shabd-logo

اس کا پتی

30 November 2023

13 ڏسيل 13


اس کا پتی

لوگ کہتے تھے کہ نتھو کا سر اس لیے گنجا ہوا ہے کہ وہ ہر وقت سوچتا رہتا ہے اس بیان میں کافی صداقت تھی کیونکہ سوچنے وقت تو ہمیشہ سر کھجایا کرتا ہے کیونکہ اس کے بال بہت کھردرے اور خشک ہیں اور تیل نہ ملنے کے باعث بہت خستہ ہو گئے ہیں۔ اس لیے بار بار کھجلانے سے اس کے سر کا درمیانی حصہ بالوں سے بالکل بے نیاز ہو گیا ہے۔ اگر اس کا سر ہر روز دھویا جاتا تو یہ حصہ ضرور چھکتا مگر میل کی زیادتی کی وجہ سے اس کی حالت بالکل اس توے کی سی ہوگئی ہے جس پر ہر روز روٹیاں پکائی جائیں مگر اسے صاف نہ کیا جائے۔ نتو بجھنے پر اینٹیں بنانے کا کام کرتا تھا یہی میہ ہے کہ اکثر اپنے خیالات کو کچی اینٹیں سمجھتا تھا اور کسی پر فورا ہی ظاہر نہیں کرتا تھا اس کا یہ اصول تھا کہ خیال کو اچھی طرح پکا کر باہر نکالنا چاہیے تھا تا کہ جس عمارت میں بھی وہ استعمال ہو اس کا ایک

مضبوط حصہ بن جائے۔ گاؤں والے اس کے خیالات کی قدر کرتے تھے اور ہر بات میں اس سے مشور د لیا کرتے تھے لیکن اس قدر افزائی سے نتھو اپنے آپ کو اہم نہیں سمجھنے لگا تھا جس طرح گاؤں میں شمجو کا کام ہر وقت لڑتے جھڑ تھے رہتا تھا۔ اسی طرح اس کا کام ہر وقت دوسروں کو مشورہ دیتے رہنا تھاوہ سمجھتا تھا کہ ہر شخص صرف ایک کام کے لیے پیدا ہوتا ہے چنانچہ مجھو کے بارے میں چوپال پر جب کبھی ذکر چھڑ تا تو وہ ہمیشہ یہی کہا کرتا تھا کھاد کتنی بد بو دار چیز سے بنتی ہے پر کھیتی باڑی اس کے بنا سوہی

36


نہیں سکتی مجھو کے ہر سانس میں گالیوں کی پاس آتی ہے ٹھیک ہے پر گاؤں کی چہل

پہل اور رونق بھی اس کے دم سے قائم ہے اگر وہ نہ ہوتو لوگوں کو کیسے معلوم ہوگا کہ

گالیاں کیا ہوتی ہیں، اچھے بول جاننے کے ساتھ ساتھ برے بول بھی معلوم

ہونے چاہئیں۔ تھو بھٹے سے واپس آرہا تھا اور حسب معمول سر کھجاتا گاؤں کے کسی مسئلے پر غور و فکر کر رہا تھا لالٹین کے کھمبے کے پاس پہنچ کر اس نے اپنا ہاتھ سر سے علیحد ہ کیا۔ جس کی انگلیوں سے وہ بالوں کا ایک میل بھرا کچھا مروڑ رہا تھا وہ اپنے جھونپڑے کے تازہ لیے ہوئے چبوترے کی طرف بڑھنے ہی والا تھا کہ سامنے سے اسے کسی نے آواز دی۔

تھو پانا اور اپنے سامنے والے جھونپڑے کی طرف بڑھا جہاں سے مادھو اسے

اب ہاتھ کے شمارے سے بلا رہا تھا ۔ جھونپڑے کے چھجے کے نیچے چبوترے پر مادھو ، اس کا انگڑابھائی اور چودھری بیٹھے تھے ان کے انداز نشست سے ایسا معلومہ دتا تھا کہ کوئی نہایت ہی اہم بات سوچ رہے ہیں سب کے چہرے کچی اینٹوں کی مانند پہلے تھے مادھوتو بہت دنوں کا پیار دکھائی دیتا تھا ایک کونے میں طاقچے کے نیچے روپا کی ماں بیٹھی تھی نمایظ کپڑوں میں وہ میلے کیڑوں کی ایک گٹھڑی دکھائی دے رہی تھی۔ تھو نے دور ہی سے معاملے کی نزاکت محسوس کی اور قدم تیز کر کے ان کے

پاس پہنچ گیا۔ مادھو نے اشارے سے اس کو پاس بیٹھنے کو کہا۔ نتھو بیٹھ گیا اور اس کا ایک ہاتھ

37



غیر ارادی طور پر اپنے بالوں کے اس مچھے کی طرف بڑھ گیا جس کی جزیں کافی ہل پکی تھیں اب و و ان لوگوں کی باتیں سننے کے لیے بالکل تیار تھا۔ مادھو اس کو اپنے پاس بٹھا کر خاموش ہو گیا۔ مگر اس کے کپکپاتے ہونٹ صاف ظاہر کر رہے تھے کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں لیکن فورا نہیں کہہ سکتا۔ مادھو کا نکڑ ابھائی بھی خاموش تھا اور بار بار اپنی کئی ہوئی ٹانگ کے آخری ٹنڈ منڈ حصے پر جو گوشت کا ایک بد شکل لوتھڑ ایسا بنا ہوا تھا، ہاتھ پھیر رہا تھا، رو پا کی ماں طاقچے میں رکھی ہوئی مورتی کی مانند گونگی بنی ہوئی تھی اور چودھری اپنی مونچھوں کو تاؤ دینا بھول کر زمین پر لکیریں بنارہا تھا۔ تھو نے خود ہی بات شروع کی تو ۔ لکیریں بناتا رہا۔ چند محوں تک جھونپڑے کے چھجے کے نیچے سب خاموش رہے اور تو معاملے کی نزاکت اچھی طرح سمجھ گیا۔

مادھو بولا تو بات یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔ بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔ اب میں تم میں کیا بتاؤں کہ بات کیا ہے میں کچھ کہنے کے قابل نہ رہا ۔۔۔۔ چودھری اتم

ہی جی کڑا کر کے سارا قصہ سنا دو۔“ تھو نے گردن اٹھا کر چودھری کی طرف دیکھا مگر وہ کچھ نہ بولا اور زمین پر

دو پیر کی اداس فضا با اکل خاموش تھی ، البتہ کبھی کبھی پیلوں کی چیخیں سنائی دیتی تھیں اور جھونپڑے کے داہنے ہاتھ گھورے پر جو مرغ کوڑے کو کرید رہا تھا۔ کبھی کبھی کسی مرغ کو دیکھ کر بول افتا۔

38



روپا کی ماں نے روئی آواز میں کہا میرے بھولے بھاگا۔۔۔۔۔۔ اس کو تو جو کچھ اجڑتا تھا اجڑی ، مجھے اچھا کن کی ساری دنیا ہے بادہ ہوگئی ۔۔۔۔۔ کیا اب

کچھ نہیں ہوستا ؟ مادھو نے کندھے ہلائے اور نتھو سے مخاطب ہو کر کہا " کیا ہو سکتا ہے ؟ بھٹی میں یہ کلنک کا ٹیکا اپنے ماتھے پر لگانا نہیں چاہتا۔۔۔ میں نے جب اپنے لالو کی بات رو پاسے کچی کی تھی تو مجھے یہ قصہ معلوم نہیں تھا ۔۔۔۔۔ اب تم لوگ خودہی و چار کرہ کہ سب کچھ جانتے ہوئے میں اپنے بیٹے کا بیاہ رو پاسے کیسے کر سکتا ہوں؟" یہ سن کر نتھو کی گردن بھی ، وہ شاید یہ پوچھنا چا ہتا تھا کہ لالو کا بیاہ رو پاسے کیوں نہیں ہو سکتا ابھی کل تک سب ٹھیک ٹھاک تھا اب اتنی جلدی کیا ہو گیا کہ رو پالا او کے قابل نہیں رہی۔ وہ رو پا اور لالو دونوں کو اچھی طرح جانتا تھا اور سچ پوچھو تو گاؤں میں ہر شخص ایک دوسرے کو اچھی طرح جانتا ہے وہ کون سی بات تھی جو اسے ان دونوں کے بارے میں معلوم ہیتھی رو پا اس کے سامنے پھولی پھیلی ، بڑھی اور جوان ہوئی ۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ اس کے گال پر ایک زور کا دیا بھی مارا تھا اور اس کو اتنی مجال نہ ہوئی تھی کہ چوں بھی کرے حالانکہ گاؤں کی سب چھوکریاں چھو کرے گستاخ تھے اور بڑوں کا ہا کل ادب نہ کرتے تھے رو پا تو بڑی بھولی بھالی لڑکی تھی۔ باتیں بھی بہت کم کرتی تھی اور اس کے چہرے پر کوئی ایسی علامت بیتھی جس سے یہ پتہ چلتا کہ وہ کوئی شرارت بھی کر سکتی ہے پھر آج اس کی بابت یہ باتیں کیوں ہو رہی تھیں ۔

نتھو کو گاؤں کے ہر جھونپڑے اور اس کے اندر رہنے والوں کا حال معلوم تھا

39


مثال کے طور پر اسے معلوم تھا کہ چودھری کی گائے نے صبح سویرے ایک چھڑا دیا ہے اور مادھو کے لنگڑے بھائی کی بی سا بھی لوٹ گئی ۔ گاما حلوائی اپنی مونچھوں کے بال بانو ا رہا تھا کہ اس کے ہاتھ سے آئینہ گر کر لوٹ گیا اور ایک سیر دودھ کے پیسے ثانی کو بطور قیمت دینا پڑے۔۔۔۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ دو اپلوں پر پر سرام اور کنگو کی پی پیچ ہوتے ہوتے رہ گئی تھی اور سالک رام نے اپنے بچوں کو پائی بھون کر کھلائے تھے حالانکہ وید جی نے منع کیا تھا کہ ان کو مرچوں والی کوئی شے نہ دی جائے۔ نتو حیران تھا کہ ایسی کون کی بات جو اسے معلوم نہیں تمام خیالات اس کے دماغ میں ایک دم آئے اور وہ مادھو کا کا سے اپنی حیرت دور کرنے کی خاطر سے کوئی سوال کرنے ہی والا تھا کہ چودھری نے زمین پر طوطے کی شکل کرتے ہوئے کہا کچھ سمجھ میں نہیں آتا ۔۔۔ تھوڑے ہی دنوں میں وہ بچے کی ماں بن جائے گی تو یہ بات تھی کہ نتھو کے دل پر ایک کھونسا سالگا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ دو پیر کی دھوپ میں اڑنے والی ساری چیلیں اس کے دماغ میں گھس کر چھینے گئی ہیں اس نے اپنے بال زیادہ تیزی سے مروڑ نے شروع کر دیئے ۔ مادھو کا کا نتھو کی طرف جھکا اور بڑے دکھ بھرے لہجے میں اس سے کہنے لگا " بیٹا اتم ہیں یہ تو معلوم ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کی بات رو پاسے پکی کی تھی اب میں تم سے کیا کہوں ۔۔۔۔ ڈرا کان لا ؤ ادھر اس نے ہولے سے تھو کے کان میں کچھ کہا اور پھر اسی لہجے میں کہنے لگا " کتنی شرم کی بات ہے میں تو کہیں کا نہ رہا، یہ میرا بڑھایا اور یہ جان لیوا دکھ اور تو اور لالو کو بتاؤں کیا دکھ ہوا ہو گا۔ ۔ تمہ ہیں

40



انصاف کرو کیا لالو کی شادی اب اس سے ہو سکتی ہے۔۔۔ لالو کی شادی تو ایک طرف رہی ، کیا ایسی لڑکی ہمارے گاؤں میں رہ سکتی ہے۔۔۔۔ کیا اس کے لیے ہمارے یہاں کوئی جگہ ہے ؟

تھو نے سارے گاؤں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور اسے ایسی کوئی جگہ نظر نہ آئی جہاں رویا اپنے والد سمیت رہ سکتی تھی ۔ البتہ اس کا ایک جھونپڑا تھا۔ جس میں وہ چاہے کسی کو بھی رکھتا پچھلے برس اس نے کوڑھی کو اس میں پناہ دی تھی حالانکہ سارا گاؤں اسے روک رہا تھا اور اسے ڈرا رہا تھا کہ دیکھو تو یہ بیماری بڑی چھوت والی ہوتی ہے ایسا نہ ہو کہ کہیں تم ہمیں چھوٹ جائے لیکن وہ اپنی مرضی کا مالک تھا اس نے وہی کچھ کیا جو اس کے من نے اچھا سمجھا کو بھی اس کے گھر میں پورے چھ مہینے رہ کر مر گئی لیکن اسے بیماری و بیماری بالکل نہ تھی اگر گاؤں میں روپا کے لیے کوئی جگہ ندار ہے تو کیا اس کا یہ مطلب تھا کہ اسے ماری ماری پھر نے دیا جائے ۔ ہرگز نہیں، تھو اس بات کا قائل نہ تھا کہ دیکھی پر اور دکھ لاد دیئے جائیں اس کے جھونپڑے میں

ہر وقت اس کے لیے جگہ تھی۔ وہ کچھ مہینے تک اس کوڑھی کی تیمار داری کر سکتا تھا اور روپا کوڑھی تو نہیں تھی ۔۔۔۔۔۔۔ کوڑھی تو نہیں تھی، یہ سوچتے ہوئے تھو کا دماغ ایک گہری بات سوچنے لگا ۔۔۔۔۔ روپا کو بھی نہیں تھی ، اس لیے وہ ہمدردی کی زیادہ مستحق بھی نہ تھی۔ اسے کیا روگ تھا ؟ ۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں ، جیسا کہ یہ لوگ کہہ رہے تھے، وہ تھوڑے ہی دنوں بچے کی ماں بننے والی تھی ، پر یہ بھی کوئی روگ ہے اور کیا ماں بنا کوئی پاپ ہے ؟ لڑ کی عورت بننا چاہتی ہے اور عورت ماں، اس کی اپنی استری ماں

41



بننے کے لیے تڑپ رہی تھی اور وہ خود یہ چاہتا تھا کہ و دوجلد کی ماں بن جائے ، اس لحاظ سے بھی رو پا کا ماں بنا کوئی جرم نہ تھا۔ جس پر اسے سزادی جائے یا پھر اس رحم کا مستحق قرار دیا جائے وہ ایک کی بجائے دو بچے جنے ۔ اس سے کسی کا کیا بگڑتا تھا و دعورت ہی تو تھی مندر میں گڑی ہوئی دیوی تو تھی نہیں، اور پھر یہ لوگ خواہ مخوام کیوں اپنی جان باگان کر رہے تھے مادھو کا کا کے لڑکے سے اس کی شادی ہوتی تو بھی کبھی نہ کبھی بھی ضرور پیدا ہوتا ۔ اب کون کی آفت آگئی تھی یہ بچہ اب جو اس کے پیٹ میں تھا کہیں سے اڑ کر تو انہیں گیا تھا شادی بیاہ ضرور ہوا ہو گا ، یہ لوگ باہر بیٹھے آپ ہی فیصلے کر رہے ہیں اور جس کی بابت فیصلہ ہو رہا ہے اس سے کچھ پوچھتے ہی نہیں، گو یا بچے وہ نہیں بلکہ یہ خود ان رہے ہیں عجیب بات تھی، اور پھر ان کو بچے کی کیا فکر ہو گئی تھی، بچے کی فکر یا تو ماں کرتی ہے یا اس کا اور مرد دیکھئے کہ کوئی بچے کے باپ کی بات ہی باپ باپ؟ نہیں کرتا تھا۔

یہ سوچتے ہوئے تھو کے دماغ میں ایک بات آئی اور اس نے مادھو کا کا سے کہا " کا کا جو کچھ تم نے کہا ہے اس سے مجھے بڑا دکھ ہوا پر تم نے یہ کیسے کہہ دیا کہ روپا کے لیے یہاں کوئی جگہ نہیں ۔۔۔۔ ہم سب اپنے اپنے جھونپڑوں کو تالے لگا دیں تو بھی اس کے لیے ایک دروازہ کھلا رہتا ہے ۔“

چودھری نے زمین پر طوطے کی آنکھ بناتے ہوئے کہا تو بہ کا " تھو نے جواب دیا " ان کے لیے جو پانی ہوں۔ روپا نے کوئی پاپ نہیں کیا ۔ وہ نردوش ہے۔“

42


43

چودھری نے حیرت سے مادھو کا کا کی طرف دیکھا اور کہا اس نے پوری بات

نہیں سنی ۔"

مادھو کا شکر ابھائی اپنی کئی ہوئی ٹانگ پر ہاتھ پھیرتا رہا۔ تقو رویا کی ماں سے مخاطب ہوا ابھی سن لیتا ہوں۔ رویا کہاں روپا کی ماں نے اپنی کھردری انگلیوں سے آنسو نے تجھے اور کہا اندر بیٹھی اپنے نصیبوں کو رو رہی ہے ۔“ یہ سن کر تھو نے اپنا سر ایک بازو سے کھجلایا اور ونپڑے کے اندر چلا روپا اندھیری کوٹھری کے ایک کونے میں سر جھکائے بیٹھی تھی اس کے بال بکھرے ہوئے تھے میلے کچیلے کپڑوں میں اندھیرے کے اندروہ گیلی مٹی کا ایک ڈھیر سا دکھائی دے رہی تھی جو باتیں باہر ہو رہی تھیں ان کا ایک ایک لفظ اس نے سنا تھا۔ حالانکہ اس کے کان اس کے اپنے دل کی باتیں سننے میں لگے ہوئے تھے جو کسی طرح ختم ہی نہ ہوتی تھیں تو اندر آنے کے لیے اٹھا تو وہ روڑ کر سامنے کھنیا پر جائڑی اور گدڑی میں اپنا سر منہ چھپا لیا ۔ نھو نے جب دیکھا کہ روپا چھپ گئی ہے تو اسے بڑی حیرت ہوئی اس نے پوچھا " ارے مجھ سے کیوں چھیتی ہو؟ رو پارو نے لکھی اور اپنے آپ کو اور کپڑے میں لپیٹ لیا ۔ وہ بغیر آواز کے رو رہی تھی مگر نتھو کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ رو پا کے آنسو اس کے بیتے ہوئے دل پر کر


رہے ہیں اس نے گدڑی کے اس حصہ پر ہاتھ پھیرا جس کے نیچے رو پا کا سر تھا اور کہا تم مجھ سے کیوں چھیتی ہو ؟؟

روپا نے سیکیوں سے جواب دیا " رو پا نہیں چھیتی تو ۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے ان کے جھڑے میں پھنسا دیا ہے“ میں کیا کیوں ؟ رو پا یہ کہ کر گدڑی میں اور سمٹ گئی تو بولتا تھا اور رو پا کو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ کوئی اسے، کٹھا کر رہا ہے اسے سکیڑ رہا ہے۔ تھو نے بڑی مشکل سے روپا کے منہ سے کپڑ اپنایا اور اسے اٹھا کر بٹھا دیا روپا نے دونوں ہاتھوں سے اپنے منہ کو چھپا لیا اور زور زور سے رونا شروع کر دیا اس سے تھو کو بند دکھ ہوا ایک تو پہلے اسے یہ چیز ستارہی تھی کہ ساری بات اس کے ذہن میں مکمل طور پر نہیں آتی اور دوسرے روپا اس کے سامنے رو رہی تھی۔ اگر اسے ساری بات معلوم ہوتی تو وہ اس کے یہ سارے آنسورہ کنے کی کوشش کر سکتا تھا جو میلی گدڑی میں جذب ہو رہے تھے مگر اس کو سوائے اس کے اور کچھ معلوم نہ تھا کہ روپا تھوڑے ہی دنوں میں بچے کی ماں بننے والی ہے۔ اس نے پھر اس سے کہا " رو ما تم مجھے بتاتی کیوں نہیں ہو ۔۔۔۔۔۔ نتھو بھیا

پاپ کو چھپا رہی ہے ۔ نتو اس کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا کیسا پاپ ۔۔۔۔ تم نے کوئی پاپ نہیں کیا ۔۔۔ اور اگر کیا بھی ہو تو اسے چھپانا چاہیے، یہ تو خود ایک پاپ ہے ۔۔۔۔ میں تم سے صرف ایک بات پوچھنے آیا ہوں مجھے یہ بتا دو کہ کس نے تمہاری ہنستی آنکھوں میں آنسو بھر دیتے ہیں کس نے اس بالی عمر میں تم میں پاپ اور

44


تم سے پوچھ رہا ہے اور وہ کوئی غیر تھوڑی ہے، جو تم یوں اپنے من کو چھپارہی ہو۔ تم روتی کیوں ہو غلطی ہو ہی جایا کرتی ہے۔ لالو کی کسی اور سے شادی ہو جائے گی اور تم اپنی جگہ خوش رہوگی ۔۔ جتمر میں دنیا کا ڈر ہے تو میں کہوں گا کہ تم بالکل بیوقوف ہو، لوگوں کے جو جی میں آئے کہیں، تمہیں اس سے کیا ۔۔۔۔۔ غلطی کر کے اپنے آپ کو دوسروں کے حوالے کر دیتا تو میری سمجھ میں سب سے بڑی غلطی ہے۔۔۔۔ جو کچھ ہوتا تھا ہو گیا۔ اب تو ہمیں یہ سوچنا ہے کہ اس کے آگے کیا ہو گا۔ تم دوسروں کی بابت نہ سوچو ، اپنی فکر کرو، سب سے زیادہ ضروری چیز اس وقت تم ہو اور سچ پوچھو تو اپنی ذات ہی ہمیشہ سب سے ضروری ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ رونے دھونے سے کچھ نہ ہو گا رو پا، آنسو بھری آنکھوں سے نہ تم مجھے ہی ٹھیک طور سے دیکھ سکتی ہو اور اپنے آپ کو رونا بند کرو اور مجھے ساری بات بتاؤ ۔ روپا کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ وہ اس سے کیا ہے ، وہ دل میں سوچتی تھی کہ اب ایسی کون سی بات ہوگئی ہے جو دنیا کو معلوم نہیں یہی سوچتے ہوئے اس نے تھو سے کہا تھو بھیا مجھ سے زیادہ تو دوسروں کو معلوم ہے میں تو صرف اتنا جانتی ہوں کہ جو کچھ میں سوچتی تھی ایک سپنا تھا، یوں تو ہر چین سپنا ہوتی تھی ، پر یہ سپنا بڑا ہی عجیب ہے کیسے شروع ہوا کیونکر ختم ہوا۔ اس کا کچھ پتا ہی نہیں چلتا۔ بس ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام دن جو میں کبھی خوشی سے گزارتی تھی آنکھوں میں آنسو بنا شروع ہو گئے ہیں ۔۔۔۔۔ میں گھڑا لے کر اچھاتی کو وتی ، کاتی کنویں پر پانی بھر نے کئی پانی بھر کر جب واپس آنے لگئی تو ٹھو کر گئی اور گھر ا چکنا چور ہو گیا، مجھے بڑا دکھ ہوا، میں

45



نے چاہا کہ اس ٹوٹے ہوئے گھڑے کے ٹکڑے اٹھا کر جھوٹی میں بھر لوں پر لوگوں نے شور مچانا شروع کر دیا نقصان میرا ہوا، چاہیے تو یہ تھا کہ وہ مجھ سے ہمدردی کرتے، پر انہوں نے الٹا مجھے ہی ڈانٹنا شروع کر دیا ۔ گویا گھڑا ان کا تھا اور تورنے والی میں تھی اور اس روزے کا کوئی قصور ہی نہ تھا جو راستے میں پڑا تھا اور جس سے دوسرے بھی ٹھوکر کھا سکتے تھے۔ تم مجھ سے کچھ نہ پوچھو، مجھے میں اس کا نام پوچھتا ہوں ۔۔۔۔۔ اور جانتی ہو میں تم سے اس کا نام کیوں پوچھتا ہوں ؟ ۔۔۔۔۔ اس لیے کہ وہ تمہارا چتی ہے۔۔ اور تم اس کی چینی ہو۔۔۔۔۔ تم اس کی ہو اوروہ تمہارا۔ تھو اس کے آگے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ روپا نے دیواند و ار اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور پھٹے ہوئے لہجہ میں کیا ہولے ہوئے بولو تو ہوئے ہوئے بولوں کہیں جو میرے ہر دے میں نیا جیو ہے نہ سن لے کہ اس کی ماں پائن ہے۔۔۔۔ نتھو اس ڈر کے مارے تو میں موچی نہیں زیادہ غم نہیں کرتی کہ اس کو

کچھ یاد نہیں رہا۔ نتھو کی انگلیاں زیادہ تیزی سے بالوں کا کچھا مروڑ نے لگیں اس نے بڑے النظر اب سے کہا " میں صرف انتاج چھتا ہوں کہ وہ ہے کون؟

کون؟

وی دی ۔ انتھو اس سے آگے کچھ نہ کہہ سکا روپا کے سینے سے بے اختیار ایک آہ نکل گئی اور پہلے جتنا نزدیک اب اتناہی

دور ہے۔"

46


کچھ معلوم نہ ہو۔ پر بیٹے بیٹے بھی میرے ان میں آتا ہے کہ میں ذوب مروں اپنا گلا گھونٹ لوں یا زہر کھا کے مر جاؤں۔“ تھو نے اٹھ کر بہلانا شروع کر دیا وہ سوچ رہا تھا ایک دو سیکنڈ محور کرنے کے بعد اس نے کہا کبھی نہیں ۔۔۔۔۔ کبھی نہیں۔ میں تم میں مرنے نہیں دوں گا تم کیوں مرو۔ یوں تو موت سے چھٹکارا نہیں ، سب کو ایک دن مرنا ہے پر اسی لیے تو جینا بھی ضروری ہے۔۔۔۔ میں کچھ لکھا پڑ جائیں، میں کوئی پنڈت نہیں ، پر جو کچھ میں نے کہا ہے ٹھیک ہے تم مجھے اس کا نام بتا دو۔ میں تو میں اس کے پاس لے چلوں گا اور اسے مجبور کروں گا کہ وہ تمہارے ساتھ بیاہ کرلے اور تم ہمیں اپنے پاس رکھے ۔۔۔۔۔۔ وہی تمہار اتی ہے" نتو پھر روپا کے پاس بیٹھ گیا اور کہنے لگا او میرے کان میں کہہ وہ وہ کون ہے؟ رویا کیا تمہیں مجھ پر اعتبار نہیں، کیا تو ہیں یقین نہیں آتا کہ میں تمہارے لیے کچھ کر سکوں گا روپا نے جواب دیا " تم میرے لیے سب کچھ کر سکتے ہو تھو ! پر جس آدمی کے پاس تم مجھے لے جانا چاہتے ہو کیا وہ بھی کچھ کرے گا؟۔۔۔۔۔ وہ تو مجھے بھول ہی نھونے کہا تمہیں دیکھتے ہی اسے سب کچھ یاد آ جائے گا ۔۔۔۔۔ باقی چیزوں کی یاد اسے میں دلاؤں گا۔۔۔ تم مجھے اس کا نام تو بتاؤ۔۔۔۔۔۔۔ یہ ٹھیک ہے کہ استری اپنے پتی کا نام نہیں لیتی ، پر ایسے موقع پر عمر میں کوئی لاج نہ آئی چاہیے ۔"

47



رو پا خاموش رہی، اس پر نتھو اور زیادہ مضطرب ہو گیا میں تمہیں ایک سیدھی بات سمجھاتا ہوں اور تم جھتی ہی نہیں ہو، بیٹی جو تمہارے بچے کا باپ ہے وہی تمہارا چتی ہے۔۔۔۔ اب میں تمہیں کیسے سمجھاؤں تم بس آنسو بہائے جاتی ہو، کچھ کتی ہی ت میں ہو۔۔۔۔۔ میں پوچھتا ہوں اس کا نام بتانے میں ہرج ہی کیا ہے۔ لو تم نے تو اور رونا شروع کر دیا ہے اچھا بھئی ہیں زیاد دیا تہیں نہیں کرتا تم یہ بتاؤ کہ وہ ہے کون ۔۔۔۔ تم مان لو میں اس کا کان پکڑ کر سیدھے راستے پر لے آؤں گا۔ روپانے سسکیوں میں کہا تم بار بار پتی نہ کہو تو ۔۔۔۔ میری جوانی میری آشا، میری دنیا، کبھی کی و جوا ہو چکی ہے۔ تم میری مانگ میں سیندو ر بھرنا چاہتے ہو اور میں چاہتی ہوں کہ سارے بال ہی نوچ ڈالوں ۔۔۔۔۔۔ تختخواب کچھ نہیں ہو سکے گا۔ میری جھولی کے پیر زمین پر گر کر ۔۔۔۔ سب کے سب موری میں جائیے ہیں۔ اب انہیں باہر نکالنے سے کیا فائدہ ۔۔۔۔۔ اس کا نام پوچھ کر تم کیا کرو گے ۔۔۔ لوگ تو اب میر انام بھول جانا چاہتے ہیں ۔ نتو تنگ آ گیا اور تیز لہجے میں کہنے لگا تم تم بیوقوف ہو۔ میں اب تم سے کچھ نہیں پوچھوں گا وہ اٹھ کر جانے لگا تو رو پانے ہاتھ کے اشارے سے اسے رو کا ایسا کرتے ہوئے اس کا رنگ با اکل زرو پڑ گیا۔

تھو نے اس کی گیلی آنکھوں کی طرف دیکھا کولو ؟ رو پایولی نتھو بھیا امجھے مارہ مجھے خوب پیچ ، شاید میں اس طرح اس کا نام بتا

48



دوں ۔۔۔ تمہیں یاد ہوگا ایک بار میں نے بچپن میں مندر کے ایک پینے سے کچے ام تو ڑے تھے اور تم نے ایک ہی چانا مار کر مجھ سے کچھی بات کہلوائی تھی ۔۔۔۔ آؤ مجھے مارو یہ چورجسے میں نے اپنے ان میں پناہ دے رکھی ہے بغیر مار کے باہر نہیں نکلے گا۔ دیکھا۔ اندر سے نتھو کی خشم آلود آواز آ رہی تھی مگر یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے آنکھوں ہی آنکھوں میں مادھو کا کا، چودھری اور لٹکڑے کیٹو نے آپس میں کئی باتیں کہیں آخر میں مادھو کا کا، کا بھائی جیسا کی ایک کر اٹھا۔ وہ جھونپڑے میں جانے ہی والا تھا کہ تو باہر کا کیٹو ایک طرف ہٹ گیا تھو نے پیٹ کر اپنے پیچھے دیکھا اور کہا آورو یا اپھر اس نے روپا کی ماں سے کہا ناں تم با اکل چنا نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا ہم شام تک لوٹ آئیں گے۔

نتھو خاموش رہا۔ ایک محلے کے لیے اس نے کچھ سوچا پھر ایکا ایکی اس نے روپا کے پہلے گال پر اس زور سے تھپڑ مارا کہ چھت کے چند سوکھے اور گرو سے الے ہوئے مکے دھمک کے مارے نیچے گر پڑے تھو کی سخت انگلیوں نے رو پاکے گال پر گئی نہریں کھود دیں

تھونے گرج کر پوچھا بتا ہو د کون ہے ؟ جھونپڑے کے باہر مادھو کے لنگڑے بھائی کی آدھی ٹانگ کاپی، چودھری جس تھکے سے زمین پر ایک اور طوطے کی شکل بنا رہا تھا ہا تھ کا پٹنے کے باعث دو ہرا ہو گیا۔ مادھو کا کا نے کلنگ کی طرح اپنی گردن اونچی کر کے جھونپڑے کے اندر

49


کسی نے نتھو سے یہ نہ پوچھا کہ دور و پا کو لے کر کدھر جا رہا ہے مادھو کا کا کچھ پوچھنے ہی والا تھا کہ نتھو اور رو پادونوں چبوترے سے اتر کر موری کے اس پار جا چکے تھے چنانچہ وہ اپنی مونچھ کے سفید بال نوچنے میں مصروف ہو گیا اور چودھری کپڑے تھکے کو سیدھا کرنے لگا۔ بھٹے کے مالک لالہ تنیش داس کا لڑ کا ستیش جسے بھٹے کے مزدور چھوٹے لالہ جی کہا کرتے تھے اپنے کمرے میں اکیا چائے پی رہا تھا پاں ہی تپائی پر ایک کھلی ہوئی کتاب رکھی تھی جسے غالبا وہ پڑھ رہا تھا کتاب کی جلد کی طرح اس کا چہرہ بھی جذبات سے خالی تھا ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس نے اپنے چہرے پر غلاف چڑ ھا رکھا ہے وہ ہر روز اپنے اندر ایک نیا حیش پاتا تھا وہ جاڑے اور گرمیوں کے درمیانی موسم کی طرح متغیر تھا۔ وہ گرم اور سر دلبروں کا ایک مجموعہ تھا دوسرے دماغ سے سوچتے تھے لیکن و دہاتھوں اور پیروں سے سوچتا تھا وہ اپنی عمر کی ان منزلوں کو طے کر رہا تھا جہاں ہر شے کھیل نظر آتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اپنی زندگی کو گیند کی مانند اچھال رہا تھا وہ سمجھتا تھا کہ اچھل کو دہی زندگی کا اصل مقصد ہے اس کو مسلنے سے بہت زیادہ مزہ آتا ہے ہر شے کو وہ مسل کر دیتا تھا۔ عورتوں کے متعلق اس کا نظریہ یہ تھا کہ مرد خواہ کتنا ہی بوڑھا ہو جائے مگر اس کو عورت جو ان ملنی چاہیے عورت میں جوانی کو وہ اتنا ہی ضروری خیال کرتا تھا جتنا اپنے ٹینس کھیلنے والے ریکٹ میں بنے ہوئے جال کے اندر تناؤ کو وہ اپنے دوستوں کو کہا کرتا تھا زندگی کے ساز کا ہر تار ہر وقت تنا ہوا ہونا چاہیے تا کہ ڈرائی جنبش پر بھی و ارز نا شروع کر دے

50


لرزش ، یہ کپکپاہٹ جس سے نتیش کو اس قدر پیار تھا دراصل اس کے گندے خون کے کھولاؤ کا نتیجہ تھی جنسی خواہشات اس کے اندر اس قدر زیادہ ہو گئی تھیں کہ جوان حیوانوں کو دیکھ کر بھی اسے لذت محسوس ہوتی تھی وہ جب اپنی گھوڑی کے جوان بچے کے کپکپاتے ہوئے بھورے بدن کو دیکھتا تو اسے نا قابل بیان مسرت حاصل ہوتی تھی اس کو دیکھ کر کئی بار اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی کہ وہ اپنا بدن اس کے ترو تا زوبدن کے ساتھ تھے۔ ے تیش چائے پی رہا تھا اور دل ہی دل میں چائے وانی کی تعریف کر رہا تھا جو بے والے سفید چینی کی بنی ہوئی تھی تنیش کو داغ پسند نہیں تھے ، وہرشے میں ہمواری پسند کرتا تھا، صاف بدن عورتوں کو دیکھ کر اکثر کہا کرتا تھا میری نکا میں اس عورت پر کئی گھنٹے تیرتی رہیں ۔۔۔۔ وہ کسی قدر ہموار تھی ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شفاف پانی کی چھوٹی سی جھیل ہے۔ یہ کمرہ جس میں اس وقت حیش بیٹھا تھا۔ خاص طور پر اس کے لیے بنوایا گیا تھا کمرے کے سامنے ٹینس کورٹ تھا یہاں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ٹینس کھیلتا تھا آج اس نے اپنے دوستوں سے کہہ دیا تھا کہ وہ ٹینس کھیلنے نہیں آئے گا کیونکہ اسے آج ایک دلچسپ کھیل کھیلنا تھا بھی کی جوان لڑکی جس کے متعلق اس نے ایک روز اپنے دوست سے یہ کہا تھا " تم اسے دیھو ۔۔۔۔ سچ کہتا ہوں تمہاری لگا ئیں اس کے چہرے پر سے پھسل پھسل جائیں گی میری نگا ہیں اس کو دیکھنے سے پہلے

اس کے کھردرے بالوں کو تھام لیتی ہیں تا کہ پھل نہ جائیں ۔۔۔۔۔ آج

ایک مدت کے بعد ٹینس کورٹ میں اس سے ملاقات کرنے کے لیے آ رہی تھی۔

51


وہ چائے پی رہا تھا اور اس کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چائے میں اس جوان لڑکی کے سانولے رنگ کا مکس پڑ رہا ہے۔ اس کے آنے کا وقت ہو گیا تھا یا ہر سوکھے پتے کھڑ کے تو نتیش نے پیالی میں سے چائے کا آخری گھونٹ پیا اور اس کی آمد کا انتظار کرنے لگا۔ ایک لمبا سا سایہ ٹینس کورٹ کے جھاڑو دیتے ہوئے سینے پر متحرک ہوا اور لڑکی کے بجائے تھو نمودار ہوا۔ تیش نے محور سے اس کی طرف دیکھا کہ آنے والا ایک بھٹے کامز دور ہے تھو اپنے سر کے بالوں کا ایک کچھا انگلیوں سے مروز رہا تھا اور ٹینس کورٹ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ نتیش کی کرسی پر آمدے میں بھی تھی۔ پاس پہنچ کر تھو کھڑا ہو گیا اور یش کی طرف یوں ویکھنے لگا گویا چھوٹے لالہ جی کو اس کی آمد کی غرض و نایت اچھی طرح معلوم ہے۔ حیش نے پوچھا " کیا ہے؟ نقو خاموشی سے برآمدے کی سیڑھیوں پر بیٹھ گیا اور کہنے لگا چھوٹے اللہ جی! میں اسے لے کر آیا ہوں اب آپ اسے اپنے پاس رکھ لیجئے ، گاؤں والے اسے بہت تنگ کر رہے ہیں حیش حیران ہو گیا اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ تو کیا کہہ رہا ہے اس نے پوچھا کے ؟۔۔۔۔ کے تنگ کرہے ہیں تھو نے جواب دیا آپ ۔آپ کی روپا کو۔۔۔ آپ کی بیتی کو

52


میری بھی ! حیش چکرا گیا " میری چینی ۔۔۔۔ تیرا دماغ تو نہیں بہک گیا۔۔۔ یہ کیا بک رہا ہے۔۔۔ یہ کہتے ہیں اس کے اندر۔۔ بہت اندر روپا کا خیال پیدا ہوا اور اسے یاد آیا کہ پہلے ساون میں وہ ایک ہوئی ہوئی آنکھوں اور گدرائے ہوئے جسم والی ایک لڑکی سے کچھ دنوں کھیلا تھا۔ وہ دودھ لے کر شہر میں جایا کرتی تھی۔ ایک بار اس نے دودھ کی بوند یں اس کے ابھرتے ہوئے سینے پر چپکتی دیکھی تھیں ، ہاں ہاں یہ رو پاوہی لڑکی تھی ، جس کے بارے میں اس نے ایک بار یہ خیال کیا تھا کہ وہ دودھ سے زیادہ ملائم ہے اس کی غیرت بھی ہوئی تھی کہ یہ اینٹیں بنانے والے ایسی نرم و نازک لڑکیاں کیسے پیدا کر لیتے ہیں۔ وہ بھنگی کی لڑکی کو بھول سکتا تھا سو شیا کو فراموش کر سکتا تھا جو ہر روز اس کے ساتھ کیاتی تھی وہ اسپتال کی نرس کو بھول سکتا تھا۔ جس کے سفید کپڑوں کا وہ بہت معترف تھا لیکن وہ رو پا کو نہیں بھول سکتا تھا اسے اچھی طرح یاد تھا کہ دوسری یا تیسری ملاقات پر جبکہ روپا نے آپنا آپ اس کے حوالے کر دیا تھا تو اس کی ایک بات پر اسے بہت نہیں آتی تھی ، روپا نے اس سے کہا تھا چھوٹے اللہ ہی کل سندری چمارن کہہ رہی تھی " جلدی جلدی بیاہ کر لے رہی بڑا مزہ آتا ہے ۔۔۔۔۔ اسے کیا پتہ کہ میں بیاہ کر بھی چکی ہوں مگر رو ہاتھی کہاں ؟ عیش کی حیوانی حس اس کا نام سنتے ہی بیدار ہو چکی تھی گوشیش کا دماغی معاملہ کی نزاکت کو سمجھ گیا تھا مگر اس کا جسم صرف اپنی دو پی کی طرف متوجہ تھا۔ ہے۔

ستیش نے پوچھا کہاں ہے رو پا ؟ تھو اٹھ کھڑا ہوا باہر کھڑی ہے ۔۔۔۔ میں بھی اسے لاتا ہوں

53


تیش نے فورا ہی رعب دار لہجے میں کہا " خبردار جو اسے تو یہاں ایا ۔۔۔۔۔ چابھاگ جایہاں سے ۔ چھوٹے اللہ جی وہ ۔۔۔۔۔۔ وہ آپ کی پیتی ہو چکی ہے۔۔۔۔۔وہ۔ بچے کی ماں بننے والی ہے اور بچہ آپ ہی کا تو ہو گا۔۔۔۔۔ آپ ہی کا تو ہو گا، منتھو نے بتلاتے ہوئے کیا۔ تو رو پا حاملہ ہو چکی تھی۔ جیش کو قدرت کی یہ ستم کاری سخت نا پسند تھی اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ عورت اور مرد کے تعلقات کے ساتھ ساتھ یہ حمل کا سلسلہ کیوں جوڑ دیا گیا ہے مرد جب کسی عورت کی خاص خوبی کا معترف ہوت اہے تو اس کی سزا بچے کی شکل میں کیوں طرفین کو بھگتنا پڑتی ہے ۔ و پانے کے بغیر کتنی اچھی تھی اور وہ اس بچے کے بغیر کتنے اچھے طریقے پر ، روپا کے ساتھ تعلقات قائم رکھتا تھا اس سا ما تولید کی وجہ سے کئی بار اس کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ عورت ایک بے کار شے ہے یعنی ہاتھ لگاؤ اور بچہ پیدا ہو جاتا ہے، یہ بھی کوئی بات ہے اب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ اس بچے کا کیا کرے جو پیدا ہو رہا تھا تھوڑی دیر غور کر کے اس نے تھو کو اپنے پاس بٹھایا اور بڑے آرام سے کہا۔ " تم رو پا کے کیا کہتے ہو ۔۔۔۔۔ خیر چھوڑو اس قصے کو ۔۔۔۔ دیکھو، یہ بچے وچنے کی بات مجھے یہ پسند نہیں مفت میں ہم دونوں بد نام ہو جائیں گے تم ایسا کرو، روپا کو یہاں چھوڑ جاؤ۔۔۔۔ میں اسے آج ہی کسی ایسی جگہ بھجوا دوں گا۔ جہاں یہ بچہ ضائع کر دیا جائے ۔۔۔۔ اور روپا کو میں کچھ رو پے دے دوں گا وہ خوش ہو جائے گی ۔۔۔۔ تمہارا انعام بھی تم میں مل جائے گا۔۔۔ بھیرہ

54


یہ کہہ کر جیش نے اپنی جیب سے جو ہ نکالا اور دس روپے کا نوٹ نقو کے ہاتھ میں دے کر کہا " یہ رہا تمہارا انعام ۔۔۔۔ جاؤ میش کرو" تھو چپکے سے اٹھا دس روپے کا نوٹ اس نے اچھی طرح مٹھی میں دبا لیا اور وہاں سے چل دیا جیش نے اطمینان کا سانس لیا کہ چلو چھٹی ہوئی اب وہ بھنگی کی لڑکی کی بابت سوچنے لگا کہ اگر اسے بھی ۔۔۔۔۔ مگر یہ کیا نتھو روپا کے ساتھ واپس آرہا تھا۔

روپا کی نظریں جھکی ہوئی تھیں اور وہ یوں چل رہی تھی جیسے اسے بہت تکلف ہو رہی تھی حیش نے سوچا یہ بچہ پیدا کرنا بھی ایک اچھی خاصی مصیبت معلوم ہوتی

ہے"

نھو اور رو پادونوں بر آمدے کی سیڑھیوں کے پاس کھڑے ہو گئے نتیش نے روپا کی طرف دیکھے بغیر کہا دیکھو رویا میں نے ۔۔۔۔ اس کو سب کچھ سمجھا دیا ہے تم فکر نہ کرو، سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ سمجھیں ۔۔۔۔ کیوں بھئی تم نے اسے سب کچھ بتا دیا ؟"

تھو نے دس روپے کا نوٹ خاموشی سے خیش کی طرف بڑھا دیا اور کہا" چھوٹے لالہ جی ! کانڈ کے اس ٹکڑے سے آپ مجھے خریدنا چاہتے ہیں میں تو ایک

بہت بڑا سودا کر نے آیا تھا۔ ستیش نے سمجھا کہ تو شاید دس روپے سے زیادہ مانگتا ہے کتنے روپے

چائیں تجھے ۔۔۔۔ میرے پاس اس وقت پچاس ہیں لینا ہوں تو لے جاؤ نھونے روپا کی طرف دیکھا رو پا کی آنکھوں سے آنسو نکل کر سیمنٹ سے اپی

55


ہوئی میٹھیوں پر ایک رہے تھے اس کے دل پر یہ قطرے پچھلے ہوئے کیسے کی طرح گر رہے تھے۔ حیش کی طرف اس نے مڑ کر کہا " چھوٹے لالہ جی ! یہ آپ کی چھتی ہے آپ اس کے بچے کے باپ ہیں۔۔۔ جیسے بڑے لالہ جی آپ کے پا ہیں ۔۔۔۔۔ روپا کے لیے اور کوئی جگہ نہیں ہے، وہ آپ کے پاس رہے گی اور آپ اسے چینی بنا کر رکھیں گے۔ سب گاؤں والے اسے احتکار رہے ہیں، کس لیے۔۔۔۔ اس لیے کہ وہ آپ کا بچہ اپنے پہیے میں لیے لیے پھرتی ہے ۔۔۔۔۔ آپ کو تھامنا پڑے گا اس لڑکی کا ہاتھ جس نے آپ کو اپنا سب کچھ دے دیا ۔۔۔۔ آپ کا دل پتھر کا نہیں ہے چھوٹے اللہ جی! اور اس چھوکری کا دل بھی پتھر نہیں ہے ۔۔۔۔۔ آپ نے اس کو سہارا نہ دیا تو اور کون دے گا یہ آتی نہیں تھی رو رو کے اپنی جان پاکان کر رہی تھی میں نے اسے سمجھایا اور کہا پلی تو کیوں روتی ہے تیراپنی جیتا ہے چل میں تجھے اس کے پاس لے چلوں حیش کو پتی چینی کا مطلب ہی سمجھ میں نہ آتا تھا دیکھو بھائی زیادہ بکواس نہ کرو تم یوں ڈرا دھمکا کر مجھ سے زیادہ روپیہ وصول نہیں کر سکتے۔ میں ایک سورہ پیر دینے پر راضی ہوں مگر شرط یہ ہے کہ بچے ضائع کر دیا جائے اور تم جو مجھ سے یہ کہتے ہو کہ میں اسے اپنے گھر میں بسا لوں تو یہ نا ممکن ہے۔۔ میں اس کا پتی خواب میں بھی نہیں بنا اور نہ یہ میری کبھی پتنی بھی ہے۔۔۔سمجھے؟ سورہ پیہ لینا ہو تو کل ؟ کے یہاں سے لے جانا اب یہاں سے تو وہ گیارہ ہو جاؤ۔“

نتو بھنا گیا

اور اور یہ بچہ کیا آسمان سے آگیا ہے؟۔۔۔۔۔ اس کی

56



آنکھوں میں آنسو بھوت پریتوں نے بھر دیتے ہیں۔۔۔ میر اول ۔۔۔ میرا دل کون مسل رہا ہے۔۔۔ یہ رو ہے۔ ۔ یہ سو روپے کیا آپ خیرات کے طور پر دے رہے ہیں۔ کچھ ہوا ہے تو سب کچھ ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ کوئی بات ہے تو یہ اچل مچا رہی ہے۔۔۔۔ آپ اس کے بچے کے باپ ہیں تو کیا اس کے پی میں ؟۔ میری منتقل کو کچھ ہو گیا ہے یا آپ کی سمجھ کو ۔ تیش یہ تقریر برداشت نہ کر سکا " الو کے چھے اتو جاتا ہے کہ نہیں یہاں سے، کھڑا اپنی منطق چھانٹ رہا ہے ، یا جو کچھ کرنا ہے کرلے۔۔۔۔ دیکھوں تو میرا کیا آپ کی پیتی ہے ۔ چینی کے بچے ، اب تو اپنی بکواس بند کرے گا یا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔بچہ بچہ کیا یک رہا ہے ۔۔۔۔ جانے جا اپنی اس چھیتی کو ، ورنہ یا درکھ، کھال ادھیڑ دوں گا۔ نھو کے سب پٹھے اکڑ گئے بھگوان کی قسم مجھ میں اتنی شکتی ہے کہ یوں ہاتھوں میں دیا کر تیرا سارا لہو نچوڑ دوں ۔۔۔۔ میری کھال تیرے ان نازک ہاتھوں سے ادھرے گی ۔۔۔ میں تیری ہوئی ہوئی نوچ سکتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ پر میں کچھ نہیں کر کا میں تجھے ہاتھ تک نہیں لگانا چاہتا۔ تو روپا کے بچے کا باپ ہے تو رو پا کا پتی ہے اگر میں نے تجھے پر ہاتھ اٹھایا تو مجھے ڈر ہے کہ روپا کے

تھو نے ہولے سے کہا میں تو سنوار نے آیا تھا چھوٹے لالہ جی ۔۔۔۔۔ آپ نا حق کیوں بگڑ رہے ہیں آپ کیوں نہیں اس کا ہاتھ تھام لیتے یہ

دل کو دھکا لگے گا۔۔۔۔۔۔ تو عورتوں سے ملتا جاتا ہے پر تو عورت کا دل نہیں

57


رکھتا۔

تیش آپے سے باہر ہو گیا اور چیخنے لگا تیری اور تیری روپا کی ایسی

تیسی ۔۔۔۔۔ نکل یہاں سے باہر تقو بڑھ کر روپا کے آگے کھڑا ہو گیا اور تیش کے پاس۔۔۔۔۔۔۔۔ باکل پاس جا کر کہنے لگا " چھوٹے اللہ جی مجھے معاف کر دیجئے میں نے ایسی باتیں کہہ دی ہیں جو مجھے نہیں کرنا چاہیے تھیں ۔ مجھے معاف کر دیجئے مگر رو پا کا ہاتھ تمام کیجئے ۔۔۔۔۔ آپ اس کے پتی ہیں ، اس کے بھاگ میں آپ کے بنا اور کوئی مرد نہیں لکھا گیا یہ آپ کی ہے ۔۔۔۔ اب آپ اسے اپنا لیں ۔۔۔ یہ دیکھتے ہیں آپ کے سامنے ہاتھ جوڑتا ہوں" کیسے واہیات آدمی سے واسطہ پڑا ہے نتیش نے کمرے کے اندر جاتے ہوئے کہا " کہتا ہوں میں روپو وو پا کو نہیں جانتا مگر یہ خواہ تو او سے میرے پلے باندھ رہا ہے۔ جاؤ جاؤ ہوش کی دوا کرو کمرے کا صرف دروازہ کھلا تھا جس میں سے نتیش اندر داخل ہوا تھا اندر داخل ہو کر اس نے یہ دروازہ بند کر دیا تھو نے دروازے کی لکڑی کی طرف دیکھا تو اسے نتیش کے چہرے اور اس میں کوئی فرق نہ آیا ۔ تھو نے اپنے سر کے بال مروڑ نے شروع کیے اور جب پیٹ کر اس نے روپا سے کچھ کہنا چاہا تو وہ جا چکی تھی ۔۔۔۔۔ وہ اس کا پیچھا کرنے کے لیے بھا گا مگر وہ جا چکی تھی باہر نکل کر اس نے رو پا کو بہت دور درختوں کے جھنڈ میں نائب ہوتے دیکھا، اس کے پیچھے یہ کہتا ہوا بھا گا روپا رو پا خبر جا۔۔۔ میں ایک بار

58


پھر اسے سمجھاؤں گا۔۔۔۔ وہی تیرا پتی ہے ۔۔۔۔ اس کا گھر ہی تیری اصل جگہ

ہے۔" وہ بہت دیر تک بھا کتا رہا مگر رو پا بہت دور نکل گئی تھی ۔۔۔۔ اس روز سے آج تیک نتھو ، روپا کی تلاش میں سرگرداں ہے مگرہ واسے نہیں باقی وہ لوگوں سے کہتا ہے میں روپا کے پتی کو جانتا ہوں ۔۔۔۔ تم اسے ڈھونڈ کر لاؤ میں اسے اس کے پی سے ملاؤں گا لوگ یہ سن کر نہیں دیتے ہیں ۔ بچے جب بھی نتھو کو دیکھتے ہیں تو اس سے پوچھتے ہیں اس کا پچی کون ہے تو بھیا ! تو نتو ان کو مارنے کے لیے دوڑتا ہے۔

59


15
مضمون
منٹو کے افسانے (Manto ke afsane)
0.0
سعادت حسن منٹو کی کچھ عمدہ کہانیوں کا مجموعہ
1

آخری سلیوٹ

29 November 2023
1
0
0

آخری سلیوٹ یہ کشمیر کی لڑائی بھی کچھ عجیب و غریب تھی ۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑ ا خراب ہو گیا ہو۔ کھیلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا مارنا اور مرنا جانتا

2

آنکھیں

29 November 2023
0
0
0

اس کے سارے جسم میں مجھے اس کی آنکھیں بہت پسند تھیں! یہ آنکھیں بالکل ایسی ہی تھیں جیسے اندھیری رات میں موٹر کار کی ہیڈ الماس جن کو آدمی سب سے پہلے دیکھتا ہے، آپ یہ نہ سمجھے گا کہ وہ بہت خوبصورت آنک

3

اب اور کہنے کی ضرورت نہیں

29 November 2023
0
0
0

یہ دنیا بھی عجیب و غریب ہے۔ خاص کر آج کا زمان ۔۔۔۔۔ قانون کو جس طرح فریب دیا جاتا ہے اس کے متعلق شاید آپ کو زیادہ علم نہ ہو۔۔۔ آج کل قانون ایک بے معنی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ ادھر کوئی نیا قانون بنتا ہ

4

اس کا پتی

30 November 2023
1
0
0

اس کا پتی لوگ کہتے تھے کہ نتھو کا سر اس لیے گنجا ہوا ہے کہ وہ ہر وقت سوچتا رہتا ہے اس بیان میں کافی صداقت تھی کیونکہ سوچنے وقت تو ہمیشہ سر کھجایا کرتا ہے کیونکہ اس کے بال بہت کھردرے اور خشک ہیں اور

5

الو کا پچھا

30 November 2023
0
0
0

قاسم صبح سات بجے کاف سے باہر نکھار اور غسل خانے کی طرف پہلا راستے ہیں، یہ اس کو ٹھیک طور پر معلوم نہیں ہونے والے کمرے میں ہمشن میں یا غسل خانے کے اندر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی کو ال

6

الله

30 November 2023
0
0
0

دو بھائی تھے اللہ رکھا اور اللہ دتا دونوں ریاست پٹیالہ کے باشندے تھے ان کے آبا ؤ اجداد البتہ لاہور کے تھے مگر جب ان دو بھائیوں کا داد اما ازمت کی تلاش میں پیالہ آیا توں ہیں کا ہو رہا۔ اللہ رکھا اور

7

انتظار

1 December 2023
1
0
0

(گھڑی آٹھہ بجاتی ہے )  منتظر : آدھا گفته مصرف آدھا گھنٹہ اور پھر اس کے بعد ۔۔۔ یدین کی آخری ڈوبتی ہوئی گونج کتنی پیاری تھی اور اور منتظر کا منطقی وجود اگر وہ نہ آئی۔ یعنی اگر منتظر کیوں نہ آئے

8

اولاد

1 December 2023
0
0
0

جب زبیدہ کی شادی ہوئیت و اس کی عمر پچیس برس کی تھی اس کے ماں باپ تو یہ چاہتے تھے کہ سترہ برس کی ہوتے ہی اس کا بیاہ ہو جائے مگر کوئی مناسب و موزوں رشتہ ملتا ہی نہیں تھا اگر کسی جگہ بات طے ہونے پاتی ت

9

بانجھ

2 December 2023
0
0
0

میری اور اس کی ملاقات آج سے ٹھیک دو برس پہل اپولو بندر پر ہوئی شام کا وقت تھا سورج کی آخری کرنہیں سمندر کی ان دور دراز لہروں کے پیچھے غائب ہو چلی تھیں جو ساحل کے بینچ پر بیٹھ کر دیکھنے سے موٹے کپڑ

10

باسط

5 December 2023
0
0
0

باسط با کل رضا مند نہیں تھا لیکن ماں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی اول اول تو اس کو اتنی جلدی شادی کرنے کی خواہش نہیں تھی اس کے علاوہ وہ لڑکی بھی اسے پسند نہیں تھی جس سے اس کی ماں اس کی شادی کرنے

11

بھنی

5 December 2023
0
0
0

بھنگنوں کی باتیں ہورہی تھیں خاص طور پر ان کی جو ہوارے سے پہلے امرتسر میں رائی تھیں مجید کا یہ ایمان تھا کہ امرتسر کی بھٹکوں جیسی کراری چھوکریاں اور کہیں نہیں پائی جاتیں خدا معلوم تقسیم کے بعد وہ کہا

12

بسم الله

7 December 2023
0
0
0

فلم بنانے کے سلسلے میں ظہیر سے سعید کی ملاقات ہوئی سعید بہت متاثر ہو ا ہمی میں اس نے تہیہ کو سنٹرل اسٹوڈیوز میں ایک دو مرتبہ دیکھا تھا اور شاید چند باتیں بھی کی تھیں مگر متصل ملاقات پہلی مرتبہ لا ہو

13

بغیر اجازت

7 December 2023
0
0
0

نعیم کہلاتا کہلاتا ایک باغ کے اندر چلا گیا ۔۔۔ اس کو وہاں کی فضا بہت پسند آئی ۔۔۔ گھاس کے ایک تختے پر لیٹ کر اس نے خود کلامی شروع کر دی۔ کیسی پر فضا جگہ ہے ۔۔۔ حیرت ہے کہ آج تک میری نظروں سے او تج

14

بلاوز

9 December 2023
0
0
0

کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت باتیں کرتے ہوئے تھی کہ سوچنے پر بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو اگر دو بیان بھی کرنا چ

15

بلونت سنگھ مجیٹھیا

10 December 2023
1
0
0

شاہ صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو ہم فورا بے تکلف ہو گئے ۔ مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ سید ہیں اور میرے دور دراز کے رشتے دار بھی ہیں۔ وہ میرے دور یا قریب کے رشتہ دار کیسے ہو سکتے تھے، اس کے متع

---