بھنگنوں کی باتیں ہورہی تھیں خاص طور پر ان کی جو ہوارے سے پہلے امرتسر میں رائی تھیں مجید کا یہ ایمان تھا کہ امرتسر کی بھٹکوں جیسی کراری چھوکریاں اور کہیں نہیں پائی جاتیں خدا معلوم تقسیم کے بعد وہ کہاں تتر بتر ہوگئی تھیں۔ رشید ان کے مقابلے میں کجریوں کی تعریف کرتا تھا اس نے مجید سے کہا تم ٹھیک کہتے ہو کہ امرتسری بھگتیں اپنی جوانی کے زمانے میں بڑی پرکشش ہوتی ہیں لیکن ان کی یہ جوانی کھتر انیوں کی طرح زیادہ دیر تک قائم نہیں رہتی ۔۔۔ بس ایک دم جوان ہوتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ادھیٹر ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔۔۔ ان کی جوانی معلوم نہیں کون سا چور چرا کے لے جاتا ہے خدا کی قسم ۔۔۔ ہمارے ہاں ایک بینگن کو نیا کمانے آتی تھی ۔۔۔ اتنی کڑیل جوان تھی کہ میں اپنی کمزور جوانی کو محسوس کر کے اس سے کبھی بات نہ کر سکا۔۔۔۔ عیسائی مشنریوں نے اسے اپنے مذہب میں داخل کر لیا تھا نام اس کا فاطمہ تھا، پہلے کھر والے اسے بچاتو کہتے تھے ۔۔۔ مگر جب وہ عیسائی ہوئی تو اسے مس بھا تو کے نام سے پکارا جانے لگا۔۔۔۔ صحیح کو وہ برک فاسٹ کرتی تھی، دو پہر کو لینے اور شام کو ور۔۔ لیکن چند مہینوں کے بعد میں نے اسے دیکھا کہ اس کی ساری کڑیل جوانی جیسے پکھل گئی ہے۔۔۔۔ اس کی چھاتیاں جو بڑی تند خو تھیں اور اس طرح اوپر اٹھی رہتی تھیں جیسے ابھی اپنا سارا جو بن آپ پر واضح دیں گی، اس قدر نیچے ڈھلک گئی تھیں کہ ان کا نام و نشان بھی نہیں ماتا تھا۔۔ لیکن اس کے مقابلے
154
155
میں ہمارے گھر میں وہ کھری جواو پلے لے کر آتی تھی ، تیر کی طرح سیدھی تھی اس کی عمر بھی اتنی ہی ہو گی جتنی اس جھنگن کی تھی۔۔۔ مگر وہ تین برس کے بعد بھی ویسی ہی جوان تھی ۔۔۔۔۔ سروقد ۔ اوپلوں کا ٹوکرا اس کے سر پر ہوتا تھا ۔۔۔۔ ایک پہاڑ سا بنا ہو اگر مجال ہے کہ اس کی گردن میں ہلکی سی جنبش آجائے یا اس کی کمر میں خفیف ساغم آ جائے ۔ آتی رہی۔ اس کے بعد اس کی شادی ہوگئی۔۔۔۔ اس کے یکے بعد دیگرے تین لڑ کے تین برس وہ ہمارے یہاں آن پیدا ہوئے۔ اور مجید میں خدا کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ اس کی کمرویسی کی ولیسی مضبوط تھی ۔۔۔ تم میری مان لو کہ جنگنیں گوجریوں کا مقابلہ کسی صورت بھی نہیں کر سکتیں
مجید تلملا رہا تھا اس نے پان کی گلوری چدنیا سے نکال کر اپنے کلے میں دہائی چھوٹی ڈبیا سے ماچس کی تیلی کی مدد سے تھوڑا ساقوام نکالا اور منہ میں ڈال کر بڑے تحمل سے کہا " رشید بھائی ۔۔۔ تم ٹھیک کہتے ہو ۔ ۔ ۔ لیکن جس بھنگن کا تصور میرے دماغ میں ہے اور جس کی دراصل میں بات کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔ اس کی گرد کو امرتسر کی کوئی کھری نہیں پہنچ سکتی ۔ وہ ایک قیامت تھی ۔۔۔ ایک فتنا تھی ۔۔۔ اب تم ایسا کرو کہ میری ساری داستان سن لو تا کہ تم میں اس فتنہ قیامت کے متعلق کچھ معلوم ہو سکے ۔ ۔ جو بن ڈھلنے کی تم جو بات کرتے ہو اس کو میں اچھی طرح سمجھتا ہوں کجریوں کا قد لمبا ہوتا ہے قدرتی طور پر انہیں جلدی ڈھلنا چاہیے، مگر ایسا نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ وہ ننگے پاؤں رہتی ہیں اور اپنے سر پر بقول تمہارے پیاڑ سا اوپلوں کا ٹوکرا اٹھائے اٹھائے پھرتی ہیں ۔۔۔۔ لیکن اونت
بھیجو فی الحال کجھریوں پر ، کیونکہ مجھے پانی کی بات کرتا ہے جو ہمارے محلے کی بڑی گزاری بھنگن تھی ۔۔۔۔ اس کا قد تو انگشتان بھر کا تھا مگر زبان اسکندری کر تھی شادی شدہ تھی، مگر خاوند سے ہر روز لڑتی جھڑتی رہتی تھی۔ ہمارے کمپا بند میں یہ دونوں میاں بیوی ہر روز صبح سویرے آتے اور ایک بڑ کے درخت کے ساتھ جھولا انکا دیتے اس میں وہ اپنا لڑ کا ڈال دیتے تھے مگر مصیبت یہ تھی کہ اس کو چھلانے والا اور کوئی نہیں تھا ، چنانچہ دونوں میاں بیوی جھاڑہ چھوڑ کر اسے جھولا جھلاتے یا گود میں اٹھائے پھرتے تھے
رشید نے مجید سے کہا یہ جھولے کی بات کہاں سے آگئی ۔۔۔۔۔ تم تو ایک گزاری جھنگن کی بات کر رہے تھے۔۔۔۔ جو بقول تمہارے بہت خوبصورت تھی۔ مجید نے فورا کہا یار تم جھولے کے ساتھ کیوں اٹک گئے ۔۔۔۔۔۔ میری پوری کہانی تو سن لو۔ یہ جھولے کی نہیں بنی کی ہے۔۔۔ اس پانی کی جسے میں ساری عمر فراموش نہیں کر سکتا ۔ وہ ایک آفت تھی ۔۔۔ صبح اپنے خاوند کے ساتھ آتی تھی ۔۔۔۔ ہاتھ میں نہیں کی جھاڑو لیے ۔۔۔۔۔ ماتھے پر سینکڑوں توریاں ۔۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا کہ ابھی جہازو آپ کے سر پر دے مارے گی۔ مگر ایسا موقع کبھی نہیں آیا ۔۔۔۔۔ میں نے ہزاروں بار اس کو گھورا، لیکن اس نے میرے سر پر جھاڑو نہیں ماری۔۔۔۔ اس کی تیوریاں اس کے ماتھے پر بدستور قائم رہیں اور وہ حسب سابق اپنا کام کرتی رہی ۔ اس کا خاوند جس کا نام معلوم نہیں کیا تھا ، اول درجے کا زن مرید تھا۔ اس کا قد اپنی بیوی سے بھی چھوٹا
156
تھا ۔ وہ اس کو کام کے دوران میں ہمیشہ گالیاں دیا کرتی تھی ۔۔۔ محلے کے سب لوگ سنتے تھے اور آپس میں چہ میگوئیاں کرتے تھے ۔" رشید اتنی لمبی داستان سنا کر بھنا گیا "تم اصل بات کی طرف آؤ۔۔۔۔ یہ کیا لیہ سے گوئیاں بک رہے ہو ۔۔۔۔ اپنی نام بڑا اچھا ہے، ورنہ خدا کی قسم میں نالو تمہاری یہ خرافات کبھی نہ سنتا ۔۔۔۔ معلوم نہیں، یہ تمہاری جوڑی ہوئی کہانی ہے۔۔۔۔۔ بہر حال تم میں چند منٹ دیتا ہوں ۔ مجید تا ء میں آگیا الو کے تھے۔۔۔ تم نے صرف پانی کا نام سنا ہے بھی تم نے اسے دیکھا ہوتا تو دل نکال کر اس کے ٹوکرے میں ڈال دیا ہوتا ۔۔۔ میں تم سے اگر ایک واقعہ بیان کر رہا ہوں تو اس میں نمک مری لگانے کی مجھے اجازت ہونی چاہیے۔ تم اگر اکتا گئے ہوتو جہنم میں جاؤ!" رشید کو اور کوئی کام نہیں تھا۔ ۔ اس کے پاس اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ کسی سینما میں چلا جاتا اس لیے مناسب سمجھا کہ مجید کی داستان سن لے جہنم میں جانے کا سوال نہیں ۔۔۔۔ تم ذرا اختصار سے کام لو۔۔۔۔۔ اصل میں مجھے پانی سے دیا پی پیدا ہوگئی ہے ۔ مجید نصے میں آگیا " تمہاری دیا پی کی ایسی کی تیسی ۔۔۔۔۔۔ سالے تم کون ہوتے ہو، اس میں ایچ پی لینے والے۔۔۔ اس میں پی پی لینے والے تم ایسے ہزاروں تھے مگر وہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتی تھی ۔۔۔۔۔۔ میں تم سے کروڑ مرتبہ زیادہ خوبصورت ہوں، لیکن میں اس کی نگہ التفات کا ہر وقت منتظر رہتا تھا ۔۔۔ وو بڑی مہیلی تھی ۔۔۔۔ میرے دوست رشید ا خدا کی قسم ، اس جیسی لڑکی ،
157
میں نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی نام اس کا چچنی تھا۔۔۔۔ یعنی بچن سے تعلق رکھتا تھا۔ مگر وہ تو چھا چھا گئی تھی ۔۔۔۔ میں نے بڑی کوشش کی کہ اس کو اپنے قبضے میں لے آؤں، پر نا کام رہاوہ پیچھے پر ہاتھ ہی نہیں دھر نے دیتی تھی ۔
یہ سن کر رشید بولا تم یا ر ہمیشہ ایسے معاملوں میں کو رے رہے ہو؟ مجید کے گہری چوٹے لگی" بکواس کرتے ہو۔۔۔۔۔۔ میں نے ایک روز اسے پکڑ لیا ۔۔۔۔ میرے گھر کے باہر وہ جھاڑو دے رہی تھی کہ میں نے اس کا بازو پکڑ لیا اور اپنے ساتھ چمٹا لیا ۔“ پھر کیا ہوا؟ رشید نے ازراہ مذاق سگریٹ سلگایا اور ماچس کی تیلی بچھا کر اس کے کئی ٹکڑے کر کے ایش ٹرے میں ڈال دیئے ۔ مجید کو ایسا معلوم ہوا، کہ رشید نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے ہیں، بہت جز یز ہوا لیکن آدمی سچا تھا اس لیے جھوٹ نہ بول سکا یا ر رشید ا تم مذاق اڑاتے ۔۔ لیکن واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ اس روز ہوا، اس کا مذاق اڑانا ہی چاہیے۔ میں نے اسے اپنے ساتھ بھینچ لیا ۔۔۔۔۔ لیکن اس حرامزادی نے کھینچ کے اپنی جھاڑو میرے منہ پر دے ماری ۔ میں شرم کے مارے اندر بھاگ گیا ۔۔ لیکن فورا باہر گلا۔۔۔۔ دیکھا کہ وہ میرے مکان کے باہر جھاڑو دے رہی ہے۔۔۔ میں نے اسے پھر پکڑا ۔۔۔۔ اس نے کوئی مزاحمت نہ کی ۔۔۔ میں
رشید نے مجید کا فتقر مکمل کر دیا کہ معاملہ درست ہو گیا ہے" مجید بوکھلا گیا " خاک درست ہوا ۔۔۔۔ وہ میری گرفت سے نکل کر سیدھی
158
میری بیوی کے پاس چلی گئی ۔۔۔ لیکن اس سے کوئی شکایت نہ کی ۔۔۔۔ میں ڈر کے مارے دیکا ہوا تھا۔ میں نے صرف یہ سنا، اور میری جان کا ہو مجھ باگا ہوا ۔۔۔ بی بی جی، آج بھی پانی نہیں آیا ۔۔۔۔ یہ ان لوگوں کو جو آپ سے ہر مہینے دس روپے وصول کرتے ہیں، کیا ہو گیا ہے۔۔۔ کیوں وہ اتنا خیال نہیں کرتے کہ آپ کو ہر روز ماشکی کو ہی مشکلوں کے چار آنے فی مٹک کے حساب سے دورہ ہے آٹھ آنے دینا پڑیں۔ میں نے خدا کا لا کھا کھ شکر ادا کیا کہ اس نے میری عزت و آبرو رکھ لی ۔۔۔ لیکن میں نے بعد میں سوچا کہ میری عزت آبرو رکھنے والی اصل میں بچتی ہے۔۔ لیکن جب زیادہ سو چا تو احساس ہوا کہ ایسا نے اسے پالیا ؟ مجید نے رشید کی چند نیا سے ایک گلوری کی اور کہا دیکھو رشید۔۔۔۔۔۔۔ تم بیٹی کو جانتے نہیں ۔۔۔ افسوس ہے کہ میں افسانہ نگار نہیں ورنہ میں اس کا کردار بہت اچھی طرح ۔۔۔ جیتا جاگتا پیش کر سکتا ۔۔۔۔۔ وہ معلوم نہیں ہے، کیا تھی۔۔ عمر اس کی زیادہ سے زیادہ ۔۔۔ یہ مجھو کہ ستر و اٹھارہ برس کے قریب ہوگی ۔۔۔۔ قد اس کا ساڑھے چارفٹ ہوگا ۔۔۔۔ مچھاتی ایسی تھی جیسے لوہے کی بنتی ہے حالانکہ ایک بچے کی ماں تھی رشید بہت تنگ آ گیا " ایک بچے کی ماں کے بچے ۔۔۔۔ تو اپنی داستان کے
سوچنا کفر ہے۔ رشید قریب قریب تنگ آچکا تھا اس نے اپنے دوست کی خاطر آواز دبا کر کیا " کافر کے بچے ۔۔۔ بات تو کر یہ کہ تیرا اس کونی کی بچی سے کیا ہوا؟ ۔۔۔۔ کیا تم
159
انجام کو پانچ ۔۔ مجھے ایک بہت ضروری کام سے جانتا ہے۔۔۔ ساڑھے سات بج چکے ہیں لیکن تمہاری داستان ہی ختم ہونے میں نہیں آتی "
مجید نجیدہ رہا رشید ! اے ۔ معاملہ بڑا نازک ہے
کس کا؟ تمہارا یا میر ؟ میں نہیں کہہ سکتا لیکن جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں، اس وقت معاملہ میرا تو بہت نازک تھا۔۔۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا، کیا کروں، کیا نہ کروں ۔۔۔۔ اب تم یہ خیال کرو کہ میں ہزاروں کا مالک تھا ۔۔۔۔ تم جانتے ہی ہو کہ ماں باپ مرکھپ چکے تھے ۔۔۔۔ ساری جائیداد کا میں وارث تھا جہاں چاہتا انا دیتا ۔۔۔۔۔ اس روز جب میں نے بیٹی کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچا اور وہ دمیری گرفت سے یوں الگ آئی، جیسے میرا کام تمام کر دے گی لیکن میری بیوی سے اس نے اس سلسلے کا ذکر تک نہ کیا تو مجھے امید ہوگئی کہ چند ایسے معاملوں کے بعد میں
کامیاب ہو جاؤں گا۔ رشید نے اس سے پوچھا تجھے کامیابی ہوئی " خاک ۔ تم اسے جانتے ہی نہیں ہو۔۔۔۔۔۔ بڑی تیز خواڑ کی ہے ۔۔۔۔ اپنے خاوند کو کچھ نہیں جھتی ۔۔۔۔۔ لیکن ایک عجیب بات ہے کہ میں نے اس سے اتنی چھیڑ چھاڑ کی لیکن اس نے کسی سے بات تک نہ کی ، ورت اگر وہ چانتی تو میرا گھر نکال کر سکتی تھی رشید مسکرایا " میں تمہاری پانی کو جانتا ہوں"
مجید نے بڑی حیرت سے پوچھا تم کیسے جانتے ہو اس کو ؟
160
جس طرح تم جانتے ہو۔۔۔۔۔۔ کیا تم نے ٹھیکا لے رکھا ہے کہ وہ تمہارے ہی محلے میں کام کیا کرے۔۔ میں اس کو بہت اچھی طرح جانت انہوں" مجید کو یقین نہ آیا " بکواس کرتے ہو۔۔۔ اس کی عمر ہی کتنی ہے کہ تم اسے جانو دوبری سے کچھ مہینے اوپر ہو گئے ہیں کہ وہ ہمارے محلے میں روزانہ آتی ہے اس کے لڑکے کی عمر بھی دو سال کے قریب ہو گی۔۔ یعنی جب وہ ہمارے ہاں ملازم ہوئی تو اس کے کوئی بچے نہیں تھا ۔۔۔ لیکن دو تین مہینے کے بعد اس کی گود میں ایک لڑکا تھا ۔ میر؟ مجید گھبرا گیا، لیکن فورا سنبھل کر اس نے مذاق کا جواب نداق میں دیا میرا ہوتا تو کیا کہتے تھے۔۔ کم از کم میں یہ تو کہنے کے قابل ہو جاتا کہ میں نہیں !
رشید پھر مسکر یا تمہارا ؟
اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہوں ۔ رشید کی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب رنگ اختیار کرگئی تو میں اپنی
پنی کے شوہر کا نام معلوم نہیں“
میں بتاتا ہوں تم ہیں ۔۔۔۔ اس کے شوہر کا نام رشید ہے !" مجید بوکھلا گیا" رشید ؟ کیا اس کا نام رشید ہے ؟" رشید نے بڑے وثوق اور بڑی سنجیدگی سے جواب دیا " ہاں اس کا نام رشید ہے۔۔۔۔ اصل میں وہی اس کا شوہر ہے" ور جو اس کے ساتھ ہمارے محلے میں جہاز و دیتا ہے اور اپنے بچے کو جھولا
161
جاتا ہے مجید کی بوکھلاہٹ اسی طرح قائم تھی رشید کی سنجید گی میں کچھ اضافہ ہو گیا وہ الو کا پٹھا اپنے بچے کو جھولا نہیں جھلاتا" تو کے جھلاتا ہے۔۔۔۔ کیا وہ اس رشید کا بچے ہیں ؟
نہیں
تو کس کا بچہ ہے؟ ایک بہت غریب اور نادار آدمی کا ۔۔۔۔ جو خوبصورت بھی نہیں ۔۔۔۔ تم سے ہزاروں درجے نیچے ہے
کون ہے وہ؟"
چ چھ کے کیا کرو گے؟"
کروں گا کیا ۔ ۔ ۔ بس ایسے ہی جاننا چاہتا ہوں رشید نے ایک سگریٹ سلگایا اور بڑے اطمینان سے کہا جاننا چاہتے ہو تو جان لو۔ وہ رشید میں ہوں ۔۔۔ تمہاری بیٹی سے میری آشنائی بچپن کی ہے۔۔۔۔ وہ گیارہ برس کی تھی۔۔۔ میں تیرہ برس کا ۔۔۔۔ جب سے میرا اس کا معاملہ چلا آ رہا ہے۔ واڑ کا جو تم اس کی گود میں دیکھتے ہو اور جسے اس کا الو کا پٹھا شوہر ہر روز مجھولا جھلاتا ہے، اس خاکسار کی اولا د ہے ۔۔۔ شکر ہے خداوند کریم کا کریڑ کی نہ ہوئی اورنہ میں تو اسے دوسرے ہی روز مارڈالتا ۔۔۔۔۔ یہ کہہ کر رشید فورا اٹھا اور چلا گیا ۔۔۔۔۔ مجید ہو پاتا رہ گیا کہ خداوند کریم نے
اس پر کون سا کرم کیا تھا جو وہ اس کا شکر گزار تھا ۔۔۔۔۔۔۔
162