shabd-logo

الو کا پچھا

30 November 2023

4 ڏسيل 4


قاسم صبح سات بجے کاف سے باہر نکھار اور غسل خانے کی طرف پہلا راستے ہیں، یہ اس کو ٹھیک طور پر معلوم نہیں ہونے والے کمرے میں ہمشن میں یا غسل خانے کے اندر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی کو الو کا پٹھا کہے بس صرف ایک بار نصے میں باطنر یہ انداز میں کسی کو الو کا پٹھا کہہ دے۔ قاسم کے دل میں اس سے پہلے کئی بار بڑی برائی انوکھی خواہشیں پیدا ہو چکی تھیں مگر یہ خواہش سب سے برائی تھی وہ بہت خوش تھا رات اس کو بڑی پیاری نبیند. آئی تھی وہ خود کو بہت تا زہ محسوس کر رہا تھا لیکن پھر یہ خواہش کیسے اس کے دل میں داخل ہوگئی۔ دانت صاف کرتے وقت اس نے ضرورت سے زیادہ وقت صرف کیا جس کے باعث اس کے مسوڑھے پھیل گئے دراصل وہ سوچتا رہا کہ یہ عجیب تخریب خواہش کیوں پیدا ہوئی مگر وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا۔ بیوی سے وہ بہت خوش تھا ان میں بھی لڑائی نہ ہوئی تھی تو کروں پر بھی وہ ناراض نہیں تھا اس لیے کہ تمام محمد اور نبی بخش دونوں خاموشی سے کام کرنے والے مستعد نوکر تھے۔ موسم بھی نہایت خوشگوار تھا فروری کے سہانے دن تھے۔ جن میں کنوارپنے کی تازگی تھی ہوا جنگ اور بلی دن چھوٹے نہ راتیں نہی نیچر کا توازن بالکل ٹھیک تھا اور قاسم کی صحت بھی خوب تھی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ کسی کو بغیر وجہ کے الو کا پٹھا کہنے کی خواہش اس کے دل میں کیوں کر پیدا ہوگئی۔ قاسم نے اپنی زندگی کے اٹھائیس برسوں میں متعدد لوگوں کو الو کا پیچھا کیا ہوگا

71


اور بہت ممکن ہے کہ اس سے بھی کڑے لفظ اس نے بعض موقعوں پر استعمال کیے ہوں اور گندی گالیوں بھی دی ہوں مگر اسے اچھی طرح یاد تھا کہ ایسے موقعوں پر خواہش بہت پہلے اس کے دل میں پیدا نہیں ہوئی تھی مگر اب اچانک طور پر اس نے محسوس کیا تھا کہ وہ کسی کو الو کا پٹھا کہنا چاہتا ہے اور یہ خوانش لحد بلیچہ شدت اختیار کرتی چلی گئی جیسے اس نے اگر کسی کو الو کا پٹھا نہ کہا تو بہت بڑا ہرج ہو جائے گا۔

دانت صاف کرنے کے بعد اس نے چھلے ہوئے مسوڑھوں کو اپنے کمرے میں جا کر آئینے میں دیکھا مگر دیر تک ان کو دیکھتے رہنے سے بھی وہ خواہش نہ دلی جو ایکا یکی اس کے دل میں پیدا ہو گئی تھی ۔ قاسم منطقی قسم کا آدمی تھا وہ بات کے تمام پہلوؤں پر چور کرنے کا عادی تھا آئینہ میز پر رکھ کره و آرام کرسی پر بیٹھ گیا اور ٹھنڈے دمان سے سوچنے لگا۔ مان لیا کہ میر اسی کو الو کا پٹھا کہنے کو جی چاہتا ہے۔۔۔۔ مگر یہ کوئی بات تو نہ ہوئی۔ میں کسی کو الو کا پٹھا کیوں کہوں ۔۔۔؟ میں کسی سے ناراض بھی تو نہیں ہوں۔

یہ سوچتے سوچتے اس کی نظر سامنے دروازے کے بیج میں رکھے ہوئے تھے پر چے گی۔ ایک دم اس کے دل میں یہ باتیں پیدا ہوئیں، عجیب واہیات نوکر ہیں دروازے کے عین بیچ میں یہ حقہ لگا دیا ہے میں ابھی اس دروازے سے اندر آیا ہوں، اگر ٹھوکر سے بھری ہوئی چلم کر پڑتی تو پا انداز جو کہ مونج کا بنا ہوا ہے جلنا شروع ہو جاتا اور ساتھ ہی قالین بھی ۔

72


اس کے جی میں آئی کہ نام محمد کو آواز دے جب وہ بھاگا ہوا اس کے سامنے ؟ جائے تو وہ بھرے ہوئے تھے کی طرف اشارہ کر کے اس سے صرف اتنا کہے تم ترے الو کے بچھے ہو مگر اس نے تامل کیا اور سوچا کیوں بگڑنا اچھا معلوم نہیں ہوتا اگر غلام محمد کو اب بلا کر الو کا پٹھا کہہ بھی دیا تو وہ بات پیدا نہ ہو گی اور ۔۔۔۔۔ اور پھر اس بے چارے کا کوئی قصور بھی تو نہیں ہے میں دروازے

کے پاس بیٹھ کر ہی تو ہر روز حقہ پیتا ہوں ۔ چنانچہ وہ خوشی جو ایک لمحے کے لیے قاسم کے دل میں پیدا ہوئی تھی کہ اس نے الو کا پٹھا کہنے کے لیے ایک اچھا موقع تلاش کر لیا غائب ہو گئی۔ دفتر کے وقت میں ابھی کافی دیر تھی پورے دو گھنٹے پڑے تھے، دروازہ کے پاس کرسی رکھ کر قاسم اپنے معمول کے مطابق بیٹھ گیا اور حلقہ نوشی میں مصروف ہو گیا۔

کچھ دیر تک و وسوچ بچار کے بغیر تے کا جواں پیتا رہا اور دھوئیں کے اختیار کو دیکھتا رہا۔ لیکن جونہی وہ تھے کو چھوڑا کر کپڑے تبدیل کرنے کے لیے ساتھ والے کمرے میں گیا تو اس کے دل میں وہی خواہش نئی تازگی کے ساتھ پیدا ہوئی ۔ قاسم گھبرا گیا۔ بھئی حد ہوگئی ہے۔۔ الو کا پٹھا ۔۔۔۔۔ میں کسی کو الو کا چھا کیوں کہوں اور بفرض محال میں نے کسی کو الو کا پٹھا کہہ بھی دیا تو کیا ہو

قاسم دل ہی دل میں بہن اوہ صیح الد مانع آدمی تھا اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ یه خوانش جو اس کے دل میں پیدا ہوئی ہے بالکل بیہودہ اور بے سروپا ہے لیکن اس

73


کا کیا علاج تھا کہ دہانے پر و داور بھی زیادہ ابھر آتی تھی۔ قاسم اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ بغیر کسی وجہ کے الو کا پٹھا نہ کہے گا خواہ یہ خواہش صدیوں تک اس کے دل میں تلملاتی رہے شاید اسی احساس کے باعث یہ خواہش جو بھٹکی ہوئی چمگادڑ کی طرح اس کے روشن دل میں چلی آئی تھی اس قدر تڑپ رہی تھی۔

پتلون کے بٹن بند کرتے وقت جب اس نے دمانی پریشانی کے باعث او پر کا بٹن پچھلے کاج میں داخل کر دیا تو وہ جھلا اٹھا بھٹی کون ہو گا۔ یہ کیا بیہودگی ہے۔۔۔۔ دیوانہ پن نہیں تو اور کیا ہے ۔۔۔۔ الو کا پٹھا کہو۔۔۔۔۔۔۔ الوکا بچھا ہو اور یہ پتلون کے سارے بٹن مجھے پھر سے بند کرنے پڑیں گئے لباس پین کروہ میز پر آبیٹا اس کی بیوی نے چائے بنا کر پیالی اس کے سامنے رکھ دی اور توس پر مکھن لگانا شروع کر دیا روزانہ معمول کی طرح ہر چینی ٹھیک ٹھاک تھی تو س اتنے اچھے سنکے ہوئے تھے کہ بسکٹ کی طرح کر کر تھے اور ڈبل روٹی بھی اعلی قسم کی تھی خمیر میں سے خوشبو آرہی تھی مکھن بھی صاف تھا چائے کی کیتلی ہے والی تھی اس کی موٹھ کے ایک کونے پر قائم ہر روز میل دیکھا کرتا تھا مگر آج وہ وصبہ بھی نہیں تھا۔

اس نے چائے کا ایک گھونٹ پیا اس کی طبیعت خوش ہو گئی ، خالص دارجلنگ کی چائے تھی جس کی مہک پانی میں بھی برقر اتھی دودھ کی مقدار بھی صبح تھی۔ قاسم نے خوش ہو کر اپنی بیوی سے کہا " آج چائے کا رنگ بہت ہی پیارا ہے اور بڑے سلیقے سے بنائی گئی ہے ۔"

74

بیوی تعریف سن کر خوش ہوئی مگر اس نے منہ بنا کر ایک ادا سے کہا جی ہاں ۔۔۔۔ بس آج اتفاق سے اچھی بن گئی ہے ، ورنہ ہر روز تو آپ کو نیم کھول کے پائی جاتی ہے ۔۔۔۔۔ مجھے سلیقہ کہاں آتا ہے۔۔۔۔ سلیقے والیاں تو وہ موٹی ہوٹل کی چھوکریاں ہیں جن کے آپ ہر وقت کن گایا کرتے ہیں یہ تقریر سن کر قائم کی طبیعت مکدر ہو گئی ایک لمحہ کے لیے اس کے جی میں آئی کہ چائے کی پیالی میز پر الٹ دے اور وہ نیم جو اس نے اپنے بچے کی پھنسیاں دھونے کے لیے غلام محمد سے منگوانی تھی اور سامنے بڑے طاقچے میں پڑی تھی کھول کر پی لے مگر اس نے بردباری سے کام لیا " یہ عورت میری بیوی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کی بات بہت ہی بھونڈی ہے مگر ہندوستان میں سب لڑکیاں بیوی بن کر ایسی بھونڈ کی باتیں ہی کرتی ہیں اور بیوی بننے سے پہلے اپنے گھروں میں وہ اپنی ماؤں سے کیسی باتیں سنتی ہیں؟ بالکل ایسی اونی قسم کی باتیں اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عورتوں کو عمومی زندگی میں اپنی حیثیت کی خبر ہی نہیں ۔۔۔۔ میری بیوی تو پھر بھی قیمت ہے یعنی صرف ایک ادا کے طور پر ایسی بھونڈی بات کہہ دیقی ہے، اس کی نیت نیک ہوتی ہے بعض عورتوں کا تو یہ شعار ہوتا ہے کہ ہر وقت بکو اس کرتی رہتی ہیں

یہ سوچ کر قاسم نے اپنی نگا ہیں اس طاقچے سے بنائیں ۔ جس میں نیم کے پتے دھوپ میں سوکھ رہے تھے اور بات کا رخ بدل کر اس نے مسکراتے ہوئے کہا " دیکھو، آج نیم کے پانی سے بچے کی ٹائلیں ضرور دھو دینا نیم زخموں کے لیے برائی اچھی ہوتی ہے۔۔۔ اور دیکھو تم موسویوں کا رس ضرور پیا کرو۔۔۔ میں دفتر

75

سے لوٹتے ہوئے ایک درجن اور لے آؤں گا یہ اس تمہاری صحت کے لیے بہت

ضروری ہے۔ بیوی مسکرا دی" آپ آپ کو تو بس ہر وقت میری ہی صحت کا خیال رہتا ہے۔۔۔۔۔ اچھی بھلی تو ہوں، کھاتی ہوں، پیتی ہوں، دوڑتی ہوں، بھاگتی ہوں ۔۔۔۔ میں نے جو آپ کے لیے بادام منگوا کے رکھے ہیں۔۔۔۔۔۔ بھئی آج دی ہیں آپ کی جیب میں ڈالے بغیر نہ رہوں گی ۔۔۔۔۔ لیکن دفتر میں کہیں بانٹ نہ دیجئے گا۔ قاسم خوش ہو گیا کہ چلو موسویوں کے رس اور باداموں نے اس کی بیوی کے مصنوعی تحصے کو دور کر دیا اور یہ مرحلہ آسانی سے طے ہو گیا در اصل قاسم ایسے مرحلوں کو آسانی کے ساتھ ان طریقوں ہی سے طے کیا کرتا تھا جو اس نے پڑوں کے پرانے شوہروں سے سیکھے تھے اور اپنے گھر کے ماحول کے مطابق ان میں تھوڑا بہت رد و بدل کر لیا تھا۔ چائے سے فارغ ہو کر اس نے جب سگریٹ نکال کر سا گایا اور اٹھہ کر دفتر جانے کی تیاری کرنے ہی والا تھا کہ پھر وہی خواناش نمودار ہو گئی اس مرتبہ اس نے سوچا، اگر میں کسی کو الو کا پٹھا کہہ دوں تو کیا ہرج ہے۔۔۔۔ زیر لب با اکل ہوئے سے کہہ دوں لو کا۔۔۔ پچھا تو میرا خیال ہے کہ مجھے دلی تسکین ہو جائے گی یہ خواہش میرے سینے میں بوجھ بن کر بیٹھ گئی ہے کیوں نہ اس کو بہا کا کر

دوں ۔۔۔۔ دفتر میں ۔۔۔۔ اس کو سخن میں بچے کا کموڈ پر نظر آیا یوں محسن میں کموڈ رکھناخت بد تمیزی تھی اور

76


خصوصاً اس وقت جب کہ وہ ناشتہ کر چکا تھا اور خوشبو دار کر کری تو س اور تلے ہوئے انڈوں کا ذائقہ ابھی تک اس کے منہ میں تھا ۔۔۔۔۔۔ اس نے زور سے

آواز دی نام محمد قائم کی بیوی جو ابھی تک ناشتہ کر رہی تھی بولی " غلام محمد بابر گوشت لینے گیا ہے۔۔۔۔۔ کوئی کام تھا آپ کو اس سے ؟ ایک سیکنڈ کے اندر اندر قاسم کے دماغ میں بہت سی باتیں آئیں " کہہ دوں، یہ غلام محمد الو کا چچا ہے۔۔۔۔ اور یہ کہہ کر جلدی سے باہر نکل جاؤں۔ نہیں ۔۔۔۔ نہیں محمود تو موجود ہی نہیں لیکن سوال یہ ہے کہ بے چارے غلام محمد پھر با کل بیکار ہی کو کیوں نشانہ بنایا جائے اس کو تو میں ہر وقت الو کا پٹھا کہہ سکتا ہوں ۔۔۔۔۔ قاسم نے اوہ چلا اسگرین گرا دیا اور بیوی سے کہا کچھ نہیں میں اس سے یہ کہنا چاہتا تھا کہ دفتر میں میرا کھانا بے شک ڈیڑھ بجے لے آیا کرے۔۔۔۔۔ جمود میں کھانا جلدی بھیجنے میں بہت تکلیف کرنا پڑتی ہے، یہ کہتے ہوئے اس نے بیوی کی طرف دیکھا۔ جو فرش پر اس کے گرائے ہوئے سگریٹ کو دیکھ رہی تھی قاسم کو فورا اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ یہ سگریٹ اگر بجھ گیا اور یہاں پڑا رہا تو اس کا بچہ رینا تا رینگتا آئے گا اور را سے کھا کر منہ میں ڈال لے گا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کے پیٹ میں گڑ بڑ بچ جائے گی ۔ قاسم نے سگریٹ کا ٹکڑا اٹھا کر نسل خانے کی موری میں پھینک دیا یہ بھی اچھا ہوا کہ میں نے جذبات سے مغلوب ہو کر نظام محمود کو الو کا پٹھا نہیں کہہ دیا ۔۔۔۔۔ اس سے اگر ایک غلطی ہوئی ہے تو ابھی

77


ابھی مجھ سے بھی ہوئی تھی اور میں سمجھتا ہوں کہ میری غلطی زیادہ شدید تھی ۔۔۔۔ قاسم بڑا صحیح الدماغ آدمی تھا اسے اس بات کا احساس تھا کہ وہ صحیح خطوط پر غور وفکر کرنے والا انسان ہے مگر اس احساس نے اس کے اندر برتری کا خیال کبھی پیدا نہیں کیا تھا۔ یہاں پر پھر اس کی صحیح الدماغی کو دل تھا کہ وہ احساس برتری کو اپنے اندرو با دیا کرتا تھا۔ موری میں سگریٹ کا ٹکڑا چھینکنے کے بعد اس نے بلا ضرورت محسن میں ٹیلنا شروع کر دیا وہ در اصل کچھ دیر کے لیے بالکل خالی الذہین ہو گیا تھا۔ اس کی بیوی ناشتے کا آخری تو س کھا چکی تھی قاسم کو یوں ٹہلتے دیکھ کر وہ اس کے پاس آئی اور کہنے لگی کیا سوچ رہے ہیں آپ ؟ قاسم چونک پڑا کچھ نہیں۔ کچھ نہیں۔ دفتر کا وقت ہو گیا کیا ؟ یہ لفظ اس کی زبان سے نکلے اور دماغ میں وہی الو کا پٹھا کہنے کی خواہش تر اپنے گھی۔

اس کے جی میں آئی کہ بیوی سے صاف صاف کہہ دے کہ یہ عجیب و غریب خواہش اس کے دل میں پیدا ہوگئی ہے جس کا سر ہے نہ پیر ، بیوی ضرور پہنے گی اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس کو بیوی کا ساتھ دینا پڑے گا، چنانچہ یوں اسی فہمی میں الو کا پٹھا کہنے کی خواہش اس کے دماغ سے نکل جائے گی۔ مگر اس نے تصور کیا اس میں کوئی شک نہیں کہ بیوی بنے گی اور میں خود بھی ہنسوں گا لیکن ایسا نہ ہو کہ یہ بات مستقل نداق بن جائے ۔۔۔۔ ایسا ہو سکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کیا، ضرور ہو جائے گا۔ اور بہت ممکن ہے کہ انجام کارنا خوشگواری پیدا ہو، چنانچہ اس نے اپنی بیوی سے کچھ

78

نہ کیا اور ایک محہ تک اس کی طرف یونی دیکھتا رہا۔ بیوی نے بچے کا کموڈ اٹھا کر کونے میں رکھ دیا اور کہا " آج صبح آپ کے بر خوردار نے وہ ستایا ہے کہ اللہ کی پناہ بڑی مشکلوں کے بعد میں نے اسے کموڈ پر بٹھایا اس کی مرضی یہ تھی کہ بہتر ہی کو خراب کرے ۔۔۔۔۔ آخر لڑ کا کس کا

ہے۔ قاسم کو اس قسم کی کیا پسند تھی ایسی باتوں میں وہ دیکھے مزاج کی جھلک دیکھتا تھا۔ مسکرا کر اس نے بیوی سے کہا " لڑکا میرا ہی ہے مگر ۔۔۔۔۔ میں نے تو آج تک کبھی بستر خراب نہیں کیا یہ عادت اس کی اپنی ہوگی ۔“

بیوی نے اس کی بات کا مطلب نہ سمجھا قاسم کو مطابقا افسوس نہ ہوا، اس لیے کہ ایسی باتیں وہ صرف اپنے منہ کا ذائقہ درست کرنے کے لیے کیا کرتا تھا۔ وہ اور بھی خوش ہوا جب اس کی بیوی نے جواب نہ دیا اور خاموش ہوگئی ۔ اچھا بھئی میں اب چتا ہوں خدا حافظ !" سی لفظ جو ہر روز اس کے منہ سے نکلتے تھے آج بھی اپنی پرانی آسانی کے ساتھ نکلے اور قاسم دروازہ کھول کر باہر چل دیا۔ کشمیری گیٹ سے نکل کر جب وہ نکلسن پارک کے پاس سے گزر رہا تھا تو اسے ایک ڈاڑھی والا آدمی نظر آیا۔ ایک ہاتھ میں کھلی ہوئی شلوار تھا ہے وہ دوسرے ہاتھ سے استنجا کر رہا تھا۔ اس کو دیکھ کر قاسم کے دل میں پھر الو کا پٹھا کہنے کی خواہش پیدا ہوئی ۔ " لو بھئی، یہ آدمی ہے جس کو الو کا پٹھا کہہ دینا چاہیے ۔۔۔۔ یعنی جو صیح معنوں میں الو کا پٹھا ہے۔۔۔۔ ذرا انداز ملاحظہ

79

کرو۔۔۔ میں انباک سے ڈرائی کلین کیے جا رہا ہے۔۔ جیسے کوئی بہت اہم کام سر انجام پا رہا ہے۔۔۔۔ امت ہے۔ لیکن قاسم صیح الدر ماغ آدمی تھا اس نے قبیل سے کام نہ لیا اور تھوڑی دیر غور کیا میں اس فٹ پاتھ پر جا رہا ہوں اور وہ دوسرے فٹ پاتھ پر ، اگر میں نے بلند آواز میں بھی اس کو الو کا پٹھا کہا تو وو چوکئے گا نہیں۔ اس لیے کہ کم بخت اپنے کام میں بہت بری طرح مصروف ہے چاہیے تو یہ کہ اس کے کان کے پاس زور سے نعرہ بلند کیا جائے اور جب وہ چونک اٹھے تو اسے بڑے شریفانہ طور پر سمجھایا جائے، قبلہ آپ الو کے پٹھے ہیں ۔۔۔ لیکن اس طرح بھی خاطر خواہ نتیجہ بر آمد نہ ہو گا ۔ چنانچہ قاسم نے اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ اسی اثناء میں اس کے پیچھے سے ایک سائیکل نمودار ہوئی ۔ کان کی ایک لڑکی اس پر سوار تھی اس لیے کہ پیچھے بستہ بندھا تھا ۔ آنا فانا اس لڑکی کی ساڑھی فری ہیں کے دانتوں میں پھنسی لڑکی نے گھبرا کر اگلے پیسے کا بر یک دبایا۔ ایک دم سائیکل بے قابو ہوئی ۔ اور ایک جھٹکے کے ساتھ لڑ کی سائیکل سمیت سڑک پر گر پڑی۔ قاسم نے آگے بڑھ کر لڑکی کو اٹھانے میں ثبت سے کام نہ لیا اس لیے کہ اس نے اس حادثہ کے رد عمل پر غور کرنا شروع کر دیا تھا مگر جب اس نے دیکھا کہ لڑکی کی ساڑھی فری بیل کے دانتوں نے چہاڑائی ہے اور اس کا بورڈ بہت بری طرح ان میں الجھ گیا ہے تو وہ تیزی سے آگے بڑھا۔ لڑکی کی طرف دیکھے بغیر اس نے سائیکل کا پیچھا پہیہ ذرا اونچا اٹھایا تا کہ اسے گھما کر ساڑھی کو فری وہیل کے دانتوں میں سے نکال لے اتفاق ایسا ہوا کہ پیسہ کمانے سے ساڑھی کچھ اس طرح تاروں

80


کی لپیٹ میں آئی کہ ادھر میں کوٹ کی گرفت سے باہر نکل آئی قاسم بو کھلا گیا اس کی اس بوکھلاہٹ نے لڑکی کو بہت زیادہ پریشان کر دیا زور سے اس نے ساڑھی کو اپنی طرف کھینچا فری وکیل کے دانتوں میں ایک ٹکڑا اڑا رہ گیا اور ساڑھی باہر نکل آئی ۔ لڑکی کا رنگ لال ہو گیا تھا قاسم کی طرف اس نے نغضبناک نگاہوں سے دیکھا اور بھینچے ہوئے لہجہ میں کہا " الو کا پٹھا " ممکن ہے کچھ دیر لگی ہو مگر قاسم نے ایسا محسوس کیا کہ لڑکی نے جھٹ پٹ نہ جانے اپنی سازی کو کیا کیا اور ایک دم سائیکل پر سوار ہو کر یہ جاوہ جا" نظروں سے نائب ہوگئی۔ قاسم کولڑ کی کی گالی سن کر بہت دکھ ہوا خاص کر اس لیے کہ وہ یہی گالی خود کسی کو دینا چا ہتا تھا مگر وہ بہت صحیح الدماغ آدمی تھا ٹھنڈے دل سے اس نے اس حادثہ پر محور کیا اور اس لڑکی کو معاف کر دیا ۔ اس کو معاف ہی کرنا پڑے گا۔ اس لیے کہ اس کے سوا اور کوئی چارہ ہی نہیں۔ عورتوں کو سمجھنا بہت مشکل کام ہے اور ان عورتوں کو سمجھنا تو اور بھی مشکل ہو جاتا ہے جو سائیکل پر سے گری ہوئی ہوں، لیکن میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ اس نے اپنی نہیں جراب میں اوپر ران کے پاس تین چار کانند کیوں اڑی رکھے تھے ؟

81


15
مضمون
منٹو کے افسانے (Manto ke afsane)
0.0
سعادت حسن منٹو کی کچھ عمدہ کہانیوں کا مجموعہ
1

آخری سلیوٹ

29 November 2023
1
0
0

آخری سلیوٹ یہ کشمیر کی لڑائی بھی کچھ عجیب و غریب تھی ۔ صوبیدار رب نواز کا دماغ ایسی بندوق بن گیا تھا جس کا گھوڑ ا خراب ہو گیا ہو۔ کھیلی بڑی جنگ میں وہ کئی محاذوں پر لڑ چکا تھا مارنا اور مرنا جانتا

2

آنکھیں

29 November 2023
0
0
0

اس کے سارے جسم میں مجھے اس کی آنکھیں بہت پسند تھیں! یہ آنکھیں بالکل ایسی ہی تھیں جیسے اندھیری رات میں موٹر کار کی ہیڈ الماس جن کو آدمی سب سے پہلے دیکھتا ہے، آپ یہ نہ سمجھے گا کہ وہ بہت خوبصورت آنک

3

اب اور کہنے کی ضرورت نہیں

29 November 2023
0
0
0

یہ دنیا بھی عجیب و غریب ہے۔ خاص کر آج کا زمان ۔۔۔۔۔ قانون کو جس طرح فریب دیا جاتا ہے اس کے متعلق شاید آپ کو زیادہ علم نہ ہو۔۔۔ آج کل قانون ایک بے معنی چیز بن کر رہ گیا ہے۔ ادھر کوئی نیا قانون بنتا ہ

4

اس کا پتی

30 November 2023
1
0
0

اس کا پتی لوگ کہتے تھے کہ نتھو کا سر اس لیے گنجا ہوا ہے کہ وہ ہر وقت سوچتا رہتا ہے اس بیان میں کافی صداقت تھی کیونکہ سوچنے وقت تو ہمیشہ سر کھجایا کرتا ہے کیونکہ اس کے بال بہت کھردرے اور خشک ہیں اور

5

الو کا پچھا

30 November 2023
0
0
0

قاسم صبح سات بجے کاف سے باہر نکھار اور غسل خانے کی طرف پہلا راستے ہیں، یہ اس کو ٹھیک طور پر معلوم نہیں ہونے والے کمرے میں ہمشن میں یا غسل خانے کے اندر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی کو ال

6

الله

30 November 2023
0
0
0

دو بھائی تھے اللہ رکھا اور اللہ دتا دونوں ریاست پٹیالہ کے باشندے تھے ان کے آبا ؤ اجداد البتہ لاہور کے تھے مگر جب ان دو بھائیوں کا داد اما ازمت کی تلاش میں پیالہ آیا توں ہیں کا ہو رہا۔ اللہ رکھا اور

7

انتظار

1 December 2023
1
0
0

(گھڑی آٹھہ بجاتی ہے )  منتظر : آدھا گفته مصرف آدھا گھنٹہ اور پھر اس کے بعد ۔۔۔ یدین کی آخری ڈوبتی ہوئی گونج کتنی پیاری تھی اور اور منتظر کا منطقی وجود اگر وہ نہ آئی۔ یعنی اگر منتظر کیوں نہ آئے

8

اولاد

1 December 2023
0
0
0

جب زبیدہ کی شادی ہوئیت و اس کی عمر پچیس برس کی تھی اس کے ماں باپ تو یہ چاہتے تھے کہ سترہ برس کی ہوتے ہی اس کا بیاہ ہو جائے مگر کوئی مناسب و موزوں رشتہ ملتا ہی نہیں تھا اگر کسی جگہ بات طے ہونے پاتی ت

9

بانجھ

2 December 2023
0
0
0

میری اور اس کی ملاقات آج سے ٹھیک دو برس پہل اپولو بندر پر ہوئی شام کا وقت تھا سورج کی آخری کرنہیں سمندر کی ان دور دراز لہروں کے پیچھے غائب ہو چلی تھیں جو ساحل کے بینچ پر بیٹھ کر دیکھنے سے موٹے کپڑ

10

باسط

5 December 2023
0
0
0

باسط با کل رضا مند نہیں تھا لیکن ماں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ چلی اول اول تو اس کو اتنی جلدی شادی کرنے کی خواہش نہیں تھی اس کے علاوہ وہ لڑکی بھی اسے پسند نہیں تھی جس سے اس کی ماں اس کی شادی کرنے

11

بھنی

5 December 2023
0
0
0

بھنگنوں کی باتیں ہورہی تھیں خاص طور پر ان کی جو ہوارے سے پہلے امرتسر میں رائی تھیں مجید کا یہ ایمان تھا کہ امرتسر کی بھٹکوں جیسی کراری چھوکریاں اور کہیں نہیں پائی جاتیں خدا معلوم تقسیم کے بعد وہ کہا

12

بسم الله

7 December 2023
0
0
0

فلم بنانے کے سلسلے میں ظہیر سے سعید کی ملاقات ہوئی سعید بہت متاثر ہو ا ہمی میں اس نے تہیہ کو سنٹرل اسٹوڈیوز میں ایک دو مرتبہ دیکھا تھا اور شاید چند باتیں بھی کی تھیں مگر متصل ملاقات پہلی مرتبہ لا ہو

13

بغیر اجازت

7 December 2023
0
0
0

نعیم کہلاتا کہلاتا ایک باغ کے اندر چلا گیا ۔۔۔ اس کو وہاں کی فضا بہت پسند آئی ۔۔۔ گھاس کے ایک تختے پر لیٹ کر اس نے خود کلامی شروع کر دی۔ کیسی پر فضا جگہ ہے ۔۔۔ حیرت ہے کہ آج تک میری نظروں سے او تج

14

بلاوز

9 December 2023
0
0
0

کچھ دنوں سے مومن بہت بے قرار تھا۔ اس کا وجود کچا پھوڑا سا بن گیا تھا۔ کام کرتے وقت باتیں کرتے ہوئے تھی کہ سوچنے پر بھی اسے ایک عجیب قسم کا درد محسوس ہوتا تھا۔ ایسا درد جس کو اگر دو بیان بھی کرنا چ

15

بلونت سنگھ مجیٹھیا

10 December 2023
1
0
0

شاہ صاحب سے جب میری ملاقات ہوئی تو ہم فورا بے تکلف ہو گئے ۔ مجھے صرف اتنا معلوم تھا کہ وہ سید ہیں اور میرے دور دراز کے رشتے دار بھی ہیں۔ وہ میرے دور یا قریب کے رشتہ دار کیسے ہو سکتے تھے، اس کے متع

---