹنگز سے کوئی دلواپسی نہیں تھی اپنے ادھیڑ عمر کے
دوست سے کہہ رہا تھا۔
بھی زکام کی وجہ سے نڈھال ہے، ورنہ ضرور آتی ۔۔۔۔۔۔ آپ جانتے ہی ہیں پینٹنگز سے اسے کتنی وی پی ہے اب تو وہ بہت اچھی تصویریں بنا لیتی ہے پرسوں اس نے پنسل کانڈ لے کر اپنے چھوٹے بھائی کی سائیکل کی تصویر اتاری۔ میں تو دنگ رہ گیا "
ہو جیو سائیکل معلوم ہوتی ہوگی دونوں دوست بھو نچلے ہو کر رہ گئے کہ یہ کون بد تمیز ہے چنانچہ ان میں سے ایک
نے نعیم سے پوچھا۔
آپ کون ہیں ؟
نعیم بو کھلا گیا
177
میں میں کیا کرتے ہو۔۔۔۔ بتاؤ تم کون ہو نعیم نے منجل کر کیا
آپ ذرا آرام سے پوچھئے۔ نعیم کا جواب بڑا مختصر تھا میں آپ کو بتا سکتا ہوں" بغیر اجازت تم اندر چلے آئے جاؤ بھاگ جاؤ یہاں سے نعیم ایک تصویر کو دیکھ کر دیر تک دیکھنا چا ہتا تھا مگر اسے بادل نخواستہ وہاں سے نا پر ۔۔۔۔ سیدھا اپنے گھر گیا دروازے پر دستک دی اس کا نو کر فضول با ہر نکالا نعیم نے اس سے درخواست کی۔ "کیا میں اندر آ سکتا ہوں"
تم یہاں آئے کیسے ؟
جی پیدل
عورتیں اور مرو جو آس پاس کھڑے تصویریں دیکھنے کی بجائے خدا معلوم کن کن چیزوں پر تبصرہ کر رہے تھے ہنسنا شروع کر دیا۔۔۔ اتنے میں اس نمائش کا ناظم آیا اس کو جب نعیم کی گستاخی کے متعلق بتایا گیا تو اس نے بڑے کڑے انداز
میں اس سے پوچھا
تمہارے پاس کارڈ ہے"
نعیم نے بڑے بھولے پن سے جواب دیا
کارڈ کیسا کارڈ پوسٹ کارڈ ناظم نے اپنا لہجہ اور اگر اگر کے نعیم سے کہا
178
فضلو بوکھلا گیا ۔۔۔ الحضور حضور ۔ یہ آپ کا اپنا گھر ہے، اجازتی کیسی ؟
نعیم نے اس سے کہا نہیں فضلو ۔۔۔۔۔یہ میرا گھر نہیں ۔۔۔۔۔ یہ گھر جو مجھے راحت بخشتا ہے کیسے میرا ہو سکتا ہے۔۔۔ مجھے اب ایک نئی بات معلوم ہوئی ہے فضلو نے بڑے ادب سے پوچھا
"کیا سر کار؟ نعیم نے کہا
یہی کہ یہ میراگھر میرا نہیں ۔۔۔۔ البتہ اس کا گردو غبار ۔۔۔ اس کی تمام ناختیں میری ہیں ۔ وہ تمام چیزیں جن سے مجھے کوفت ہوتی ہے میری ہیں لیکن وہ تمام چیزیں جن سے مجھے راحت پہنچتی ہے کسی اور کی ۔۔۔۔۔ خدا جانے کس کی ۔۔۔۔۔ میں اب ڈرتا ہوں ۔ کسی اچھی چیز کو اپنانے سے خوف لگتا ہے یہ پانی میرا نہیں۔۔۔۔ یہ ہوا میری نہیں ۔۔۔۔ یہ آسمان میرا نہیں ۔۔۔۔وہ لحاف جو میں سردیوں میں اوڑھتا ہوں میرا نہیں ۔۔۔۔ اس لیے کہ میں اس سے راحت طلب کرتا تھا ۔" فضلو جاؤ ۔۔۔۔۔ تم بھی میرے نہیں نعیم نے فضلو کوکوئی بات کرنے نہ دی وہ چلا گیا رات کے دس بج چکے تھے
179
بیرامنڈی کے ایک کوٹھے سے پیا بن نا ہیں آوت چین کے بول باہر از از
کے آرہے تھے
نعیم اس کو ٹھے پر چلا گیا
اند رنجر اسننے والے تین چار مردوں کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ اور طوائف سے کہا
ان اصحاب کو کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا
طوائف مسکرائی
نہیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ ادھر مسند پر بیٹھئے ۔۔۔ گاؤ تکیہ لے
نعیم بیٹھ گیا ۔۔۔ اس نے کمرے کا جائزہ لیا اور اس طوائف سے کہا
یہ کتنی اچھی جگہ ہے
طوائف مجید و ہوگی
آپ کیا مذاق اڑانے آئے ہیں ۔۔۔۔ یہ اچھی جگہ ہے ۔۔۔۔۔۔ ہے تم
شر خاصہ میز یادہ گندی جگہ کہتے ہیں
نعیم نے اس سے کہا
یہ اچھی جگہ اس لیے ہے کہ یہاں بغیر اجازت کے آنا منع ہے کا بورڈ
آویزاں نہیں ہے ۔"
یہ سن کو طوائف اور اس کا حجر اسننے والے تماشبین بننے لگے
نعیم نے ایسا محسوس کیا کہ دنیا ایک اس قسم کی طوائف ہے جسے حجر اسننے کے لیے اس قسم کے چغد آتے ہیں۔
180