shabd-logo

بانجھ

2 December 2023

4 ڏسيل 4



میری اور اس کی ملاقات آج سے ٹھیک دو برس پہل اپولو بندر پر ہوئی شام کا وقت تھا سورج کی آخری کرنہیں سمندر کی ان دور دراز لہروں کے پیچھے غائب ہو چلی تھیں جو ساحل کے بینچ پر بیٹھ کر دیکھنے سے موٹے کپڑے کی تہیں معلوم ہوتی تھیں میں گیٹ آف انڈیا کے اس طرف پہلا نیچے چھوڑ کر جس پر ایک آدمی تیپی والے سے اپنے سر کی مالش کرا رہا تھا دوسرے بینچ پر بیجا تھا اور حد نظر پھیلے ہوئے سمندر کو دیکھ رہا تھا دور بہت دور، جہاں سمندر اور آسمان حل مل رہے تھے۔ بڑی بڑی لہریں آہستہ آہستہ اٹھ رہی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک بہت بڑا گدلے رنگ کا قالین ہے، جسے ادھر سے ادھر سمینا جا رہا ہے۔ ساحل کے سب مجھے روشن تھے۔ جن کا عکس کنارے کے لرزاں پانی پر کپکپاتی ہوئی موٹی موٹی لکیروں کی صورت میں جگہ جگہ رینگ رہا تھا۔ میرے پاس پتھر یلی دیوار کے نیچے کئی کشتیوں کے لیئے ہوئے بادبان اور بانس ہولے ہوئے حرکت کر رہے تھے سمندر کی لہروں اور تماشائیوں کی آواز ایک گنگناہٹ بن کر فضا میں کھلی ہوئی تھی بھی بھی کسی آنے یا جانے والی موٹر کے بارن کی آواز بلند ہوتی اور یوں معلوم ہوتا کہ بڑی دلچسپ کہانی سننے کے دوران میں کسی نے زور سے ہوں“ کی
ایسے ماحول میں سگریٹ پینے کا بہت مزہ آتا ہے میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سگریٹ کی ڈبیا نکالی مگر ماچس نہ ملی جانے کہاں بھول آیا تھا سگریٹ کی ڈبیا

117




واپس جیب میں رکھنے ہی والا تھا کہ پاس سے کسی نے کہا
ماں جیے گا میں نے مڑ کر دیکھانے کے پیچھے ایک نوجوان کھڑا تھا یوں تو بمبی کے عام باشندوں کا رنگ زرد ہوت اہے لیکن اس کا چہرہ خوفناک طور پر زرد تھا میں نے اس کا شکریہ ادا کیا " آپ کی بڑی عنایت ہے" سن کر اس نے ماچس کی ڈبیا جو اس کے ہاتھ ہی میں تھی میری طرف بڑھادی میں نے پھر شکریہ ادا کیا اور کہا تشریف رکھیے اس نے جواب دیا " آپ سگریٹ سلگا لیجئے ، مجھے جانا ہے مجھے ایسا معلوم ہوا کہ اس نے جھوٹ بولا ہے کیونکہ اس کے لیجے سے اس بات کا پتہ چلتا تھا کہ اسے کوئی جلدی نہیں ہے اور نہ اسے کہیں جاتا ہے آپ کہیں گئے کہ لیجے سے ایسی باتوں کا پتہ کیسے چل سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس وقت ایسا ہی محسوس ہوا چنانچہ میں نے ایک بار پھر کیا ایسی جلدی کیا ہے۔۔۔ تشریف رکھیے اور یہ کہ کر میں نے سگریٹ کی ڈبیا اس کی طرف بڑھنا اپنا بر اللہ پیا کرتا ہوں"
دی شوق فرمائیے" اس نے سگریٹ کے چھاپ کی طرف دیکھا اور جواب دیا شکریہ میں صرف
آپ مانیں نہ مانیں مگر میں قسمیہ کرتا ہوں کہ اس بار اس نے پھر جھوٹ بولا اس مرتبہ پھر اس کے لہجے نے چغلی کھائی اور مجھے اس سے دی پی پیدا ہو گئی اس لیے کہ میں نے اپنے دل میں قصد کر لیا تھا کہ اسے ضرور اپنے پاس بٹھاؤں گا اور اپنا

118




سگریٹ پلواؤں گا میرے خیال کے مطابق اس میں مشکل کی کوئی بات ہی نہ تھی کیونکہ اس کے دو جملوں ہی نے مجھے بتا دیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو دھوکا دے رہا ہے اس کا جی چاہتا ہے کہ میرے پاس بیٹھے اور سگریٹ پے لیکن بیک وقت اس کے دل میں یہ خیال بھی پیدا ہوتا ہے کہ میرے پاس نہ بیٹھے اور میر اسگریٹ نہ بنے چنانچہ ہاں اور نہ کا یہ تصادم اس کے لہجے میں صاف طور پر مجھے نظر آیا تھا آپ یقین جائے کہ اس کا وجو د بھی ہونے اور نہ ہونے کے بیج میں انکا ہوا تھا۔ اس کا چہرو جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں بے حد پتلا تھا اس پر اس کی ناک آنکھوں اور منہ کے خطوط اس قدر رند ھم تھے جیسے کسی نے تصویر بنائی ہے اور اس کو پانی سے دھو ڈالا ہے کبھی کبھی اس کی طرف دیکھتے دیکھتے اس کے ہونٹ انجیر سے آتے لیکن پھر راکھ میں لیٹی ہوئی چنگاڑی کی مانند ہو جاتے۔ اس کے چہرے کے دوسرے خطوط کا بھی یہی حال تھا آنکھیں گدلے پانی کی دو بڑی برای بوندیں تھیں جن پر اس کی چھدری پلکیں جھکی ہوئی تھیں بال کالے تھے مگر ان کی سیاسی جلے ہوئے کائنڈ کی مانند تھی جن میں بھو سلا پن بھی ہوتا ہے قریب سے دیکھنے پر اس کی ناک کا صیح نہ معلوم ہو سکتا تھا مگر دور سے دیکھنے پر وہ بالکل چینی معلوم ہوتی تھی کیونکہ جیسا کہ میں اس سے پیشتر بیان کر چکا ہوں اس کے چہرے کے خطوط با کل ہی مرحم تھے۔
اس کا قد عام لوگوں جتنا تھا یعنی نہ چھونا نہ بڑا البتہ جب وہ ایک خاص انداز سے یعنی اپنی کمی کی بدی کو ڈھیلا چھوڑ کے کھڑا ہوتا تو اس کے قد میں نمایاں فرق پیدا ہو جاتا اس طرح جب وہ ایک دم کھڑا ہوتا تو اس کا قد جسم کے مقابلے میں

119



بہت بڑا دکھائی دیتا۔
کپڑے اس کے خستہ حالت میں تھے لیکن میلے نہیں تھے کوٹ کی آستیوں کے آخری جسے کثرت استعمال کے باعث گھس گئے تھے اور پھوڑے نکل آئے تھے کالہ کھلا تھا اور قمیص بس ایک اور دھلائی کی مار تھی مگر ان کپڑوں میں بھی وہ خود کو ایک باوقار انداز میں پیش کرنے کی سعی کر رہا تھا میں نے سبھی کر رہا تھا اس لیے کہا کیونکہ جب میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس کے سارے وجود میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی اور مجھے ایسا معلوم ہوا تھا کہ وہ اپنے آپ کو میری نگاہوں سے اوجھل رکھنا
چاہتا ہے۔ میں اٹھ کھڑا ہوا اور سگریٹ ساگا کر اس کی طرف پھر ڈبیا بڑھا دی شوق
فرمائیے یہ میں نے کچھ اس طریقے سے کیا اور فورا ہی ماچس ساگا کر اس انداز سے پیش کی کہ وہ سب کچھ بھول گیا۔ اس نے ڈبیا میں سے سگریٹ نکال کر منہ میں دبا لیا اور اسے ساگا کر پینا بھی شروع کر دیا لیکن ایکا ایکی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور منہ میں سے سگریٹ نکال کر مصنوعی کھانسی کے آثار حلق میں پیدا کرتے ہوئے اس نے کہا " کیونڈ ر مجھے راس نہیں آتے ان کا تم با کو بہت تیز ہے میرے گلے میں
فورا خراشیں پیدا ہو جاتی ہیں" ستان نے اس سے پوچھا " آپ کون سے سگریٹ پسند کرتے ہیں ؟ اس نے تلا کر جواب دیا " میں ۔۔۔ میں۔۔۔ میں در اصل سگریٹ بہت کم پیتا ہوں کیونکہ ڈاکٹر ار منکر نے منع کر رکھا ہے ، لیسے میں تھری فائیو پیتا ہوں جن کا

120




تمہا کو تیز نہیں ہوتا ۔ اس نے جس ڈاکٹر کا نام لیا وہ بمبئی کا بہت بڑا ڈاکٹر ہے اس کی فیس دی روپے ہے جن سگریوں کا اس نے حوالہ دیا ان کے متعلق آپ کو بھی معلوم ہوگا کہ بہت مہنگے داموں پر ملتے ہیں اس نے ایک ہی سانس میں دو جھوٹ بولے جو مجھے ہضم نہ ہوئے مگر میں خاموش رہا حالانکہ بیچ عرض کرتا ہوں اس وقت میرے دل میں یہی خواہش چنگیاں لے رہی تھی کہ اس کا خلاف اتا رہوں اور اس کی دروغ گوئی کو بے نقاب کر دوں اور اسے کچھ اس طرح شرمندہ کروں کہ وہ مجھ سے معافی مانے مگر میں نے جب اس کی طرف دیکھا تو اس فیصلے پر پہنچا کہ اس نے جو کچھ کہا ہے اس کا جز بن کر رہ گیا ہے جھوٹ بول کر چہرے پر جو ایک سرخی سی دوڑ جایا کرتی ہے مجھے نظر نہ آئی بلکہ میں نے دیکھا کہ وہ جو کچھ کہہ چکا ہے اس کو حقیقت سمجھتا ہے اس کے جھوٹ میں اس قدر اخلاص تھا یعنی اس نے اتنے پر خلوص طریقے پر مجھوٹ بولا تھا کہ اس کی میزان احساس میں ہلکی سی جنبش بھی پیدا نہیں ہوئی تھی خیر اس قصے کو چھوڑ نے ایسی باریکیاں میں آپ کو بتانے لگوں تو صفحوں کے صفحے کالے ہو جائیں گے اور افسانہ بہت خشک ہو جائے گا۔ تھوڑی سی رسمی گفتگو کے بعد میں نے اس کا راہ پر لگا لیا اور ایک اور سگریٹ پیش کر کے سمندر کے دلفریب منظر کی بات چھیٹر دی چونکہ افسانہ نگار ہوں اس لیے کچھ اس دلچسپ طریقے پر اسے سمندر، اپولو بندر اور وہاں آنے جانے والے تماشائیوں کے بارے میں چند باتیں سنائیں کہ چھ سگریٹ پینے پر بھی اس کے حلق میں خرخراہٹ پیدا نہ ہوئی اس نے میرا نام پوچھا میں نے بتایا تو وہ اٹھ کھڑا

121



ہوا اور کہنے لگا
آپ مسٹر ہیں۔ میں آپ کے کئی
افسانے پڑھ چکا ہوں مجھے ۔۔۔۔۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ
ہیں۔۔۔۔ ہیں۔۔۔۔ مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی واللہ بہت خوشی ہوئی میں نے اس کا شکر یہ ادا کرنا چاہا مگر اس نے اپنی بات شروع کردی ہاں خوب یاد آیا ابھی حال ہی میں آپ کا ایک افسانہ میں نے پڑھا ہے۔۔۔۔ عنوان بھول گیا ہوں۔۔۔۔ اس میں آپ نے ایک لڑکی پیش کی ہے جو کسی مرد سے محبت کرتی تھی مگر وہ اسے دھوکا دے گیا اسی لڑکی سے ایک اور مر د بھی محبت کرتا تھا جو افسانہ سناتا ہے جب اس کواڑ کی کی افتاد کا پتہ چلتا ہے تو وہ اس سے ملتا ہے اور اس سے کہتا ہے زندہ رہو ۔۔۔ ان چند گھریوں کی یاد میں اپنی زندگی کی بنیادیں کھڑی کرو جو تم نے اس کی محبت میں گزاری ہیں اس مسرت کی یاد میں جو تم نے چند لمحات کے لیے حاصل کی تھی مجھے اصل عبارت یا دن نہیں رہی لیکن مجھے بتائیے کیا ایسا ممکن ممکن کو چھوڑ نے آپ کے آپ یہ بتائیے کہ وہ آدمی کیا آپ تو نہیں تھے۔۔۔۔ معاف کیجئے گا میں ایسے سوال کر رہا ہوں جو مجھے نہیں کرتے چاہئیں ۔۔۔۔۔ مگر کیا آپ ہی نے اس سے کو تھے پر ملاقات کی تھی اور اس کی تھی ہوئی جوانی کو او لھتی ہوئی چاندنی میں چھوڑ کر نیچے اپنے کمرے میں ہونے کے لیے چلے آئے تھے ۔۔ ۔ یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم مظہر گیا مگر مجھے ایسے باتیں نہیں پوچھنی چاہئیں ۔۔۔۔۔ اپنے دل کا حال کون بتاتا ہے۔ ہے۔ اس پر میں نے کیا میں آپ کو بتاؤں گا ۔۔۔۔ لیکن پہلی ملاقات میں سب

122




کچھ پوچھ لینا اور سب کچھ بتانا اچھا معلوم نہیں ہوتا آپ کا کیا خیال ہے؟ وہ
جوش جو گفتگو کرتے وقت اس کے اندر پیدا ہو گیا تھا ایک دم ٹھنڈ اپنے گیا اس نے
ایسے لہجے میں کہا آپ کا فر مانا با الکل درست ہے مگر کیا پتہ ہے کہ آپ سے پھر
کبھی ملاقات نہ ہو اس پر میں نے کیا اس میں شک نہیں بمبئی بہت بڑا شہر ہے لیکن ہماری ایک نہیں ، بہت سی ملاقاتیں ہو سکتی ہیں بیکار آدمی ہوں یعنی افسانہ نگار ۔۔۔۔ شام کو ہر روز ہی وقت بشر طیکہ بیمار نہ ہو جاؤں آپ مجھے ہمیشہ اسی جگہ پر پائیں کے۔۔۔۔ یہاں بے شمار لڑکیاں سیر کو آتی ہیں اور میں اس لیے آتا ہوں کہ خود کو کسی کی محبت میں گرفتار کر سکوں ۔۔۔۔ محبت بری چیز نہیں ہے۔“ محبت محبت اس نے اس سے آگے کچھ کہنا چاہا مگر نہ کہہ سکا اور جلتی ہوئی رسی کی طرح آخری بل کھا کر خاموش ہو گیا۔ میں نے از راہ مذاق اس سے محبت کا ذکر کیا تھا دراصل اس وقت فضا ایسی د قریب تھی کہ اگر میں کسی عورت پر عاشق ہو جاتا تو مجھے افسوس نہ ہوتا ۔ جب دونوں وقت آپس میں مل رہے ہوں نیم تاریکی میں بجلی کے تم تھے قطار کے اندر آنکھیں جھپکنا شروع کر دیں ہوا میں خنکی پیدا ہو جائے اور فضا پر ایک افسانوی کیفیت کی چھا جائے تو کسی اجنبی عورت کے قربت کی ضرورت محسوس ہوا کرتی ہے ایک ایسی ضرورت جس کا احساس تحت شعوری میں چھپا رہتا ہے۔ خدا معلوم اس نے کسی افسانے کے متعلق مجھ سے پوچھا تھا مجھے اپنے سب افسانے یاد نہیں اور خاص طور پر وہ تو بالکل یاد نہیں جو رومانی ہیں میں اپنی زندگی میں

123



بہت کم عورتوں سے ملا ہوں وہ افسانے جو میں نے عورتوں کے متعلق لکھتے ہیں یا تو کسی خاص ضرورت کے ماتحت لکھتے ہیں یا محض دمانی عیاشی کے لیے میرے ایسے افسانوں میں چونکہ خلوص نہیں ہے اس لیے میں نے کبھی ان کے متعلق تصور نہیں کیا ایک خاص سبقے کی عورتیں میری نظر سے گزری ہیں اور ان کے متعلق ہیں میں نے چند افسانے لکھے ہیں مگر و درو مان نہیں ہیں اس نے جس افسانے کا ذکر کیا تھا وہ ایقینا کوئی ادنی درجے کا رومان تھا جو میں نے اپنے چند جذبات کی پیاس بجھانے کے لیے لکھا ہو گا ۔۔۔۔۔ لیکن میں نے تو اپنا افسانہ بیان کرنا شروع کر دیا ۔ ہاں تو جب وہ محبت کہہ کر خاموش ہو گیا تو میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ محبت کے بارے میں کچھ اور کہوں چنانچہ میں نے کہنا شروع کیا، محبت کی یوں تو بہت سی قسمیں ہمارے باپ دادا بیان کر گئے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں کہ محبت خواد مامتان میں پیدا ہو یا سائبیریا کے بیچ بستی میدانوں میں ہر دیوں میں پیدا ہو میا گرمیوں میں، امیر کے دل میں پیدا ہو یا غریب کے دل میں ۔۔۔۔ محبت خوب صورت کریں یا بد صورت ، بد کردار کرے یا نیلو کار محبت محبت ہی ریقی ہے اس میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا ۔ جس طرح س طرح بچے پیدا ہونے کی صورت ہمیشہ ایک سی چلی آرہی ہے اسی طرح محبت کی پیدائش بھی ایک ہی طریقے پر ہوتی ہے یہ جدا بات ہے کہ سعیدہ بیگم ہسپتال میں بچہ جنے اور راجکماری جنگل میں تمام محمد کے دل میں جنگن محبت پیدا کر دے اور انور لال کے دل میں کوئی رانی جس طرح بعض بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور کمزور رہتے ہیں اسی طرح محبت بھی کمزور رفاقی ہے جو وقت سے پہلے جنم لے بعض دفعہ بچے بڑی تکلیف سے پیدا ہوتے ہیں

124




بعض دفعہ محبت بھی بڑی تکلیف دے کر پیدا ہوتی ہے جس طرح عورت کا حمل گر جاتا ہے اسی طرح محبت بھی کر جاتی ہے بعض دفعہ بانجھ پن پیدا ہو جاتا ہے، ادھر بھی آپ کو ایسے آدمی نظر آئیں گے جو محبت کرنے کے معاملے میں بانچھ ہیں ۔۔۔۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ محبت کرنے کی خواہش ان کے دل سے ہمیشہ کے لیے مٹ جاتی ہے یا ان کے اندر وہ جذ بہ ہی نہیں رہتا نہیں، یہ خواہش ان کے دل میں موجود ہوتی ہے مگر وہ اس قابل نہیں رہتے کہ محبت کر سکیں جس طرح عورت اپنے جسمانی نقائکس کے باعث بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی اسی طرح یہ لوگ چند روحانی نقائکس کی وجہ سے کسی کے دل میں محبت پیدا کرنے کی قوت نہیں رکھتے ۔۔ محبت کا اسقاط بھی ہو سکتا ہے۔ مجھے اپنی گفتگو دلچسپ معلوم ہو رہی تھی چنانچہ میں اس کی طرف دیکھے بغیر لکچر دیئے چلا جا رہا تھا لیکن جب میں اس کی طرف متوجہ ہوا تو وہ دور سمندر کے اس پار خلا میں دیکھ رہا تھا اور اپنے خیالات میں کم تھا میں خاموش ہو گیا ۔ جب زور سے کسی موٹر کا ہارن بجاتو و و چوڑیا اور خالی اند بین ہو کر کہنے لگا جی ۔۔۔۔۔۔ آپ نے بالکل درست فرمایا ہے ! میرے جی میں آئی کہ اس سے پوچھوں۔۔۔۔" درست فرمایا ہے؟۔۔۔۔۔ اس کو چھوڑ ہے آپ یہ بتائیے کہ میں نے کہا کیا ہے ؟ لیکن میں خاموش رہا اور اس کو موقع دیا کہ اپنے وزنی خیالات دماغ سے جھٹک دے وہ کچھ دیر سوچتا رہا اس کے بعد اس نے پھر کیا آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا ہے لیکن ۔۔۔۔۔ خیر چھوڑ ہے اس قصے کو

125




مجھے اپنی گفتگو بہت اچھی معلوم ہوئی تھی میں چاہتا تھا کہ کوئی میری باتیں سنتا
پا جائے۔ چنانچہ میں نے پھر سے کہنا شروع کیا تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ بعض آدمی بھی محبت کے معاملے میں بانجھ ہوتے ہیں یعنی ان کے دل میں محبت کرنے کی خواہش تو موجود ہوتی ہے لیکن ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوتی میں سمجھتا ہوں کہ اس بانجھ پن کا باعث رو حانی نقائص میں آپ کا کیا خیال ہے ؟؟؟ اس کا رنگ اور بھی زرد پڑ گیا جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو یہ تبدیلی اس کے اندر اتنی جلدی پیدا ہوئی کہ میں نے گھبرا کر اس سے پوچھا " خیریت تو ہے۔۔۔۔ آپ بیمار ہیں نہیں تو نہیں تو اس کی پریشانی اور بھی زیادہ ہوگئی ۔ مجھے کوئی بیماری و بیماری نہیں ہے۔۔۔ لیکن آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں پیار
ہوں میں نے جواب دیا " اس وقت آپ کو جو کوئی بھی دیکھے گا یہی کہے گا کہ آپ بہت بیمار ہیں آپ کا رنگ خوفناک طور پر زرد ہو رہا ہے ۔۔۔۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو کھر چلے جانا چاہیے آئیے میں آپ کو چھوڑ آؤں۔ نہیں میں خود چلا جاؤں گا مگر میں بیمار نہیں ہوں ۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی میرے دل میں معمولی ساورد پیدا ہو جایا کرتا ہے۔ شاید وہی ہو۔۔۔۔۔ میں ابھی ٹھیک ہو جاؤں گا۔ آپ اپنی گفتگو جاری رکھے ۔“ میں تھوڑی دیر خاموش رہا کیونکہ وہ ایسی حالت میں نہیں تھا کہ میری بات غور سے سن سکتا۔ لیکن جب اس نے اصرار کیا تو میں نے کہنا شروع کیا میں آپ سے

126



یہ کیا کچھ رہا تھا کہ ان لوگوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جو محبت کرنے کے معاملے میں بانجھ ہوتے ہیں۔۔۔ میں ایسے آدمیوں کے جذبات اور ان کی اندرونی کیفیات کا اندازہ نہیں کر سکتا لیکن جب میں اس بانجھ عورت کا تصور کرتا ہوں جو صرف ایک بیٹی یا بیٹا حاصل کرنے کے لیے دعائیں مانگتی ہے خدا کے حضور میں گڑ گڑاتی ہے۔ اور جب وہاں سے کچھ نہیں مانا ٹونے ٹوٹکوں میں اپنا گوہر مقصود ڈھونڈتی ہے۔ شمشانوں سے راکھ لاتی ہے کئی کئی راتیں جاگ کر سادھوؤں کے بتائے ہوئے منتر یا حتی ہے نہیں مانتی ہے۔ چڑھاوے چڑھاتی ہے تو میں خیال کرتا ہوں کہ اس آدمی کی بھی یہی حالت ہوتی ہو گی جو محبت کے معاملے میں بانجھ ہو۔۔۔۔۔ ایسے لوگ واقعی ہمدردی کے قابل ہیں مجھے اندھوں پر اتنا رحم نہیں آتا ۔ جتنا ان لوگوں پر آتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ تھوک نگل کر دفعتا اٹھ کھڑا ہو اور پر لی طرف منہ کر کے کہنے لگا " اوہ، بہت دیر ہو گئی مجھے ضروری کام کے لیے جاتا تھا یہاں باتوں باتوں میں کتنا وقت گزر گیا ۔" میں بھی اٹھ کھڑا ہوا وہ پلٹنا اور میرا ہاتھ دبا کر لیکن میری طرف دیکھے بغیر اس نے اب رخصت چاہتا ہوں کیا اور چل دیا۔ دوسری مرتبہ اس سے میری ملاقات پھر ابو لو بندری پر ہوئی ۔ میں سیر کا مادی نہیں ہوں مگر اس زمانے میں ہر شام اپولو بندر جانا میرا دستور ہو گیا تھا ایک مہینے کے بعد جب مجھے آگرہ کے ایک شاعر نے ایک لمبا چوڑا محط لکھا جس میں اس نے نہایت ہی تو ایسا نہ طور پر اپولو بندر اور وہاں جمع ہونے ولای پریوں کا ذکر کیا اور

127



مجھے اس لحاظ سے بہت خوش قسمت کہا کہ میں بھی میں ہوں تو اپولو بندر سے میری دلچسپی ہمیشہ کے لیے فنا ہوگئی اب جب کبھی کوئی مجھے اپو او بندر جانے کو کہتا ہے تو مجھے آگرے کے شاعر کا مخط یاد آ جاتا ہے اور میر کی طبیعت متالا جاتی ہے لیکن میں اس زمانے کا ذکر کر رہا ہوں جب یہ خط مجھے نہیں ملا تھا اور میں ہر روز جا کر شام کو اپولو بندر کے اس بنچ پر بیٹھا کرتا تھا جس کے اس طرف کئی آدمی چوپی والوں سے اپنی کو چڑیوں کی مرمت کراتے رہتے ہیں۔ دن پوری طرح ڈھل چکا تھا او را جانے کا کوئی نشان باقی رہا تھا اکتوبر کی گرمی میں کمی واقع نہیں ہوئی تھی ہوا چل رہی تھی ۔۔۔۔۔ تھکے ہوئے مسافر کی طرح، سیر کرنے والوں کا ہجوم زیادہ تھا میرے پیچھے موٹریں ہی موٹیں کھڑی تھیں ۔ پنچ بھی سب کے سب پر تھے جہاں بیٹھتا تھا۔ وہاں وہ باتونی ، ایک گجراتی اور ایک پاری نہ جانے کب کے جھے ہوئے تھے دونوں گجراتی بولتے تھے مگر مختاف لب ولہجہ سے پاری کی آواز میں دوسر تھے وہ کبھی بار یک سر میں بات کرتا تھا بھی ہولے سر میں جب دونوں تیزی سے بولنا شروع کر دیتے تو ایسا معلوم ہوتا جیسے طوطے مینا کی لڑائی ہو رہی ہے۔ میں ان کی لا متناہی گفتگو سے تنگ آ کر اٹھا اور ٹہلنے کی خاطر تاج محل ہوٹل کا رخ کرتے ہی لگا تھا کہ سامنے سے مجھے وہ آتا دکھائی دیا۔ مجھے اس کا نام معلوم نہیں تھا اس لیے میں اسے پکارنہ سکا لیکن جب اس نے مجھے دیکھا تو اس کی نگاہیں ساکن ہو گئیں، جیسے سے وہ چیز مل گئی ہو جس کی اسے تلاش تھی۔ کوئی بیچ خالی نہیں تھا اس لیے میں نے اس سے کہا " آپ سے بہت دیر کے

128




بعد ملاقات ہوئی ۔۔۔۔۔ چلیے سامنے ریستوران میں بیٹھتے ہیں یہاں کوئی پیچ خالی نہیں ۔
اس نے رسمی طور پر چند باتیں کیں اور ساتھ ہولیا چند گڑوں کا فاصلہ طے کرنے پر ہم دونوں ریستوران میں پید کی بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے چائے کا آرڈر دے رک میں نے اس کی طرف سگریوں کا مین بڑھا دیا۔ اتفاق کی بات ہے میں نے اسی روز ہی روپے دے کر ڈاکٹر ارو فکر سے مشورہ لیا تھا اور اسنے مجھے سے کہا تھا کہ اول تو سگریٹ پیاری موقوف کردو او را گر تم ایسا نہیں کر سکتے تو اچھے سگریٹ پیا کرو مثال کے طور پر پانچ سو پچپن ۔۔۔۔ چنانچہ میں نے ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق یہ عین اسی شام خریدا تھا، اس نے ڈبے کی طرف نحور سے دیکھا۔ پھر میری طرف نکا میں اٹھا ئیں کچھ کہنا چاہا مگر خاموش ہو گیا ۔ میں نہیں پڑا آپ یہ نہ سمجھئے گا کہ میں نے آپ کے کہنے پر یہ سگریٹ پینا شروع کیے ہیں ۔۔۔۔۔ اتفاق کی بات ہے کہ آج مجھے بھی ڈاکٹر ار ملکر کے پاس جانا پڑا کیونکہ کچھ دنوں سے میرے سینے میں درد ہو رہا ہے چنانچہ اس نے مجھ سے کہا کہ یہ سگریٹ پیا کرو لیکن بہت کم ۔۔۔۔ میں نے یہ کہتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور محسوس کیا کہ اس کو میری یہ باتیں نا گوار معلوم ہوئی ہیں چنانچہ میں نے فورا اپنی جیب سے مو ونسخہ نکالا جو ڈاکٹر اروالکر نے مجھے لکھ کر دیا تھا۔ یہ کاغذ میز پر میں نے اس کے سامنے رکھ دیا " یہ عبارت مجھ سے پڑھی تو نہیں جاتی مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے و نائن کا سارا خاندان اس نسخے میں جمع کر دیا ہے ۔

129



اس کاغذ کو جس پر ابھرے ہوئے کالے حروف میں ڈاکٹر ارہ لکر کا نام اور پتہ
مندرج تھا اور تاریخ بھی لکھی ہوئی تھی۔ اس نے چور نگاہوں سے دیکھا اور وہ
انظر اب جو اس کے چہرے پر پیدا ہو گیا تھا فور اوور ہو گیا چنانچہ اس نے مسکرا کر کہا کیا وجہ ہے کہ اکثر لکھنے والوں کے اندرون منہ ختم ہو جاتی ہیں ؟ میں نے جواب دیا " اس لیے کہ انہیں کھانے کو کافی نہیں ملانا کام زیادہ کرتے ہیں لیکن اجرت بہت ہی کم ملتی ہے" اس کے بعد چائے آگئی اور دوسری باتیں شروع ہو گئیں پہلی ملاقات اور اس ملاقات میں نائبا ڈھائی مہینے کا فاصلہ تھا۔ اس کے چہرے کا رنگ پہلے سے زیادہ پیلا تھا۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پیدا ہو ر ہے تھے اسے نالبا کوئی روحانی تکلیف تھی جس کا احساس اسے ہر وقت رہتا تھا ۔ کیونکہ باتیں کرتے کرتے وہ بعض اوقات تخبر جاتا اور اس کے ہونٹوں سے غیر ارادی طور پر آہ نکل جاتی ۔ اگر مہینے کی کوشش بھی کرتا تو اس کے ہونٹوں میں زندگی پیدا نہیں ہوتی تھی۔ میں نے یہ کیفیت دیکھ کر اس سے اچانک طور پر پوچھا آپ اداس کیوں
اداس ۔۔۔۔۔ اداس “ ایک پھیکی سی مسکراہٹ جو ان مرنے والوں کے لیوں پر پیدا ہوا کرتی ہے جو ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ وہ موت سے خائف نہیں اس کے ہونٹوں پر پھیل " میں اداس نہیں ہوں آپ کی طبیعت اداس ہو گی یہ کہہ کر اس نے ایک ہی گھونٹ میں چائے کی پیالی خالی کر دی اور اٹھ کھڑا ہوا

130



"اچھا تو میں اجازت چاہتا ہوں۔ ایک ضروری کام سے جانا ہے مجھے یقین تھا کہ اسے کسی ضروری کام سے نہیں جاتا ہے مگر میں نے اسے نہ روکا اور جانے دیا اس دفعہ پھر اس کا نام دریافت نہ کر سکا۔ لیکن اتنا پتہ چل گیا کہ وہ تونی اور روحانی طور پر بے حد پریشان تھا وہ اداس تھا بلکہ یوں کہیے کہ اداسی اس کے رگ و ریشہ میں سرایت کر چکی تھی مگر وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی اداسی کا دوسروں کو علم ہو ۔ و و دو زندگیاں بسر کرنا چاہتا تھا ایک وہ جو حقیقت تھی اور ایک وہ جس کی تخلیق میں وہ ہر گھڑی، ہر لمحہ مصروف رہتا تھا لیکن اس کی زندگی کے یہ دونوں پہلو نا کام تھے ۔ کیوں ؟ ۔۔۔۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ اس سے تیسری مرتبہ میری ملاقات پھر اپولو بندر پر ہوئی ۔ اس دفعہ میں اسے اپنے گھر لے گیا۔ راستے میں ہماری کوئی بات چیت نہیں ہوئی لیکن گھر پر اس کے ساتھ بہت سی باتیں ہوئیں۔ جب وہ میرے کمرے میں داخل ہوا تو اس کے چہرے پر چند لمحات کے لیے اداسی چھا گئی مگر وہ فوراہی سنبھل گیا اور اس نے اپنی عادت کے خلاف اپنے آپ کو بہت تروتازہ اور ہا تونی ظاہر کرنے کی کوشش کی اس کو اس حالت میں دیکھ کر مجھے اس پر اور بھی ترس آیا وہ ایک موت جیسی یقینی حقیقت کو جھٹلا رہا تھا اور مزہ یہ ہے کہ اس خود فر میں سے بھی بھی وہ مضمون بھی نظر آتا تھا۔ باتوں کے دوران میں اس کی نظر میرے میز پر پڑی۔ شیشے کے فریم میں اس کو ایک لڑکی کی تصویر نظر آئی اٹھ کر اس نے تصویر کی طرف جاتے ہوئے کہا " کیا میں آپ کی اجازت سے یہ تصویر دیکھ سکتا ہوں" میں نے کہا "بصد شوق !

131




اس نے تصویر کو ایک نظر دیکھا اور دیکھ کر کری پر بیٹھ گیا " اچھی خوبصورت لڑکی ہے۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی ۔۔۔۔
جی نہیں ۔۔۔۔ ایک زمانہ ہا اس سے محبت کرنے کا خیال میرے دل میں پیدا ہوا تھا بلکہ یوں کہیے کہ تھوڑی سی محبت میرے دل میں پیدا ہو بھی گئی تھی مگر افسوس ہے کہ اس کو اس کی خبر تک نہ ہوئی اور میں ۔۔۔۔ میں - نہیں بلکہ ریاہ دی گئی ۔۔۔ یہ تصویر میری پہلی محبت کی یادگار ہے جو اچھی طرح پیدا ہونے سے پہلے ہی مرگئی ۔
یہ آپ کی محبت کی یادگار ہے ۔۔۔۔ اس کے بعد تو آپ نے اور بہت سے ره مان بھی لڑائے ہوں گے اس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری" یعنی ۔۔۔۔ یعنی آپ کی زندگی میں تو کوئی ایسی نا مکمل اور مکمل تعبتیں موجود ہوں گی۔
میں کہنے ہی والا تھا کہ جی نہیں خاکسار بھی محبت کے معاملے میں آپ جیساہی منجر ہے مگر جانے کیوں، یہ کہتا کہتا رک گیا اور خواہ مخواہ جھوٹ بول دیا " جی ہاں ۔۔۔۔ ایسے سلسلے ہوتے ہی رہتے ہیں ۔۔۔ آپ کی کتاب زندگی بھی تو ایسے واقعات سے بھر پور ہوگی ۔
وہ کچھ نہ ہوا اور بالکل خاموش ہو گیا جیسے کسی گہرے سمندر میں غوطہ لگا گیا ہے۔ دیر تک جب وہ اپنے خیالات میں فرق رہا اور میں اس کی خاموشی سے اداس ہونے لگا تو میں نے کہا اچی حضرت ! آپ کن خیالات میں کھو گئے ؟" وہ چونک پڑا میں ۔۔۔ میں ۔۔۔۔ کچھ نہیں، میں ایسے ہی کچھ سوچ رہا تھا

132


میں نے پوچھا کوئی بہتی ہوئی کہانی یاد آ گئی ۔۔۔۔۔ کوئی بچھڑ ا ہوا سپنا مل گیا ۔۔۔ پرانے زخم ہرے ہو گئے"
رقم پرانے راقم کئی زخم تو نہیں ۔۔ صرف ایک ہی ہے بہت گہرا ، بہت کاری۔۔۔ اور زخم میں چاہتا بھی نہیں ایک ہی زخم کافی ہے یہ کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور میرے کمرے میں ٹہلنے کی کوشش کرنے لگا کیونکہ اس چھوٹی سی جگہ میں جہاں کرسیاں ، میز اور چارپائی سب کچھ پڑا تھا ٹہلنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ میز کے پاس اسے رکنا پڑا ۔ تصویر کو اب کی دفعہ گہری نظروں سے دیکھا اور کہا اس میں اور اس میں کتنی مشابہت ہے۔۔۔ مگر اس کے چہرے پر ایسی شوخی نہیں تھی اس کی آنکھیں برائی تھیں مگر ان آنکھوں کی طرح ان میں شرارت نہیں تھی وہ فکر مند آنکھیں تھیں ایسی آنکھیں جو دیکھتی بھی ہیں اور جھتی بھی ہیں یہ کہتے ہوئے اس نے ایک سرد آہ بھری اور کرسی پر بیٹھ گیا موت بالکل نا قابل فہم چیز ہے خاص طور پر اس وقت جبکہ یہ جوانی میں آئے ۔۔۔۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ خدا کے علاوہ ایک اور طاقت بھی ہے جو بڑی حامد ہے۔ جو کسی کو خوش دیکھنا نہیں چاہتی ۔۔۔ مگر چھوڑیئے اس قصے کو ۔ میں نے اس سے کہا " نہیں ۔۔ نہیں ۔ ۔ آپ سناتے جائیے ۔۔ لیکن اگر آپ ایسا مناسب سمجھیں ۔۔۔۔ کیچ پوچھئے تو میں یہ مجھ رہا تھا کہ آپ نے کبھی محبت کی ہی نہ ہوگی ۔
یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں نے کبھی محبت کی ہی نہیں اور ابھی ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ میری کتاب زندگی ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہوگی یہ کہہ

133



کر اس نے میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا " میں نے اگر محبت نہیں کی تو یہ دکھ میرے دل میں کہاں سے پیدا ہو گیا ہے؟ میں نے اگر محبت نہیں کی تو میری زندگی کو یہ روگ کہاں سے چمٹ گیا ہے ؟ میں اداس کیوں رہتا ہوں ۔۔۔۔ مجھے اپنے آپ کا ہوش کیوں نہیں ہے؟ میں روز بروز موم کی طرح کیوں لکھا جا رہا
ہوں ؟ سے پوچھ رہا تھا۔ میں نے کہا میں نے جھوٹ بولا تھا کہ آپ کی زندگی میں ایسے کئی واقعات ہوں گے مگر آپ نے بھی تو جھوٹ بولا تھا کہ میں اداس نہیں ہوں اور مجھے کوئی روگ نہیں ہے ۔۔۔ کسی کے دل کا حال جاننا آسان بات نہیں ہے۔ آپ کی اداسی کی اور بہت سی وجہیں ہو سکتی ہیں مگر جب تک مجھے آپ خود نہ بتائیں میں کسی نتیجے پر کیسے پہنچ سکتا ہوں ۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ واقعی روز بروز کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ کو یقینا بہت بڑا صدمہ پہنچا ہے اور اور ۔۔۔۔ مجھے آپ سے ہمدردی ہے ۔ ہمدردی ۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے مجھے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں اس لیے کہ ہمدردی اسے واپس نہیں لا سکتی ۔۔۔۔۔ اس عورت کو موت کی گہرائیوں سے نکال کر میرے حوالے نہیں کر سکتی جس سے مجھے پیار تھا ۔۔۔۔ آپ نے محبت نہیں کی۔۔۔ مجھے یقین ہے آپ نے محبت نہیں کی اس لیے کہ اس کی ناکامی نے آپ پر کوئی واقع نہیں چھوڑا ۔۔۔۔ میری طرف دیکھئے
انظاہر یہ تمام سوال وہ مجھ سے کر رہا تھا مگر دراصل وہ سب کچھ اپنے آپ ہی

134



یہ کہہ کر اس نے خود اپنے آپ کو دیکھا کوئی جگہ آپ کو ایسی نہیں ملے گی جہاں میری محبت کے نقش موجود نہ ہوں ۔۔۔ میر اوجود خود اس محبت کی ٹوٹی ہوئی عمارت کاملہ ہے ۔۔۔ میں آپ کو یہ داستان سے سناؤں اور کیوں سناؤں جبکہ آپ اسے سمجھ ہی نہیں سکیں گے۔۔ کسی کا یہ کہہ دینا کہ میری ماں مرگی ہے آپ کے دل پر ود اثر پیدا نہیں کر سکتا جو موت نے پینے پر کیا تھا ۔۔۔۔ میری داستان محبت آپ کو کسی کو بھی بلکل معمولی معلوم ہو گی مگر مجھ پر جو اثر ہوا ہے اس سے کوئی بھی آگاہ نہیں ہو سکتا اس لیے کہ محبت میں نے کی ہے اور سب کچھ صرف مجھی پر گزرا
ہے۔“ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا اس کے حلق میں تلی پیدا ہوگئی تھی کیونکہ دوبار بار تھوک نکلنے کی کوشش کر رہا تھا ۔ کیا وہ آپ کو دھوکا دے گئی میں نے اس سے پوچھا یا کچھ اور حالات
دھوکا ۔۔۔۔ وہ دھوکا دے ہی نہیں سکتی تھی ۔ خدا کے لیے جو کا نہ کہیے وہ عورت نہیں فردی تھی مگر پر اہو اس موت کو جو ہمیں خوش نہ دیکھ سکی اور اسے ہمیشہ کے لیے اپنے پروں میں سمیٹ کر لے گئی۔ آوا۔۔۔۔ آپ نے میرے دل پر خراشیں پیدا کر دی ہیں۔ سنیے۔ ہیے ۔۔۔ میں آپ کو اس دردناک داستان کا کچھ حصہ سناتا ہوں۔۔۔ وہ ایک بڑے اور امیر گھرانے کی لڑکی تھی جس زمانے میں اس کی اور میری پہلی ملاقات ہوئی۔ میں اپنے باپ دادا کی ساری جائیداد عیاشیوں میں برباد کر چکا تھا۔ میرے پاس ایک کوڑی بھی نہیں تھی ۔ اپنا

135



وطن چھوڑ کر میں لکھنو چلا آیا۔ اپنی موٹر چونکہ میرے پاس ہوا کرتی تھی اس لیے میں صرف موٹر چلانے کا کام جانتا تھا چنانچہ میں نے اس کو اپنا پیشہ قرار دینے کا فیصلہ کیا پہلی ملازمت مجھے ڈپٹی صاحب کے یہاں ملی ۔ جن کی وہ اکلوتی لڑکی تھی ۔۔۔ یہ کہتے کہتے وہ اپنے خیالات میں کھو گیا اور دانتا چپ ہو گیا۔ میں بھی خاموش رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ جھوٹ یا اور کہنے لگا " میں کیا کہہ رہا تھا ؟" آپ ڈپٹی صاحب کے یہاں ملازم ہو گئے ہاں ۔۔۔۔۔ وہ انہیں ڈپٹی صاحب کی اکلوتی بیٹی تھی ۔ ہر روز صبح نو بجے میں زہرہ کو موٹر میں سکول لے جایا کرتا تھاو و پر دو کرتی تھی مگر موٹر ڈرائیور سے کوئی کب تک چھپ سکتا ہے۔ میں نے اسے دوسرے روز ہی دیکھ لیا ۔۔۔۔ وہ صرف خوبصورت ہی نہیں تھی بلکہ اس میں ایک خاص بات بھی تھی۔ بڑی سنجیدہ اور متین لڑکی تھی اس کی سیدھی مانگ نے اس کے چہرے پر ایک خاص قسم کا وقار پیدا کر دیا تھاوہ۔ میں کیا عرض کروں وہ کیا تھی میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں اس کی صورت اور سیرت بیان کر سکوں ۔ بہت دیر تک وہ اپنی زمرہ کی خوبیاں بیان کرتا رہا اس دوران میں نے کئی مرتبہ اس کی تصویر کھینچنے کی کوشش کی مگر نا کام رہا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خیالات اس کے دماغ میں ضرورت سے زیادہ جمع ہو گئے ہیں۔ کبھی کبھی بات کرتے کرتے اس کا چر و تمتما اٹھتا لیکن پھر اداسی چھا جاتی اور وہ آہوں میں گفتگو کرنا شروع کر دیتا۔ وہ اپنی داستان بہت آہستہ آہستہ سنا رہا تھا جیسے خود بھی مزہ لے رہا ہو ۔ ایک ایک ٹکڑا جوڑ کر اس نے اپنی ساری کہانی پوری کی۔ جس کا ماحصل یہ تھا۔

136




زہرہ سے اسے بے پناہ محبت ہو گئی کچھ دن تو موقع پا کر اس کا دیدار کرنے اور طرح طرح کے منصوبے باند جنے میں گزر گئے۔ مگر جب اس نے سنجیدگی سے اس محبت پر غور کیا تو خود کو زہرہ سے بہت دور پایا ایک موٹر ڈرائیور اپنے آقا کی لڑکی سے محبت کیسے کر سکتا ہے؟ چنانچہ جب اس تلخ حقیقت کا احساس اس کے دل میں پیدا ہوا تو وہ مغموم رہنے لگا لیکن ایک روز اس نے بڑی جرات سے کام لیا کانڈ کے ایک پرزے پر اس نے زہرہ کو چند سطریں لکھیں ۔۔۔۔ یہ سطریں مجھے یاد ہیں۔
زہرہ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ میں تمہارا تو کر ہوں تمہارے والد صاحب مجھے تمیں روپے ماہوار دیتے ہیں مگر میں تم سے محبت کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ میں کیا کروں، کیا نہ کرو، میری سمجھ میں نہیں
یہ سطریں کائنڈ پر لکھ کر اس نے کاغذ اس کی ایک کتاب میں رکھ دیا دوسرے روز جب وہ اسے موٹر میں سکول لے گیا تو اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے ہینڈل کی بار اس کی گرفت سے نکل نکل گیا مگر خدا کا شکر ہے کہ کوئی ایکسیڈنٹ نہ ہوا۔ اس روز اس کی کیفیت عجیب رہی شام کو جب وہ زہرہ کو سکول سے واپس لا رہا تھا تو راستے میں اس لڑکی نے موٹر روکنے کے لیے کیا اس نے جب موٹر روک لی تو زہرہ نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہا دیکھو نعیم آئندہ تم ایسی حرکت کبھی نہ کرنا میں نے ابھی تک ابا جی سے تمہارے اس خط کا ذکر نہیں کیا جو تم نے میری کتاب میں رکھ دیا تھا لیکن اگر پھر تم نے ایسی حرکت کی تو مجبورا ان سے شکایت کرنا پڑے گی۔

137



بجھے ۔۔۔۔ چلو اب موٹر پالا ۔ اس گفتگو کے بعد اس نے بہت کوشش کی کہ اپنی صاحب کی نوکری چھوڑ دے اور زہرہ کی محبت کو اپنے دل سے ہمیشہ کے لیے منا دے مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا ایک مہینہ اسی شمکش میں گزر گیا۔ ایک روز اس نے پھر جرات سے کام لے کر جیل لکھا اور زہرہ کی ایک کتاب میں رکھ کر اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کرنے لگا اسے یقین تھا کہ دوسرے روز صبح کو اسے نوکری سے بر طرف کر دیا جائے گا مگر ایسا نہ ہوا شام کو سکول سے واپس آتے ہوئے زہرہ اس سے ہم کلام ہوئی اور ایک بار پھر اس کو ایسی حرکتوں سے باز رہنے کے لیے کہا " اگر تم میں اپنی عزت کا خیال نہیں تو کم از کم میری عزت کا تو کچھ خیال تھا میں ہونا چاہیے۔ یہ اس نے ایک بار پھر اسے کچھ اس سنجیدگی اور متانت سے کہا کہ نعیم کی ساری امید میں فنا ہو گئیں اور اس نے قصد کر لیا کہ وہ نوکری چھوڑ دے گا اور لکھنو سے ہمیشہ کے لیے چلا جائے گا مینے کے اخیر میں نوکری چھوڑنے سے پہلے اس نے اپنی کوٹھڑی میں لالٹین کی مدھم روشنی میں زہرہ کو آخری خط لکھا اس میں اس نے نہایت درد بھرے لہجے میں اس سے کیا زہر ہا میں نے بہت کوشش کی کہ میں تمہارے کہنے پر عمل کر سکوں مگر دل پر میرا اختیار میں ہے یہ میر آخری خط ہے، کل شام کو میں لکھنو چھوڑ دوں گا اس لیے تمہیں اپنے والد سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ تمہاری خاموشی میری قسمت کا فیصلہ کر دے گی مگر یہ خیال نہ کرنا کہ تم سے دور رہ کر تم سے محبت نہیں کروں گا میں جہاں کہیں بھی رہوں گا میر اول تمہارے قدموں میں رہے گا میں ہمیشہ ان دنوں کو یاد کرتا رہوں گا جب میں موٹر اس لیے آہستہ آہستہ چلاتا تھا کہ تم ہمیں دھکا نہ

138



لگے۔۔۔۔ میں اس کے سوا اور تمہارے لیے کر ہی کیا سکتا تھا۔ یہ خط بھی اس نے موقع پاکر اس کی کتاب میں رکھ دیا صبح کو زہرہ نے سکول جاتے ہوئے اس سے کوئی بات نہ کی اور شام کو بھی راستے میں اس نے کچھ نہ کہا چنانچہ وہ باکل نا امید ہو کر اپنی کوٹھری میں چلا آیا جو تھوڑا بہت اسباب اس کے پاس تھا باندھ کر اس نے ایک طرف رکھ دیا اور انین کی اندھی روشنی میں چار پائی پر بیٹھ کر سوچنے لگا کہ زہرہ اور اس کے درمیان کتنابز افاصلہ ہے۔ وہ بے حد مغموم تھا اپنی پوزیشن سے اچھی طرح واقف تھا اسے اس بات کا احساس تھا کہ وہ ایک ادنی درجے کا ملازم ہے اور اپنے آقا کی لڑکی سے محبت کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی سوچتا تھا کہ اگر وہ اس سے محبت کرتا ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے اور پھر اس کی محبت فریب تو نہیں وہ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ آدھی رات کے قریب اس کی کوٹھری کے دروازے پر دستک ہوئی اس کا دل دھک سے رہ گیا لیکن پھر اس نے خیال کیا کہ مالی ہو گا ممکن ہے اس کے گھر میں کوئی ایکا ایکی بیمار پڑ گیا ہو اور وہ اس سے مدد لینے کے لیے آیا ہو لیکن جب اس نے دروازہ کھولا تو زہرہ سامنے کھڑی تھی ۔۔۔۔۔ جی ہاں زیر۔۔۔ دسمبر کی سردی میں شال کے بغیر وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کی زبان گنگ ہو گئی اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا، کیا کے چند محات قبر کی کسی خاموشی میں گزر کے آخر زہرو کے ہونٹ وا ہوئے اور تھر تھراتے ہوئے لہجے میں اس نے کہا " نعیم میں تمہارے پاس آگئی ہوں بتاؤ اب تم کیا چاہتے ہو۔۔۔۔ لیکن اس سے پہلے کہ تمہاری اس کوٹھری میں داخل ہوں میں تم سے چند سوال کرنا چاہتی ہوں ۔

139



نعیم خاموش رہا لیکن زہرہ اس سے پو چھنے گئی " کیا واقعی تم مجھ سے محبت کرتے
نعیم کو جیسے تھیں کی گئی اس کا چہرہ تمتما اٹھا زہر تم نے ایسا سوال کیا ہے جس کا جواب اگر میں دوں تو میری محبت کی تو ہین ہوگی۔۔۔ میں تم سے پوچھتا ہوں، کیا میں محبت نہیں کرتا ؟
کیا میرے باپ کے پاس کافی دولت ہے مگر میرے پاس ایک چھوٹی کوڑی بھی نہیں جو کچھ میرا کہا جاتا ہے میرا نہیں ، ان کا ہے۔ کیا تم مجھے دولت کے بغیر بھی ولیا ہی عزیز سمجھو گے ؟ نعیم بہت جذباتی آدمی تھا چنانچہ اس سوال نے بھی اس کے وقار کو بھی کیا بڑے دکھ بھرے لہجے میں اس نے زہرہ سے کہا زہر ہ خدا کے لیے مجھ سے ایسی ہا تھیں نہ پوچھو جن کا جواب اس قدر عام ہو چکا ہے کہ تم میں تھرڈ کلاس مشقیہ ناولوں میں بھی مل سکتا ہے زہرہ اس کی کوٹھری میں داخل ہوگئی اور اس کی چار پائی پر مبینہ کر کہنے لگی " میں تمہاری ہوں اور ہمیشہ تمہاری رہوں گی زیرہ نے اپنا قول پورا کیا جب دونوں لکھنو چھوڑ کر دہی چلے آئے اور شادی کے ایک چھوٹے سے مکان میں رہنے لگے تو ڈینی صاحب ڈھونڈ تے ڈھونڈ تھے وہاں پہنچ گئے نعیم کو نوکری مل گئی تھی اس لیے وہ گھر میں نہیں تھا۔ اپنی صاحب نے
زہرہ نے اس سوال کا جواب نہ دیا اور تھوڑی دیر خاموش رہ کر اپنا دوسراسوال

140




زمرہ کو بہت برا بھلا کہا ان کی ساری عزت خاک میں مل گئی تھی وہ چاہتے تھے کہ زہرہ نعیم کو چھوڑ دے اور جو کچھ ہو چکا ہے اسے بھول جائے و و نعیم کو دو تین ہزار رو پیر دینے کے لیے بھی تیار تھے مگر انہیں نا کام لوٹنا پڑا ۔ اس لیے کہ زہرہ نعیم کو کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہوئی اس نے اپنے باپ سے کہا " ابا جی امیں نعیم کے ساتھ بہت خوش ہوں آپ اس سے اچھا شوہر میرے لیے کبھی تلاش نہ کر سکتے ہیں اور وہ آپ سے کچھ نہیں ما لکھتے اگر آپ ہمیں دعائیں دے سکیں تو ہم آپ کے ممنون ہوں گے ۔ اپنی صاحب نے جب یہ انتکونی تو بہت خشم آلود ہوئے انہوں نے نعیم کو قید گرا دینے کی دھمکی بھی دی مگر زہرہ نے صاف صاف کہہ دیا " ابا جی ! اس میں نعیم کا کیا قصور ہے سچ تو یہ ہے کہ ہم دونوں بے قصور ہیں البتہ ہم ایک دوسرے سے محبت ضرور کرتے ہیں اور وہ میرا شوہر ہے ۔۔۔۔ یہ کوئی قصور نہیں ہے میں نا بالغ ن میں ہوں ڈپٹی صاحب منقلمند تھے فورا سمجھ گئے کہ جب ان کی بیٹی ہی رضامند ہے تو نعیم پر کیسے جرم عائدہ ہو سکتا ہے چنانچہ وہ زہر ہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے کچھ وسے کے بعد ڈپٹی صاحب نے مختلف لوگوں کے ذریعے نعیم پر دباؤ ڈالنے اور اس کو رہ پے پیسے سے لائی دینے کی کوشش کی مگر نا کام رہے۔ دونوں کی زندگی بڑے مزے میں گزر رہی تھی گو نعیم کی آمدن بہت ہی کم تھی اور زہر کو جو نا رو قیمت میں پہلی تھی بدن پر کھردرے کپڑے پہننے پڑتے تھے اور اپنے ہاتھ سے سب کام کرنے پڑتے تھے مگر وہ خوش تھی اور خود کو ایک نئی دنیا میں

141




پاتی تھی جہاں قدم قدم پر نعیم کی محبت کے نئے نئے پہلو اس پر منکشف ہوتے تھے وہ بہت سکھی تھی ۔۔۔۔ بہت سی نعیم بھی بہت خوش تھا لیکن ایک روز خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ زمرہ کے سینے میں ایک موڈی در دانھا اور پیشتر اس کے کہ نعیم اس کے لیے کچھ کر سکے وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئی اور نعیم کی دنیا ہمیشہ کے لیے تاریک کر گئی۔
یہ داستان اس نے رک کر کر اور خوب مزے لے لے کر قر یا چار گھنٹوں میں سنائی ۔ جب وہ اپنا حال دل سنا چکا تو اس کا چہرہ بجائے زرد ہونے نے ۔ کے تمتما اٹھا جیسے اس کے اندر آہستہ آہستہ کسی نے خون داخل کر دیا ہے لیکن اس کی آنکھوں میں انسو تھے اور اس کا حلق سوکھ گیا تھا۔ داستان جب ختم ہوگئی تو وہ فورا اٹھ کھڑا ہوا، جیسے اسے بہت جلدی ہے اور کہنے لگا میں نے بہت غلطی کی۔۔ جو آپ کی اپنی داستان محبت سنادی ۔۔۔۔ میں نے بہت غلطی کی ۔۔۔۔ زیرہ کا ذکر صرف مجھی تک محدود در بنا چاہیے تھا۔۔۔ لیکن لیکن اس کی آواز بھر گئی۔۔۔ " میں زندہ ہوں اور ۔ اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا اور جلدی سے میرا ہاتھ دیا کر
کمرے سے باہر چلا گیا۔ نعیم سے پھر میری ملاقات نہ ہوئی اپولو بندر پر کئی مرتبہ اس کی تلاش میں گیا مگر وہ نہ ملا چھ یا سات مہینے کے بعد اس کا ایک محط مجھے ملا جو میں یہاں پر تل کر رہا
صاحب!"

142





آپ کو یاد ہو گا میں نے آپ کے مکان پر اپنی داستان عشق سنائی تھی ۔۔۔۔۔۔ وہ محض افسانہ تھا ایک جھوٹا افسانہ کوئی زہرہ ہے نہ نعیم میں ویسے موجود تو ہوں مگر وہ نعیم نہیں ہوں جس نے زہرہ سے محبت کی تھی آپ نے ایک بار کہا تھا کہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو محبت کے معاملے میں بانجھ ہوتے ہیں میں بھی ان بد قسمت آدمیون میں سے ایک ہوں جن کی ساری جوانی اپنا دل پر چانے میں گزر گئی زہرہ سے نعیم کی محبت ایک دل برا ہو ا تھا اور زہرہ کی موت ۔۔۔ میں ابھی تک نہیں سمجھ سکا کہ میں نے اسے کیوں مار دیا بہت ممکن ہے کہ اس میں بھی میری زندگی کی سیاہی کا دخل ہو۔ مجھے معلوم نہیں آپ نے میرے افسانے کو جھوٹا سمجھایا سچا لیکن میں آپ کو ایک عجیب و غریب بات بتاتا ہوں کہ میں نے۔۔۔ یعنی اس چھوٹے فسانے کے خالق نے اس کو بالکل سچا سمجھا سو فیصدی حقیقت پر مبنی مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے واقعی زہرہ سے محبت کی ہے اور وہ کیچ چ مر چکی ہے آپ کو یہ سن کر اور بھی تعجب ہوگا کہ جوں جوں وقت گزرتا گیا اس افسانے کے اندر حقیقت کا عنصر زیادہ ہوتا گیا اور زہرہ کی آواز اس کی ہنسی بھی میرے کانوں میں گونجنے لگی میں اس کے سانس کی گرمی تک محسوس کرنے لگا افسانے کا ہر ذرہ جاندار ہو گیا اور میں نے ۔۔۔۔۔ اور میں نے یوں اپنی قبر اپنے ہاتھوں سے کھودی۔ زہرہ فسانہ نہ سہی مگر میں تو فسانہ ہوں وہ مر چکی ہے، اس لیے مجھے بھی مر جاتا چاہیے یہ خط آپ کو میری موت کے بعد ملے گا ۔۔۔۔ الوواغ ۔۔۔ زہرہ مجھے ضرور ملے گی ۔۔۔۔ کہاں ؟۔۔۔۔ یہ مجھے معلوم نہیں

143




میں نے یہ چند سطور صرف اس لیے آپ کو لکھ دی ہیں کہ آپ افسانہ نگار ہیں اگر اس سے آپ افسانہ تیار کر لیں تو آپ کو سات آٹھ رو پے مل جائیں گے کیونکہ ایک مرتبہ آپ نے کہا تھا کہ افسانے کا معاوضہ آپ وک سات سے دس روپے تک مل جایا کرتا ہے یہ میرا تحفہ ہو گا اچھا الوداع ۔
آپ کا ملاقاتی نعیم
نعیم نے اپنے لیے زہر ہ بنائی اور مر گیا ۔۔۔ میں نے اپنے لیے یہ افسانہ تخلیق کیا ہے اور زندہ ہوں ۔۔۔۔ یہ میری زیادتی ہے۔

144



15
مضمون
منٹو کے افسانے (Manto ke afsane)
0.0
سعادت حسن منٹو کی کچھ عمدہ کہانیوں کا مجموعہ
1

آخری سلیوٹ

29 November 2023
1
0
0

آخری سلیوٹ یہ کشمیر کی لڑائی بھی کچھ عجیب و غریب تھی ۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑ ا خراب ہو گیا ہو۔ کھیلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا مارنا اور مرنا جانتا

2

آنکھیں

29 November 2023
0
0
0

اس کے سارے جسم میں مجھے اس کی آنکھیں بہت پسند تھیں! یہ آنکھیں بالکل ایسی ہی تھیں جیسے اندھیری رات میں موٹر کار کی ہیڈ الماس جن کو آدمی سب سے پہلے دیکھتا ہے، آپ یہ نہ سمجھے گا کہ وہ بہت خوبصورت آنک

3

اب اور کہنے کی ضرورت نہیں

29 November 2023
0
0
0

یہ دنیا بھی عجیب و غریب ہے۔ خاص کر آج کا زمان ۔۔۔۔۔ قانون کو جس طرح فریب دیا جاتا ہے اس کے متعلق شاید آپ کو زیادہ علم نہ ہو۔۔۔ آج کل قانون ایک بے معنی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ ادھر کوئی نیا قانون بنتا ہ

4

اس کا پتی

30 November 2023
1
0
0

اس کا پتی لوگ کہتے تھے کہ نتھو کا سر اس لیے گنجا ہوا ہے کہ وہ ہر وقت سوچتا رہتا ہے اس بیان میں کافی صداقت تھی کیونکہ سوچنے وقت تو ہمیشہ سر کھجایا کرتا ہے کیونکہ اس کے بال بہت کھردرے اور خشک ہیں اور

5

الو کا پچھا

30 November 2023
0
0
0

قاسم صبح سات بجے کاف سے باہر نکھار اور غسل خانے کی طرف پہلا راستے ہیں، یہ اس کو ٹھیک طور پر معلوم نہیں ہونے والے کمرے میں ہمشن میں یا غسل خانے کے اندر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی کو ال

6

الله

30 November 2023
0
0
0

دو بھائی تھے اللہ رکھا اور اللہ دتا دونوں ریاست پٹیالہ کے باشندے تھے ان کے آبا ؤ اجداد البتہ لاہور کے تھے مگر جب ان دو بھائیوں کا داد اما ازمت کی تلاش میں پیالہ آیا توں ہیں کا ہو رہا۔ اللہ رکھا اور

7

انتظار

1 December 2023
1
0
0

(گھڑی آٹھہ بجاتی ہے )  منتظر : آدھا گفته مصرف آدھا گھنٹہ اور پھر اس کے بعد ۔۔۔ یدین کی آخری ڈوبتی ہوئی گونج کتنی پیاری تھی اور اور منتظر کا منطقی وجود اگر وہ نہ آئی۔ یعنی اگر منتظر کیوں نہ آئے

8

اولاد

1 December 2023
0
0
0

جب زبیدہ کی شادی ہوئیت و اس کی عمر پچیس برس کی تھی اس کے ماں باپ تو یہ چاہتے تھے کہ سترہ برس کی ہوتے ہی اس کا بیاہ ہو جائے مگر کوئی مناسب و موزوں رشتہ ملتا ہی نہیں تھا اگر کسی جگہ بات طے ہونے پاتی ت

9

بانجھ

2 December 2023
0
0
0

میری اور اس کی ملاقات آج سے ٹھیک دو برس پہل اپولو بندر پر ہوئی شام کا وقت تھا سورج کی آخری کرنہیں سمندر کی ان دور دراز لہروں کے پیچھے غائب ہو چلی تھیں جو ساحل کے بینچ پر بیٹھ کر دیکھنے سے موٹے کپڑ

10

باسط

5 December 2023
0
0
0

باسط با کل رضا مند نہیں تھا لیکن ماں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی اول اول تو اس کو اتنی جلدی شادی کرنے کی خواہش نہیں تھی اس کے علاوہ وہ لڑکی بھی اسے پسند نہیں تھی جس سے اس کی ماں اس کی شادی کرنے

11

بھنی

5 December 2023
0
0
0

بھنگنوں کی باتیں ہورہی تھیں خاص طور پر ان کی جو ہوارے سے پہلے امرتسر میں رائی تھیں مجید کا یہ ایمان تھا کہ امرتسر کی بھٹکوں جیسی کراری چھوکریاں اور کہیں نہیں پائی جاتیں خدا معلوم تقسیم کے بعد وہ کہا

12

بسم الله

7 December 2023
0
0
0

فلم بنانے کے سلسلے میں ظہیر سے سعید کی ملاقات ہوئی سعید بہت متاثر ہو ا ہمی میں اس نے تہیہ کو سنٹرل اسٹوڈیوز میں ایک دو مرتبہ دیکھا تھا اور شاید چند باتیں بھی کی تھیں مگر متصل ملاقات پہلی مرتبہ لا ہو

13

بغیر اجازت

7 December 2023
0
0
0

نعیم کہلاتا کہلاتا ایک باغ کے اندر چلا گیا ۔۔۔ اس کو وہاں کی فضا بہت پسند آئی ۔۔۔ گھاس کے ایک تختے پر لیٹ کر اس نے خود کلامی شروع کر دی۔ کیسی پر فضا جگہ ہے ۔۔۔ حیرت ہے کہ آج تک میری نظروں سے او تج

14

بلاوز

9 December 2023
0
0
0

کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت باتیں کرتے ہوئے تھی کہ سوچنے پر بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو اگر دو بیان بھی کرنا چ

15

بلونت سنگھ مجیٹھیا

10 December 2023
1
0
0

شاہ صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو ہم فورا بے تکلف ہو گئے ۔ مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ سید ہیں اور میرے دور دراز کے رشتے دار بھی ہیں۔ وہ میرے دور یا قریب کے رشتہ دار کیسے ہو سکتے تھے، اس کے متع

---